
زیرِ نظر تحریر علی احسن مجاہد کا وہ ردِ عمل ہے جو انہوں نے بنگلا دیش کی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے ان کی سزائے موت برقرار رکھنے کی خبر سننے پر دیا۔ اس بیان کے راوی موصوف کے صاحبزادے علی احمد مبرور ہیں۔
’’میرے دل میں اس سزا پر ذرّہ برابر بھی کوئی خلش یا ہیجان نہیں، جو درحقیقت مجھے اس حکومت کے ساتھ سیاسی اختلاف رکھنے کی پاداش میں سنائی گئی ہے۔ مجھے اخبارات کے مطالعے سے پتا چلا کہ میرے وکلا نے سپریم کورٹ کے سامنے پوری قوت اور لگن سے میرا دفاع کیا، جو یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مجھ پر جو الزامات عائد کیے گئے تھے انہیں درست ثابت کرنا حکومت کے لیے ناممکن تھا۔ استغاثہ مجھ پر عائد کردہ کوئی ایک الزام بھی عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ مقدمے کے تفتیشی افسر نے بھی اعتراف کیا کہ ۱۹۷۱ء کی تحریکِ آزادی کے دوران ہونے والے کسی بھی جرم سے میرا تعلق ثابت نہیں ہوسکا۔ پوری تفتیش کے دوران حکام البدر، امن کمیٹیوں، رضاکاروں، الشمس اور اس نوعیت کی دیگر تنظیموں سے میرے کسی تعلق کا کوئی ایک بھی ثبوت تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے انصاف نہیں ملا۔
میں اللہ کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے واشگاف الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ پر عائد تمام الزامات سو فیصد غلط اور من گھڑت ہیں۔ میں ۱۹۷۱ء میں ہونے والے کسی جرم میں ملوث نہیں تھا۔ لیکن ۱۹۷۱ء کے کئی عشروں بعد اب مجھ پر ان جھوٹے الزامات میں صرف اس لیے مقدمہ چلایا گیا کیوں کہ میرا تعلق اسلامی تحریک سے ہے۔
بنگلا دیش میں روزانہ سیکڑوں افراد طبی موت مرتے ہیں۔ ان میں سے کسی شخص کو کسی عدالت سے ملنے والی سزائے موت کے نتیجے میں موت نہیں آتی۔ ایک شخص کب، کیسے اور کہاں مرے گا، اس کا فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ اور کسی کے پاس اللہ کے فیصلے میں رد و بدل کا اختیار یا طاقت نہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے دی جانے والی سزائے موت میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور مجھے سپریم کورٹ کی جانب سے یہ سزا برقرار رکھنے کے فیصلے کی بھی کوئی پروا نہیں۔
کسی بھی ایک شخص کا ناحق قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ بنگلا دیش کی حکومت نے سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر میرے خلاف جن جھوٹے اور من گھڑت الزامات کی بنیاد پر ایک جانبدارانہ مقدمہ چلا کر مجھے جو سزائے موت سنائی ہے، مجھے اس پر کوئی دکھ یا افسوس نہیں۔ میں ہمیشہ، ہر لمحہ اپنی جان اللہ کے دین کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار رہا ہوں۔
(مترجم: ابنِ ریاض)
“Ali Ahsan Mujahid’s statement on hearing of death penalty”.(“progressbangladesh.com”. June 18,2015)
Leave a Reply