
الجزائر میں صدر عبدالعزیز بوتفلیکا (Bouteflika) چوتھی مدت کے لیے بھی امیدار ہوں گے۔ گزشتہ دنوں اس امر کا اعلان وزیراعظم عبدالمالک سلال نے کیا۔ جو لوگ کسی بڑی تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے تھے، انہیں اس اعلان سے بے حد مایوسی ہوئی ہے۔ صدر بوتفلیکا کی صحت ایسی نہیں کہ وہ چوتھی بار بھی صدارتی انتخاب میں حصہ لیں۔ اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ وہ صدارتی انتخاب کی مہم میں بھرپور حصہ بھی لے سکیں گے یا نہیں۔ صدر بوتفلیکا کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ شاید وہ خراب صحت کے باعث انتخابی دوڑ سے الگ ہوجائیں۔ ان کا ایک بار پھر صدارتی امیدوار بننے کا اعلان وزیر اعظم کی طرف سے کیا جانا اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ ان کی صحت ہرگز ایسی نہیں کہ وہ ملک کا نظم و نسق سنبھالیں۔
صدر بوتفلیکا نے ۲ مارچ کو ۷۷ویں سالگرہ منائی ہے۔ انہوں نے ۱۹۹۹ء میں صدر کا منصب سنبھالا تھا۔ تب سے اب تک ان کی صحت مستقل گرتی رہی ہے۔ ۲۰۰۵ء میں انہوں نے فرانس میں اپنا علاج کرایا تھا۔ وہ معدے کے السر میں مبتلا ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں امریکی سفارت خانے کی جن دستاویزات کو منظر عام پر لایا گیا تھا، ان کی رُو سے صدر بوتفلیکا کو کینسر بھی ہے۔
علاج کے باوجود صدر بوتفلیکا کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ انہوں نے گزشتہ موسم سرما میں پیرس کے اسی اسپتال میں دو ماہ گزارے۔ وطن واپسی کے بعد صدر نے اپنی سرگرمیاں محدود کرلیں۔ انہوں نے کابینہ میں چند تبدیلیاں کیں اور سلامتی سے متعلق سیٹ اپ بھی تبدیل کیا تاکہ اہل وطن کو دکھایا جاسکے کہ وہ اب بھی اتھارٹی رکھتے ہیں اور کام کرنے کی صلاحیت بھی۔ غیر ملکی مہمانوں کے استقبال سے ہٹ کر انہوں نے اپنی سرگرمیاں بے حد محدود کردی ہیں۔ گزشتہ برس پیرس میں علاج کے بعد سے انہوں نے کسی اجتماع سے خطاب نہیں کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی صحت کس مرحلے میں ہے۔
چند روز پیشتر صدر بوتفلیکا نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس نکتے پر زور دیا گیا تھا کہ ملک میں تیل اور گیس کے ذخائر کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔ مگر خیر، یہ بیان ان کے مشیر محمد علی بوغازی نے جاری کیا تھا۔
دسمبر میں صدر بوتفلیکا اور فرانسیسی وزیراعظم ژاں مارک ایرولٹ کی ملاقات ہوئی تو الجزائر کے سرکاری ٹی وی نے صدر بوتفلیکا کے ہاتھ کی ایک ہی جنبش کو مختلف زاویوں سے دکھاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کی صحت اچھی ہے اور وہ اپنے منصبی فرائض بہتر طور پر ادا کرنے کی حالت میں ہیں۔
صدارتی امیدوار بننے کے خواہاں کمال بینکوزا کہتے ہیں: ’’صدر کی صحت کے حوالے سے جھوٹ بولنا الجزائری عوام کی ذہانت کو گالی دینے جیسا ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر کی حالت اچھی نہیں۔ ان کی صحت اس حد تک گر چکی ہے کہ اب وہ اپنے منصب کے عمومی فرائض بھی عمدگی سے انجام دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ان کی حالت اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں وہ صرف ایک ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوش میں ہوتے ہیں۔ وہ بات بھی نہیں کرسکتے اور سفر کرنے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
مشہور بلاگر اور شمالی افریقا سے متعلق امور کے ماہر کال بن خالد کا کہنا ہے کہ صدر بوتفلیکا نے ۲۰۰۹ء میں ملک کے ہر صوبائی دارالحکومت کا دورہ کیا مگر اس کے بعد سے وہ غیر متحرک ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان کے لیے نقل و حرکت انتہائی دشوار ہوچکی ہے۔ کال بن خالد کا کہنا ہے کہ جس کی صحت اس حد تک گرچکی ہو، اسے چوتھی بار صدر بنانا انتہائی غیر فطری ہے۔ ایسا لیڈر ملک کے لیے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔
بینکوزا کہتے ہیں کہ فوج کے لیے، صدر بوتفلیکا بہترین انتخاب ہیں۔ کیونکہ خراب صحت کے باعث وہ اپنے امور انجام نہیں دے سکتے۔ ایسے میں فوج اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکتی ہے۔ ایسے صدر کی موجودگی میں جمہوری حکومت فوجی سیٹ اپ کے لیے کسی بھی طرح کا خطرہ نہیں بن سکتی۔ امریکا کی فورڈھیم یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر جان اینٹیلس کہتے ہیں: ’’صدر بوتفلیکا جس حالت میں ہیں، وہ فوج اور بیورو کریسی کے لیے انتہائی آئیڈیل ہیں، کیونکہ وہ کھل کر من مانی کرسکتی ہے۔ فوج کو اس وقت صدر اور وزیراعظم کے منصب پر ایسی شخصیات درکار ہیں، جو معاملات کو جوں کا توں رہنے دیں اور کسی بھی مرحلے پر کوئی ایسی تبدیلی نہ لائیں جو فوج کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہو۔ فوج اور بیورو کریسی کی خواہش ہے کہ صدر بوتفلیکا ہی اس منصب پر رہیں تاکہ ان کے کسی بھی معاملے کی راہ میں روڑے اٹکانے والا کوئی نہ ہو۔
اس صورت حال سے الجزائر کے عوام اور بالخصوص نوجوان سخت بد دل ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ فوج کوئی تبدیلی نہیں چاہتی۔ الجزائر میں ۷۰ فیصد آبادی جوان ہے۔ نوجوان چاہتے ہیں کہ ملک میں حقیقی تبدیلی آئے۔ سیاست تھم گئی ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں وہ بات نہیں رہی جس کی بنیاد پر کسی حقیقی تبدیلی کی پیش گوئی کرنا ممکن ہو۔ ایسے میں نوجوانوں کا سیاست دانوں، فوج اور بیورو کریسی سے بد دل ہونا لازم ہے۔ الجزائری نوجوانوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ انتخابات سے ان کے مفادات کو کسی بھی طور تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ انتخابی عمل سے خوش نہیں۔ دو عشروں سے انہوں نے دیکھا ہے کہ کوئی بھی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی اور اب تک کسی بھی بڑی تبدیلی کے آثار بھی نہیں۔ آنے والے صدارتی انتخاب کے حوالے سے بھی وہ کچھ خاص پرجوش نہیں۔ عوام اب واضح طور پر محسوس کر رہے ہیں کہ حکمراں طبقہ انہیں صرف نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے لیے کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا۔ الجزائری عوام اور حکمراں طبقے کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ سب کو اندازہ ہے کہ حکمراں سیٹ اپ کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔ انتخابات سے بھی کچھ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حقیقی ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے اور بہت بڑھا چڑھاکر بیان کیا جاتا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں سرکاری دعوئوں کے مطابق ٹرن آؤٹ ۴۳ فیصد تھا۔ ان میں ۱۸؍فیصد ووٹ ان جماعتوں کو گئے جو ناکام رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت انتہائی معمولی نمائندگی رکھنے والی جماعت حکومت کر رہی ہے۔ الجزائر کسی بڑی تبدیلی کا منتظر ہے۔ حکمراں طبقہ کسی بھی حقیقی تبدیلی کا خواہش مند نہیں۔ دوسری طرف عوام چاہتے ہیںکہ ان کے بنیادی مسائل حل ہوں اور ان کی بات سنی جائے۔ اس وقت سیاست کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے نتیجے میں عوام کی حقیقی نمائندہ پارلیمان معرض وجود میں نہیں آرہی۔ جن جماعتوں کو برائے نام ووٹ مل رہے ہیں، وہ طاقت کے بَل پر حکومت بنانے میں کامیاب رہتی ہیں۔ فوج بھی ان کی حمایت کرتی ہے کیونکہ اس کا مفاد ایسی جماعتوں کی حمایت کرنے ہی سے وابستہ ہے۔
بینکوزا کہتے ہیں کہ الجزائر کے نوجوان بہتر جاب اور رہائشی سہولتیں چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کی زندگی سکون سے گزرے۔ یہ کوئی بہت بڑی خواہش نہیں۔ حکمراں طبقے کو معاشرے کے استحکام اور سیاست کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ سوچنا پڑے گا۔
حالات سے بد دل ہوکر بہت سے سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کردیا ہے۔ ایسے میں انتخابی عمل کی وقعت مزید گھٹ کر رہ جائے گی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکمراں سیاسی قیادت کو سوچنا پڑے گا کہ یہ رجحان ملک کو کہیں کسی ایسے بحران سے دوچار نہ کردے جس پر قابو پانا ان کے لیے انتہائی دشوار ہو۔
(“Algeria: A fourth term for Bouteflika?”… “aljazeera.com”. Mar. 2, 2014)
Leave a Reply