
افغانستان میں طالبان کی بھرپور مدد القاعدہ نے اس تیقن کی بنیاد پر کی ہے کہ مسلم دنیا میں قابض افواج کے خلاف جدوجہد کی صورت میں حکومتوں کی تبدیلی کے لیے انہیں زیادہ حمایت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان کے مقتول صحافی سلیم شہزاد نے اپنی حالیہ کتاب ’’انسائڈ القاعدہ اینڈ طالبان‘‘ میں القاعدہ کے سوچنے اور کام کرنے کے ڈھنگ کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے، وہ بہت حد تک حقیقت سے قریب ہے کیونکہ سلیم شہزاد کا القاعدہ اور طالبان کے اعلیٰ قائدین سے قریبی رابطہ تھا اور وہ ان کے طریق کار کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
سلیم شہزاد کی کتاب ’’انسائڈ القاعدہ اینڈ طالبان‘‘ ۲۴ مئی ۲۰۱۱ء کو شائع ہوئی۔ اس کی اشاعت کے تین دن بعد وہ اسلام آباد سے ٹیلی ویژن انٹرویو کے لیے جاتے ہوئے لاپتا ہو گئے اور ۳۱ مئی کو ان کی تشدد زدہ لاش ملی۔ جو کچھ انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے وہ القاعدہ اور طالبان کے رہنماؤں اور کمانڈروں سے کئی برسوں پر مبنی تعلقات اور ملاقاتوں کے نتیجے میں سامنے آیا تھا۔ وہ القاعدہ اور طالبان کے علاوہ پاکستانی طالبان کے بارے میں بھی بہت کچھ مستند انداز سے بیان کرسکتے تھے۔ سلیم شہزاد کے بیان کے مطابق القاعدہ میں اسامہ بن لادن کی حیثیت محض علامتی سربراہ کی رہ گئی تھی۔ تمام اہم فیصلے ان کے مصری نژاد نائب ایمن الظواہری کرتے تھے۔ ان کی سوچ ہی تمام فیصلوں میں اہم ترین کردار ادا کرتی تھی اور وہی فیصلوں پر عملدرآمد کا طریق کار بھی وضع کرتے تھے۔ سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ القاعدہ نے وسط ایشیا اور بنگلہ دیش وغیرہ میں قدم جمانے سے قبل افغانستان میں مغربی طاقتوں کو شکست سے دوچار کرنے کی حکمت عملی کے تحت کام کیا۔ وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کو امریکی اور نیٹو فورسز سے لڑائی کا مرکزی میدان بنانے کا کریڈٹ القاعدہ اور طالبان کو دیتے ہیں۔ سلیم شہزاد کا استدلال یہ تھا کہ القاعدہ کی بنیادی حکمت عملی یہ تھی کہ امریکی اور نیٹو فورسز افغانستان میں موجود رہیں تاکہ اسلامی دنیا کو دو گروپوں میں تقسیم کرنا ممکن ہو۔
سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں یہ نکتہ پوری تفصیل اور جزئیات کے ساتھ بیان کیا ہے کہ القاعدہ نے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی محکمہ دفاع پر حملہ اس مقصد کے تحت کیا کہ جواب میں امریکا افغانستان پر لشکر کشی کرے اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا کے مسلمانوں میں امریکا کے خلاف جذبات ابھریں اور اسلامی دنیا کی حکومتوں کے خلاف تحریک چلانا آسان ہو جائے۔ سلیم شہزاد کے مطابق اسلامی دنیا میں قائم حکومتوں کے خلاف تحریک اور اسلامی ممالک کا حلیہ تبدیل کرنا القاعدہ کا بنیادی مقصد تھا اور یہ سوچ الظواہری کی سربراہی میں قائم ’’مصری کیمپ‘‘ سے ابھری تھی۔ سلیم شہزاد کا دعویٰ ہے کہ ایمن الظواہری ۱۹۹۰ء کے عشرے کے وسط تک اس سوچ کو القاعدہ میں اعلیٰ سطح پر متعارف کراچکے تھے۔
الظواہری گروپ اسلامی دنیا کی کرپٹ حکومتوں کو عوام کی نظروں میں زیادہ سے زیادہ ذلیل کرکے تشدد کا نشانہ بنانا چاہتا تھا تاہم اس کے لیے لازم تھا کہ ان حکومتوں کو امریکا سے جوڑا جاتا، اس کے زیر نگیں ثابت کیا جاتا۔
سلیم شہزاد نے ۲۰۰۴ء میں اسامہ بن لادن کے ایک قریبی ساتھی سعد الفقیہہ کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ایمن الظواہری نے ۱۹۹۰ء کے عشرے کے وسط تک اسامہ بن لادن کو اس بات پر قائل کرلیا تھا کہ وہ امریکیوں کی پسندیدہ کاؤ بوائے ذہنیت کو بنیاد بناکر اسلامی دنیا میں ایک ایسے لیڈر کی حیثیت سے ابھریں جو مغرب کو للکارنے کی ہمت رکھتا ہو۔
سلیم شہزاد نے لکھا ہے کہ افغانستان اور عراق پر امریکا اور نیٹو کی لشکر کشی نے القاعدہ کو سب سے بڑا بریک دیا۔ اتحادیوں کی لشکر کشی سے قبل بھی اسلامی دنیا کے جید علما نے قابض افواج کے خلاف لڑائی سے متعلق فتوے جاری کیے تھے، تاہم افغانستان کی صورت حال نے ایمن الظواہری کو غیر معمولی پوزیشن عطا کی۔ اب ان کے لیے اسلامی دنیا میں حکومتوں کے خلاف عوامی تحاریک برپا کرنا قدرے آسان ہوگیا۔ حکمت عملی کا مدار اس صلاحیت پر تھا کہ مسلم دنیا کے عوام کو یقین دلایا جائے کہ ان کی حکومتیں حقیقی معنوں میں اسلامی نہیں۔
سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کی حکومتوں نے افغانستان اور عراق میں ۲۰۰۷ء تک جنگ ختم کرانے کی تیاری مکمل کرلی تھی کیونکہ انہیں یہ خوف لاحق تھا کہ اگر اس جنگ کو نہ روکا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ان کے اپنے ممالک میں بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہوگا۔ القاعدہ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں طالبان جنگ بند کرنے سے متعلق امریکا سے مذاکرات کے نتیجے میں کوئی معاہدہ نہ کر بیٹھیں۔ اس خدشے کی بنیاد پر انہوں نے ۲۰۰۸ء میں امریکا اور طالبان کے درمیان رابطوں اور ابتدائی بات چیت کو انتہائی خطرناک قرار دیا۔ یہ بات چیت سعودی عرب کی وساطت سے ہو رہی تھی۔
سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں القاعدہ اور طالبان کے درمیان فکری اور عملی سطح پر پائے جانے والے اختلافات کی تصدیق بھی کی۔ سلیم شہزاد نے لکھا ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے درمیان اختلافات میں شدت ۲۰۰۵ء سے آنا شروع ہوئی، جب طالبان کے امیر ملا عمر نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سرگرم تمام دھڑوں سے کہا کہ وہ اپنی تمام قوت اور وسائل کے ساتھ افغانستان میں طالبان سے مل جائیں اور قابض فوج کے خلاف مل کر لڑیں۔ القاعدہ نے جب پاکستان کی حکومت کے اقدامات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ۲۰۰۷ء میں خروج یعنی بغاوت کا اعلان کیا تو ملا عمر نے اس کی شدید مخالفت کی۔ گو کہ اس اعلان کا بنیادی مقصد افغانستان میں سرگرم طالبان پر دباؤ کم کرنا تھا۔
سلیم شہزاد نے لکھا ہے کہ القاعدہ نے ۲۰۰۸ء میں تحریک طالبان پاکستان اس خیال سے تشکیل دی تھی کہ افغانستان میں سرگرم طالبان کو ملا عمر کے اثر و نفوذ سے دور رکھنا ممکن ہو۔ سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں جو کچھ بیان کیا ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ امریکی سوچ سراسر بے بنیاد ہے کہ القاعدہ امریکا اور نیٹو کی افواج کو افغانستان سے جلد از جلد نکال باہر کرنا چاہتی ہے اور یہ کہ القاعدہ اور طالبان نظریاتی طور پر ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ سلیم شہزاد کے بیان کے مطابق القاعدہ نے نائن الیون سے قبل آئی ایس آئی کے ساتھ بھی مل کر کام کیا تھا تاہم اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی خفیہ ادارہ امریکی افواج کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
القاعدہ اور آئی ایس آئی کا تعلق راتوں رات ہوا میں تحلیل نہیں ہوگیا۔ ستمبر ۲۰۰۱ء میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ محمود احمد نے جب قندھار کا دورہ کیا تو القاعدہ کے رہنماؤں کو یقین دلایا کہ جب تک القاعدہ پاکستانی فوج پر حملہ نہیں کرے گی اُس پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ سلیم شہزاد نے لکھا ہے کہ پرویز مشرف نے جہادی اور مذہبی رہنماؤں کو بلاکر کہا تھا کہ پانچ سال کے لیے اپنی سرگرمیاں محدود کردیں، اِس کے بعد صورت حال بہتر ہو جائے گی۔ سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا کہ القاعدہ نے پاکستانی فوج کے خلاف حملوں کے بارے میں ابتدا میں بالکل نہیں سوچا مگر جب پاکستانی فوجی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کارروائی کرنے لگے تو القاعدہ کے پاس پاک فوج پر حملے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
اکتوبر ۲۰۰۳ء میں شمالی وزیرستان میں ہیلی کاپٹر سے حملہ ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس حملے میں متعدد جہادی ہلاک ہوئے۔ اس کے جواب میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف پر دسمبر ۲۰۰۳ء میں دو قاتلانہ حملے کیے۔ یہ حملے القاعدہ سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک فرد نے کیے۔
دی ریئل نیوز نیٹ ورک سے اپنے آخری انٹرویو میں سلیم شہزاد نے اپنے اس بیان کی نفی کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ القاعدہ کے بارے میں پرویز مشرف سے آئی ایس آئی نے غلط بیانی کی تھی۔ سلیم شہزاد نے یہ دعوی بھی کیا کہ پرویز مشرف پر قاتلانہ حملوں میں کسی حد تک پاک فضائیہ کے افراد بھی ملوث تھے۔
(بشکریہ: ’’ڈیلی ٹائمز‘‘۔ ۹ جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply