
علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء۔۱۹۳۸ء) برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کے سب سے عظیم مفکر اور شاعرِ اسلام ہیں۔ انھوں نے انیسویں صدی عیسوی کے ربع آخر کے جس ماحول میں آنکھ کھولی، اسلامی ممالک بہت حد تک استعماری قوتوں کے نخچیر بن چکے تھے۔ ترکان عثمانی اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروفِ کار تھے مگر بالآخر وہ بھی جنگِ عظیم اوّل کے بعد اپنی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکے اور یوں مسلم اتحاد کی سیاسی زنجیر کی آخری کڑی بھی اپنے ضعف کے باعث ٹوٹ گئی۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہین کا جگر پیدا
عالمِ اسلام اور ملتِ اسلامیہ کی اس صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اقبال نے جس مخصوص اسلوب اور تجزیے کے بعد راہِ عمل تجویز کی، اس کی تفصیلات ’’اسرارِ خودی‘‘ (۱۹۱۵ء) اور ’’رموزِ بیخودی‘‘ (۱۹۱۸ء) میں نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ انھوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلمانوں میں حریت، بیداری اور جہاد کی فکر پیدا کرنے کے لیے اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں خودی اور بیخودی کے تصور کو پیش کیا۔ احساسِ خودی کے ذریعہ وہ فرد کو مخاطب کرتے ہیں اور اس میں ایمان و عمل کی سرشاری پیدا کرتے ہیں۔ تصورِ بیخودی میں وہ فرد سے آگے بڑھ کر کتاب ملت بیضا کی شیرازہ بندی کرتے ہیں۔ اسرارِ خودی کی ابتدا ہی میں اقبال یوں گویا ہیں:
ساقیا بر خیز و مے در جام کن
محو از دل کاوشِ ایام کن
می کند اندیشہ را ہشیار تر
دیدۂ بیدار را بیدار تر
اعتبار کوہ بخشد کاہ را
قوت شیراں دہد روباہ را
خاک او اوجِ ثریا میدہد
قطرہ را پہنائے دریا میدبد
خامشی را شورشِ محشر کنند
پائے کبک از خونِ باز احمر کند
’’اے ساقی! اٹھ اور میرے پیالے میں وہ شراب انڈیل دے جو دل سے زمانے کی تکالیف کو دور کر دے۔
ایسی شراب فکر میں اور تیزی پیدا کر دیتی ہے اور جو آنکھ پہلے ہی بیدار ہو، اُس میں مزید بیداری پیدا کر دیتی ہے۔
یہ تنکوں کو پہاڑ کا وقار عطا کرتی ہے اور لومڑی کو شیروں کی طاقت بخشتی ہے۔
اس کی خاک کو ثریا کی بلندی بخشتی ہے اور قطرے کو سمندر کی وسعت دیتی ہے۔
یہ خاموشی کو قیامت کے شور میں بدل دیتی ہے اور چکور کے پنجے کو باز سے لڑا دیتی ہے‘‘۔
یوں ’’اسرارِ رموز‘‘ کا مطالعہ کریں تو اس کا مجموعی تاثر فرد کو غلامانہ ذہنیت سے چھٹکارا دلا کر اس میں ایک نشۂ جہاد پیدا کرنا ہے اور اسے عزم و یقین کی دولت سے مالا مال کرنا ہے۔ فکرِ اقبال کی اس عسکریت اور جہادی روح کا یہ نتیجہ نکلا کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد مسلمانوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا اور پھر مراکش سے ملائیشیا تک آزادی کی ایک لہر پیدا ہو گئی جس کے لیے اقبال نے بجا طور پر یہ پیغام دیا تھا:
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زبان تو ہے
یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
یہ نکتہ سرگزشتِ ملتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسبان تو ہے
سبق پڑھ پھر صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ اقبال کی شعری اور نثری تخلیقات کا بالاستیعاب مطالعہ کریں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے عروقِ مردہ میں تازہ خون کی گردش دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے قرآنِ مجید کا جس گہرائی سے مطالعہ کیا اور پیغمبرِ اسلامﷺ سے جس محبت و عقیدت کا والہانہ اظہار کیا ہے، اس کے باعث وہ اس رمز سے آشنا ہو چکے تھے کہ مسلمان کی زندگی اعلاے کلمۃ الحق اور غلبۂ دین کے لیے ہے جس کے لیے جِہاد فی سبیل اﷲ کا شعور ناگزیر ہے۔ یہ جِہاد اپنے اوّل قدم پر دعوتی، علمی، لسانی، مالی اور قلمی نوعیت کا ہے مگر اس کا ایک پہلو جانی بھی ہے جس کا منتہیٰ شہادت ہے۔ آپؐ کی بعثت و نبوت کے ابتدائی تیرہ برس مکہ مکرمہ میں گزرے، ان برسوں میں جہاد کی نوعیت دعوتی اور تبلیغی ہے اور جہاد باللسان، جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی صورتیں سامنے آتی ہیں۔ مگر جب ہجرت کے بعد آپؐ مدینہ تشریف لے جاتے ہیں تو پھر فتنے کی سرکوبی اور نوزائیدہ اسلامی ریاست کے دفاع کے لیے مختلف قسم کے دفاعی، انتظامی، جنگی اور عسکری انتظامات بھی کیے۔ اسلامی ریاست کے استحکام اور اعلاے کلمۃ الحق کے لیے کی جانے والی جدوجہد خواہ اس کا تعلق کسی بھی پہلو سے ہو، جہاد کہلائے گی۔ کیا تاریخِ عالم میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی ایسی تہذیب موجود ہے جس کے ہاں تعلیم و تدریس، تزکیۂ نفس اور زیر دستوں، غلاموں اور محروموں کی مدد کو بھی جہاد قرار دیا گیا ہو۔ اسلام میں تلوار اور تیر و تفنگ کا استعمال محض جوع الارض اور مالِ غنیمت حاصل کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ ریاستی استحکام، دعوتی نظام اور امنِ عام کے برقرار رکھنے کے لیے ہے۔ اقبال کتاب و سنت کے گہرے اِدراک کے باعث جہاد و قتال کی تمام ضرورتوں کو بخوبی سمجھتے تھے اور اس کا اظہار ان کی نظم و نثر ہر دو میں ہوا ہے۔ ان کے مجموعۂ کلام بالِ جبریل میں ’’طارق کی دعا۔۔۔ اندلس کے میدانِ جنگ میں‘‘ کا پہلا بند لائقِ توجہ ہے:
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے
عسکری مہمات اور جِہادی معرکوں میں ایک مردِ مجاہد کی سوچ کیا ہو سکتی ہے اور وہ اپنے مقاصد کی باز آفرینی کے لیے کیسے جذبات کا اظہار کرتا ہے، اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے کیسا راستہ انتخاب کرتا ہے کہ اسے واپسی کے اسباب و وسائل کو ضائع کرنے میں بھی کوئی دریغ نہیں ہوتا، علامہ اقبال نے ان عزائم کی تصویر کشی اپنے ایک مختصر فارسی قطعہ میں یوں کی ہے:
طارق چو برکنارۂ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار تو بہ نگاہِ خرد خطاست
دوریم از سوادِ وطن باز چوں رسیم؟
ترک سبب زروئے شریعت کجا رو است
خندید و دستِ خویش بہ شمشیر برد و گفت
ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست
’’طارق نے جب ساحلِ اندلس پر اپنی کشتیاں جلا ڈالیں تو اس کے ہمراہیوں نے کہا کہ:
تیرا یہ کام عقل و شعور کے لحاظ سے غلط ہے۔
ہم اپنے وطن کی سرزمین سے بہت دور ہیں، واپس کیسے پہنچیں گے؟
شریعت میں اسباب کو ترک کرنے کی اجازت کہاں ہے؟
طارق مسکرایا اور اس نے اپنا ہاتھ تلوار کے قبضے پر رکھا اور یوں گویا ہوا:
ہر ملک ہماری مِلک میں ہے کیونکہ ہمارے خدا کا ملک ہے‘‘۔
اقبال کے نکتہ رس اور نکتہ سنج ذہن میں جِہاد کے بارے میں ایک عجیب خیال ملتا ہے۔ حضرت جابرؓ کی ایک روایت میں رسولِ کریمﷺ نے اپنے پانچ مفاخر خود گنوائے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میرے لیے تمام روئے زمین کو مسجد اور پاکیزہ بنا دیا گیا ہے جو جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ (وجعلت لی الارض مسجد وطھوراً فایما رجل من امتی ادرکتہ الصلوۃ فلیصل)
اقبال بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ روئے زمین اگر مسجد کی طرح پاکیزہ ہے تو پھر اس پر کسی ناپاک اور نجس آدمی کا قبضہ یا غلبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یوں انھوں نے قرآنِ مجید کی ان تمام آیات کی ایک عملی تفسیر بھی بیان کر دی ہے کہ غلبۂ اسلام سے کیا مراد ہے۔ مسجد امن اور عبادت کا مرکز ہے لہٰذا امنِ عالم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ روئے زمین کو حقیقتاً مسجد کا درجہ مل جائے۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں پر جہاد لازم ہے اور انھیں اپنی صفوں میں ایک ترتیب اور تنظیم قائم کرنا چاہیے جس کا بہترین نقشہ اور اسوہ ہمیں رسول اﷲﷺ کی سیرتِ طیبہ سے ملتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
مومناں را گفت آں سلطانِ دیںؐ
مسجد من ایں ہمہ روئے زمیں
الاماں از گردشِ نہ آسماں
مسجد مومن بدست دیگراں
سخت کوشد بندۂ پاکیزہ کیش
تا بگیرد مسجد مولائے خویش
’’رسولِ کریمﷺ نے مومنوں سے فرمایا کہ میرے لیے تمام روئے زمین کو مسجد بنا دیا گیا ہے۔
نو آسمانوں کو گردش سے اﷲ تعالیٰ محفوظ رکھے کہ مومن کی مسجد (روئے زمین) دوسروں کے قبضے میں ہے۔
اے پاکیزہ نفس انسان تجھے سخت جدوجہد کرنا چاہیے تاکہ تو اپنے آقاؐ کی مسجد حاصل کر سکے‘‘۔
علامہ اقبال تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے داعی اور مفکر تھے۔ انھوں نے جہاں اپنی انقلابی شاعری میں حرکت و عمل کا پیغام دیا ہے، وہاں اپنے خطبات میں اساسیات اسلام کے فکری اور فلسفیانہ مباحث کے لیے ایک سائنٹی فک استدلال وضع کیا ہے۔ وہ قرآنِ مجید کے مطالعہ سے جِہاد اور قتال کی تمام تعلیمات اور مراحل سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان کے کلام میں حرکت و عمل کا پیغام ہو یا شر کی قوتوں سے ستیزہ کاری مقصود ہو یا وہ نوجوان نسل کو شاہین بننے کا پیغام دے رہے ہوں یا نوجوان نسل کو ان کے شاندار ماضی کی روایات سے آگاہ کر رہے ہوں، ہر جگہ ان کے ہاں پیکار، جدوجہد، حرکت و عمل اور جِہاد کی تعلیم ملتی ہے۔ قرآنِ مجید کے مطالعہ سے ہمیں جہاد فی سبیل اﷲ اور اس کے مختلف مراحل کا شعور ملتا ہے جسے اقبال نے بڑے سلیقے سے اپنی نظم و نثر میں ایک مربوط فکر کے بطور پیش کیا ہے۔ قرآنِ مجید کی ذیل کی منتخب آیات سے وہ فلسفۂ جہاد سمجھ میں آسکتا ہے جسے اقبال نے اپنے مخصوص اسلوب میں نظم و نثر، دونوں میں پیش کیا ہے:
ترجمہ: ’’(حق بات یہ ہے کہ) اﷲ نے مومنوں سے اُن کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں، وہ اﷲ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں‘‘۔ (التوبہ:۱۱۱)
ترجمہ: ’’اﷲ کی راہ میں جِہاد کرو جیسا کہ جِہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔ (الحج:۷۸)
ترجمہ: ’’اﷲ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ لڑتے ہیں، گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیور ہیں‘‘۔ (الصف:۴)
ترجمہ: ’’اگر اﷲ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا تو صومعے اور گرجے اور معبد اور مسجدیں جن میں اﷲ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، مسمار کر دیے جاتے‘‘۔ (الحج:۴۰)
ترجمہ: ’’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، اُنھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اﷲ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے ہیں، اُن کا قصور فقط یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے‘‘۔ (الحج:۳۹۔۴۰)
ترجمہ: ’’(مسلمانو!) تم پر (اﷲ کے رستے میں) لڑنا فرض کر دیا گیا ہے۔ وہ تمھیں ناگوار تو ہو گا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بُری لگے اور وہ تمھارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمھارے لیے مضر ہو اور (ان باتوں کو) اﷲ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔ (البقرہ:۲۱۶)
ترجمہ: ’’اور جہاں تک ہو سکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے اﷲ کے دشمنوں اور تمھارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اﷲ جانتا ہے، ہیبت بیٹھی رہے گی اور تم جو کچھ اﷲ کی راہ میں خرچ کرو گے، اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا اور تمھارا ذرّہ برابر نقصان نہ کیا جائے گا۔ (الانفال:۶۰)
ترجمہ: ’’اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فتنہ و فساد ختم ہو جائے اور (ملک میں) اس ہی کا دین ہو جائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیے)‘‘۔ (البقرہ:۱۹۳)
قرآنِ مجید کی اور بہت سی آیات میں جِہاد کی نوعیت، فرضیت، آداب، شرائط، مقاصد، لوازم اور ثمرات و عواقب سے بحث کی گئی ہے۔ اس طرح صحاح ستہ میں صحیحین اور سنن کی کتابوں میں کتاب الجہاد اور کتاب المغازی کی فصول میں اس کی فضیلت، آداب، شرائط اور مقاصد کی تفصیل کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اردو ادبیات میں اس موضوع پر سب سے دلیل اور جامع کتاب سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ ہے جسے علامہ محمد اقبال نے بھی پڑھا اور سنا اور اس کے محتویات اور مندرجات کی تعریف و تحسین کی۔
جِہاد عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ ( ج ہ د) ہے جو جَہَدَ اور جَہِدَ (ہ بالکسر) دونوں طرح سے استعمال ہوا ہے۔ جَہَدَ کے معنی بہت کوشش کرنے کے ہیں جبکہ جَہِدَ کے معنی کسی کام میں پوری طاقت لگا دینے کے ہیں۔ یوں جِہاد کے معنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ بھرپور کوشش کرنے کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں جِہاد سے مراد اپنے نفس، شیطان اور کفار کے ساتھ دل، زبان اور ہاتھ سے کام لینے کے ہیں۔ اگر تمام مفاہیم و مطالب کا استقصا کیا جائے تو جِہاد کی حدود میں ذاتی اصلاح، معاشرتی تطہیر، عظمتِ دین کی پاسبانی، شریعت کی تقویت و حفاظت، دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ، قیامِ عدل و انصاف، امنِ عامہ کا حصول اور اعلاے کلمۃ الحق سبھی عناصر شامل ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جِہادِ اصغر اور جِہادِ اکبر کی اصطلاح میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ بات غزوۂ تبوک سے واپسی پر کہی گئی کہ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ تمھیں مبارک ہو کہ تم جِہادِ اصغر سے جِہادِ اکبر کی طرف لوٹے ہو۔ جِہادِ اصغر اسلامی سلطنت کے اقتدارِ اعلیٰ کے تحفظ، اس کی سرحدوں کے دفاع، امنِ عامہ کے قیام، دہشت گردی کے انسداد اور فتنے کی سرکوبی سے متعلق ہے اور اس کی انتہا شہادت ہے۔ جہادِ اکبر نفسِ امارہ کی تربیت، شیطانی ہتھکنڈوں سے کشمکش اور مادیت کی ہوس پرستانہ اَقدار سے چھٹکارے کا نام ہے۔ یوں جہِادِ اصغر عارضی اور مختلف مواقع کی نسبت سے ہے جبکہ جِہادِ اکبر دائمی ہے جو وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ (آلِ عمران:۱۰۲) کا تقاضا کرتا ہے۔
علامہ اقبال کے ہاں جِہاد کے بارے میں اولین شعری اظہار ’’اسرارِ خودی‘‘ (۱۹۱۵ء) میں ہوا ہے۔ اس کا ایک باب ہے ’’دربیان اینکہ مقصدِ حیات مسلم اعلاے کلمۃ الحق است و جہاد اگر محرک اور جوع الارض باشد در مذہب اسلام حرام است‘‘۔ یعنی مسلمان کی زندگی کا مقصد اﷲ کے کلمے (دین) کو سربلند کرنا ہے اور اگر اس جِہاد کا محرک (محض) ملک فتح کرنا ہو تو ایسی جنگ اسلام کے مذہب میں حرام ہے۔
صلح شر گردد چو مقصود است غیر
گر خدا باشد غرض جنگ است خیر
گرنگردد حق ز تیغ ما بلند
جنگ باشد قوم را نا ارجمند
’’اگر مقصد غیراﷲ ہو تو صلح شر بن جاتی ہے (اور) اگر مقصود اﷲ تعالیٰ کی ذات ہو تو جنگ بھی خیر ہو جاتی ہے۔ اگر ہماری تلوار سے حق کا کلمہ بلند نہ ہو تو ایسی جنگ قوم کے لیے نامبارک ہوتی ہے‘‘۔
’’اسرار و رموز‘‘ کے مضامین و موضوعات کا استقصا کیا جائے اور اس کا خلاصہ نکالا جائے تو وہ اول و آخر جِہاد بالنفس اور اعلاے کلمۃ الحق کی جدوجہد سے عبارت ہیں، اقبال نے اس مثنوی میں حرکت و عمل کی تعلیم دی ہے جس سے احکامِ الٰہیہ کی تفہیم کا اِدراک پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے اثبات کے لیے عملی جدوجہد کا شعور ملتا ہے۔ ان کی فارسی اور اردو شاعری کا جائزہ لیا جائے تو جِہاد اور عسکریت کے افکار کی پیش کش فارسی زبان میں زیادہ ملتی ہے۔ یوں بھی ان کے فارسی اشعار کی تعداد نو ہزار سے متجاوز اور اردو اشعار کی تعداد چھ ہزار سے کچھ زائد ہے۔ ان کے فارسی اشعار میں جہاں کہیں مرد حر، مرد مومن، معرکۂ حیات، مصافِ حیات، رزم گہِ کائنات، معرکہ ہست بود یا پیکار زندگی کا ذکر ہوتا ہے تو یہ سب کتابِ جہاد کے مختلف ابواب دکھائی دیتے ہیں۔ ’’اسرار و رموز‘‘ میں تو جنگ و جہاد کے آداب و شرائط تک بیان کیے گئے ہیں۔
علامہ اقبال جہاں درسِ خودی اور پیامِ بے خودی کو پیش کرتے ہیں، وہاں نوجوانوں کو شاہین بننے کی تلقین کرتے ہیں اور قوم کی بیٹیوں کو عرب لڑکی فاطمہ بنتِ عبداﷲ کے کردار سے متعارف کراتے ہیں جو ۱۹۱۲ء میں طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہو گئی:
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حور صحرائی تری قسمت میں تھی
غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت تھی
یہ جِہاد اﷲ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی!
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی!
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
’’بانگِ درا‘‘ کے آخری حصے میں ایک نظم ’’جنگِ یرموک کا ایک واقعہ‘‘ کے عنوان سے موجود ہے جس کے دس اشعار میں راہِ جہاد میں سرفروشی اور سرشاری کے جذبات پیش کیے گئے ہیں۔ اسی مجموعۂ کلام میں ’’محاصرۂ ادرنہ‘‘ کے عنوان سے نظم میں مغرب کے ساتھ جنگ کو اقبال نے حق و باطل کی کشمکش قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں اقبال کے مجاہدانہ شعور کا اظہار سب سے پہلے اس نظم میں ہوا ہے جو ’’مارچ ۱۹۰۷ء‘‘ کے عنوان سے بانگِ درا میں موجود ہے اور یہ اشعار انھوں نے قیامِ انگلستان کے زمانے میں کہے ہیں:
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش، مگر یہ دریا کے پار ہو گا
جو ایک تھا اے نگاہ! تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا؟
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
اقبال نے اس جِہادی فکر اور عسکری مزاج کی پختگی کے لیے مردِ مومن کے تصور کو پیش کیا جو جذبۂ عشق سے سرشار ہوکر مصارفِ زندگی میں پیکارِ زندگی کا مظاہرہ کرتا ہے، اس موضوع کی تفصیلات ایک الگ اور مستقل مقالے کا تقاضا کرتی ہیں۔ انھوں نے شاہین کے جس تصور کو پیش کیا وہ بھی ان کے عسکری افکار کی تشریح و توضیح میں لازم ہے۔ انھوں نے مردانِ مومن اور مردانِ حر کے سلسلے میں جن کرداروں کو اپنے کلام میں جگہ دی ہے، اس میں حضرت علیؓ، حضرت حسینؓ، خالدؓ بن ولید، ابو عبیدہؓ، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، اورنگزیب عالمگیر، احمد شاہ ابدالی، ٹیپو سلطان، فاطمہ بنتِ عبداﷲ اور شرف النساء کے اسماے گرامی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ معرکۂ حیات میں کس قسم کے کرداروں سے محبت رکھتے ہیں۔ اقبال ’’ضربِ کلیم‘‘ کی ابتدا میں ’’ناظرین سے‘‘ خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
یہ زورِ دست و ضربتِ کاری کا ہے مقام
میدانِ جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ!
خونِ دل و جگر سے ہے سرمایۂ حیات
فطرت لہو ترنگ، ہے غافل! نہ جل ترنگ
علامہ اقبال کے جہادی اور عسکری افکار کے سبب بعض اقبال شناسوں اور ناقدین نے ان پر قوت پرستی، جنگی جنون اور فاشسٹ ہونے کا الزام لگایا ہے۔ بعض کم نگاہوں نے اقبال کے ہاں قوت اور طاقت کے الفاظ کو نیطشے کے سپرمین سے ماخوذ قرار دیا ہے۔ ایل ڈکنسن (Lowes Dickenson) نے بھی ’’اسرارِ خودی‘‘ پر جو مختلف اعتراضات کیے ہیں، ان میں ایک جنگ و قتال کے بارے میں ہے، وہ اقبال کے فلسفۂ سخت کوشی اور پیکار کی دعوت کو منفی قرار دیتا ہے۔ ڈکنسن کے علاوہ کانٹ ویل سمتھ، نیلی نو، گب اور فاسٹر نے بھی اقبال کی فکر پر جنگ جوئی کا الزام عائد کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اقبال مسلمانوں کو آدابِ حرب و ضرب سکھاتا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجبور اور محکوم اور غلام اقوام بزم کے بجائے رزم کا میدان منتخب کریں گی اور طائوس و رباب کے بجائے شمشیر و سناں اختیار نہیں کریں گی تو دنیا سے استعماری قوتوں کے استبدادی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کون کرے گا؟ نیز محکوم اور غلام قومیں نوآبادیاتی نظام سے استخلاص اور چھٹکارا کیسے حاصل کریں گی؟ اقبال قوت و طاقت کے مثبت اور منفی ہر دو پہلوئوں کو بخوبی سمجھتے تھے۔ یورپ اور عیسائیت میں چرچ اور اسٹیٹ کے مقاصد جدا جدا ہیں مگر اسلام میں اس نوعیت کی ثنویت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اقبال نے قوت و طاقت کے حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کو ’’ضربِ کلیم‘‘ کی ایک نظم ’’قوت اور دین‘‘ میں یوں پیش کیا ہے:
اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار کوئی حضرت انساں کی قبا چاک
تاریخِ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحبِ نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک!
اس سیلِ سبک و سیر و زمیں گیر کے آگے
عقل و نظر و علم و ہنر میں خس و خاشاک
لادین ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
اسلام جِہاد کو فتنے کی سرکوبی اور امنِ عالم کی بحالی کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ اس سے مظلوم قوموں کو آزادی اور عزتِ نفس کے ساتھ جینے کا حق نصیب ہوتا ہے۔ وہ اسے معرکۂ حق و باطل قرار دیتا ہے۔ اس کے جہادی مقاصد میں کہیں دہشت گردی اور انتہا پسندی نہیں۔ یہی باعث ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں جو ۸۲ جہادی معرکے ہوئے، ان میں کُل ۲۵۹ صحابہ شہید ہوئے اور مخالف کے بھی صرف ۷۵۹؍افراد مارے گئے۔ آپؐ نے ۶۵۶۴ قیدیوں میں سے ۶۳۴۷ کو جنگوں کے فوراً بعد رہا کر دیا۔ کسی کی لاش کا مثلہ کیا اور نہ کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے۔ جنگی قوانین اور بعد از جنگ کے معاملات کے لیے مستقل ضوابط طے کیے۔ عادلانہ معاشروں کے قیام اور فتنوں کے استیصال کی یہی وہ کوششیں ہیں جن کی حمایت میں اقبال نے اپنے جِہادی اور عسکری افکار کو پیش کیا ہے۔ اسی باعث صحابۂ کرام کے جنگی معرکے محدثین نے کتاب المغازی میں لیکن قوانینِ صلح و جنگ کو کتاب السیر میں لکھا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘ اسلام آباد۔ شمارہ: نومبر ۲۰۰۶ء)
Really appreciating , Alama Iqbal ra The man of calibre
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہین کا جگر پیدا