
انٹرنیشنل کرائمز اسٹریٹجی فورم کے نام سے کام کرنے والا سپورٹ گروپ اپنے آپ کو ایسے کارکنوں اور تنظیموں کا مجموعہ قرار دیتا ہے، جو ۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کی جدوجہد کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم کے ساتھ میدان میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گروپ بنگلا دیش میں جنگی جرائم سے متعلق ٹربیونل کی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے اسٹیک ہولڈرز کو تکنیکی اور تحقیق سے متعلق معاونت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بنگلا دیشی حکومت اور اندرونی و بیرونی میڈیا سے بہتر روابط کو بھی اپنے فرائض میں شمار کرتا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انٹرنیشنل کرائمز اسٹریٹجی فورم دراصل بنگلا دیش میں نام نہاد جنگی جرائم کے حوالے سے بنگلا دیشی استغاثہ، ججوں اور دیگر متعلقین کی بھرپور معاونت کرنے والے ہم خیال لوگوں کا گروپ ہے تاکہ عوامی لیگ کی حکومت کسی بھی قیمت پر جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا اپنا وعدہ ایفا کرسکے۔
بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران جو کچھ ہوا، اُس کے حوالے سے تمام مجرموں کو انصاف کے کٹہرے تک لانا اور احتساب کے حوالے سے ذمہ داری پوری کرنا اور اس معاملے کو سیاسی رکھنا کچھ غلط نہیں، مگر جن لوگوں کے پیاروں نے ۱۹۷۱ء میں جان گنوائی، وہ چاہتے ہیں کہ انصاف یقینی بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ مگر خیر، سیاسی عزم اور انصاف کو یقینی بنانے کے عمل میں مداخلت کے درمیان ایک لطیف خطِ امتیاز ہے۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں انٹرنیشنل کرائمز اسٹریٹجی فورم نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔
دسمبر ۲۰۱۲ء میں برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ اور امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے اس وقت کے بنگلا دیشی وار کرائمز ٹربیونل کے سربراہ جسٹس نظام الحق اور بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں مقیم بنگلا دیشی نژاد قانون دان ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو نشر کی تھی۔ اس گفتگو سے بالکل واضح تھا کہ بنگلا دیش وار کرائمز ٹربیونل کے سربراہ تو جسٹس نظام الحق تھے، تاہم وہ ڈاکٹر ضیاء الدین کی ہدایات کی روشنی میں کام کر رہے تھے۔
جسٹس نظام الحق نے پہلے تو اِس بات ہی سے سِرے سے انکار کیا کہ ہفت روزہ ’’اکنامسٹ‘‘ نے جو گفتگو شائع کی ہے، وہ اُنہی سے متعلق ہے۔ مگر پھر جب انہوں نے دیکھا کہ محض تردید یا تکذیب کرنے سے بات نہیں بنے گی تو اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے جان چُھڑانے کی کوشش کی کہ متعلقہ قوانین کے حوالے سے مقدمے میں پائی جانے والی چند پیچیدگیاں رفع کرنے کے لیے انہوں نے ڈاکٹر ضیاء الدین احمد سے ماہرانہ رائے طلب کی تھی۔ اب سوال یہ اُٹھ کھڑا ہوا کہ اگر بنگلا دیش کے نام نہاد جنگی جرائم ٹربیونل کو ماہرانہ رائے کی ایسی ہی شدید ضرورت تھی تو کئی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے تکنیکی اور تحقیقی تعاون کی پیشکش کیوں قبول نہ کی؟ اگر جسٹس نظام الحق کو ڈاکٹر ضیاء الدین احمد سے ماہرانہ رائے لینا ایسی ہی ضروری تھی تو اُنہوں نے ٹربیونل کے دیگر ججوں کے ساتھ بیٹھنا کیوں گوارا نہ کیا؟ اور یہ کہ اُنہیں براہِ راست تردید کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جو کچھ بھی ہوا، وہ یہ بات واضح کرنے کے لیے کافی تھا کہ کچھ نہ کچھ ہے جسے چھپانا ضروری ہے اور چھپایا جارہا ہے۔
’’دی اکنامسٹ‘‘ اور ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے جو گفتگو شائع کی، اُس سے یہ اندازہ ہوگیا کہ ایک منصوبے کے تحت حکمتِ عملی پر توجہ دی جارہی ہے۔ مقدمات، اُن پر کارروائی کا طریق کار اور اُن سے متعلق واقعات سبھی کچھ جامع منصوبے کے تحت تھا۔ ایک گفتگو کے ٹرانسکرپٹ میں یہ بات مذکور ہے کہ اُس وقت کے وزیر قانون قمر الاسلام نے ٹربیونل کے سربراہ سے ملاقات کرکے استدعا کی کہ مقدمات کا فیصلہ جلد از جلد سُنایا جائے۔ وزیر قانون نے جماعت اسلامی بنگلا دیش کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کے بارے میں کہا کہ اُن کے خلاف دس گواہ ہیں۔ ساتھ ہی اُنہوں نے مزید چند باتیں بھی کیں۔ جنگی جرائم کے ٹربیونل کے سربراہ اور ڈاکٹر ضیاء الدین نے استغاثہ کے گواہوں کے حوالے سے جو چند باتیں کیں، وہ بہت حساس نوعیت کی نہیں مگر یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ اِس حساس معاملے میں ٹربیونل کے سربراہ اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد نے حکومت کے نمائندوں سے باضابطہ مشاورت کی۔
ٹرانسکرپٹس کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سرکاری افسران سے کئی مواقع پر مشاورت کی جاتی رہی۔ جسٹس نظام الحق اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد نے نئے وزیر قانون کے تقرر پر بھی بات کی اور ان کی گفتگو سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نئے وزیر اطلاعات، حسان الحق اینو، کی آمد سے اُنہیں ٹربیونل کے معاملات میں کامیابی کا پورا یقین تھا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ٹربیونل کے معاملات پر حسان الحق اینو سے رابطے میں رہے ہیں۔ اب اس حوالے سے کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ نام نہاد جنگی جرائم ٹربیونل میں ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کا کردار محض مشاورت تک محدود نہیں بلکہ اِس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ حکومت کی ترجیحات اور ٹربیونل کے طریق کار کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں۔
جسٹس نظام الحق اور ڈاکٹر ضیاء الدین کی گفتگو میں ایک اور شخصیت کا بار بار ذکر ملتا ہے اور یہ شخصیت ہے پراسیکیوٹر زیدالمعلوم کی۔ دونوں بہت سے معاملات میں ’’معلوم بھائی‘‘ کا حوالہ دیتے رہے ہیں۔ ’’معلوم بھائی‘‘ سے میری جھڑپ ۲۰۱۲ء میں یورپی پارلیمان میں ہوئی تھی، جب وہ اس جنگی ٹربیونل کے حوالے سے ایک مذاکرے میں شرکت کے لیے بنگلا دیشی وفد کے ساتھ آئے تھے۔ ان کے ساتھ ٹربیونل میں استغاثہ کے گواہ شہریار کبیر اور ایک سیاسی کارکن (اور اب استغاثہ کے وکیل) تورین افروز کے علاوہ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد بھی تھے۔ معلوم بھائی نے ایک مقالہ پیش کیا جس کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ بنگلا دیشی حکومت نے جنگی جرائم کے ٹربیونل میں تمام لوازم کا خاص خیال رکھا ہے۔ زید المعلوم کے حوالے سے سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اُنہوں نے کھل کر یہ بات کہی کہ وہ ’’جنگِ آزادی کے سپاہی‘‘ ہیں۔ زید المعلوم نے جو پریزنٹیشن دی، اُس کی روشنی میں وکلائے صفائی نے باضابطہ درخواست فائل کی کہ ٹربیونل کی کارروائی کے باضابطہ آغاز سے قبل زیدالمعلوم کو ٹربیونل کے تمام معاملات سے الگ کردیا جائے۔ درخواست میں کہا گیا کہ کسی بھی مقدمے میں انصاف کے تمام تقاضوں کو نبھانے کے لیے ناگزیر ہے کہ وکلا ہر طرح سے آزاد اور غیر جانبدار ہوں۔ اس درخواست کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ نام نہاد جنگی جرائم کے بارے میں تفتیش ہر اعتبار سے بے داغ، جامع اور قانون و انصاف کے تمام تقاضوں کے مطابق ہو۔ وکلائے صفائی نے اپنی درخواست میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ بنگلا دیش کے قیام کی جدوجہد میں عملی طور پر حصہ لینے والی ایک جماعت سے زیدالمعلوم کی باضابطہ وابستگی، جنگی جرائم کے ٹربیونل میں استغاثہ کے وکیل سے متعلق اقوام متحدہ کے رہنما خطوط اور انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پراسیکیوٹرز کے طے کردہ پیشہ وارانہ ذمہ داری کے معیارات کے بھی منافی ہے۔
ایک گفتگو کے ٹرانسکرپشن سے معلوم ہوا کہ جسٹس نظام الحق اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد نے پروفیسر غلام اعظم کے کیس پر بھی تبادلۂ خیال کیا اور اس معاملے میں استغاثہ کے گواہ جنرل شفیع اللہ کو ’’کنٹرول‘‘ کرنے کے حوالے سے زیدالمعلوم کی نااہلی بھی زیرِ بحث رہی۔ ٹرانسکرپشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ جنرل شفیع اللہ کو ٹھیک سے یاد نہیں کہ ۱۹۷۱ء میں کیا کیا ہوا تھا۔ یہ تو واقعی بہت بڑی مشکل ہے، بالخصوص اُس وقت کہ جب کیس کو پیش کرنے کے لیے تیار بھی کیا جاچکا ہو۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد نے اِس خدشے پر بھی بات کی کہ جنرل شفیع اللہ اپنی گواہی کے دوران ’’جنگِ آزادی‘‘ پر بھی بات کرسکتا ہے جبکہ یہ لوگ کسی بھی حال میں نہیں چاہتے تھے کہ اِس جنگ (یعنی پاکستانی فوج سے لڑائی) پر کوئی بات ہو۔ ایک مرحلے پر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کسی طور جنرل شفیع اللہ سے یہ کہلوایا جائے کہ اُس (۱۹۷۱ء کی) کی لڑائی میں مرکزی فریق پاکستان کی فوج تھی اور اُسی سے حقیقی لڑائی تھی اور مدعا علیہان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد نے کئی مواقع پر یہ بات کہی کہ جنگ سے ہمیں کچھ خاص دلچسپی نہیں اور یہ کہ چیف پراسیکیوٹر کا خیال ہے کہ جب جنرل شفیع اللہ کو بریف کیا جائے گا، تب اُنہیں تمام واقعات پوری اور اصل ترتیب کے ساتھ یاد نہیں ہوں گے۔
(“Alice in wonderland”
(“mwcnews.net”. December 21,2014)
Leave a Reply