ملّی مجلس شرعی کے اجلاس مورخہ ۸ جولائی ۲۰۱۳ء میں سارے مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے دینی مسالک اور جماعتوں میں تقَارُب اور رواداری کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل ۱۸؍ نکات کی متفقہ طور پر منظوری دی:
شدت اختلاف میں کمی
۱۔ دینی جرائد اور مجالس میں ایسی جذباتی تقریروں، تحریروں، مناظروں اور مباحثوں سے اجتناب کیا جائے جن کا مقصد ایک مسلک کی فتح اور دوسرے مسلک کی تغلیط ہو۔
۲۔ مسلک و مشرب کو دین نہ سمجھا جائے اور نہ مسلکی اختلافات کو حق و باطل کی جنگ قرار دیا جائے۔
۳۔ بین المسالک اختلافات کی وجہ سے کسی مسلک کی تکفیر نہ کی جائے اور نہ کسی پر ہاتھ اٹھانا جائز قرار دیا جائے۔ نیز تکفیر کرنے والی اور دل آزاری کا سبب بننے والی تحریریں کتابوں سے نکال دی جائیں۔
۴۔ علماء کرام اور مسالک کے درمیان اختلافات کو علمی سطح تک محدود رکھا جائے اور اسے عوام کی سطح تک نہ لے جایا جائے۔
۵۔ دینی حلقے اور عامۃ الناس، واعظین اور ذاکرین کے بجائے اُن ثقہ و سنجیدہ علماء کرام کو اہمیت دیں جو رسوخ فی العلم اور تقویٰ رکھتے ہوں اور رائے کے اظہار میں ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوں۔
۶۔ چونکہ مسالک میں مشترکات کی کثرت ہے اور اختلافات کم اور معمولی ہیں اور عموماً فروعی، اجتہادی اور ترجیحی نوعیت کے ہیں۔ اس لیے مشترکات کی اساس پر ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے اور اختلافات کو برداشت کرنے اور ان سے صَرفِ نظر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
مساجد
۷۔ جمعہ و عیدین کے خطبات اور دیگر دروس وغیرہ میں فرقہ وارانہ موضوعات نہ چھیڑے جائیں اور بین المسالک اختلافات کو ہوا نہ دی جائے، بلکہ خطبات اصلاحی نوعیت کے ہوں۔
۸۔ مساجد کو بِلاتخصیص عامۃ الناس کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کیا جائے، خصوصاً طلبہ اور نوجوانوں کو مسجد سے جوڑا جائے اور علاقہ کے مستحقین (یتیم، مسکین، بیوہ، معذور افراد وغیرہ) کی بِلاتقریق مالی مدد کے لیے کمیٹیاں بنائی جائیں۔
۹۔ اگر کوئی مسجد کسی مسلک کی تحویل میں ہو تو کسی دوسرے مسلک والے کو اس پر قبضہ کی کوشش کرنے اور فرقہ واریت و فساد بڑھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
دینی مدارس
۱۰۔ دینی مدارس اصلاً ’’دین‘‘ کی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے ہیں، نہ کہ کسی مسلک کی تعلیم و تغلیب کے لیے۔ لہٰذا مدارس کو فرقہ واریت کی نرسریاںبنانے کے بجائے دینی تعلیم کے مراکز بنایا جائے، مشترکات کو ابھارا جائے، اختلافات کو سمیٹا جائے اور مسالک کے درمیان تقارب اور رواداری کو شاملِ نصاب کیا جائے۔
۱۱۔ دورانِ تدریس علماء کرام، اساتذہ اور شیوخ یہ رویہ ترک کر دیں کہ انہوں نے اپنے مسلک کو واحد حق ثابت کرنا اور دوسرے مسالک کو باطل قرار دیتے ہوئے ان کی تغلیط اور نفی کرنا ہے۔
۱۲۔ اس خودساختہ پابندی کو ختم کر دیا جائے کہ ہر مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ کا مسلک لازماً ایک ہی ہو۔
۱۳۔ دینی مدارس کو صرف متخصص علما تیار کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے، بلکہ عوام، خصوصاً جدید اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے (روزانہ بعد عصر اور گرمیوں کی چھٹیوں میں) استعمال کیا جائے۔
۱۴۔ دینی تعلیم کے نصاب پر اس طرح نظرثانی کی جائے کہ طلبہ فراغت کے بعد عصر حاضر کے مسائل اسلامی تناظر میں حل کرنے کے قابل ہو سکیں اور مغربی فکر و تہذیب، خصوصاً جدید معاشی، سیاسی، قانونی اور تعلیمی مسائل سے واقفیت اور انگریزی زبان میں مہارت رکھتے ہوں۔
فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے بجائے دعوت و اصلاح کی تعمیری مصروفیت
۱۵۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے اخلاقی بگاڑ، فساد اور بے دینی کی وجہ سے، جس کا بنیادی سبب دین سے دوری اور مغرب پرستی ہے، علماء کرام کا فرض ہے کہ وہ اپنے موجودہ کاموں کے علاوہ دعوت و اصلاح اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کام کو بنیادی اہمیت دیں اور اس پر اپنی توانائیاں صَرف کریں، خصوصاً جدید تعلیم اور میڈیا کی اصلاح پر توجہ دیں۔
۱۶۔ ایک اہم شعبہ جو علماء کرام کی توجہ کا محتاج ہے، وہ خدمتِ خلق کا ہے۔ تاکہ مسلمان عامۃ الناس کے دکھ درد کم ہو سکیں اور علماء کرام کی سیادت و قیادت پر ان کا اعتقاد مزید پختہ ہو اور ان کا یہ وقار اور مقام، نصرتِ دین میں ممد و معاون ثابت ہو۔
دینی سیاسی جماعتیں
۱۷۔ دینی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مسلک کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانے کے بجائے پاکستان میں نفاذِ شریعت کے ایک متفقہ پروگرام پر جمع ہو کر ایک مضبوط سیاسی جماعت/ تحریک/ محاذ بن جائیں، تاکہ ان کا وزن اور اہمیت بھی ہو اور عوام بھی ان کا ساتھ دیں۔
۱۸۔ انتخابات میں نشستیں جیتنے کے لیے دینی سیاسی جماعتوں کی آپس میں کشمکش اور محاذ آرائی ناپسندیدہ ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔
اس علامیے پر جن علماء کرام نے دستخط کیے ان کے اسماء گرامی ہیں:
٭ مولانا مفتی محمد خان قادری (مہتمم جامعہ اسلامیہ، جوہر ٹائون لاہور)
٭ مولانا عبدالرئوف فاروقی (جمعیت علماء اسلام ۔س)
٭ مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی (جامعہ اہلحدیث، لاہور)
٭ مولانا عبدالمالک (صدر رابطۃ المدارس و جامعہ مرکز علوم اسلامیہ، منصورہ)
٭ علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر (ناظم ادارہ منہاج الحسین، لاہور)
٭ مولانا مرزا ایوب بیگ (ناظم اطلاعات، تنظیم اسلامی پاکستان)
٭ مولانا حافظ محمد نعمان حامد (جامعۃ الخیر، لاہور)
٭ مولانا سید عبدالوہاب روپڑی (جماعت اہلحدیث پاکستان)
٭ مولانا مہدی حسن (جامعہ المنتظر، ماڈل ٹائون لاہور)
٭ مولانا ایس ایم عبداللہ جان (مدیر، اقراء تہذیب الاسلام، لاہور)
٭ مولانا نصرت علی شہانی (وفاق المدارس الشیعہ، لاہور)
٭ مولانا محمد توقیر عباس (جامعہ العروۃ الوثقی، لاہور)
٭ مولانا ڈاکٹر محمد امین (صفاء اسلامک سینٹر، لاہور)
اس کے علاوہ ملّی مجلس شرعی کے مندرجہ ذیل علماء کرام نے بھی اس کی حمایت کی ہے:
٭ مولانا زاہد الراشدی (شریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ)
٭ مولانا حافظ فضل الرحیم (جامعہ اشرفیہ، لاہور)
٭ مولانا خلیل الرحمن قادری (جامعہ اسلامیہ، جوہر ٹائون لاہور)
٭ مولانا احمد علی قصوری (مرکز اہل سنت، لاہور)
٭ مولانا راغب نعیمی (جامعہ نعیمیہ، لاہور)
(بحوالہ: ماہنامہ ’’البرہان‘‘لاہور۔ جولائی ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply