
استغاثہ کی گواہ ڈاکٹر سلطانہ کمال کے نمودار ہونے پر معاملہ اور الجھتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ انسانی حقوق کی علمبردار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا ہے۔ اِس سے یہ خدشہ مزید پروان چڑھنے لگا کہ ڈاکٹر ضیاء الدین نے اُنہیں شہادت کے حوالے سے بریف کردیا تھا۔
ڈاکٹر ضیاء الدین نے جج کے سامنے اعتراف بھی کیا کہ وہ استغاثہ کے گواہوں سے مل چکے ہیں اور اُنہیں شہادت کی نوعیت کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے اُن پر واضح بھی کردیا ہے کہ اُنہیں تنازع کی نوعیت پر غور نہیں کرنا ہے!
جو اعترافات سامنے آئے اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل اسٹریٹجی فورم سے اور بہت سے پلیئر جُڑے ہوئے تھے۔ اِن میں ریحان راشد بھی شامل تھا، جس سے ڈاکٹر ضیاء الدین نے بات کی اور ایک بیان میں اِس کا اعتراف بھی کیا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین نے یہ بات بھی برملا کہی کہ اب ’’معلوم بھائی‘‘ انٹر نیشنل کرائمز ٹربیونل کی پوری اسٹریٹجی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس پورے معاملے میں ریحان راشد کا کردار محض نمائشی نوعیت کا نہیں۔
’’نو پیس وِد آؤٹ جسٹس‘‘ نے جس آئی سی سی اسمبلی آف اسٹیٹ پارٹیز کا اہتمام کیا، وہ دو حوالوں سے بہت دلچسپ ہے۔ اول تو یہ کہ یہ اسمبلی برطانوی جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ کی طرف سے طشت از بام کی جانے والی ریکارڈنگ سے صرف ایک ماہ قبل منعقد ہوئی۔ اور سب کو اندازہ ہوگیا کہ ریکارڈنگ میں پراسرار آواز ڈاکٹر ضیاء الدین کی ہے۔ اور دوم یہ کہ ڈاکٹر ضیاء الدین کو انٹر نیشنل لاء کے پروفیسر اور ۱۹۷۱ء کے واقعات کے اہم گواہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا۔ اپنی پریزنٹیشن میں ڈاکٹر ضیاء الدین نے اپنے بارے میں یا ریحان راشد کے بارے میں کسی بھی مرحلے پر یہ نہیں بتایا کہ اُنہوں نے جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل کے حوالے سے حکومت کی کوئی مدد کی تھی یا کسی بھی حیثیت میں خدمات انجام دی تھیں۔ یہ حقائق سے صرفِ نظر کے سِوا کچھ نہ تھا۔
جو مباحث سامنے لائے گئے ہیں، اُن میں ججوں کے تقرر اور اُن کے ہٹائے جانے کا ذکر بار بار ملتا ہے۔ مارچ ۲۰۱۰ء میں مقرر کیے جانے والے جج ظہیر احمد نے اگست ۲۰۱۲ء میں خرابیٔ صحت کی بنیاد پر استعفیٰ دے دیا۔ معزز جج نے ڈاکٹر ضیاء الدین کو بتایا کہ ظہیر احمد نے وزیر قانون و انصاف و پارلیمانی امور شفیق احمد کی طرف سے طلب کیے جانے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ اُن سے کہا گیا کہ استعفیٰ دیں تاکہ لا کمیشن کے سربراہ مقرر کیے جائیں۔ مگر اپنے استعفے میں ظہیر احمد نے اِس کا حوالہ نہیں دیا۔
جسٹس ظہیر احمد کے رخصت ہونے پر جسٹس جہانگیر کو مقرر کیا گیا، جو کرپشن کے باعث ’’گولڈ جہانگیر‘‘ کی عرفیت رکھتے تھے۔ وہ عوامی لیگ کے زبردست حامی تھے اور مباحث میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اُنہیں اچھی طرح بریف کردیا گیا تھا کہ ٹربیونل کی کارروائی میں اُنہیں کیا کرنا ہے۔ یقین دہانی کرائی گئی کہ ہر معاملے میں ‘yes’ ملے گا۔
معزز جج نے ایک مرحلے پر سابق رجسٹرار شاہین اسلام کو سیکنڈ ٹربیونل کا جج بنائے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اگر کوئی شخص عدالت کا رجسٹرار رہ چکا ہو تو اُس کے تعلقات استغاثہ اور وکلائے صفائی دونوں سے ہوتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ وہ مقدمات کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ ایسے میں اگر اسے جج مقرر کیا جائے تو بہت سے ذہنوں میں تحفظات پیدا ہوتے ہیں اور عام طور پر ان تحفظات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ جسٹس شاہین اسلام جب رجسٹرار تھے تب انہوں نے لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ لیگل اسٹڈیز میں جان کیمیگ، اسٹین کے کیو سی اور میرے ساتھ ایک مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے ٹربیونل کی کارروائی اور حساس مقدمات میں شفافیت کے بین الاقوامی اصولوں پر اظہار رائے کیا تھا۔ انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا، ان کی روشنی میں ان کا ٹربیونل کے جج کی حیثیت سے تقرر خود بخود غلط اور بلا جواز قرار پاتا ہے۔
کوئی اس تقرر کو غلط سمجھے یا نہ سمجھے، خود معزز جج نے ایک موقع پر کہا کہ جسٹس شاہین اسلام بین الاقوامی اصولوں کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہیں۔ ڈاکٹر ضیاء الدین نے بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اُن کا جواب تھا: ’’یا تو جسٹس شاہین کو ایسا کرنے سے (شفافیت کے بین الاقوامی اصولوں پر زور دینے سے) روکا جائے یا پھر ہٹا دیا جائے۔ اس معاملے کا روکا جانا انتہائی ناگزیر ہے۔ اگر جسٹس شاہین نے معاملات کو شفاف بنانے سے متعلق اپنے خیالات ترک نہ کیے تو ہمارے لیے بہت سی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔ ایسی حالت میں ان کا اس منصب پر فائز رہنا ہمارے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اپیلیٹ ڈویژن میں وکلاء صفائی کی بیشتر کاوشیں اِسی شفافیت کے اُصول کی بنیاد ہوں گی اور پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اُنہوں نے قتلِ عام کے حوالے سے معاملات کو اپنی نظر سے دیکھا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ تاریخ کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمام مقدمات ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ کے تحت درج کیے گئے ہیں۔
معزز جج نے دسمبر ۲۰۱۲ء میں تین مقدمات کو ہر حال میں منطقی انجام تک پہنچانے سے متعلق ڈالے جانے والے دباؤ کا حوالہ دیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے اپیلیٹ ڈویژن میں جسٹس سریندر کمار سنہا کی طرف سے بڑھائے جانے والے دباؤ کی بھی بات کی۔ اُن کا کہنا تھا: ’’جسٹس سنہا نے مجھ سے کہا کہ دسمبر تک سعیدی، غلام اعظم اور ایس کیو چوہدری کے کیسز پر فیصلہ دے دو، ہم تمہارا پروموشن کر دیں گے، یعنی تم سپریم کورٹ میں ہوگے۔ میں نے ان سے کہا کہ فیصلے تو میں سنا ہی دوں گا، پہلے پروموشن کردیا جائے‘‘۔
۳؍اپریل ۲۰۱۳ء کو جسٹس سنہا اور پھر جسٹس شمس الدین مانک چوہدری کو ہٹانے کے لیے درخواست دائر کردی گئی۔ اُن دونوں پر جانب داری برتنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ جسٹس سنہا کے رویّے پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ اُنہوں نے مدعا علیہ کے معاملے میں جانب داری برتی ہے۔ بنگلا دیش کے آئین کے تحت اور سپریم جیوڈیشل کونسل کوڈ آف کنڈکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دائر کی جانے والی درخواست میں دونوں ججوں کی غیر جانب دار حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے متعلقہ امور کا حوالہ بھی دیا گیا۔ ان پر ٹربیونل میں مدعا علیہ کے خلاف واضح تعصب کے اظہار کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ اس سے جسٹس سنہا کی ساکھ سوالیہ نشان کی زد میں آگئی۔ درخواست کے دائر کیے جانے سے سپریم کورٹ کے اپیلیٹ ڈویژن کی غیر جانب دار حیثیت مشکوک ہوگئی اور متعلقہ ججوں کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ پروموشن کا لالچ دے کر فوری فیصلوں کی فرمائش سے معاملہ اتنا بگڑ گیا کہ کوئی بھی شخص ذرا سے مشاہدے کی بنیاد پر اندازہ لگا سکتا تھا کہ ٹربیونل کی کارروائی کی نوعیت کیا رہ گئی ہے۔
بین الاقوامی قانون کی روشنی میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی مقدمے کے لیے شفافیت اور غیر جانبداریت کا اہتمام کیا جائے۔ اگر کوئی مدعا علیہ مقدمے یا مقدمات کی کارروائی کے دوران غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تو فوری تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ میرٹ کسی بھی طور متاثر نہ ہو۔ سوال صرف یہ نہیں کہ جج ذاتی حیثیت میں جانبدار ہے یا نہیں۔ اگر معاملات اُس کی غیر جانب دار حیثیت کو مشکوک بنا رہے ہوں، تب بھی اُسے مقدمات کی کارروائی سے الگ ہوجانا چاہیے۔ یہی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اصول ہے۔
ججوں کو ہٹانے سے متعلق دونوں درخواستیں کسی بھی نوعیت کی کارروائی کے بغیر خارج کردی گئیں۔
یاد رہے کہ بنگلا دیش میں جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل کے خلاف اعتراضات کئی بار سامنے آئے۔ کئی بین الاقوامی اداروں اور شخصیات نے اس ٹربیونل کے طریقِ کار اور عدم شفافیت کی طرف اشارا کیا۔ جب بھی کوئی اعتراض سامنے آیا، بنگلا دیشی حکومت نے اِسے مدعا علیہان اور وکلاء صفائی کی بین الاقوامی سازش قرار دے کر جان چھڑانے اور معاملات کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ مجھے بھی اپنے موکلین کا لابسٹ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ خیر، یہ بات مکمل طور پر غلط بھی نہ تھی۔ میرا کام اپنے موکلین کی پریشانیوں کو اجاگر کرنا ہی تو تھا۔ میرا فرض تھا کہ میں اپنے ہر موکل کے لیے بالکل غیر جانب داری سے مقدمہ چلائے جانے کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کر گزروں اور ہر اس فورم پر اپیل کروں جہاں سے بہتری کی امید ہو۔ میں اس معاملے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرسکتا کیونکہ ایسا کرنا ہی میرا کام تھا۔ اگر میں ایسا نہ کر پاتا تب میرے لیے کوئی شرمندگی کا پہلو برآمد ہوسکتا تھا۔
بین الاقوامی سازش کا الزام اب تک باقی ہے۔ یہ الزام اس حقیقت کی روشنی میں بھی باقی ہے کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے تحویل ملزمان نے بھی ملزمان کو حراست میں رکھے جانے کو انتہائی غلط قرار دیا ہے۔ ورکنگ گروپ نے مقدمے کی کارروائی غیر شفاف طریقے سے چلائے جانے کی طرف بھی اشارا کیا ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ جنگی جرائم کے اس نام نہاد مقدمے میں کارروائی جس طریقے سے کی گئی ہے اور تمام ممکنہ شواہد کے بغیر ہی ملزمان کو زیرِ حراست رکھا گیا ہے، وہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ استغاثہ کے ایک وکیل نے جب اپنا بیان تبدیل کیا تو اسے قانون نافذ کرنے والوں نے اغوا کرکے بھارتی سرحد کے اندر پھینک دیا۔ بہت سی حکومتی شخصیات نے بار بار یہ مطالبہ کیا ہے کہ جنگی جرائم کے تمام مجرموں کو سزائے موت دی جائے۔ ٹربیونل کے بدنام زمانہ چیئرمین اس سے قبل وار کرائمز انویسٹی گیشن کمیشن کے بھی رکن تھے اور اس کمیشن نے انہی ملزمان کے خلاف تحقیقات کی تھیں، جنہیں اب ٹربیونل میں جنگی جرائم کے مقدمات کا سامنا تھا۔
بنگلا دیش میں جنگی جرائم کے ٹربیونل کی شفافیت پر کئی سوال اٹھائے گئے مگر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ اگر ایسا معاملہ انگلینڈ اور ویلز کی عدالتوں میں ہوتا تو مقدمات کی کارروائی کب کی رکوا دی گئی ہوتی بلکہ مقدمات کے ختم ہونے کی بھی نوبت آجاتی۔ ایک طرف تو اعتراضات اور شکایات تھیں اور پھر ’’دی اکنامسٹ‘‘ کی طرف سے ججوں اور ٹربیونل چیئرمین کے ٹیپ سامنے آگئے، جس نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ ان مباحث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کی بااثر شخصیات نے کس کس طور انصاف کی فراہمی کے عمل پر بھرپور اور بھونڈے طریقے سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ ہر مرحلے پر زیادہ سے زیادہ اثر انداز ہو کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
یہ بات بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں کہ جب بھی ٹربیونل میں حکومت کی مرضی کے لوگ تعینات ہوتے تھے، تب میڈیا میں اُس کا خوب جشن منایا جاتا تھا۔ وزیرِ داخلہ کے منصب سے جب شہریار خاتون کو ہٹایا گیا، تب اس اقدام کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین نے بھی اس برطرفی کا خیر مقدم کیا۔ نئے وزیر داخلہ کی آمد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر ضیاء الدین نے یہ بات زور دے کر کہی کہ بہت سے لوگوں کی اُن تک رسائی ہے۔ وہ ٹربیونل کے رابطہ کار کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں، اِس لیے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ معاملات تیزی سے نمٹانے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔ نئے وزیر داخلہ کی آمد پر ٹربیونل کے معزز جج نے ریمارکس دیے کہ یہ مثبت اقدام ہے اور اب معلوم بھائی سُکون سے سو سکیں گے۔ ٹربیونل کے سربراہ اور مشیر کے درمیان خیالات کا یہ تبادلہ انتہائی خطرناک نوعیت کا ہے کیونکہ اِس سے ٹربیونل کی غیر جانب داری غیر معمولی حد تک سوالیہ نشان کی زد میں آتی ہے۔ یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اُنہوں نے استغاثہ کے کئی گواہوں سے بات چیت بھی کی ہے۔ مرکزی وکیل استغاثہ زید المعلوم نے بھی نئے وزیر داخلہ کے تقرر کا خیر مقدم کیا۔ یہ معاملہ کسی کے وزیر بننے کا نہیں بلکہ اس بات کا تھا کہ اب وہ جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات کو اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھا سکیں گے۔
عام آدمی اِس نوع کی گفتگو کو محض اظہارِ خیال سمجھے گا مگر درست تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ساری باتیں ایک خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کی گئیں۔ اس پورے عمل کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال کر سامنے لایا جاسکے۔ مقدمات سے متعلق اہم امور پر متعلقین کا یوں کھل کر گفتگو کرنا اور گواہوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا پورے عمل کو انتہائی مشکوک بنا دیتا ہے۔ گواہوں کے بیانات سے متعلق ٹربیونل کی صدارت کرنے والے جج کی آرا اس امر کی طرف اشارا کرتی ہیں کہ پہلے سے طے شدہ فیصلوں کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ معاملات کو مشکوک بنانے والی اِس سے بڑھ کر بات کیا ہوگی کہ جج کا ایک مشیر بتا رہا ہے کہ ایک کرمنل مقدمے میں اُس نے گواہوں سے بات کی ہے۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی بیرونی ماہرین نے بنگلا دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے اِن نام نہاد مقدمات میں معاونت کی پیشکش کی مگر ہر بار انکار کردیا گیا۔ ایسا شاید اِس لیے کیا گیا کہ بنگلا دیشی حکومت کو یہ خوف تھا کہ غیر جانب دارانہ انداز سے مقدمات چلائے جانے کی صورت میں مطلوبہ فیصلوں کا حصول ناممکن ہوگا۔ ساتھ ہی اُسے شاید یہ خوف بھی لاحق تھا کہ کسی بھی غیر جانب دار بیرونی ماہر کی موجودگی سے شفافیت کا سوال اُٹھ کھڑا ہوگا۔ یعنی بہت کچھ طشت از بام ہوجائے گا۔ ٹربیونل کے جج کے سامنے جب وکلاء صفائی نے بیرونی ماہرین کو بلانے کی درخواست رکھی تو اُسے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا گیا۔ اور اِس سے بڑھ کر قابلِ اعتراض اور مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ جب بیرونی ماہرین کو مقدمے کے لیے بلوانے کی درخواست سامنے آئی تو ٹربیونل کے معزز جج کو بھی کچھ اندازہ نہیں تھا کہ اُنہیں کیا فیصلہ دینا ہے اس لیے رائے طلب کی گئی کہ کیا فیصلہ دینا چاہیے! کسی بھی مقدمے کے شفاف اور مکمل غیر جانب دار فیصلے کے لیے لازم ہے کہ جج مکمل بااختیار ہو اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ دے سکتا ہو۔ اس معاملے میں ججوں پر ڈاکٹر ضیاء الدین نے اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مقدمات کی پیروی اور فیصلوں کے سنائے جانے میں شفافیت کس قدر ہوگی اور معاملہ صرف اس حد تک نہیں ہے کہ مرضی کے فیصلوں کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے، بلکہ ڈاکٹر ضیاء الدین کی طرف سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جو لوگ بھی مقدمات کے بارے میں ایسی ویسی رائے دیں، اُن کی بھی گوشمالی کی جائے۔ جب برطانوی دارالامراء کے رکن اور معروف قانون دان لارڈ کارلائل کیو سی نے مقدمے کی کارروائی میں شریک ہونے کا عندیہ دیا تو ڈاکٹر ضیاء الدین نے ایک معزز جج سے گفتگو میں مدعا علیہان سے متعلق کہا: ’’اب وہ لوگ یہاں تک جارہے ہیں کہ برطانوی پارلیمان کے ایوان بالا کے ایک رکن کو بھی مقدمے کا حصہ بنائیں۔ اِن لوگوں کو ایسا کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے‘‘۔
یہ بات تواتر سے کہی جاتی رہی ہے کہ ٹربیونل کے ارکان اور اِس سے جُڑے دیگر تمام لوگوں کا کردار بدعنوانی پر مبنی رہا ہے۔ ایسے تمام الزامات کو بنگلا دیشی حکومت نے مسترد کیا ہے، جو فطری سی بات ہے۔ ٹیپ کے ذریعے جو گفتگو سامنے آئی ہے، اس میں ٹربیونل کے جج نے جسٹس جہانگیر کا ذکر ’’گولڈ جہانگیر‘‘ کی عرفیت سے کیا ہے، جو اُن کے کرپٹ ماضی کی طرف واضح اشارا ہے۔ ایک مرحلے پر ٹربیونل کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ ایک کرپٹ جج کو ٹربیونل کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ یہ اعتراف ہی تو ہے۔
اس بات کو کیا کہا جائے کہ عدلیہ کے ایک رکن کو کرپشن کے سنگین الزامات کے باوجود جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل کا حصہ بنایا گیا؟ یہاں ہم اِس بات پر زور نہیں دے رہے کہ تمام الزامات درست ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مشکوک معاملات کے ساتھ جب جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات میں کوئی فیصلہ سنایا جائے گا تو اُس کی شفافیت پر سوال تو اٹھے گا ہی۔ ایسے کسی بھی فیصلے کو غیر جانب داریت اور شفافیت کے تمام اُصولوں کی کسوٹی پر پرکھنا ناگزیر ہوگا۔ اس پورے عدالتی عمل پر کسی کو بھی اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
بدعنوانی ایک جذباتی نوعیت کی اصطلاح ہے تاہم بنگلا دیش میں جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات کے حوالے سے جو طریقِ کار اختیار کیا گیا ہے، اُس کے لیے کوئی اور اصطلاح استعمال کرنا بھی آسان نہیں۔ معاملات اُس وقت اور مشکوک ہوجاتے ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آئی سی ایف ایس نے بھرپور کوشش کی کہ اُس کے پسندیدہ افراد کو ٹربیونل کا حصہ بنایا جائے۔ معزز جج نے ٹربیونل میں ایک تقرر پر اپنی رائے دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ٹربیونل کے اسسٹنٹ رجسٹرار کے تقرر پر ڈاکٹر ضیاء الدین نے کہا: ’’وہ بہت ذہین لڑکا ہے۔ اُس نے عدلیہ سے جُڑنے کے بعد قانون کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ وہ ہمارا آدمی ہے‘‘۔ ڈاکٹر ضیاء الدین نے کنفرم کیا کہ اسسٹنٹ رجسٹرار کا تعلق آئی سی ایف ایس سے تھا اور یہ کہ جج نے بھی اِس بات کو مقدم جانا۔
میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوششیں کسی بھی مرحلے پر ترک نہیں کی گئیں اور یہ بات مکمل طور پر یقینی بنائی گئی ہے کہ تمام فیصلے پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہوں۔ یعنی جن لوگوں کو نشانہ بنانا ہے، آسانی سے نشانہ بنایا جائے۔ بیشتر معاملات میں قانون کے بنیادی تقاضوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے تاکہ کسی مرحلے پر کوئی الجھن پیدا نہ ہو۔ یہ سب کچھ اس ٹربیونل کے حوالے سے شفافیت کا سوال کھڑا کرنے کے لیے کافی ہے۔
ٹربیونل کی کارروائی ایک طرف اور ایجنڈا ایک طرف۔ یہ لوگ کسی بھی حال میں اپنے ایجنڈے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اِن کی بھرپور کوشش ہے کہ تمام مقدمات اپنی مرضی کے مطابق چلائے جائیں، جلد از جلد تمام دلائل ختم کیے جائیں اور فیصلہ سنا دیا جائے۔ میں نے اپنے موکلین کی نمائندگی کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر مجھے بھی ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین اور ٹربیونل کے سربراہ کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو میں اور لوگوں کے ساتھ ساتھ میرا بھی تذکرہ ہوتا رہا ہے۔ ایک ٹیپ میں ڈاکٹر ضیاء الدین کہتے ہیں کہ وہ لوگ (مدعا علیہان یا وکلاء صفائی) ٹوبی کیڈمین کو لانا چاہتے ہیں۔ اس پر جج کا جواب تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ پے در پے فیصلوں کے ذریعے اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ وکلاء صفائی زیادہ سے زیادہ محدود ہوکر مقدمات کا سامنا کریں۔ یعنی اِس بات کی بھرپور کوشش کی گئی کہ مدعا علیہان الزامات کا زیادہ تیاری کے ساتھ سامنا نہ کرسکیں اور مقدمات کی کارروائی کسی نہ کسی طور جلد از جلد مکمل ہو اور فیصلہ سنانے کی گھڑی آجائے۔ ۲۰۱۱ء کے اوائل میں ایمبیسیڈر ریپ، وزیر قانون، ٹربیونل کے ججوں اور رجسٹرار کی میٹنگ ہوئی تھی جس میں نام نہاد جنگی جرائم ٹربیونل کی کارروائی میں بین الاقوامی قانون کے بیرونی ماہرین سے معاونت لینے کا سوال بھی اٹھایا گیا تھا۔ ٹربیونل کے سربراہ نے واضح کردیا کہ بیرونی ماہرین سے مشورہ یا معاونت نہ لینے کا فیصلہ اُن کا نہیں بلکہ بار کونسل کا تھا۔ اِس کے بعد اگست ۲۰۱۱ء میں مجھے بنگلا دیش میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اس کے بعد نائن بیڈفورڈ را انٹرنیشنل کی پوری ٹیم ہی کو بنگلا دیش میں داخل ہونے کی نہ صرف یہ کہ اجازت نہیں دی گئی بلکہ مجھ سمیت تمام افراد کو بلیک لسٹ بھی کردیا گیا۔
معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ استغاثہ کے گواہوں پر جرح کے لیے بھی زیادہ وقت نہ دینے کا خاص خیال رکھا گیا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین نے معزز جج کو صاف الفاظ میں ہدایت کی کہ وکلاء صفائی کو استغاثہ کے گواہوں پر جرح کے لیے زیادہ وقت نہ دینا کیونکہ ایسا کرنے سے معاملہ الجھ جائے گا۔ یعنی اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ استغاثہ کے گواہ جو کچھ بھی بیان کریں، اُس میں پائی جانے والی خامیاں کسی بھی طور باہر نہ لائی جاسکیں اور معاملات کو جلد از جلد لپیٹ دیا جائے تاکہ مقدمہ کا فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق سنانے میں زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پروفیسر غلام اعظم کے کیس میں اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی کہ مدعا علیہ کے گواہ بارہ سے زیادہ نہ ہوں۔ یہ تمام معاملات اِس امر کی طرف واضح اشارا کرتے ہیں کہ مقدمات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی بھرپور کوشش کی گئی اور یہ امر یقینی بنایا گیا کہ کسی بھی مرحلے پر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوں تاکہ مقدمات جلد از جلد مکمل کرکے مرضی کا فیصلہ سنایا جاسکے۔
(“Alice in wonderland”
(“mwcnews.net”. December 21,2014)
Leave a Reply