
آج کل ’’انیس سو چوراسی‘‘ (۱۹۸۴ء) نام کے معروف انگریزی ناول کی ایک مرتبہ پھر دھوم مچی ہوئی ہے۔ Amazon.com والوں کا کہنا ہے کہ اس ناول کی مانگ اچانک اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بار بار اس کی نقول چھاپنی پڑ رہی ہیں۔ بظاہر اس کی وجہ مبصرین یہ بتا رہے ہیں کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز سے حکمرانی کرنے کا عندیہ دیا ہے اور جس انداز پر عمل پیرا بھی ہو چکے ہیں، اس کی ایک جھلک ۱۹۸۴ء کے اس ناول میں ملتی ہے۔
’’انیس سو چوراسی‘‘ اور کمیونسٹوں کے خلاف معروف ناول “Animal Farm” کے لکھنے والے George Orvell ہیں۔ جارج آرول موصوف کا قلمی نام ہے، اصل نام شاید Eric Blair تھا جو کم ہی کسی کو معلوم ہے۔ یہ نام صرف موصوف کی قبر کے کتبے پر موجود ہے، اس پر جارج آرویل نام موجود نہیں ہے۔
۱۹۸۴ء نام کے ناول میں مصنف نے یہ تصور کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں تین سلطنتیں قائم ہو گئی ہیں۔ سوویت یونین نے برطانیہ کے سوا باقی سارا یورپ فتح کر لیا ہے اور برطانیہ پر امریکا نے قبضہ کر کے Oceania کے نام سے ایک بڑی سلطنت قائم کی ہے، جس میں برطانیہ کا نام Alrstrip one ہے۔ ایک تیسری شہری سلطنت ایشیا میں قائم ہے اور یہ تینوں سلطنتیں ایک دوسرے سے محاذ آراء رہتی ہیں۔
امریکا والی جو سپر اسٹیٹ Oceania ہے اس کو ایک آمریت نما حکومت چلا رہی ہے جو اپنے آپ کو انگلش سوشلزم (English Socialism) پر کاربند کہتی ہے۔ Newspeak کے نام سے ایک نئی زبان بنا رکھی ہے۔ Big Brother کے نام سے ایک حکمران ہے اور Inner Party کے نام سے ایک مختصر سا گروپ حکومت چلا رہا ہے۔ یہ پوری آبادی کا دو فیصد ہے۔ Outer Party کے نام سے مڈل کلاس ہے جو کل آبادی کا تیرہ فیصد ہے۔ باقی غیر تعلیم یافتہ ورکنگ کلاس ہے جو آبادی کا ۸۵ فیصد ہے۔ آبادی پر اس قدر سخت کنٹرول ہے کہ ہر جگہ کیمرے لگے ہیں، جاسوسی کے جال بچھے ہیں۔ جگہ جگہ لکھا ملتا ہے:
Big Brother is Watching you
Oceania نام کی اس سپر اسٹیٹ نے چار وزارتیں قائم کر رکھی ہیں۔ پہلی وزارت امن ہے لیکن کام اس کا ہے جنگ اور دفاع کرنا۔ دوسری وزارت ہے Ministry of Plenty جس کا کام تو ہونا چاہیے کہ وہ اشیاء وافر مقدار میں عوام کو فراہم کرے گی مگر یہ وزارت دراصل ہر شے کی راشننگ کرتی ہے۔ تیسری وزارت محبت کی وزارت ہے، Ministry of love مگر کام ہے نظم و نسق جو اذیت رسانی اور برین واشنگ سے کیا جاتا ہے۔ چوتھی وزارت ہے Ministry of Truth یعنی سچ کی وزارت، مگر کام ہے پروپیگنڈا‘ پرانی تاریخ کو تبدیل کرنا۔ اس ناول کا مرکزی کردار ونسٹن اسمتھ (Winsten Smith) ہے۔ اس کا کام یہی یہ ہے کہ وہ تاریخی ریکارڈ کو بدل کر پارٹی لائن کے مطابق بناتا رہے۔
آگے یہ پورا ناول ہے جس کو شوق ہو، وہ پڑھ سکتا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ کے دور میں ان چیزوں کا حصول انتہائی آسان ہے؛ تاہم میں نے جو چیدہ چیدہ نکات تحریر کیے ہیں، ان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آتے ہی اس ناول کی مانگ میں اچانک اضافہ کیوں ہوا ہے۔
امریکی معاشرے میں اس مرتبہ کے صدارتی انتخاب اور اس کے نتائج نے ایسی ہلچل مچا دی ہے کہ وہاں اس وقت تک کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ کیا ہونے جا رہا ہے‘ کیا ہو رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کے قلیل المیعاد نتائج کیا ہوں گے اور طویل المیعاد نتائج کیا ہوں گے؟ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ میری اصل اپوزیشن ڈیمو کریٹک پارٹی نہیں بلکہ امریکا کا میڈیا ہے۔ میڈیا کے خلاف جنگ کا ماحول بنا ہوا ہے۔ ٹرمپ کے تحت وائٹ ہاؤس کا یہ عالم ہے کہ پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ اوباما کی حلف برداری میں آنے والوں کی تعداد ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر موجود لوگوں سے زیادہ تھی۔ تصویری شہادت بھی موجود ہے مگر وائٹ ہاؤس کی ایک ترجمان خاتون کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جب یہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی حلف برداری میں اوباما کی حلف برداری سے زیادہ لوگ تھے تو وہ عوام کے سامنے متبادل سچائی پیش کر رہے ہیں۔۔ Alternate Truth۔ آپ سوچیں، سچائی تو ایک ہی ہوتی ہے، اب متبادل سچائی آ گئی تو لامحالہ لوگوں کا دھیان جارج آرویل کے ناول ۱۹۸۴ء کے طرزِ حکمرانی کی طرف جاتا ہے، جس میں Newspeak کے نام سے نئی زبان بنائی جاتی ہے۔
ٹرمپ کا ذکر کافی ہو گیا۔ تھوڑا بیان جارج آرویل کا بھی ہو جائے۔ موصوف نے ۱۹۸۴ء کے نام سے ناول ۱۹۴۹ء میں لکھا تھا اور ۱۹۵۰ء میں جارج آرویل کا انتقال ہو گیا تھا۔ گویا اس ناول کی بعد ازاں جس قدر پذیرائی ہوئی جس سے موصوف بے خبر ہی رہے۔ اس سے پہلے جو معرکہ آرا ناول Animal Farm لکھا وہ اشتراکیت کے خلاف تھا۔ اس کو کوئی شائع کرنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران انہوں نے یہ ناول تحریر کیا تھا اور اس زمانے میں سوویت یونین اتحادیوں میں شامل تھا، لہٰذا خدشہ تھا کہ کمیونزم کے خلاف کوئی تحریر سوویت یونین کی حکومت کو ناراض کر سکتی ہے۔ جارج بے چارہ اس ناول کا مسودہ اٹھائے اٹھائے پھرتا رہا۔ اب یہ دونوں ناول یعنی “Animal Farm” اور ’’۱۹۸۴ء‘‘ انگریزی زبان کے معرکہ آرا ناول شمار ہوتے ہیں اور اگر ان کے مصنف کی زندگی پر نظر ڈالیں تو بیچارے پر ترس آتا ہے۔
جارج آرویل بھارت کی ریاست بہار میں پیدا ہوا تھا جہاں اس کے والد افیون کی کاشت کے کسی سرکاری پروگرام سے وابستہ تھے۔ چھوٹی عمر میں ماں اسے برطانیہ لے گئی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر پولیس میں بھرتی ہو کر برما آ گیا۔ وہاں پتا نہیں کیا ہوا کہ واپس برطانیہ چلا گیا۔ اسپین میں سول وار شروع ہوئی تو موصوف اس میں حصہ لینے چلے گئے۔ قد لمبا تھا، ساتھی منع کرتے تھے کہ مورچوں میں کھڑا نہ ہوا کرے مگر باز نہ آئے اور ایک روز ایک گولی آ کر گلے میں لگی۔ شہ رگ بچ گئی اور خود بھی بچ گئے۔ اس وجہ سے دوسری جنگ عظیم میں شرکت کے لیے غیر موزوں قرار دیے گئے۔ پھر کچھ عرصہ پڑھاتے رہے۔ صحافت بھی کی‘ بی بی سی پر بھی کام کرتے رہے۔ پوری زندگی لکھتے بھی رہے مگر عمر کے آخری حصے میں لکھے گئے دو ناولوں کے علاوہ کچھ ریکارڈ پر نہیں ہے۔ بدقسمتی دیکھیے کہ بی بی سی کی نشریات میں شریک رہے مگر موصوف کی آواز تک بی بی سی کے پاس محفوظ نہیں ہے۔
تپ دق کے مرض میں مبتلا تھے اور ایک سینی ٹوریم میں وفات پائی۔ موصوف کی عمر سعادت حسن منٹو مرحوم کی طرح پچاس برس سے بھی کم تھی۔ اتنی کم عمر میں اتنا کچھ کر کے نقشِ دوام چھوڑ گئے۔ بعض لوگ اس جدید دور میں عمریں تو طویل ہیں مگر غور کریں کہ کن کاموں میں صرف ہو رہی ہیں۔ آج ہمارا ادیب اگر جارج آرویل یا منٹو کے مقابلے پر نکلے تو اسے ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کی طرح ایک متبادل سچ (Alternate Truth) کی ضرورت پڑے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۳۱ جنوری ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply