
دنیا میں قاعدے کا نظام موجود نہیں ہے یہاں ۷۳ پر تین بھاری ہیں، تین ملکوں کا اتحاد ۷۳ ملکوں کے اتحاد کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے، یہ پُرتشدد احکامات جاری کرکے نظام کو درہم برہم کرتا ہے۔
اس سارے تناظر میں یہ دیکھنا بہت دلکش ہے کہ اتحادی اپنے بارے میں بہت خوش فہم ہیں اور اسی خوش فہمی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں،امریکا کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ دنیا اس کی حمایت کرتی ہے یا نہیں لیکن شام کی صورتحال کچھ اور داستان سناتی ہے یہاں امریکا اپنے حمایتی ڈھونڈے گا اور ہم ایک ایسا وقت بھی دیکھیں گے جب امریکا کو شام میں مزید اور مزید اتحادیوں کی ضرورت پڑے گی۔
امریکا نے شام کی جنگ میں کودنے سے پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ صرف داعش کے خاتمہ چاہتا ہے اور اسے بشار الاسد سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن بشار اور داعش کے آپس میں گہرے رابطے موجود ہیں، بشار الاسد نے داعش کو فروغ دیا ہے اور پرامن حزب اختلاف کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایاہے وہ داعش کو اپنے دشمنوں کے خلاف ایک ہتھیار سمجھتا رہے گا چاہے اس کی یہ تشدد پسندی دنیا کو اس سے کتنا ہی متنفر کردے۔امریکا یہ امید رکھتا ہے کہ وہ داعش اور بشار، دونوں کو اپنے قابو میں کر لے گا لیکن اسے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ بشار کی تشدد پسند ذہنیت اسلامی انتہا پسندی کوبڑھائے گی۔ امریکا نے داعش کے خلاف دنیا کے ۶۰ممالک کا اتحاد بنایا پھر یہ تعداد ۶۵ تک گئی اور اب ۷۳؍اتحادی داعش کے خلاف اکٹھے ہیں، یہ انتہا پسندوں کے ذریعے پرامن شامی حزب اختلاف کی خواہش رکھتے ہیں۔
امریکا کا دل کبھی کبھی پرجوش شامیوں کے لیے بھی دھڑکتاہے اور یہی چیز اسے صرف بشار الاسد ہی نہیں بلکہ روس اور ایران کے مخالفین میں کھڑا کر دیتی ہے۔ بشار، روس اور ایران شامی باغیوں کے خلاف متحد ہیں اور یہ امریکا اورا س کے اتحادیوں کو اپنے خلاف جاتے دیکھ رہے ہیں۔ان تینوں ممالک کے مطابق شام کے موجودہ حالات تباہ کن ہیں لیکن یہ شام کے مستقبل کے لیے ضروری ہیں، بشار، روس اور ایران یہ نہیں چاہتے کہ اس خطے میں کوئی امریکا نواز سنی حکومت آئے یا پھر کوئی انتہا پسند طاقت اپنے قدم جمائے، یہ دونوں صورتحال ان تینوں ممالک کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ان تینوں کے مفادات مشترک ہیں، یہ ایک دوسرے کے لیے سہولت کار ہیں، چند اقدار مشترک ہونے کے علاوہ کوئی بڑا منصوبہ پیش نظر نہیں ہے۔یہ اتحاد دنیا کے لیے کچھ نیا کرنا نہیں چاہتا بلکہ یہ اس لیے بنا ہے کہ یہ صرف اپنی حفاظت، اپنا دفاع چاہتاہے۔
بیسویں صدیں میں امریکا کے کردار پر غور کریں، اس صدی میں امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر دو عظیم جنگیں لڑیں، جو کچھ اس نے دنیا کے لیے کیا وہ محض سوویت یونین کے خلاف مزاحمت نہیں تھی، بلکہ وہ ایک اصول پر مبنی نظام کی تشکیل تھی، جس نے آزاد معاشی نظام، تجارتی اور اقتصادی ترقی اور جمہوری نظامِ حکومت کو فروغ دیا، اس نظام کا مقصد صرف اور صرف امریکی مخالفین کو ایک ایک کر کے کمزور کرنا تھا، اگر امریکا پہلے کی طرح طاقتور ہوتا تو اس تین ملکی اتحادی دائرے کے لیے اکیلا کافی ہوتا، بجائے اس کے امریکا نے ان سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک کااتحاد تشکیل دیا، جو امریکا کے مقاصد سے متفق رہے گا اور مستقبل میں امریکا کے لیے اسی طرح کام کرتا رہے گا۔
امریکا نے اپنے اتحادیوں سے اقتصادی اور عسکری فائدے حاصل کیے، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حیرت انگیز طور پر اس اتحاد کی وجہ سے ملکوں کے درمیان تصادم کم ہوئے، اتحادیوں نے ایک دوسرے سے تعاون کی پالیسی اپنائی اور ایک دوسرے کے مقاصد کے لیے کام کیا، سب سے اہم بات یہ کہ جس نے امریکا کی بات کو رد کیا اتحادیوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔
یہ مغرب کا بڑا اتحاد تھا جس نے متحرک کردار ادا کرتے ہوئے شمالی افریقا کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ نسلی اور امتیازی برتاؤ سے باز رہے، اسی اتحاد کی وجہ سے سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور مشرقی یورپ میں ایک نئی حد بندی ہوئی، یہی اتحاد تھا جس کی وجہ سے لیبیا نے ایٹمی پروگرام کو بغیر کسی چوں چرا کے لپیٹ دیا، یہ واقعات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ امریکا نے سوویت یونین کے بجائے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیوں کیا۔ سابق مصری صدر انور السادات نے اس کا بالکل صحیح تجزیہ پیش کیا کہ ’’امریکا شطرنج کے سارے مہرے اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے‘‘۔
جب امریکا شام کی طرف آیا تو اس نے اپنے اتحادیوں میں خاص کر کچھ جنگجوؤں کو بھی شامل کیا،امریکا کی شام پالیسی دھند کی لپیٹ میں ہے اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کیاحاصل نہیں کرسکا بلکہ امریکا کے حاصل شدہ اہداف اس کی شامی جنگ کی پالیسی کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں ۔حقیقت میں ان اتحادیوں کی اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں کہ ان کا اتحادصرف کاغذی معاہدے تک ہی اپناوجود رکھتا ہے، اس اتحاد کا حجم بڑھانے کے لیے اس میں شامل ہونے کی شرائط بھی زیادہ پیچیدہ نہیں ہیں ،شامی اتحاد میں خامیوں کا مناسب ردعمل اس اتحادکاختم ہونا نہیں بلکہ انہیں مزید کچھ کرنے پر اکسانا ہے،مستقبل میں ہمیں اس کی ضرورت پڑے گی۔
مثال کے طور پر علاقائی تحفظ کے حوالے سے ایران کی مداخلت پر خدشات ہیں، صدر ٹرمپ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایاکہ صرف ایران کا ایٹمی پروگرام ہی اس کے پڑوسی ممالک کے لیے پریشان کن نہیں بلکہ اس کی علاقائی تحفظ میں مداخلت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جیسے کہ ایران کے میزائل پروگرام کے لیے اس کی سرگرمیاں۔ سابق ایرانی صدر احمدی نژاد کے مخالفین نے دنیا کو ایران پالیسی سے خبردار کرتے ہوئے اکٹھا کرلیا، نتیجتاً ایک بڑا اتحاد JCPOA مضبوط مغربی حمایت کے ساتھ سامنے آیا، اسی اتحاد نے ایران کی ایٹمی اور علاقائی پالیسی کی حد بندی کی ہے۔
اب اگر امریکا اس اتحاد کے خلاف جاتا ہے تو یہ ایک آزمائش ہوگی کہ اتحادی یا تو JCPOA کے معاہدے سے وفا کریں یا پھر دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا ساتھ دیں یا یہ کہ دنیا کی بڑی اور بے باک ریاست کے خلاف توازن قائم رکھیں، کچھ ممالک امریکا کو معاہدے سے نکلنے کے نقصانات سمجھانے کی کوشش کریں گے، چند ممالک امریکی رویہ سے دلبرداشتہ ہوکر یہ سمجھ جائیں گے کہ امریکا اب دنیاکی قیادت سنبھالنے کے قابل نہیں ہے اوراپنے اپنے مفادات کے مطابق راستہ اختیار کریں گے۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ کیا کیا غلط ہوسکتا تھا لیکن کیا صحیح ہوسکتا تھا، یہ سوچنا بہت مشکل ہے۔ اگر یہ راستہ غلط ہوتا تو ایران کی ناامید قدامت پسند قیادت اب تک دنیاکی نظروں میں امریکا اور اس کے حواریوں کا اثرو رسوخ گھٹا چکی ہوتی۔
امریکا اور اس کے اتحادی مل کر سب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتے، کوئی بھی اتحاد مقصد اور حکمت عملی کا متبادل نہیں ہوسکتا، لیکن مقصد اور حکمت عملی، کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک مضبوط اتحاد تشکیل دیا جاسکتاہے ۔امریکی خواہشات بہت چھوٹی چھوٹی ہیں، جس کو پورا کرنے کے لیے بڑے بڑے اتحاد بنانے کی ضرورت نہیں۔ اگر امریکا شام کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے مقصدکی لگن اور حکمت عملی دونوں کی ضرورت ہوگی، اس کے بعد حقیقی اتحادی اس میں مددگار ثابت ہوں گے۔
(ترجمہ :سمیہ اختر)
“Allies and Influence”. (“Centre for strategic and international studies”. Oct.27, 2017)
Leave a Reply