امریکا اور اسرائیل حالات کو بد سے بدتر بنا رہے ہیں!

توقع کے عین مطابق ہر گزرے دن کے ساتھ عالمی اسٹیج پر ہونے والے ڈرامائی واقعات کی رفتار تیز ہوتی جارہی ہے اور لگتا ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخابات سے قبل اگلے تین ہفتوں میں اس پردۂ زنگاری سے بہت کچھ نمودار ہونے والا ہے۔ ہو سکتا ہے اسامہ بن لادن پکڑ لیے جائیں تاکہ بش کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا ملے یا اسرائیل ایران پر حملہ کر دے لیکن اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تو بش کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک طرف امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی تازہ رپورٹ نے جارج بش اور ان کے حواریوں کو پوری دنیا کے سامنے ان کے اصل مکروہ حیثیت کو برہنہ کر دیا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کی سرحد سے ملحقہ مصری علاقے سینائی کی ایک تفریح گاہ پر تباہ کن حملے میں درجنوں اسرائیلیوں کی ہلاکت نے پوری دنیا کو ایک بار پھر جتلا دیا ہے کہ دہشت گردی پر ان طریقوں سے کبھی بھی قابو نہیں پایا جاسکتا جس کی جارج بش اب تک وکالت کرتے رہے ہیں۔ عراق میں عام تباہی کے ہتھیاروں کی کھوج کے لیے بش انتظامیہ نے چارلس ڈولفر کی قیادت میں جو ٹیم بھیجی تھی اس نے یہ رپورٹ دے کر بش کی رہی سہی ساکھ بھی مٹی میں ملا دی کہ عراق کے پاس عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں ہی نہیں۔

اس طرح خود امریکی تحقیقاتی افسروں نے ہی جارج بش کے پیروں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا ہے اور عراق کی جنگ پر امریکا میں جاری بحث پر مزید تیل چھڑک دیا ہے۔ اس رپورٹ نے اس بنیاد کو تو پوری طرح ڈھا دیا ہے جس پر جارج بش اور ان کے حواریوں نے عراق پر ہلاکت خیز اور ہولناک حملے کا کیس کھڑا کیا تھا۔ عراق پر حملے سے قبل لگ بھگ ایک برس تک امریکا‘ برطانیہ اور ان کے دوسرے حلیف اور خود امریکی ذرائع ابلاغ مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ عراق کے پاس جراثیمی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور اب صدام حسین ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ گئے ہیں اور ان ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں پہنچ جانے کا خطرہ ہے کیونکہ دہشت گردوں اور صدام حسین کے درمیان رابطہ ہے۔

اس جنونی اور بددیانتی سے بھرپور پروپیگنڈے کے ذریعہ ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی گئی جس میں عراق کے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہو گیا کہ اس کے پاس ایسے ہتھیاروں کا کوئی ذخیرہ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جب اس وقت کے ہتھیاروں کے معائنہ کار ہانس بلکس اور محمد البرادی نے سلامتی کونسل کے سامنے یہ رپورٹ پیش کی کہ انہیں عراق میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کوئی ثبوت نہیں ملا تو امریکا نے ان کی دیانتداری اور قابلیت پر سوال اٹھائے اور امریکی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز مسلسل یہ اسٹوری چلاتے رہے کہ عراق امریکا اور پوری دنیا کی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ بش‘ ان کے وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ اور وزیرِ خارجہ کولن پاول مسلسل جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ ان کے پاس عراقی ہتھیاروں کا ثبوت موجود ہے۔ حتیٰ کہ کولن پاول نے تو انسانی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے سلامتی کونسل میں ثبوتوں کی پیشکش کا ایک ڈرامہ رچا اور پردے پر بے شمار نقشے اور سٹیلائٹ سے لی گئی تصویریں دکھائیں اور کہا کہ ان مقامات پر عراق کے ہتھیاروں کے ذخائر موجود ہیں۔ اب وہ ثبوت کہاں گئے؟ اب کون پاول خاموش کیوں ہیں؟

جب اس سارے پروپیگنڈے کے باوجود سلامتی کونسل نے امریکا اور اس کے حواریوں کو عراق پر حملے کی اجازت نہیں دی تو امریکا نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے عراقیوں پر آگ کے دہانے کھول دیے۔ Operation Shock and Awe یعنی ’’بھونچکا دینے اور دہلا دینے والی کارروائی‘‘ کے نام سے کیے گئے اس حملے میں عراق پر امریکا اور برطانیہ کے طیارے مسلسل بمباری کرتے رہے اور ہزارہا بے بس عراقی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا اور ان کے ملک کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ یہ واقعات اتنے تازہ ہیں کہ دنیا نے ابھی اسے بھلایا نہیں ہے۔

عراق کو کھنڈر میں بدلنے اور وہاں اپنا تسلط قائم کرنے کے بعد یہ پتا چلا کہ اب خود امریکا کے لیے Shock and Awe یا دہل جانے اور بھونچکارہ جانے کا وقت آگیا ہے۔

جان توڑ کوشش کے باوجود امریکی فوج عراق میں عام تباہی کے کسی ہتھیار کا پتا نہیں لگا سکی اور جب ہتھیاروں کا پتا لگانے کے لیے امریکی انتظامیہ کا دبائو حد سے بڑھ گیا تو معائنہ کار ٹیم کے سربراہ ڈیوڈ کے نے اس سال جنوری میں استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جگہ چارلس ڈولفر کو یہ ذمہ داری دی گئی اور انہیں امریکا‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کے ۱۲۰۰ ماہرین کی ایک ٹیم دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر صدام حسین کے ہتھیاروں کے ذخائر کا پتا لگائیں۔

اس بیچ صدام حسین کی حکومت کے جتنے بھی عہدیداروں‘ سائنس دانوں اور دوسرے اہم لوگوں کو پکڑا گیا ان سب نے بار بار یہی کہا کہ ملک میں کوئی WMD یا عام تباہی پھیلانے والا ہتھیار نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جب صدام حسین کو پکڑا گیا تو امریکی پوری کوشش کے باوجود ان سے بھی کچھ اگلوا نہیں سکے کیونکہ صدام حسین ان سے بھی وہی بات کہتے رہے جو انہوں نے امریکی سے قبل پوری دنیا کے سامنے بار بار کہی تھی۔ ’’ہمارے پاس کوئی خطرناک ہتھیار نہیںہیں‘‘۔

لیکن اس کے باوجود پتا نہیں کیوں بش پُرامید تھے کہ انہیں عراق میں ہتھیار ضرور ملیں گے اور وہ اپنی مجرمانہ اور احمقانہ جنگ کو جائز ثابت کر کے ہی دم لیں گے لیکن چارلس ڈولفر نے ان کی اس رہی سہی امید پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ اب اگر کوئی یہ امید کرتا ہے کہ ساری دنیا کے سامنے قصور وار ثابت ہو جانے کے بعد بش اور ان کے حواری ٹونی بلیئر اور جان ہاورڈ اپنی غلطی تسلیم کر لیں گے اور معذرت خواہی کریں گے تو وہ غلطی پر ہے۔ کیونکہ بش اور ان کے ساتھیوں نے اس صورتحال کا سامنا کرنے کی تیاری پہلے ہی سے کر رکھی تھی۔ چنانچہ ادھر تازہ رپورٹ آئی بھی نہیں کہ ادھر بش نے اپنا پینترا بدل دیا۔ اب اسے امریکی بے غیرتی کی انتہا کیہیے یا دیدہ دلیری کی آخری حد کہ بش کا دعویٰ ہے کہ اس رپورٹ سے بھی ان کا موقف اور خیال بالکل صحیح ثابت ہوا ہے۔ پانی میں ڈوبتے ہوئے ایک دہشت زدہ انسان کی طرح اب بش ہوا میں اڑتے ہوئے تنکوں کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ اس تنکے کے سہارے اپنی اس سیاسی موت سے بچ جائیں گے جو اب ان کی آنکھوں میں جھانکنے لگی ہے۔

بش اس رپورٹ کے ان چند جملوں کی آڑ لینے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ صدام حسین غذا کے بدلے تیل پروگرام کا غلط فائدہ اٹھا کر عراق پر عائد معاشی پابندیوں کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے بعد اگر انہیں موقع مل جاتا تو وہ دوبارہ ہتھیاروں کے حصول کی کوشش شروع کر دیتے۔ پہلے تو اس طرح کی باتوں سے خود رپورٹ تیار کرنے والوں کی بددیانتی کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ وہ یہ دعوے ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض مفروضوں کی بنیاد پر کر رہے ہیں اور دوسرے بش جو باتیں کہہ رہے ہیں اس نے جرم اور قانون کی کتاب میں ایک بالکل ہی نئے جرم کا اضافہ کر دیا ہے اور وہ ہے ’’خیالی جرم‘‘۔

پہلے تو بش نے اپنی جنگ کو “Pre-emptive war” یا پیش بندی کی جنگ قرار دیا تھا یعنی دشمن کے حملے کا انتظار کیے بغیر خود ہی حملہ کر دینا لیکن اب بش کا یہ خطرناک نظریۂ جنگ کچھ اور ہی زیادہ خطرناک بن گیا ہے بلکہ پاگل پن کی حد کو چھونے لگا ہے۔ اب بش‘ ٹونی بلیئر اور جان ہاورڈ اپنی مدافعت میں جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے امریکا اور اس کے حواریوں کی مرضی اور پسند کے برعکس کوئی کام کرنے کا خیال بھی دل میں لایا‘ چاہے وہ کسی ملک کا حکمران ہی کیوں نہ ہو تو اس کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جائے گا۔ اس کے ملک کو تباہ و برباد کر دیا جائے گا اور اس کا تختہ الٹ کر اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا اور اگر کسی دوسرے نے اس کی مدد کی کوشش کی یا اس کی ہمدردی میں دو بول بولنے کی کوشش کی تو اس کا نام بھی دشمنوں کی فہرست میں لکھ دیا جائے گا۔ ٹونی بلیئر نے بھی لگ بھگ کچھ ایسی ہی باتیں کہی ہیں۔ بلیئر کا کہنا ہے:

’’یہ صاف ظاہر ہے کہ صدام ہتھیاروں کی تیاری کا پورا پروگرام رکھتے تھے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا‘‘۔

لگتا ہے کہ بش اور بلیئر نے پوری طرح صدام حسین کے دماغ میں گھس کر یہ پتا لگا لیا تھا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کرنے والے ہیں۔

جہاں تک اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ کرنے کی بات ہے بش اور بلیئر کی جانب سے اس طرح کی باتیں ایک بھونڈے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ایک طرف عراق تھا جسے بدترین معاشی پابندیوں میں جکڑ کر رکھا گیا اور ایک ایسی بھیانک صورتحال پیدا کر دی گئی کہ پانچ لاکھ سے زیادہ عراقی بچوں کی غذا اور دوا نہ ملنے کے سبب موت ہو گئی۔

دوسری طرف امریکا کا پٹھو اسرائیل ہے جس نے گذشتہ ۵۵ برسوں میں اسی اقوام متحدہ کی بے شمار قراردادوں کو اپنی ٹھوکر پر رکھا ہے اور ان میں سے کسی قرارداد کی نہ تو اسرائیل نے پروا کی ہے اور نہ ہی امریکا نے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور غزہ پٹی میں اسرائیل کی بربریت کے خلاف منظور ہونے والی تازہ ترین قرارداد کو بھی امریکا نے ویٹو کر دیا ہے تو کیا ایسی طاقتوں کو عراق پر اور صدام حسین پر اس طرح کی کسی تنقید کا کوئی اخلاقی حق تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ عراق پر امریکا کی ننگی جارحیت کا تعلق نہ تو عراق کے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے ہے اور نہ ہی صدام حسین کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی کوشش سے۔

امریکا یہ سارا کھیل مشرقِ وسطیٰ کی تیل کی دولت پر اپنا پنجہ گاڑنے کے لیے کھیل رہا ہے۔ بش رہیں یا پھر جان کیری ان کی جگہ لے لیں دنیا بھر میں تیل کے ذخائر اور توانائی کے وسائل پر قبضے کی امریکی بھوک اس طرح کے گل کھلاتی رہے گی اور خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں اور عرب ملکوں میں کھیلے جانے والے اس امریکی کھیل میں چونکہ اسرائیل ایک بہت ہی اہم رول ادا کر رہا ہے اس لیے امریکا کبھی بھی اس کے لیے کسی خطرے کو حد سے زیادہ بڑھنے نہیں دے گا۔

امریکا کے نائب صدر ڈک چینی نی خود ہی یہ بلی گذشتہ دنوں اپنے تھیلے سے باہر نکالی جبکہ انہوں نے کہا کہ جب سے صدام حسین کو ہٹایا گیا ہے تب سے اسرائیل میں ہونے والے خودکش حملوں میں کمی آگئی ہے کیونکہ صدام حسین ان خودکش بمباروں کے خاندانوں کو فی کس ۲۵ ہزار ڈالر کی امداد دیتے تھے۔ اس طرح انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ صدام حسین کو ہٹانے کا ایک مقصد اسرائیل کا تحفظ بھی تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ گذشتہ دنوں سینائی میں ہوئے کار بم دھماکوں اور اس میں بڑے پیمانے پر اسرائیلیوں کی ہلاکت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل کے ایسے حملوں سے بچے رہنے کی امید خام خیالی ہے۔

لیکن یہ امید کرنا بھی خیال خام ہو گا کہ ۲ نومبر کے انتخابات میں بش کی شکست سے اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ میں کوئی تبدیلی آئے گی اور اسرائیل کے تعلق سے امریکا کا رویہ تبدیل ہو گا۔ اگر کسی کو جان کیری سے زیادہ منصفانہ رویہ اور پالیسی کی امید تھی تو اس پر ان کے نائب صدارتی امیدوار جان ایڈورڈس نے پانی پھیر دیا۔ جب اسرائیل۔ فلسطین مسئلہ پر ان کی پالیسی کے بارے میں پوچھا گیا تو ایڈورڈ کا کہنا تھا:

’’اسرائیلیوں کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے۔ انہیں اپنا دفاع کرنا چاہیے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی ایڈورڈ کو یہ بھی یاد آگیا کہ جب وہ اگست ۲۰۰۱ء میں یروشلیم (بیت المقدس) سے واپس آرہے تھے تو وہاں ایک خودکش بم حملہ ہوا تھا جس میں ۱۵ لوگ مارے گئے تھے ان میں چھ بچے تھے۔

واہ ایڈورڈ صاحب!

تین برس پہلے چھ بچوں کی ہلاکت آپ کو یاد ہے اور اس وقت غازہ میں جو اسرائیلی ننگا ناچ رہے ہیں اور جس طرح انہوں نے دس دن میں ۲۸ فلسطینی بچوں سمیت (۸۰) لوگوں کو مارا ہے وہ آپ کو یاد نہیں۔

اتنا ہی نہیں ایڈورڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کو آگے چل کر سعودی عرب اور ایران کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔

اگر بش کے جانشینوں کی سوچ کا یہ عالم ہے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے اور پوری دنیا کے حالات آنے والے مہینوں اور برسوں میں مزید بگڑنے والے ہیں۔ امریکی انتخابات کے نتائج کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے۔

اسرائیلی بربریت‘ فلسطینیوں کا قتلِ عام‘ فلسطینی بستیوں کی تباہی و بربادی اور ان وحشیانہ حرکتوں کو امریکی پشت پناہی اور اقوامِ متحدہ کی تحقیر اور عالمی برادری کی خاموشی اور بے بسی‘ عرب ملکوں کا نکمہ پن یہ سب عوامل ایک ایسی مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت پیدا کر رہے ہیں کہ اس کا نتیجہ سینائی کے علاقے میں جمعرات کو ہوئے ہلاکت خیز حملوں کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔

اسرائیلی بھلے ہی اسرائیل کی حدود میں اپنے آپ کو کسی طرح بچالیں وہ ساری دنیا کو اپنا دشمن بنا کر محفوظ نہیں رہ سکتے۔ یہ حملہ چاہے القاعدہ نے کیا ہو جیسا کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے یا پھر کسی فلسطینی گروپ نے یہ صاف ظاہر ہے کہ نفرت اور تشدد کے عوض دنیا کی کوئی طاقت اپنے لیے سلامتی نہیں خرید سکتی۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*