
الجیریا کے صدر عبدالمجید نے ۱۱ مارچ کو ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے پارلیمان کے ایوانِ زیریں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا، جس سے قانون سازاسمبلی کے نئے انتخابات کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔ تاہم ابھی تک انھوں نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ ملک کے آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کرنے کے تین ماہ میں انتخاب کروانا لازمی ہے۔ اگر کسی وجہ سے پہلے تین ماہ میں انتخابات نہ ہو سکیں تو مزید تین ماہ کی مدت کی گنجائش قانون میں موجود ہے۔اگر منصوبہ بندی کے مطابق تمام کام ہوا تو اس بات کا قوی امکان موجود ہے کے اسی سال ۱۲ جون کو انتخابات کا انعقاد ہو جائے گا۔
موجود ہ اسمبلی ۲۰۱۷ء میں پانچ سال کے لیے منتخب ہوئی تھی،اس کی مدت اگلے برس ختم ہونی تھی،تاہم صدر نے قبل از وقت انتخابات کے لیے اسمبلی تحلیل کر دی،وہ اصلاحات کے عمل میں تیزی لانا چاہتے ہیں، اصلاحات کے عمل کا آغاز انھوں نے ایک سال قبل کیا تھا جب انھوں نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔
اس کے ساتھ ہی صدر نے تقریباً ۶۰ کے قریب سیاسی کارکنان کو بھی رہا کر نے کا اعلان کیا ہے۔ان میں بیشتر کو فروری ۲۰۱۹ء میں گرفتار کیا گیا تھا،جب ملک میں ایک احتجاجی تحریک جسے’’حراک تحریک‘‘ کا نام دیا گیا تھا، شروع ہوئی تھی جس کا مطالبہ تھا کہ ملک کے سیاسی نظام کو مجموعی طور پر تبدیل کر دیا جائے۔کیوں کہ موجودہ نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔یہ ایسی تحریک تھی جس کا کوئی رہنما نہ تھا۔
صدر عبد المجید کی تقریر کا لب و لہجہ دھیما اور مصالحانہ تھا،وہ حکومت کو فارغ کر کے ’’حراک تحریک ‘‘کے کارکنان کا دل جیتنا چاہتے تھے۔انھوں نے اپنی تقریر میں یہ کہہ کر کہ ’’حراک نے الجیریا کو بچالیا‘‘اس تحریک کی تعریف بھی کی۔اور انھوں نے اس تحریک سے جڑے لوگوں کو ایک اچھا پیغام اس طرح بھی دیا کہ وزیر قانون کو اپنے عہدے پر برقرار رکھا۔اس تحریک کا بنیادی مطالبہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی ہی کا تھا۔ وزیر قانون و انصاف Belkacem Bagmati بدعنوانی کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے کافی معروف ہیں۔ انھوں نے سابق صدر Abdelaziz Bouteflika کے ساتھیوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہے۔
صدر عبدالمجید نے ۲۰۱۹ء کے انتخابات ان وعدوں کے ساتھ جیتے تھے کہ وہ نئی اسمبلی تشکیل دیں گے اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کریں گے اور شفافیت اور احتساب کا بول بالا ہو گا۔ یہی ’’حراک تحریک‘‘کے بنیادی مطالبات تھے۔
صدر کی حیثیت سے انھوں نے اب وعدہ کیا ہے کہ ملک کا الیکشن کمیشن بغیر کسی مداخلت کے شفاف انتخابات کروائے گا۔نوجوانوں کا ملکی سیاست میں کردار بڑھانے کے لیے انھوں نے کہا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والے نوجوانوں کو اپنی مہم کے لیے مالی امداد بھی دیں گے۔
اس ماہ کے آغاز میں اس انتخابی قانون کا نفاذ کر دیا گیا، جس کا طویل مدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔اس قانون کے تحت الجیریا کی نوجوان نسل آزادانہ اور باآسانی قومی انتخاب میں حصہ لے سکے گی۔اور سیاسی اثرورسوخ اور پیسے کے استعمال کی بھی روک تھام ہو سکے گی۔
اس نئے قانون کے تحت نفرت انگیز تقاریر اور سیاسی مہم کے لیے غیر ملکی فنڈنگ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔تاہم غیر ملکی فنڈنگ میں الجیریا سے تعلق رکھنے والے بیرون ملک مقیم لوگ اس پابندی کی زَد میں نہیں آئیں گے۔ اس بل میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ کوئی بھی فرد انتخابی مہم میں چار لاکھ مقامی کرنسی سے زیادہ کی فنڈنگ نہیں کر سکے گا۔ جو کہ ۳ ہزار ڈالر سے بھی کچھ کم ہی رقم بنتی ہے۔
۲۰۱۷ء کے انتخابات میں بھی سیاسی اشرافیہ نے پیسے کا بے دریغ استعمال کیا تھا، جس سے انتخابات کی ساکھ کونقصان پہنچا تھا۔ اسی اشرافیہ کے چند لوگوں کو موجودہ صدر نے جیل بھی بھیجا۔ ان اقدامات سے اثرورسوخ رکھنے والی سیاسی اشرافیہ اور بدعنوان بیوروکریسی کو بڑا دھچکا لگا۔ موجودہ اصلاحاتی بل ’’حراک تحریک‘‘ کے دو سال مکمل ہونے سے ایک دن قبل لایا گیا جس کومقصد اس دن کسی بھی قسم احتجاج سے بچنا تھا۔
تاہم اگلے دن یعنی ۲۲ فروری کو اس دن کو یاد رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے جو کہ گزشتہ برس کووڈ کی وجہ سے نہ ہو سکے تھے،کوو ڈ ایک الگ بحران ہے جس کا الجیریا کو سامنا ہے۔اس برس کے آغاز میں صدر عبدالمجید نے ایک اور آئینی ترمیم پر دستخط کر کے اسے قانونی حیثیت دی۔ اس ترمیم میں ایک شخص کو صدر کے عہدے کے لیے دو مرتبہ سے زیادہ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ صدر کے اختیارات میں بھی کمی کی گئی ہے۔ بہت سے انتظامی اختیارات اب وزیراعظم کو دے دیے گئے ہیں، جو کہ پہلے صدر کے پاس تھے۔یہ ملک میں چھ عشروں سے قائم فوجی حمایت یافتہ صدارتی نظام میں آنے والی بڑی تبدیلیاں ہیں جس میں اختیارات وزیراعظم کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔
آئندہ ہونے والے انتخابات، وہ جب بھی ہوں، میں ووٹنگ کا تناسب نہ صرف صدر عبدالمجید کی اصلاحات اور پالیسیوں بلکہ خود ان کے اپنے عہدے کے لیے ریفرنڈم ثابت ہوگا۔ صدر عبدالمجید اس وقت صدر منتخب ہوئے تھے جب سب سیاسی جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، اس لیے اس وقت یہ عام تاثر تھا کہ انتخابات میں صرف دھوکا دیا جارہا ہے۔ ان کے دورمیں ہونے والے عام انتخابات میں اگر ووٹنگ کا تناسب بہتر رہتا ہے تو یہ ان کے سیاسی قد میں اضافے کا باعث بنے گا۔
۲۰۱۹ء کے صدارتی انتخابات، جس میں صدر عبدالمجید نے فتح حاصل کی تھی، میں ووٹ ڈالنے کا تناسب تاریخی طور پر کم رہا تھا، صرف ۴۰ فیصد ووٹروں نے اپنے ووٹ ڈالے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر دس ووٹروں میں سے صرف چار ووٹروں نے اپنی رائے کا استعمال کیا تھا۔ماضی کی طرح اب بھی ملک میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔حراک تحریک کا دیرینہ مطالبہ یہ رہا ہے کہ اس سیاسی نظام کی مکمل اصلاح کی جائے۔اور الجیریا کی آزادی یعنی ۱۹۶۲ء سے لے کراب تک جو سیاسی و فوجی اشرافیہ اس ملک پر قابض ہے اس سے جان چھڑائی جائے۔
صدر عبدالمجید نے اپنے انتخاب کے وقت عوام سے یہ وعدے کیے تھے کہ وہ ۳۰ سال سے کم عمر نوجوانوں کے لیے ملازمت کے بھر پور مواقع فراہم کریں گے۔یہ نوجوان ملک کی آبادی کا پچاس فیصد ہیں۔صدر نے اپنی مدت کا پہلا سال کورونا ہوجانے کی وجہ سے اسپتال کے چکر لگاتے ہوئے گزار دیا۔ اب وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تیزی سے کوششیں کر رہے ہیں۔ قیادت،واضح سیاسی منصوبہ بندی اور واضح وژن کے نہ ہونے کے باوجود ’’حراک تحریک‘‘نے الجیریا کی جامد سیاسی نظام میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں لانے پر مجبور کر دیا ہے۔آئین میں کی جانے والی ترامیم کبھی نہ کی جاتیں اگر ’’حراک تحریک‘‘ ملک کے سیاسی نظام میں ایک بھونچال پیدا نہ کرتی۔ نئے انتخاب اور انسدادِ بدعنوانی مہم بھی اسی صورت میں چل سکتی ہے، جب عوام ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے خلاف اپنی جدوجہد کو مستقل مزاجی سے آگے لے کر چلیں گے۔
موجودہ حالات میں الجیریا کو سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش ہے وہ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ہے، اور اس میں خاص کر نوجوانوں میں اور پہلی مرتبہ ملازمت تلاش کرنے والوں کے لیے مشکلات بے تحاشا ہیں۔ گزشتہ برس کے اعدادو شمار کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۳۰ فیصد کے قریب تھی۔ کورونا کی صورت حال میں جہاں معاشی سرگرمیوں کی رفتار بہت ہی کم ہو چکی ہے ایسے میں ان حالات سے نمٹنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔
کچھ عرصے میں ہونے والے انتخابات اس بات کو ثابت کریں گے کہ آیاصدر عبدالمجید قوم کے لیے نجات دہندہ بن کر آئے ہیں یا پھر ماضی کی طرح یہ بھی فوج کے حمایت یافتہ نمائشی سیاسی رہنما ہیں۔یہ انتخابات ان کی سیاسی حکمت کا بھی امتحان لیں گے۔ان کے لیے اس وقت سب سے پریشان کن معاملہ خراب معاشی صورت حال اور بے روزگاری میں اضافہ ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Algeria is going to the polls in June: Is this victory for the Hirak Movement?” (“middleeastmonitor.com”. March 25, 2021)
Leave a Reply