
میں وکیلِ صفائی ہوں اور اِس حوالے سے مجھے کسی ہچکچاہٹ کا سامنا ہے، نہ شرمندگی کا۔ میرے موکلین ایک رجعت پسند اسلامی جماعت کے ارکان ہیں۔ اِس حقیقت پر وہ بھی معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھتے۔
میرے موکلین پر ۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران (اُس وقت کی) پاکستانی فوج سے اشتراکِ عمل کا الزام ہے۔ جن پر یہ الزام عائد کیا گیا، اُن میں سے ایک کو پھانسی دے دی گئی ہے اور دو سینئر رہنما جیل میں انتقال کرگئے ہیں۔ پاکستانی فوج پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اُس نے آپریشن کے دوران ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا، لاکھوں خواتین سے زیادتی کی گئی اور ۱۰؍لاکھ سے زائد بنگالیوں کو بھاگ کر بھارت میں پناہ لینی پڑی۔ کتنے لوگ مارے گئے اور کتنوں کو بے گھر ہونا پڑا، اِس کا کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں۔ اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ بنگلا دیش کے قیام کی تحریک چلانے والوں نے کتنوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ یہ تعداد پر بحث کا محل نہیں۔ ہمیں اِس سے کچھ غرض نہیں کہ تیس ہزار افراد مارے گئے یا تیس لاکھ۔ اِس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ بہت بڑے پیمانے پر گھناؤنے، انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ بنگلا دیش میں سنگین جرائم کرکے چھوٹ جانے یا ہاتھ ہی نہ آنے کا کلچر چالیس سال سے پروان چڑھ رہا ہے۔
۱۹۷۱ء میں جو قتلِ عام کیا گیا، اُس سے متعلق بالکل درست معلومات کبھی سامنے نہیں آسکتیں، کیونکہ باضابطہ دستاویزی شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ سابق مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، وہ جدید تاریخ کا سیاہ ترین اور سب سے گھناؤنا باب ہے۔ اب تک پوری ایمانداری اور غیر جانبداری سے تحقیقات ہی نہیں کی گئیں۔ تین لاکھ افراد مارے گئے ہوں یا تیس لاکھ، یہ حقیقت برقرار رہتی ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا تھا اور مجرموں کو اب تک سزا نہیں دی جاسکی ہے۔
پہلی کوشش
۱۹۷۳ء میں ایک قانون منظور کیا گیا، جس کے تحت بنگلا دیش میں پہلی بار انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل قائم ہوا۔ یہ نیورمبرگ کے بعد اِس نوعیت کا دوسرا ٹربیونل تھا۔ اِس ٹربیونل کے قیام کا بنیادی مقصد بھارت میں قید اُن ۱۹۵؍پاکستانی فوجیوں پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلانا تھا، جو سابق مشرقی پاکستان میں شہریوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے براہ راست ذمہ دار تصور کیے جاتے تھے۔ جنگی جرائم کی تحقیقات سے متعلق قانون میں چند ایک واضح سُقم ہونے کے باوجود ایک نوزائیدہ ریاست میں یہ اپنی نوعیت کا بہت جرأت مندانہ اقدام تھا۔
بنگلا دیش میں جرائم کی تحقیقات سے متعلق قانون انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی سفارشات کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کم سفارشات ہی پر عمل کیا گیا۔ ایک اہم تجویز یہ تھی کہ بنگلا دیشی حکومت انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل میں غیر ملکی یعنی غیر جانبدار ججوں ہی کا تقرر نہ کرے بلکہ وکلا استغاثہ اور وکلا صفائی بھی غیر جانبدار ہونے چاہئیں۔ یاد رہے کہ بنگلا دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمن نے بھی بنگلا دیش کے قیام کے بعد اپنے ابتدائی انٹرویوز میں اس بات کی حمایت کی تھی کہ جو کچھ سابق مشرقی پاکستان میں رونما ہوا، اُس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اقوامِ متحدہ کے تحت کرائی جانی چاہیے۔ افسوس کہ وہ اپنے کہے پر عمل نہ کرسکے۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی رپورٹ کا مسوّدہ تیار کرنے والوں میں شامل پروفیسر اوٹو ٹرفٹرر سے ہم نے استدعا کی تھی کہ لیگل فریم ورک پر ایک ایکسپرٹ رپورٹ تیار کریں۔ یونیورسٹی آف سالزبرگ سے وابستہ اور انٹرنیشنل کرائمز کے ماہر پروفیسر اوٹو ٹرفٹرر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بنگلا دیش میں قائم کیا جانے والا انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیارات سے بہت نیچے کی سطح کا ہے۔ بعد میں پروفیسر ولیم شیبیز پروفیسر ٹرفٹرر کے ساتھ اِس کام میں شریک ہوئے اور اُنہوں نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا۔ یہ دونوں ایکسپرٹ رپورٹس ٹربیونل کو دے دی گئیں۔ کارروائی کے دوران ججوں اور فریقین کے وکلا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اِس کے باوجود متعلقہ قانون میں پائے جانے والے سُقم دور کرکے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کو بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ ٹربیونل نے کبھی ان ایکسپرٹ رپورٹس کا حوالہ دیا ہے، نہ اِس حوالے سے عالمی سطح پر کسی قسم کی رہنمائی پانے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگی یا انسانیت سوز جرائم سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو سمجھنے اور برتنے میں بنگلا دیش انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے ججوں اور فریقین کے وکلا کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیشی حکومت اور ٹربیونل دونوں ہی کی یہ بھرپور کوشش رہی ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی ایکسپرٹ اِس ٹربیونل کے سامنے پیش نہ ہو۔
بنگلا دیش کے وکلا بین الاقوامی جرائم کے حوالے سے کس سوچ کے حامل ہیں اور اُن کا اِدراک کہاں تک کام کرتا ہے، اِس کا اندازہ لگانے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے۔ ایک بار ٹربیونل کے ایک جج نے استغاثہ کے ایک وکیل سے پوچھا کہ دو ایک ہی جیسے واقعات میں اُنہوں نے ایک کو ’’قتلِ عام‘‘ اور دوسرے کو ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ کیوں قرار دیا تو اُس نے کہا کہ اگر کسی ایک انسان کو قتل کیا جائے تو یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے اور اگر ایک سے زائد افراد قتل کیے جائیں تو اِسے قتلِ عام کہا جائے گا! اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلا دیش میں انتہائی سنگین جرائم کے حوالے سے پائے جانے والے بین الاقوامی تصورات کا کس قدر کم فہم پایا جاتا ہے۔ اِس ایک مثال سے واضح ہوجانا چاہیے کہ انٹرنیشنل کرمنل لا کے بنیادی تصورات کو سمجھنے کے لیے بنگلا دیش کو غیر ملکی اور وسیع تجربے کے حامل ماہرین کی کس قدر ضرورت ہے۔ بنگلا دیش میں انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل جس طور کام کرتا رہا ہے، اُس کے بارے میں ڈوٹی اسٹریٹ چیمبر کے جیوفرے رابرٹسن کی رپورٹ بہت اہم ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے لیے غیر ملکی اور غیر جانبدار ججوں کا تقرر لازم ہے کیونکہ ملک کے اندر سے مقرر کیے جانے والے جج قومی حمیت کے جوش کی لہر میں بہہ گئے ہیں اور قانون کے اُصولوں پر خاطر خواہ توجہ دینے میں ناکام رہے ہیں۔
۱۹۷۳ء میں بنگلا دیش میں اُن ۱۹۵؍پاکستانی فوجیوں کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا جو بھارت کی قید میں تھے۔ مگر بعد میں بھارت اور پاکستان کے درمیان امن معاہدے کے تحت یہ فوجی بھی رہا کر دیے گئے۔ پاکستان نے یقین دلایا تھا کہ اِن ۱۹۵؍فوجیوں کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی مگر بعد میں کسی بھی پاکستانی عدالت میں اِن پر کوئی بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
شیخ مجیب الرحمن نے کہا تھا کہ بنگالی معاف کرنے والی قوم ہے، اِس لیے سب کچھ بھلا دیا جائے گا، معاف کردیا جائے گا۔ مگر وقت نے کچھ اور ثابت کیا ہے۔ پہلے تو ۱۹۷۵ء میں شیخ مجیب الرحمن کو اہل خانہ سمیت ہلاک کردیا گیا۔ اِس کے بعد اقتدار کی ایسی جنگ شروع ہوئی، جس میں کسی نے کسی کو معاف نہیں کیا۔ فوج نے حکومت کرنے کی ٹھان لی اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یہ کشمکش اب تک جاری ہے۔ ایسے میں انسانیت سوز مظالم اور جرائم کے خلاف تحقیقات کا معاملہ کہیں دب کر رہ گیا ہے۔
دوسری کوشش
بنگلا دیش کی موجودہ حکومت نے ۲۰۰۸ء کی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے تک لاکر سزا دلائی جائے گی۔ ۲۰۰۹ء میں نویں پارلیمان کے پہلے سیشن میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کا بنیادی مقصد جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے ایک سویلین کورٹ کا قیام تھا۔ اسی سے انٹرنیشنل کرائمز کورٹ ایکٹ مجریہ ۱۹۷۱ء میں ترمیم کی راہ ہموار ہوئی۔ اور پھر ۲۵ مارچ ۲۰۱۰ء کو پہلا انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل قائم کیا گیا۔
ٹربیونل کی کارروائی کے جو قواعد و ضوابط ۱۵؍جولائی ۲۰۱۰ء کو منظور کیے گئے، اُن کا اطلاق ۲۵ مارچ ۲۰۱۰ء سے کیا گیا۔ بنگلا دیشی حکومت نے عالمی برادری کے تحفظات دور کرنے کے لیے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل ایکٹ میں کچھ ترامیم کی ہیں مگر اب بھی اِن ترامیم کو ناکافی قرار دیا جارہا ہے۔ عالمی برادری کی عمومی رائے یہ ہے کہ بنگلا دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معیارات سے ہم آہنگ نہیں۔ جیوفرے رابرٹس نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ جو کچھ کیا گیا ہے، وہ اس ٹربیونل کو بین الاقوامی شکل دینے کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔
بنگلا دیش کے موجودہ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کو پارلیمان سے منظور شدہ قانون کے مطابق قائم کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی پارلیمان کا معاملہ ہے جسے نسلی تطہیر اور انسانیت سوز جنگی جرائم سے متعلق کوئی بھی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ اِس حوالے سے بین الاقوامی قوانین موجود ہیں، جن کی روشنی میں مقدمات چلاکر سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ بنگلا دیش میں انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے قیام کے بعد ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۱ء میں آٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے بیشتر کو طویل مدت تک کوئی بھی الزام عائد کیے بغیر قید رکھا گیا۔
بنگلا دیش میں ۲۲ مارچ ۲۰۱۲ء کو ایک اور انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ٹربیونل نے ۲۵ مارچ سے کام شروع کیا۔ ۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو بنگلا دیشی حکومت نے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل ایکٹ کا ایک اور مسوّدہ منظور کیا جس کے تحت مقدمات کو ایک ٹربیونل سے دوسرے میں منتقل کرنا آسان اور قانونی بنا دیا گیا۔ پہلے ٹربیونل سے چار مقدمات دوسرے ٹربیونل میں بھیجے گئے ہیں۔ دوسرے ٹربیونل کے لیے جو قواعد مرتب کیے گئے ہیں، اُن میں اور پہلے ٹربیونل کے لیے مقرر کیے گئے قواعد میں غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے۔
بنگلا دیش نے اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے جو نیم دلانہ کوشش کی تھی، اس کی ناکامی سے اُسے خاصی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ عالمی برادری نے بھی اِس کوشش کو قبول نہیں کیا۔ پھر اِس محاذ پر ۳۹ سال تک خاموشی رہی۔ اب ایک بار پھر جنگی جرائم کی تحقیقات کا غلغلہ بلند ہوا ہے تو حکومت نے پوری کوشش کی ہے کہ بین الاقوامی معیارات کو اپنایا جائے اور ہر اعتبار سے جامع تحقیقات کے ذریعے حقیقی مجرموں کو سزا دی جائے۔
انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے قیام کا بنیادی مقصد اُن لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے جنہوں نے ۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس معاملے میں شفافیت اور جامعیت کا خیال رکھا جانا لازم ہے۔ ایسا نہ کیے جانے کی صورت میں جانبداری یا ناانصافی کا الزام عائد کیا جانا فطری امر ہے۔ ٹربیونلز کا فرض ہے کہ جنگی یا انسانیت سوز مظالم و جرائم کی تحقیقات کے سلسلے میں تمام مروّجہ طریقوں سے کام لیں، حقیقی مجرموں کا تعین کریں اور اِس بات کی بھرپور کوشش کریں کہ کسی بھی بے قصور کو سزا نہ ملے۔ اب تک تو یہ بھی واضح نہیں کہ جماعت اسلامی اور اُس کی طلبہ تنظیم کے خلاف فردِ جرم کس بنیاد پر عائد کی جانی چاہیے۔ اُنہوں نے سیاسی پوزیشن کی بنیاد پر جو کچھ کیا، اُس کی بنیاد پر اُن کے خلاف فردِ جرم عائد کرنا ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی اور اُس کی طلبہ تنظیم نے ۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے خلاف پاکستانی فوج کا ساتھ دیا جو فطری امر تھا۔ اُن کے خلاف جنگی یا انسانیت سوز جرائم کی پاداش میں مقدمہ صرف اِس صورت میں چلایا جاسکتا ہے، جب یہ ثابت کردیا جائے کہ اُنہوں نے واقعی اِن جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ متعلقہ ٹربیونلز کے نافذ کردہ قانون میں مقدمہ اِسی طور چلائے جانے کی گنجائش ہے۔ اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم کے جو مقدمات چلائے جارہے ہیں، وہ متعلقہ قانون کے تحت کسی بھی اعتبار سے درست قرار نہیں دیے جاسکتے۔
بنگلا دیشی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ جنگی جرائم کے مقدمات ہر اعتبار سے بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہیں اور اِس سلسلے میں سیاست کا کوئی کردار نہیں۔ دوسری طرف مدعا علیہان، جن کی طرف سے میں بھرپور کردار ادا کرتا رہا ہوں، یہ کہتے آئے ہیں کہ جو کچھ بھی ان مقدمات کے نام پر کیا جارہا ہے، وہ سیاست سے پاک نہیں یعنی سیاسی انتقام اِن مقدمات کا بنیادی مُحرّک ہے۔ عالمی دنیا مجموعی طور پر یہی سمجھتی ہے کہ بنگلا دیش کی حکومت جنگی جرائم کی تحقیقات کے نام پر غیر معیاری طریقِ کار اپنائے ہوئے ہے اور یہ معاملہ بہت حد تک سیاسی انتقام ہی کا ہے۔ تنازع کی نوعیت خواہ کچھ ہو اور ۱۹۷۱ء میں بے انتہا مظالم بھی ڈھائے گئے ہوں، تب بھی مقدمات کے لیے غیر معیاری طریقِ کار اپنایا نہیں جاسکتا۔
بین الاقوامی حمایت
بنگلا دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل مکمل طور پر ایک قومی ادارہ ہے، جو قومی قانون کے تحت معرضِ وجود میں لایا گیا ہے۔ اِسے کسی بھی اعتبار سے بین الاقوامی نوعیت کا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنگلا دیش کئی عالمی یا بین الاقوامی معاہدوں کا پابند ہے مگر پوری کوشش کی گئی ہے کہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کے حوالے سے قائم کیے جانے والے اس ٹربیونل کی کارروائی میں کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا کچھ خیال نہ رکھا جائے۔ اس ٹربیونل کے نام میں لفظ ’’انٹرنیشنل‘‘ کے استعمال کی غایت اس ٹربیونل کو بین الاقوامی بنانا نہیں، بلکہ اُن جرائم کا ہے جو عالمی سطح پر انسانیت کے خلاف تصور کیے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک اِس ٹربیونل میں کسی بھی مدعا علیہ پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا دانستہ کیا گیا ہے، کیونکہ بنگلا دیشی حکومت جانتی ہے کہ جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کرنے کی صورت میں یہ ٹربیونل بین الاقوامی نوعیت اختیار کرجائے گا اور یوں بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری بھی کرنی پڑے گی۔ فی الحال بنگلا دیشی حکومت ایسا کرنے کے موڈ میں نہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ عالمی برادری نے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب تک کئی بار قانونی اور دیگر امور میں مدد کی پیشکش کی گئی ہے، مگر بنگلا دیشی حکومت نے کسی بھی پیشکش پر غور کرنے اور اُسے قبول کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ۲۰۰۹ء میں اقوام متحدہ نے بھی اس ٹربیونل کے لیے بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی مدد کی پیشکش کی، مگر بنگلا دیشی حکومت راضی نہ ہوئی۔ اقوام متحدہ چاہتی تھی کہ اپنے ترقیاتی پروگرام کے ذریعے تکنیکی مدد بھی فراہم کرے، مگر اب کہا جارہا ہے کہ ایسی ہر پیشکش اقوام متحدہ نے پاکستان اور فرانس کے دباؤ پر واپس لے لی۔ اب تک پاکستان اور فرانس نے اس حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض افواہ ہی ہو۔ اس حقیقت سے بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی بھی بین الاقوامی نوعیت کا مقدمہ چلائے جانے کی صورت میں پاکستان کو بھی اعتراضات ہوسکتے ہیں اور اُس کے لیے نقصان کا پہلو بھی برآمد ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق، انٹرنیشنل سینٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس، انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن وار کرائمز کمیٹی اور امریکی محکمہ خارجہ کے آفس آف دی گلوبل کرمنل جسٹس نے بھی تکنیکی معاونت کی پیشکش کی۔ بنگلا دیشی حکومت نے کسی بھی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ انکار بنگلا دیش کی طرف سے ہوا یا پھر بین الاقوامی طاقتوں نے اِس سلسلے میں کوئی دباؤ ڈالا۔ سبب خواہ کچھ رہا ہو، حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی کارروائی متعلقہ اور موزوں تربیت کے بغیر ہی شروع کردی گئی۔ ایک آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار ٹربیونل کی حیثیت سے کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے مطلوب وسائل کا بھی اہتمام نہیں کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۲۰۰۳ء میں قرارداد نمبر ۱۵۰۳؍منظور کی تھی، جس کے تحت سابق یوگو سلاویہ میں ہونے والے جنگی جرائم کے حوالے سے مقدمات چلانے کے لیے انٹرنیشنل کرمنل ٹربیونل قائم کیا گیا تھا۔ اِس ٹربیونل کے ساتھ ہی یورپی یونین، امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی طاقتوں کے مالی اور تکنیکی تعاون سے بوسنین وار کرائمز چیمبر کے نام سے ایک بین الاقوامی عدالت بھی قائم کی گئی تھی۔ اس ٹربیونل اور عدالت کے قیام میں دو سال لگے۔ عدالت کی عمارت، حراستی مرکز، ججوں اور وکلا کی تربیت اور دیگر امور کا خاص خیال رکھا گیا۔ متعلقہ قوانین کے مطالعے اور اُن سے کماحقہٗ مستفید ہونے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ لندن، دی ہیگ اور افریقی ملک سیئرا لیون میں جنگی جرائم کے ٹربیونلز کے مطالعاتی دورے بھی کیے گئے۔ بہت سے ماہرین کے نزدیک قومی اور بین الاقوامی سطح پر انصاف کی فراہمی کے حوالے سے بوسنیا کا ماڈل بہت معیاری ہے اور جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف مظالم کے حوالے سے اِس ماڈل کے مطابق کام کیا جاسکتا ہے۔
بنگلا دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی دعوت پر میں نے اکتوبر ۲۰۱۰ء میں پہلی بار انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن وار کرائمز کمیٹی کے سربراہ اسٹیون کے کیوسی کے ساتھ بنگلا دیش کا دورہ کیا تھا۔ ہم نے ڈھاکا میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف مظالم کے حوالے سے بریفنگ دی تھی، تاکہ متعلقہ ٹربیونل کی کارروائی کے حوالے سے پایا جانے والا ابہام دور ہوسکے اور غلط فہمیوں کو رفع کیا جاسکے۔
اسٹیون کے اور میں نے ٹربیونل کی عمارت کا دورہ کیا، جہاں رجسٹرار اور تین ججوں سے ملاقات ہوئی۔ رجسٹرار اب دوسرے ٹربیونل میں جج ہیں اور پہلے ٹربیونل کے تین ججوں میں سے اب ایک بچا ہے۔ ہم وہاں چند چیزیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ سب سے پہلے تو ہمیں عمارت پر حیرت ہوئی۔ جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے ایسی عمارت درکار ہوتی ہے جس میں عدالتی عملے، ملزم، وکلا اور کمرۂ عدالت میں موجود عام افراد کی سکیورٹی کا بھرپور اہتمام کیا گیا ہو۔ سب سے بڑھ کر گواہوں کو سکیورٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بین الاقوامی نوعیت کے مقدمات کے لیے جن تکنیکی پہلوؤں پر دھیان دینا ناگزیر ہوتا ہے، اُن پر بھی دھیان نہیں دیا گیا۔ فی زمانہ تکنیکی ترقی اس قدر ہوچکی ہے کہ اب کسی بھی جدید سہولت کا اہتمام کرنا کوئی بہت بڑا ٹاسک نہیں۔ تھوڑی سی توجہ سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ججوں نے اعتراف کیا کہ ان کے چیمبر میں بین الاقوامی جنگی مقدمات سے متعلق کوئی بھی کتاب یا مواد موجود نہیں۔ بنگلا دیشی حکومت جنگی جرائم کے جو مقدمات چلانا چاہتی تھی، اُن کے لیے متعلقہ قوانین اور نظائر کا ہونا لازم ہے۔ بین الاقوامی قوانین سے متعلق کوئی بھی لائبریری قائم نہیں کی گئی تھی۔ ججوں کے لیے قانونی اور تکنیکی امور پر معاونت کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ قانونی معاونین اور محققین کی خدمات دستیاب نہ تھیں۔ ججوں کو اس نوعیت کے مقدمات کا کوئی تجربہ تھا، نہ اُنہیں اِس سلسلے میں لازمی تربیت دی گئی تھی۔ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انتہائی حساس نوعیت کے مقدمات کی کارروائی شروع کرنے کے لیے کوئی بھی موزوں تیاری نہیں کی گئی تھی۔ پہلے دورے میں ہم نے استغاثہ کے وکلا اور تفتیش کاروں سے ملاقات نہیں کی تھی۔ ویسے میرا اندازہ ہے کہ وہ بھی تیاری کے اعتبار سے اُسی مرحلے میں ہوں گے، جس میں جج اور اُن سے جُڑا ہوا عملہ تھا۔ ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی کہ عدالتی عملے، ججوں، وکلا اور تفتیش کاروں پر عوامی لیگ کی حکومت نے بہت زیادہ بوجھ لاد دیا تھا اور وہ مقدمات کی کارروائی کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ کی زد میں تھے۔ محسوس کیا جاسکتا تھا کہ عوامی لیگ کی حکومت اِس معاملے میں ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
ہماری اس رائے سے بہت سے لوگوں نے مکمل اتفاق کیا کہ جنگی جرائم کے حوالے سے ججوں، استغاثہ کے وکلا اور تفتیش کاروں کو وہ قانونی اور تکنیکی مدد مل نہیں پائے گی، جس کی اُنہیں اشد ضرورت ہے۔ اُنہیں لاجسٹک سپورٹ بھی درکار تھی، جس کے ملنے کا کوئی امکان دکھائی نہ دیتا تھا۔ مدعا علیہان کو ۹ بیڈفورڈ را انٹرنیشنل سے بین الاقوامی قانون کے ماہرین کے گروپ کی خدمات حاصل تھیں۔ میں بھی اِس گروپ کا حصہ تھا۔ اِس ٹیم کے سربراہ اسٹیون کے کیوسی تھے، جو بین الاقوامی قوانین کے میدان میں قائد کا درجہ رکھتے تھے۔ ہماری ٹرائل ٹیم کے رابطہ کار جان کیمیگ تھے، جو سیئرا لیون کی سپریم کورٹ میں بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔ میری ذمہ داری لیگل اور لابنگ اسٹریٹجی ترتیب دینے کی تھی۔ ہمیں ایسے جونیئرز کی معاونت حاصل تھی، جو انتہائی باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونلز کے لیے کام کرنے کا تجربہ رکھتے تھے۔ ججوں اور پراسیکیوٹرز کو یکساں نوعیت کی معاونت حاصل ہونے کی بات درست تھی۔ جو اَب تک باضابطہ طور پر وکلا تو قرار نہیں دیے گئے، مگر یہ حقیقت ہے کہ تفتیش کار اور لابسٹس ججوں، پراسیکیوٹرز اور حکومتوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
“Alice in wonderland”.
(“mwcnews.net”. December 21, 2014)
Leave a Reply