
ایک مدت سے امریکیوں (اور چند بھارتیوں) نے چین سے یہ امید وابستہ کر رکھی ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے میں پاکستان کی طرزِ فکر و عمل کو درست کرنے میں چین غیر معمولی حد تک معاونت کرے گا۔ کالعدم جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق قرارداد کا چین کی جانب سے ایک بار پھر ویٹو، پلوامہ حملے کے تناظر میں اس نوعیت کی کوششوں کے لاحاصل ہونے کی صریح علامت ہے۔
چین کا مجموعی نقطۂ نظر اسٹریٹجک ہے۔ چین نے پاکستان کو یہ یقین دلانے کے لیے وسائل بھی خرچ کیے ہیں اور محنت کے ساتھ ساتھ وقت بھی لگایا ہے کہ وہ ہر موسم کا دوست ہے اور ہر بین الاقوامی فورم پر اس کا ساتھی و معاون ہے۔
چین کی طرف سے ملنے والی بھرپور حمایت و امداد سے بہت پہلے ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے بھارت کو اپنے سب سے کٹّر اور مستقل دشمن میں تبدیل کرلیا تھا۔ جب تک چین پاکستان کے ساتھ ہے اور اس کی بھرپور معاونت کر رہا ہے تب پاکستان اپنے مستقل دشمن سے نمٹنے میں ذرا سا بھی خوف محسوس نہیں کرے گا۔ چین کے لیے پاکستان نے سستے اور دوسرے درجے کے ڈیٹیرنس کا کردار عمدگی سے ادا کیا ہے۔ پاکستان ہزاروں بھارتی فوجیوں کو سرحدوں پر الرٹ حالت میں رکھتا ہے، جس کے نتیجے میں انڈو پیسفک ریجن میں چین کے اثرات کو محدود کرنے سے متعلق امریکی کوششوں میں بھرپور معاونت کا بھارت کو موقع نہیں مل پاتا۔
مولانا مسعود اظہر کے معاملے میں چین کا فیصلہ کسی بھی اعتبار سے کیس کے میرٹ کی بنیاد پر نہیں تھا۔ اگر یہ قرارداد منظور کرلی جاتی اور مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دے بھی دیا جاتا تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ ان کے اثاثے منجمد ہو جاتے، ان کے بیرونی سفر پر پابندی عائد کردی جاتی اور انہیں اسلحہ استعمال کرنے سے بھی روک دیا جاتا۔ اس سے کیا فرق پڑتا؟ پاکستان میں ایسی کئی شخصیات آزادانہ گھومتی ہیں، جن پر اقوام متحدہ کے تحت متعدد پابندیاں عائد ہیں۔
چین نے دس سال میں چوتھی بار مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق قرارداد کو تکنیکی بنیاد پر معطل رکھا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور بھارت چاہتے ہیں کہ دنیا کو یہ معلوم ہوجائے کہ پاکستان دہشت گردوں کی تربیت اور حمایت کرنے والا ملک ہے جبکہ چینی قیادت یہ اعلان کر رہی ہے کہ وہ پاکستان کو کسی بھی حال میں تنہا اور بے سہارا نہیں چھوڑے گی۔
چین اس بات کے لیے تیار ہے کہ پاکستان کو بھارت کے خلاف دوسرے درجے کے سستے ڈیٹرینس کے طور پر بروئے کار لاتا رہے، مگر خود پاکستان اس تاثر سے دور ہونے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا معاون ہے۔ وہ اس حوالے سے قانونی بکھیڑوں میں پڑنے کے لیے تیار نہیں۔ اقوام متحدہ کی جس قرارداد کے ذریعے مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کی نوعیت ایسی ہے کہ پاکستان کے بارے میں یہ تاثر مزید پروان چڑھے گا کہ وہ دہشت گردوں کی تربیت اور معاونت کرنے والی ریاست ہے۔ یہ ایسا تاثر ہے جس کا سامنا کرنے کے بجائے پاکستانی حکام مسترد کرنا ہی بہتر سمجھیں گے۔
چین کو اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ مولانا مسعود اظہر کے بارے میں پاکستان کا موقف تبدیل ہوتا رہتا ہے اور یہ کہ دنیا اس حوالے سے پاکستان کے موقف کو بالکل جھوٹ سمجھتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ چین کے لیے پاکستان سب سے بڑا اسٹریٹجک شراکت دار ہے۔ شراکت دار کی خواہشات باقی تمام امور سے بڑھ کر ہوا کرتی ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مولانا مسعود اظہر اُن لوگوں میں سے ہیں جنہیں عالمی برادری دہشت گرد سمجھتی اور قرار دلوانا چاہتی ہے۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی کہہ چکے ہیں کہ مولانا مسعود اظہر کی تنظیم کالعدم جیش محمد انہیں قتل کرنے کی کوشش کرچکی ہے۔ اس کے باوجود پتا نہیں کیوں اب تک پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مولانا مسعود اظہر کی سرگرمیاں دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں۔
پاکستان کے باضابطہ ریاستی بیانیے میں بھارت کے حوالے سے پاکستانیوں اور کشمیریوں کی شکایت جس طور بیان کی جاتی ہے، اس سے مولانا مسعود اظہر کی سرگرمیوں کا معاملہ دب کر، مسخ ہوکر رہ گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے جو طرزِ فکر اپنائی ہے، وہ بھی حیرت انگیز ہے۔ انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا کہ مولانا مسعود اظہر پاکستان میں ہے بلکہ یہ کہا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے اور ناساز بھی اس قدر ہے کہ وہ اپنے گھر سے نکل بھی نہیں سکتے۔ دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ محض کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر سابق وزیراعظم نواز شریف کو جیل میں ڈالنے کے بعد طبیعت ناساز ہونے پر بھی اہل خانہ کو ان سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کیا جاتا رہا ہے۔
ان تمام باتوں سے چین کو کچھ غرض نہیں۔ وہ صرف ایک حقیقت پر نظر جمائے ہوئے ہے … یہ کہ وہ ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور طاقت میں اضافہ ہی کرتے جانا ہے۔ چین نے غیر معمولی معاشی ترقی امریکا سمیت پوری عالمی برادری کو یہ یقین دلانے کے بعد یقینی بنائی کہ وہ آزاد منڈی کی معیشت کے اصول کی بنیاد پر غیر معمولی حد تک ترقی سے ہم کنار ہونے کے بعد سیاسی اور معاشرتی اصلاحات متعارف کرائے گا۔
غیر معمولی طاقت حاصل کرنے کے بعد اب بھی چین میں مطلق العنانیت سے مماثل سخت گیر حکومت ہے۔ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین اپنے طاقت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کے لیے بے تاب ہے۔ اس کے لیے اُسے اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ چینی قیادت چاہتی ہے کہ جغرافیائی قربت رکھنے والے کسی بھی حریف کو کسی طور ابھرنے نہ دیا جائے۔
اپنے خلاف کسی بھی نوعیت کے اسٹریٹجک اور معاشی خطرے کو ابھرنے سے روکنے کے حوالے سے چین کی پوری توجہ بھارت اور جاپان پر ہے۔ جاپان کے خلاف کسی بھی سطح پر مخاصمانہ جذبات رکھنے والا ہر ملک (ذہن میں شمالی کوریا آتا ہے) چین کے لیے فطری طور پر اتحادی ہے۔ چین کی بچھائی ہوئی بساط پر پاکستان ایک اہم مہرہ ہے اور چین کے پالیسی ساز اپنے وسیع تر اسٹریٹجک مفاد کے لیے دہشت گردی جیسے معاملات کو زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے۔
پلوامہ حملے کی چین نے مذمت کی تھی اور اس کے خیال میں بھارت کے لیے اتنا ہی کافی تھا، کیونکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے چین کی تجارت بہت زیادہ ہے۔ اس سے زیادہ کی توقع رکھنا بھارتی حکام کی طرف سے غلطی شمار کیا جاتا کیونکہ ٹیکٹیکل اور اسٹریٹجک مفادات میں فرق ہوتا ہے۔
چین نے ایک زمانے تک حافظ محمد سعید اور ان کی تنظیم جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد کو بھی تکنیکی بنیاد پر تعطل کی نذر رکھا تھا، تاہم ۲۰۰۸ء میں ممبئی حملوں کے بعد اس وقت کی پاکستانی حکومت کے کہنے پر چین نے حافظ سعید کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ اس کے بعد دسمبر ۲۰۰۸ء میں حافظ سعید اور ان کی جماعت کو اقوام متحدہ کے تحت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت کی پاکستانی حکومت نے محسوس کیا تھا کہ اگر حافظ سعید اور ان کی جماعت کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق قراردادوں کو چین کی طرف سے تکنیکی بنیاد پر مزید معرضِ التواء میں رکھا گیا تو غیر معمولی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب اسلام آباد میں رویے تبدیل ہوچکے ہیں۔ عمران خان کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت، افغانستان اور بھارت میں کی جانے والی دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کرنا چاہتی۔ پاکستانی فوج یہ سمجھتی ہے کہ طالبان سے امریکا کے مذاکرات میں سہولت کار کے کردار کی بدولت انہیں غیر معمولی وقعت مل چکی ہے۔
جو کچھ مولانا مسعود اظہر کے معاملے میں حال ہی میں سلامتی کونسل میں ہوا ہے، اس کی بنیاد پر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ (مقبوضہ) کشمیر میں یا بھارت کے خلاف لڑنے والے جہادیوں کے خلاف جانے کا پاکستان فی الحال کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور یہ کہ چین بھی پاکستان کو بھارت کے خلاف زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کی حکمت عملی ترک کرنے کو تیار نہیں۔
واشنگٹن اور نئی دہلی میں جو لوگ یہ توقع وابستہ کیے رہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنے رویے میں تبدیلی لائے گا اور چینی قیادت پاکستان سے متعلق اپنی سوچ بدل لے گی اُنہیں اب اپنی سوچ تبدیل کرکے پاکستان اور چین کے خلاف حقیقت پسندانہ اسٹریٹجی تیار کرنا ہوگی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Alliance with Pakistan matters more to China than terrorism”. (“defence.pk”. March 22, 2019)
چین کا سچ سے کیا لینا دینا.