
ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ میں یہ ایک عدیم المثال واقعہ ہے کہ ایک اراضی کی ملکیت سے متعلق مقدمے کا فیصلہ ہونے میں ۶۰ سال کا طویل عرصہ لگا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کی خصوصی سہ رکنی بنچ نے رام جنم بھومی۔ بابری مسجد کے تنازعے سے متعلق حق ملکیت مقدمات کی طویل سماعت کے بعد ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو فیصلہ صادر کیا۔ یہ فیصلہ عدلیہ کی تاریخ میں اس لحاظ سے ایک منفرد اور انوکھا فیصلہ ہے کہ معزز عدالت نے اپنی لامتناہی دانش میں حق ملکیت کے اصل مقدمے کو عملاً ناقابل اعتناء سمجھتے ہوئے مدعی کے ٹھوس دلائل و شواہد کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے محض تکنیکی بنیاد پر خارج کر دیا اور ’’نفس مقدمہ‘‘ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عملاً مصالحت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے اراضی کے تینوں دعویداروں میں مساویانہ تقسیم کا فیصلہ صادر فرمایا۔
اس امر کے پیشِ نظر کہ ہر دو فریق اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں اور دونوں نے عدالت عظمیٰ سے رجوع ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے نافذ ہونے کے امکانات موہوم نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ اس لحاظ سے انتہائی تشویشناک اور دوررس نتائج کا حامل ہے کہ معزز عدالت نے قانون کے تسلیم شدہ اصولوں کے مغائر محض روایتی قصے پر مبنی عقیدے کی بنیاد پر مقدمے کے ایک فریق کے دعوے کو بغیر قابل فہم دلائل و شواہد کے حق بجانب قرار دیا۔ مشہور قانون داں راجیو دھون کے الفاظ میں ’’یہ ایک پنچایت قسم کا انصاف ہے جو مسلمانوں سے ان کے قانونی حقوق چھینتا ہے اور ہندوئوں کے اخلاقی و جذباتی دعوئوں کو قانونی حقوق میں تبدیل کرتا ہے‘‘۔ (حوالہ روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ یکم اکتوبر۲۰۱۰ء)
فیصلے کے خلاصے کے مطالعہ کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تینوں معزز ججوں نے اپنی لامتناہی دانش میں (ASI) یا محکمہ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ کے تنقیدی جائزے کو قطعی ضروری نہیں سمجھا اور نہ صرف یہ بلکہ رپورٹ کو اپنے فیصلے کے لیے ٹھوس بنیاد بنایا جبکہ مشہور و معتبر تاریخ دانوں میں پانیکر، رومیلا تھاپر، عرفان حبیب اور زویاحسن کے مطابق ’’ASI کی رپورٹ فریب دہی پر مبنی دعوئوں سے پُر ہے کیونکہ کھدائی کے دوران کوئی ستون نہیں پائے گئے اور ستونوں کی بنیادوں کے پائے جانے کا دعویٰ ماہرین آثار قدیمہ کے درمیان بحث کا موضوع ہے‘‘۔ (حوالہ روزنامہ ’’دکن ہیرالڈ‘‘ ۲؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء)
بنچ کے سینئر ترین جج جسٹس ایس یو خان نے اپنے فیصلے کے لیے جن وجوہات کو بنیاد بنایا ان میں سے ایک وجہ خود ان کے اپنے فیصلے سے متصادم نظر آتی ہے۔ انہوں نے کرناٹک بورڈ آف وقف بمقابلہ حکومت ہند کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی رولنگ کا حوالہ دیا جس کی رو سے ’’کسی ایسے دیوانی مقدمے میں جس میں اراضی کی ملکیت کا تعین کرنا ہو، تاریخی حقائق اور دعوئوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن خود اسی رولنگ کے برعکس معزز جج نے ہندوئوں کے روایتی قصے پر مبنی عقیدے کو منہدم شدہ مسجد کے وسطی گنبد کے عین نیچے واقع جگہ کورام چندرجی کی جائے پیدائش قرار دینے کے لیے بنیاد بنایا! یہ امر ان کے فیصلے کی موزونیت کو فہم سے بالاتر بناتا ہے۔
معزز جج جسٹس سدھیر اگروال نے یہ تو واضح کیا کہ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو منہدم کی گئی عمارت مسجد تھی لیکن انہوں نے بھی ASI کی رپورٹ کو جوں کا توں قبول کرتے ہوئے یہ تحریر کیا کہ مسجد پہلے سے موجود مندر کو منہدم کر کے تعمیر کی گئی تھی اور یہ کہ مرکزی گنبد کے نیچے جہاں ۲۲ اور ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی رات مورتیاں رکھی گئی تھیں وہی رام چندر جی کی جائے پیدائش ہے جیسا کہ ہندو عقیدہ رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اراضی کی مساویانہ تقسیم کی تائید کی۔
جہاں تک جسٹس دھرم ویر شرما کا تعلق ہے انہوں نے تو قانون کے تسلیم شدہ اصولوں کو یکسر فراموش کرتے ہوئے روایتی قصے پر مبنی عقیدے کو کُلّی طور پر فیصلے کی بنیاد بناتے ہوئے عدلیہ کی تاریخ میں ایک نہایت تشویشناک اور تباہ کن نظیر قائم کی۔ اگرچہ دیگر دو معزز ججوں نے بھی قانون کے تسلیم شدہ اصولوں کے مغائر موقف اختیار کیا لیکن جسٹس ڈی وی شرما نے روایتی قصے پر مبنی ہندوئوں کے عقیدے کی نہایت عجیب فلسفیانہ توضیح کرتے ہوئے جائے پیدائش کو (Juristic person) یا قانونی اصطلاح میں ایک ’’شخصیت‘‘ قرار دیتے ہوئے ہندوئوں کے عقیدے کو کُلّی طور پر بنیاد بنا کر نہ صرف منہدم کی گئی مسجد کے وسطی گنبد کے عین نیچے واقع جگہ کو رام چندر جی کی جائے پیدائش قرار دیا بلکہ جائے پیدائش کو ’’دیوتا‘‘ کا درجہ دے دیا جبکہ مسلمانوں کے بلاشرکت غیرے اراضی کے مالک ہونے کے مدلل دعوے کو محض تکنیکی بنیاد پر یکسر خارج کر دیا۔
اگر جسٹس ڈی وی شرما کے مطابق منہدم کی گئی مسجد کے وسطی گنبد کے عین نیچے واقع جگہ کو ’’رام چندرجی کی بچے کی حیثیت سے پیدا ہونے کی جگہ‘‘ تسلیم کر لیا جائے تو پھر دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج راجندر سچر کے بقول جیسا کہ انہوں نے روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ میں شائع اپنی ایک تحریر میں رقم کیا تھا کہ ’’کسی شخص کی کسی مخصوص جگہ پیدائش کامعاملہ عقیدے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کو ثابت کیا جانا چاہیے اور ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ اس کو ثابت کیا جاسکے‘‘۔ اس حقیقت پسندانہ رائے کے علاوہ ایک دلچسپ انکشاف جو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی بنیاد یعنی رام چندرجی کی جائے پیدائش سے متعلق ہندوئوں کے روایتی عقیدے کی نفی کرتا ہے وہ ملک کے ایک معتبر سیاستدان اور ایک اہم سابق مرکزی وزیر کا ہے جو انہوں نے ایک جلسۂ عام (جس میں راقم موجود تھا) سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا وہ یہ کہ ’’برہمنوں میں یہ رواج ہے کہ پہلے بچے کی پیدائش کے لیے حاملہ خاتون میکہ جاتی ہے اور رام چندرجی کی ماں کیگئی کا میکہ پٹیالہ (پنجاب) تھا‘‘۔
اب یہ بات طے شدہ ہے کہ اس مقدمے کا مسلم فریق یعنی سنی سینٹرل وقف بورڈ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے گا جہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ قابل اور وسیع تجربہ کے حامل وکلاء کے ذریعہ مسلمانوں کے موقف کو ٹھوس دلائل و شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے وہیں اس دوران اگر فریق مخالف کسی مصالحت کی پیشکش کرتا ہے تو باوقار سمجھوتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اراضی کا وہ مکمل حصہ جہاں مسجد تھی مسلمانوں کے حصے میں آئے جیسا کہ مشہور وکیل راجیو دھون نے رائے ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق اگر یہ حل (الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ) مستقل حیثیت اختیار کرتا ہو تو مسلمانوں کے لیے اراضی کا وہ حصہ (جہاں مسجد تھی) صحیح و سالم چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
جب مسئلہ معزز سپریم کورٹ سے رجوع ہوگا تو ہندوستانی مسلمانوں کا یہ ایقان ہے کہ وہ قانون کے تسلیم شدہ اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے منصفانہ انداز میں فیصلہ کرے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۱۲ ؍اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply