
میڈیا کی زیادہ توجہ اسکائپ ریکارڈنگ پر رہی جبکہ برقی خطوط میں بھی بہت کچھ تھا۔ ان برقی خطوط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئی سی ایس ایف میں کون کس حد تک ملوث تھا۔ اسکائپ کی ریکارڈنگ میں کچھ وقفے پائے جاتے ہیں۔ برقی خطوط اور اُن سے جڑی ہوئی بہت سی دستاویزات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اصل کام تو کچھ اور ہی لوگوں نے سنبھال رکھا ہے اور اُنہیں آئی سی ایس ایف نے کام پر لگا رکھا ہے۔ یہ پورا عمل ریحان راشد کی نگرانی میں ہو رہا ہے جو آکسفرڈ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔
برقی خطوط ہی سے پتا چلتا ہے کہ ریحان راشد اور ڈاکٹر ضیاء الدین، پراسیکیوٹر معلوم اور آئی سی ایس ایف کے درمیان بھی بات چیت ہوتی رہی ہے۔ یہ برقی خطوط ’’انتہائی خفیہ: ڈیلیگیشن آف یو کے جرنلسٹ‘‘ کے زیر عنوان ہوئی ہے۔ اس میں برطانوی ہائی کمیشن کی معرفت تین برطانوی صحافیوں کے دورۂ بنگلہ دیش کے انتظامات کا ذکر ہے۔ برقی خطوط میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے دو صحافی برطانیہ کے اسلام نواز حلقوں میں غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل ہیں اور تیسرا آئی سی ایس ایف کے نیٹ ورک سے جُڑا رہا ہے۔
ایک اور برقی خطوط میں ڈاکٹر ضیاء الدین ٹربیونل کے معزز جج اور پراسیکیوٹر کو لکھتے ہیں کہ قواعد میں کچھ تبدیلیاں لائی جائیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر ضیاء الدین اور ٹربیونل کے ایک اور جج کے درمیان کچھ ای میلز کا تبادلہ ہوا۔ اِن ای میلز سے معلوم ہوتا ہے کہ ریحان راشد اور قانونی کمیشن کے رکن (اور عوامی لیگ کے رہنما) ڈاکٹر شاہ عالم کے درمیان خیالات کا تبادلہ ہوا۔
یہ تمام برقی خطوط بہت طویل اور تفصیلی ہیں۔ ان سے ایک ایسی پالیسی واضح طور پر سامنے آتی ہے جس کا بنیادی مقصد قوانین اور قواعد کو بالائے طاق رکھ کر جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل کے تحت مدعا علیہان کو پہلے سے طے شدہ سزا سنا دی جائے۔ ان ای میلز کا جائزہ لینے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ججوں، وکلا، سیاسی کارکنوں اور حکومتی شخصیات نے طے کرلیا تھا کہ انصاف کے عمل کو اپنی مرضی کے مطابق مکمل کرنا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق ہی فیصلے کرنے ہیں۔ یہ بہت سنگین نوعیت کے الزامات ہیں جن کی باضابطہ اور غیر جانب دار تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ بنگلادیشی حکومت سے کئی بار کہا گیا ہے کہ وہ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرے مگر اُس نے کسی بھی درخواست پر دھیان نہیں دیا اور اب تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس سے اندازہ ہو کہ بنگلادیشی حکومت انصاف کی فراہمی پر یقین رکھتی ہے۔
برطانوی قوانین کی رُو سے انصاف کے عمل کو مطلوبہ مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور پورے عمل کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا انتہائی معیوب اور قابلِ گرفت سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایسا سنگین جرم ہے جس کی سزا عمر قید بھی ہوسکتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں تحقیقات اور متعلقہ کارروائی کا جائزہ لیتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ کوئی شخص کس حد تک مثبت ہے، انصاف کی فراہمی کے عمل پر اثر انداز تو نہیں ہو رہا اور یہ کہ اُس کا بنیادی مقصد انصاف کے عمل کو اپنی مرضی کے مطابق مکمل کرنا تو نہیں۔
کراؤن پراسیکیوشن سروس کے رہنما خطوط کی روشنی میں لفظ Pervert کا مطلب ہے تبدیل کرنا۔ مگر اس معاملے میں رویہ زیادہ دور تک نہیں چلتا۔ کوئی بھی ایسا عمل انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے والا تصور کیا جائے گا، جس کے باعث تحقیقات کا رُخ غیر ضروری طور پر تبدیل ہوجائے۔ استغاثہ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ مدعا علیہ نے جو کچھ کیا، اُس کی پشت پر نیت یہ تھی کہ انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کا عمل متاثر ہو اور معاملات کسی اور ہی ڈگر پر چل پڑیں۔ کسی بھی عمل کی سنگینی جانچنے کے لیے یہ دیکھنا پڑے گا کہ مدعا علیہ کی نیت ویسا کرنے کی تھی یا نہیں۔
اس سوال کا تسلی بخش جواب بھی لازم ہے کہ جرم متعلقہ ٹربیونل کے دائرۂ کار میں آتا ہے یا نہیں۔ ہم شواہد کی روشنی میں دیکھ چکے ہیں جو کچھ بھی ٹربیونل کے نام پر کیا گیا ہے، وہ انصاف کی فراہمی کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے اور اِس سے معاملات کا رخ تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ اور یہ بھی کہ جو کچھ دائرۂ کار میں تھا ہی نہیں، وہ بھی کیا گیا۔ انصاف کی فراہم کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے والے اقدامات برطانیہ، بیلجیم اور بنگلا دیش میں کیے گئے۔ قانون سے ہٹ کر کیے جانے والے چند اقدامات کا مقام چونکہ برطانیہ ہے، اس لیے برطانوی اتھارٹیز کو بھی اس حوالے سے کارروائی کرنی چاہیے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اِس مضمون میں بیان کردہ تمام معاملات بنگلا دیشی حکام کے علم میں ہیں۔ بنگلا دیشی حکومت کا فرض ہے کہ اس حوالے سے جامع تحقیقات یقینی بناکر انصاف کی فراہمی کی راہ ہموار کرے اور کسی کو اس عمل پر اثرانداز نہ ہونے دیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ الزامات کے تحت جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے، اُس کی تردید اب تک نہیں کی گئی ہے۔ یعنی تحقیقات کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔
خلاصہ
بنگلا دیشی حکومت نے اب تک اس حوالے سے نہ تو تحقیقات کی ہیں اور نہ ہی اِس کا عندیہ دیا ہے۔ جن لوگوں کے حوالے سے انتہائی قابلِ اعتراض باتیں سامنے آئی ہیں، اُن کے خلاف اب تک کوئی بھی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی، نہ ہی کوئی دوسری کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جن لوگوں نے خرابیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی ہے، اُن کے خلاف ہی کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ان پر انصاف کی فراہمی کے عمل میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ یہ بات کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بنگلادیشی حکومت نے بہت سی اہم اور حساس معلومات ناجائز ذرائع سے حاصل کی۔ برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ کی طرف سے ’’اسکائپ گیٹ‘‘ کے تحت جاری کی جانے والی ریکارڈنگ کو منظر عام پر لانا بنگلادیشی حکومت کو بہت بُرا لگا ہے۔ اٹارنی جنرل محبوب عالم نے اِسے انصاف کی فراہمی کے عمل میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے تعبیر کیا ہے۔ اُن کا الزام ہے کہ یہ ریکارڈنگ معاملات کو اُلجھانے کے مقصد کے تحت منظرِ عام پر لائی گئی ہیں۔ ساتھ ہی محبوب عالم کا دعویٰ ہے کہ جج اور لاء پروفیسر کے درمیان ہونے والی گفتگو میں کوئی بھی ایسا معاملہ زیر بحث نہیں آیا جس سے یہ شک ہوتا ہو کہ بنگلا دیشی حکومت انصاف کی فراہمی کے عمل پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹارنی جنرل نے ریکارڈنگ کو جعلی قرار نہیں دیا۔ اُن کا زور صرف اِس نکتے پر تھا کہ معاملات کو الجھایا جارہا ہے، بگاڑا جارہا ہے، بدگمانیاں پیدا کی جارہی ہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ بنگلا دیش میں نام نہاد جنگی جرائم ٹربیونل کی کارروائی غیر معمولی حد تک الجھی ہوئی اور متنازع ہے۔ انصاف کی فراہمی کے پورے عمل کو داؤ پر لگایا گیا ہے۔ مقدمات کی کارروائی کسی بھی اعتبار سے ایسی شفاف نہیں کہ اُس پر کہیں سے کوئی اعتراض کیا ہی نہ جاسکے۔ اگر اس ٹربیونل کی کارروائی کو قابلِ قبول بنانا ہے تو بنگلا دیشی حکومت کو تمام معاملات شفاف انداز سے انجام تک پہنچانے ہوں گے۔ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مدعا علیہان نے کسی بھی مرحلے پر معاملات کو خواہ مخواہ الجھانے اور بگاڑنے کی کوشش نہیں کی۔ اُن کا ایسا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات عالمی برادری کی نگرانی میں چلائے جائیں تاکہ غیر جانب داری سے کارروائی کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جاسکے۔ اِس پورے معاملے میں غیر جانب داری اور شفافیت کی بہت اہمیت ہے۔ اب تک مدعا علیہان کو غیر جانب داری اور شفافیت کا آپشن نہیں دیا گیا، جو اُن سے واضح حق تلفی کے سِوا کچھ نہیں۔ کہا گیا تھا کہ جنگی جرائم کے ٹربیونل کے قیام کا مقصد ماضی کے جرائم کو بے نقاب کرکے حقیقی مجرموں کو سزا دلانا ہے مگر اب تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا، جس سے یہ مقصد حاصل ہوتا دکھائی دیتا ہو۔ اب تک ایسا کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا جس سے یہ یقین کیا جاسکتا ہو کہ حقیقی مجرم کو سزا ملے گی اور کسی بھی بے قصور کو سزا نہیں سنائی جائے گی۔ یہ ٹربیونل کسی بھی مجرم کو سزا دینے سے زیادہ محض انتقام لینے اور چند مخصوص افراد کو سزا سنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ ٹربیونل ماضی کے جرائم پر سزا سُنانے کے لیے نہیں بلکہ چند افراد کو سزا دینے اور دوسرے بہت سے لوگوں کو بخش دینے کی نیت سے قائم کیا گیا ہے۔ معاملات کو حکومت نے اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اِس میں کامیاب بھی رہی ہے۔ اس مضمون میں جو الزامات سامنے آئے ہیں، اُن کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹربیونل کی کارروائی حکومت کی مرضی کے مطابق چلائی جاتی رہی ہے جس کے نتیجے میں شفافیت داؤ پر لگ گئی ہے۔ ایسے میں یہ توقع کرنا عبث ہے کہ انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ ٹربیونل کے ہر معاملے پر اثر انداز ہونے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ایسے میں یہ دعویٰ کیا ہی نہیں جاسکتا کہ جنہیں سزا سنائی گئی ہے، وہ واقعی اپنے کیے کی سزا پا رہے ہیں اور انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔
اگر انصاف کے تمام تقاضوں کو نبھانا ہے تو ناگزیر ہے کہ جتنے بھی مقدمات ٹربیونل میں زیر سماعت ہیں، اُنہیں اِسی مقام پر روک دیا جائے اور جو سزائیں سُنائی جاچکی ہیں، اُن پر عمل بھی روک دیا جائے۔ تمام معاملات پر نظرثانی کیے بغیر انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ممکن نہ ہوگا۔
ساتھ ہی یہ بھی ناگزیر ہے کہ جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل کو نئے سِرے سے تشکیل دیا جائے اور عالمی شہرت یافتہ بین الاقوامی ماہرین کی نگرانی میں تمام معاملات کا جائزہ لیا جائے۔ شفافیت اور غیر جانب داری یقینی بنائے بغیر انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اسی صورت جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل کو مختلف حلقوں کی تنقید سے بچایا جاسکے گا۔ ماضی کے جرائم میں ملوث افراد کو سزا دینا بہت ضروری ہے مگر انصاف کی قیمت پر نہیں۔ اگر انصاف کے تمام تقاضوں کو نبھانے میں کوتاہی برتی گئی تو بنگلا دیشی معاشرے میں مزید بگاڑ پھیلے گا۔ جو لوگ اقتدار پر قابض ہیں، وہ مزید مضبوط ہوں گے اور اُن کے ہاتھوں وہ لوگ مزید پریشانی سے دوچار ہوں گے جو پہلے ہی ناانصافی کا شکار ہیں۔
Leave a Reply