
پچھلے دنوں بہت شور تھا کہ امریکی حکومت ،پاکستان کے ساتھ تزویراتی معاہدات Strategic Agreement کرنے جارہی ہے اور اس کے لیے یہ تاثر پیش کیا گیا تھا کہ جیسے یہ معاہدات ہوتے ہی ہر پاکستانی کی تقدیر بدل جائے گی۔ سوئس بینکوں میں ہر شخص کے لیے لاکھوں ڈالر جمع کردیے جائیں گے !!!یہ معاہدے کیوں ہورہے ہیں اور کیا اس کے لیے پارلیمینٹ میں کوئی بحث ہوئی ہے۔اخبارات میں اس سلسلے میں صرف افواہیں تھیں یا ایسی باتیں کہ جن کا موضوع سے دور سے دور تک کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ شاید اس لیے کہ عوام کو اس بارے میں کوئی صحیح بات بتائی ہی نہ جائے۔ جمہوری ممالک میں اس قسم کے معاہدے بغیر کسی بحث و مباحثہ کے نہیں کیے جاتے۔یہ بند کمروں میں ہونے والے معاہدات، اب تک کی معلومات کی حد تک، اقوام ِ عالم کے ساتھ دھوکا کرنے کے معاہدے تھے۔ جس کے تحت کسی ملک نے تو اپنے تمام مفادات حاصل کر لیے اور کسی کو کچھ بھی نہیں ملا۔ شاید میں غلط کہہ گیا ہوں ، ملا ہے تو صرف صاحبان اقتدار کو، جن کے پاس دولت کے انبار جمع ہوگئے ، جیسا کہ فلپائین کے مارکوس کے پاس تھے، یا جیسے بقلم خود ’’آریا مہر‘‘ رضا پہلوی کے پاس۔ اب تک کی معلومات کے مطابق امریکا میں گفت و شنید کا ایک دَور ہوچکا ہے اس میں کن معاملات پر بات چیت ہوئی۔ کچھ نہیں پتا۔ جلد ہی اسلام آباد میں دوسرا دَور ہوگا۔ اس کا کیا نتیجہ سامنے آئے گا۔ میرے اندازے کے مطابق کچھ بھی نہیں۔ ہم تو عوام کالانعام ہیں۔ جن کا کام صرف یہ ہے کہ صاحبانِ اقتدار کے سامنے جھک جائیں اور ان سے کوئی سوال نہ کریں۔ عجب طرزِ حکم رانی ہے۔ اسے کس طرح جمہوری یا عوامی کہا جاسکتا ہے، یہ تو مطلق العنان حکم رانوں کا بھی طریقِ کار نہ تھا۔اسی ضمن میں ایک مضمون زیرِ مطالعہ آیا اور صاحب مضمون نے جو باتیں کہی ہیں ان میں سے بہت کچھ ہمارے ہاں ہو بھی چکا ہے جس کا علم صاحبان اقتدار کو تو ضرور ہوگا اور جو کچھ باقی رہ گیا ہے اس کو پورا کرنے کے لیے ہی شاید امریکی حکومت نے تزویراتی معاہدات کا جال پھینکا ہے۔ امریکا اور ناٹو کو کم از کم میں علیحدہ نہیں سمجھتا،دونوں ایک ہی ہیں ۔ ترجمہ پیش خدمت ہے۔ صاحب مضمون نے جن سترہ (۱۷) امور کی بابت لکھا ہے کہ ان کی بنیاد پر ناٹو اور امریکی حکومت دنیا میں کسی بھی جگہ کسی وقت بھی فوجی کارروائی کر سکتے ہیں۔تمام صاحبان فکر ونظر سے درخواست ہے کہ غور فرمالیں اور تیاری بھی کرلیں کہ ہم نے اب غیروں کی غلامی کس طرح کرنی ہے [ مترجم]
مابعد سر د جنگ کے دس سالوں میں ناٹو کے اراکین کی تعداد ۱۶ سے بڑھ کر ۲۸ ہوچکی ہے لیکن کسی صورت بھی اطمینان نہیں ہورہا۔ جب کہ امریکا اور ناٹو کو کسی جانب سے بھی کسی فوجی کارروائی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ نہ کسی ریاست کی جانب سے اور نہ کسی غیر ریاست سے۔ شمالی اوقیانوسی معاہداتی تنظیم یعنی ناٹو (NATO) اپنی پہلی ایشائی جنگ یعنی افغانستان میں مکمل طور پر قابض نہیں ہوسکی ہے جب کہ اس وقت یہ تنظیم دنیا کی واحد اور سب سی بڑی اور منظم فوجی جنگی مشین ہے۔اب یہ تنظیم عالمی طور پر مختلف النوع اور مختلف الجہات کارروائیاں کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔
۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۱ء کے درمیانی عرصے میں معاہدئہ وارسا Warsaw Pact کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے اور سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد اصولی طور پر اس تنظیم کو ختم کردینا چاہیے تھا کیوں کہ بنیادی طور پر یہ تنظیم سوویت یونین اور معاہدئہ وارسا میں شامل ممالک سے مقابلہ کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی۔ اس تنظیم کو اب یہ نظر آتا ہے کہ موقع ہے کہ نہ صرف براعظم یورپ میں بلکہ عالمی طور پر اپنے دائرہ اثر کو بڑھایا جاسکتا ہے۔
۱۹۹۵ء میں بوسنیا میں فضائی بمباری سے ناٹو کی جنگی کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ فضائی بمباری جو آپریشن ’’دانستہ طاقت‘‘ Operation Deliberate Force جس میں ناٹو کے ۴۰۰ طیاروں نے حصّہ لیا اور آپریشن ’’ مشترک جد وجہد‘‘ Operation Joint Endeavour جس میں ناٹو کے ۶۰۰۰۰ فوجیوں نے براہ راست حصّہ لیا تھا۔ اس کے بعد سے تنظیم انتہائی بے رحمانہ تسلسل کے ساتھ مشرقی اور جنوبی بلقان ،شمال مشرقی افریقا،پورے بحیرئہ متوسط (بحیرئہ روم) ،وسطی افریقا، جنوبی اور وسطی امریکا اور وسطی ایشیا میں اپنی فوجی کارروائیوں میں مشغول ہے۔تنظیم کے پنجے اب تک جنوبی قفقاز اور شمالی یورپ کے ممالک بشمول فن لینڈ اور سویڈن تک پھیل چکے ہیں۔اس کے علاوہ ایشیا، بحرالکاہل کے علاقے میں۔ تنظیم انفرادی طور پر آسٹریلیا ،جاپان،نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا کے ساتھ باہمی اشتراک کے معاہدے طے کر چکی ہے اور ساتھ ساتھ منگولیا اور سنگاپور کے ساتھ یہ معاہدات بھی شامل ہیں کہ ان ممالک کے فوجی بھی تنظیم میںبھرتی کیے جائیں گے اور پچھلے آٹھ برسوں میں ان کے فوجی تنظیم کے تحت افغانستان میں جاری جنگ میں شامل ہیں۔بحیرئہ متوسط کے مکالماتی منصوبے Mediterranean Dialogue Program کی تجدید اور اس کے اہداف میں بڑھوتری کے بعد، جس کے تحت الجیریا، مصر، اسرائیل، شرق اردن، ماریطانیا، مراکش اور تیونس کے ساتھ معاہدات کیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ ۲۰۰۴ء کے استنبول ابتدائی مشترک منصوبے کے تحت خلیج فارس کے حصّہ کے طور پر خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک یعنی بحرین، کویت، اومان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدات کیے جارہے ہیں جس کے تحت ان ممالک میں امریکا کے تربیت یافتہ کولمبیا ئی فوجی تعینات کیے جائیں گے۔ ان کولمبیائی فوجیوں کو افغانستان میں جاری جنگ کے دوران اندرونی بغاوت کچلنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح ایک ایسی جنگی تنظیم وجود میں آگئی ہے کہ جو بظاہر تنظیم کے بنیادی رکن ممالک کا تحفظ کرے گی اور جس کے پاس دنیا کے تمام آباد ۶ براعظموں میں فوجی اڈے یا ان کے ساتھ فوجی معاہدات ہیں۔
یہ تنظیم اب تک یورپ میں یوگوسلاویا کے خلاف جنگ کر چکی ہے اور ایشیا میں افغانستان میں (ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی دراندازی کی گئی) یہ کارروائیاں ۲۰۰۱ء سے تاحال جاری ہیں اور مستقبل بعید تک جاری رہیں گی۔ فی الوقت تنظیم افریقی ساحل پر بشمول خلیج عدن میں مختلف جنگی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
’’سرخ خطرہ‘‘ (سوویت خطرہ) جس کا ڈھول ۶۰ برس قبل پیٹا گیا تھا تاکہ اس وقت کے لحاظ سے بھی دنیا کا سب سے بڑا جنگی اتحاد قائم کیا جا سکے۔ وہ خطرہ تو ایک نسل قبل یعنی معاہدئہ وارسا اور سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے ساتھ مفقود ہوچکا۔ لیکن تنظیم کی جنگی مشین اتنی طاقتور ہوچکی ہے کہ جو کسی وقت بھی ۲۰ لاکھ سے زائد فوجیوں کو میدان جنگ میں دھکیل سکتی ہے اور جس کے رکن ممالک ،اس وقت دنیا بھر کے دفاعی اخراجات پر خرچ ہونے والی رقم کا ۷۰ فیصد خرچ کرتے ہیں۔
پچھلے ۱۵ سال میں ہونے والی توسیع بھی تنظیم کے عالمی اہداف کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اِس لیے یہ تنظیم اب نیا تزویراتی تصور پیش کرنے میں مصروف ہے جو کہ ۱۹۹۹ء میں یوگو سلاویا کے خلاف جنگی کارروائیوں کے دوران پیش کیے جانے والے تصور کی جگہ لے گا۔یوگوسلاویا کے خلاف جنگ کے دوران ہی سوشلسٹ بلاک سے علیحدہ ہونے ممالک کو اِس تنظیم میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ تصور جب پیش کیا گیا تھاتو ناٹو نے اسے’’ ۲۱ویں صدی میں حفاظتی اقدامات‘‘ کا نام دیا تھا۔ دس سال کے اس عبوری عرصے میں تنظیم اب اس جگہ پہنچ گئی ہے جہاں وہ اپنے آپ کو ’’۲۱ صدی کا ناٹو‘‘ ، ’’عالمی ناٹو‘‘ اور ’’ معرکہ آرا ناٹو‘‘ کہنے لگی ہے۔ (پہلا تزویراتی تصور ۱۹۹۱ء کے دوران تیار کیا گیا تھا جب سوویت یونین ایک وفاق کے حیثیت سے ٹوٹ رہا تھا اور عراق کے خلاف آپریشن ’’صحرائی طوفان ‘‘ Desert Storm جاری تھا)۔
موجودہ نوتشکیل کردہ منصوبہ ناٹو کے صدر مقام میں اس کے قیام کی ساٹھویں برسی پر منعقد ہونے والی کانفرنس، اپریل ۲۰۰۹ء میں غوروخوض کے لیے پیش کیا گیا، جو پہلی بار دو مختلف ممالک میں منعقد ہوئی تھی۔ یعنی اسٹراس برگ Strasbourg (فرانس) اور کیہل Kehl (جرمنی) میں۔ اس سے ایک سال قبل ہی ناٹو کے جنرل سیکریٹری یآپ دی ہوپ شیفر Jaap de Hoop Scheffer نے کہا تھا: ’’ماورائے بحراوقیانوس جنگی تنظیم پر زور دیا جاتا ہے کہ ایک نیا طویل المدتی تزویراتی منصوبہ تشکیل دیا جائے جو کہ تیسرے ہزارے میں پیش آنے والے خطرات جیسے’’ سائیبر حملے، عالمی طور پر درجہ حرارت میں اضافہ، توانائی کے تحفظ اور نیوکلیائی خطرات اور دھمکیاں‘‘، اس کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ تنظیم کے مالیاتی وسائل میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ :’’بڑھتی ہوئی ذمّہ داریوں‘‘ کو پورا کیا جاسکے۔
اگرچہ ۱۹۴۹ء سے یعنی اپنے قیام کے دن سے ہی خود کو حق بجانب قرار دے کر یورپ میں ایک جنگی محورقائم کیا گیا جس کے لیے وجہ تو یورپ میں ہونے والی انتہائی ہلاکت خیز جنگ تھی جو اب تک کی تاریخ ِ انسانی میں سب سے زیادہ ہولناک جنگ تھی۔اگرچہ کہ سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد خودمتعین کردہ اہداف کو پورا کرنے کے لیے بلقان میں مداخلت کی تاکہ اپنی ’’قیام ِ امن کی صلاحیت‘‘ کو منوایا جاسکے جو کہ بہرحال یکطرفہ تھی اور ہے۔ اگر۲۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو تنظیم نے انتہائی وفادارانہ بلکہ غلامانہ طور پر اپنے آپ کو امریکی حکومت کی ایما پر ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ اور ’’نسل کش ہتھیاروں کے خلاف جنگ‘‘ میں شرکت اختیار کرلی۔ ساری دنیا میں کارروائی کی لیکن وہاں نہیں کہ جہاں حقیقی طور پر دہشت گرد ہیں یا ان ممالک کے خلاف نہیں جن کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں کہ جو چشم زدن میں نسل انسانی کو ختم کر سکتے ہیں۔پچھلے چند برسوں میں اس تنظیم (ناٹو) نے اپنے لیے مختلف النوع اور مختلف الجہات کارروائیوں کے لیے اپنے کردار کے متعلق منصوبے پیش کیے ہیں کہ وہ دنیا میں کسی بھی جگہ دخل اندازی کر سکتی ہے اور جو وجوہات اب تک بیان کی جاچکی ہیں وہ لامحدود اور ان گنت Myriad ہیں۔ یہ لفظ یعنی لامحدود اور اَن گنت Myriad واقعی کہے گئے تھے اس کانفرنس میں جو یکم اکتوبر ۲۰۰۹ء کو مشترکہ طور پر ناٹو اور لائڈز کے زیراہتمام منعقد ہوئی تھی۔ لائڈز، لندن Lloyd’s of London جو اس کے اپنے بقول ’’دنیا کی سب سی بڑی انشورنس مارکیٹ‘‘ ہے۔ یہ الفاظ لائڈزکے صدر نشین لارڈ لیوین (Lord Levene) نے اپنی تقریر کے دوران ادا کیے تھے جب وہ ’’تیسرے ہزارے‘‘ کے دوران ناٹو کے تزویراتی منصوبہ کا ذِکر کررہے تھے۔
لیوین کی تقریر کے الفاظ تھے: ’’ہماری انتہائی گنجلک (سوفسطائی) اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ اور پیچیدہ معاملات سے بھرپور دنیا ، لامحدود اور ان گنت متعین اور مہلک خطرات سے گھری ہوئی ہے۔اگر ہم نے جلد ہی اقدامات نہ کیے تو ہم اپنے آپ کو گلیور کے طرح پائیں گے کہ زمین پر لٹا کر زنجیروں سے مقید کر کے مجبور اور بے بس کردیا گیا ہو کیوں کہ ہم نے بتدریج ہونے والی تبدیلیوں کے خلاف بروقت اقدامات نہیں کیے‘‘۔اس کا گلیور کے متعلق یہ انتساب جو کہ جوناتھن سوٖفٹ کے ناول کا مرکزی کردار تھا، اس بات کا متقاضی ہے کہ ناول کا ایک ٹکڑا بطور اقتباس پیش کیا جائے جو کہ اس ملک کے متعلق ہے جس سے لیوین کا اپنا تعلق ہے یعنی’’برطانیہ عظمیٰ‘‘۔
گلیور کے لاف گزاف جو وہ ایک غیر ملکی بادشاہ کے سامنے بشمول برطانیہ کے وسیع مقبوضہ جات اور اس کی جنگی طاقت کی بابت کرتا ہے ،جب ختم ہوجاتے ہیں تو اس کا مخاطب کہتا ہے:
’’جہاں تک کہ تمہاری ذات کا تعلّق ہے جو کہ اپنی عمر کا بیشتر حصّہ سفر میں گزار چکا ہے، میں پر امید ہوں کہ تم جو اب تک اپنے ملک کی بیشتر برائیوں سے بچ رہے ہو ۔لیکن جو کچھ کہ میں تمہارے بیانات سے اخذ کر سکا ہوں اور جو کچھ کہ میں تم سے سوالات کے جوابات سے معلوم کرسکا ہوں اس کی بنیاد پر میں اس کے سوا کسی اور نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا کہ تمہاری قوم کی اکثریت انتہائی خبیث نسل ہے جو کہ نفرت انگیز و کریہہ اور موذی کیڑے ہیں جنہیں قدرت نے اس زمین پر رینگنے کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
لارڈ لیوین نے اس کانفرنس کے میزبانی اس وقت کی تھی ہے جب کہ اتحاد کی جانب سے اس کا تجدید کردہ تزویراتی منصوبہ پیش کیا گیا تھا اور جس میں جیسا کہ بیان کیا گیا تھا کہ ’’دو سو (۲۰۰) انتہائی بلند مرتبہ نمائندگان برائے صنعت و تجارت اور تحفظاتی ادارے‘‘ شامل تھے۔
سابقہ ماہ جولائی میں ناٹو کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ :’’ماہرین کا ایک گروہ‘‘ جلد ہی اجلاس منعقد کرے گا جس میں وہ بحث و مباحثہ کے بعد ایک نیا تزویراتی منصوبہ تیار کر ے گا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ جو دوسروں کے ساتھ ۷۸ دِنوں پر محیط یوگوسلاویا پر ہونے والی فضائی بمباری کی ذِمّہ دار تھی، وہ اس اجلاس کی صدارت کرے گی۔ اور اجلاس کے شریک صدرنشین جیریون وان دیر وئیر Jeroen van der Veer ہوں گے جو ۳۰ جون ۲۰۰۹ء تک رائل ڈچ شیل کے منتظم اعلیٰ تھے۔
ناٹو کے جنرل سیکریٹری اینڈرس فاہ راسموسین Anders Fogh Rasmussen اور لارڈ لیوین نے مشترک طور پر ایک کالم تحریر کیا تھا جو روزنامہ ٹیلی گراف،لندن میں یکم اکتوبر ۲۰۰۹ء کو شائع ہوا۔مغرب کا آزاد پریس کتنا مرنجاں مرنج اور صلح جو واقع ہوا ہے کہ جس دن یہ کانفرنس منعقد ہونی تھی اُسی دِن یہ کالم اخبار کی زینت بنا۔
دونوں نے یہ گردان جاری رکھی کہ ناٹو اور نجی کاروباری طبقہ مشترک طور پر فریق دوم کے مفادات کا تحفظ کریں۔ فریق دوم یعنی مغرب میں قائم شدہ بڑی بڑی بین الاقوامی کارپوریشن بشمول مواصلاتی ٹیکنالوجی لیکن انہی تک محدود نہیں، قطبی برف کے پگھلنے، ممالک غیر میں سرمایہ کاری کا تحفظ اور طوفان باد وباران وغیرہ وغیرہ۔
اس مضمون میں کہا گیاتھاکہ :’’صنعت کاران بشمول لائڈز کے اراکین، جو کہ ناٹو کے نئے تخیل اور تزویراتی منصوبے کی تشکیل میں شریک ہیں، خاص طور پر ماہرین کے گروہ کے شریک صدر نشین جو کہ شیل کے سابق منتظم اعلیٰ ہیں یعنی جیریون وان ڈیر وئیر Jeroen van der Veer‘‘
اس میں طویل المدتی منصوبوں کا ذکر بھی تھا جس میں ایسے معاملات کا جو جنگی نوعیت کے نہ تھے اور نہ ہوسکتے ہیں، ان کا جواب بھی جنگی کارروائی کے ذریعے دیا جانا ہے۔: ’’حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ایسی امکانی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کریں بشمول خفیہ اطلاعات پر منحصر امکانات، موسمیاتی تبدیلیاں، جنگی ماہرین کا ان امور ومسائل کو اپنی منصوبہ بندیوں میں شامل کرنا۔۔۔ ان کو (حکومتوں) چاہیے کہ وہ سائیبر تحفظات کو مستحکم کرنے کے عملی اقدامات کریں جیسا کہ ناٹو کی تنظیم سائیبر تحفظات کے لیے پہلے ہی کرچکی ہے اور کسی بھی وقت ان کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے تاکہ اگر تنظیم کے رکن ممالک پر سائیبر حملے ہوں تو ان کا دفاع کیا جاسکے‘‘۔
اس مضمون کا آخری نکتہ اشارہ تھے ان واقعات کی طرف جو ۲۰۰۷ء میں اسٹونیا میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ان سائیبر حملوں کو مختلف مغربی حکومتوں اور ناٹو کے اعلیٰ حکام نے روسی توڑ پھوڑ کے ماہرین (Hackers) کی جانب سے ہونے والی کارروائیاں قرار دی تھیں یا پھر خودوفاق روس کی حکومت کو ذِمّہ دار قرار دیا تھا۔جب کہ ان الزامات کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا تھا۔اس کے باوجود بھی امریکا کے اعلیٰ منتخب عہدے داروں کی جانب سے یہ دھمکیاں دی گئی تھیں کہ ناٹو معاہدہ کی شق ۵ کے تحت ایسی کارروائیوں کے خلاف مشترک تحفظات کے خاطر جنگی کارروائیاں شروع کی جاسکتی ہیں۔
یہ بلاشبہ وہی بات ہے جو لیوین اور راسموسین چاہ رہے تھے جب وہ ناٹو کی ان کارروائیوں کو جواز عطا کررہے تھے کہ : ’’ایک ایسے سائیبر تحفظاتی نظام کی تشکیل جو کہ رکن ممالک پر حملوں کے دوران ان کو مدد اور تحفظ فراہم کرسکے‘‘۔
ؒٓلارڈ لیوین آف پورٹ سوکین اور سابق ڈچ وزیر اعظم راسموسین کی جانب سے کیے جانے والے مطالبہ کے پیچھے جو عجلت کارفرما تھی اور ہے، وہ یہ ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی جنگی تنظیم ،مغربی صنعتی اور مالیاتی اداروں کے تحفظ پر فوری طور پر عملی اقدامات کرے۔اور جس مطالبہ کو بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہا گیا : ’’بنی نوع انسان نے ہمیشہ وسائل اور زمین کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔لیکن اب ہم ایسے دباؤ دیکھ رہے ہیں اورانتہائی وسیع تناظر میں:
’’ہم کو وہ سوچنا چاہیے جو کہ ماورائے خیال و توہم ہو۔ لائڈز نے ایسے ۳۶۰ خطرات کے امکانات کا منصوبہ تیار کیا ہے جو کہ ممکنہ طور پر ہلاکت پھیلا سکتے ہیں اور ناٹو کے ’’کثیر العناصر مستقبل کا منصوبہ‘‘ میں شامل ہیں۔
تاکہ ہم حاضر سے بلند ہوکر دور افق پر نظریں جماکر دیکھیں کہ کل کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔‘‘
نئے تزویراتی منصوبے میں کیا کچھ شامل کیا جاسکتا ہے اس کے لیے لا متناہی مواقع اور تجاویز موجود ہیںجن کو منصوبے کا بنیادی رکن قرار دیا جاسکتا ہے اور کسی بھی مسئلہ کو بنیادی قرارد ینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
لیوین نے کانفرنس کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہزارہا متعین اور مہلک خطرات‘‘ اور جن کی نشان دہی راسموسین نے کی۔
کانفرنس کے دوران ناٹو کے سربراہ نے جن ’’مہلک خطرات‘‘ کی نشان دہی کی اور جن کا تفصیلی ذکر کیا:
’’جن خطرات کا ہمیں اس وقت سامنا کرنا ہے، وہ نجی اور حکومتی مفادات دونوں کے درمیان سے گزرنا ہے۔ ناٹو، یورپی یونین اور معتدد دیگر حکومتوں نے اپنی اپنی بحری افواج کو کاررائیاں کرنے کے لیے میدان میں اتارا ہے کہ وہ خطرات سے مقابلہ کر سکیں۔۔۔ اور جس کی بنا پر انشورنس کمپنیوں کو کروڑوں اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔۔۔ ان کمپنیوں میں سے بیشتر وہ ہیں جو لائڈز مارکیٹ میں شریک ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا الفاظ کا بغیر کسی ابہام کا ایک ہی منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ ناٹو اور یورپی یونین کی بحری افواج افریقا میں دیگر مقامات کی طرح جو کارروائیاں کررہی ہیں اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ لائڈز میں شریک کمپنیوں کو کم سے کم مطالبات تسلیم کر کے ادا کرنے پڑیں ،دوسرے الفاظ میں ان کا نقصان کم سے کم ہو سکے۔
راسموسین کی تقریر میں جو حیلہ بہانے شامل تھے جن کی بنیاد پر مستقبل میں ناٹو کہیں بھی جنگی مداخلت کر سکتی ہے۔ اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہیں؛
۱۔ بحری قزاقی۔ Piracy
۲۔سائیبر تحفظ ؍دفاع۔ Cyber security/defense
۳۔ موسمیاتی تبدیلی۔ Climate change
۴۔شدیدموسمیاتی کیفیات:ہلاکت خیز طوفان اور سیلاب۔ Extreme Weather event – storms and flooding
۵۔ سطح سمندر میں چڑھاؤ۔ Sea levels will rise
۶۔آبادی کی نقل مکانی۔۔۔ بے شمار تعداد میں۔۔۔ ایسی جگہوں پر جہاں کوئی اور مقیم ہے اور کسی وقت سرحدوں کے پار
Populations will move — in large numbers — always into where someone else lives, and sometimes across borders.
۷۔ پانی کی کمیابی Water shortages
۸۔ خشک سالی Droughts
۹۔خوراک میںممکنہ طورپر غیر معمولی کمی کا واقع ہو جانا Food production is likely to drop
۱۰۔قطبین کی برف کا پگھلنا اور جس کی وجہ ان وسائل کا ظاہر ہوجانا جو اب تک برف کے نیچے پوشیدہ ہیں۔ Arctic ice is retreating, for resources that had, until now, been covered under ice.
۱۱۔ عالمی طور پر درجہ حرارت میں اضافہ: Global warming
۱۲۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج۔ CO2 emissions
۱۳۔صنعتوں کو محفوظ کرنا، یا توانائی پیدا کرنے والے اداروں یا منتقل کرنے والی لائنوں یا ان بندرگاہوں کو تحفظ دینا جنھیں طوفان باد وباران سے خطرات لاحق ہوں۔ Reinforcing factories or energy stations or transmission lines or ports that might be at risk of storm or flooding
۱۴۔ توانائی جہاں نظام ترسیل کی حفاظتی اقدامات خطرے میں ہوںEnergy, where dirvesity of supply is a security risk.
۱۵۔ قدرتی اور انسانی تباہی: Natural and human diasters.
۱۶۔ غیر معمولی شدید طوفان یا سیلاب یا آبادی کا اچانک نقل مکانی کرنا: Big storms, or floods, or sudden movements of populations.
۱۷۔ توانائی کا صحیح طور پر استعمال ، تاکہ غیر ملکوں سے خریدی جانے والی توانائی پر کم سے کم انحصار ہو سکے۔Fuel efficiency, reducing our overall dependence on foreign sources of fuel.
مندرجہ بالا ۱۷ مفروضوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کو کسی طور و طریق سے یہ کہا جا سکے کہ اس سے کسی جنگی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور یقینی طور ان میں سے کوئی بھی مفروضہ ایسا نہیں کہ جو کسی بھی تسلیم شدہ ریاست کی جانب سے لاحق ہو سکتا ہو۔
یقینی طور پر کوئی ’’ غنڈہ ریاست‘‘ Rogue States یا ’’استبداد کی پناہ گاہ‘‘ Outposts of Tyranny یا ’’بین الاقوامی دہشت گرد‘‘ international terrorists کوموسمیاتی تبدیلیوں کے لیے ذِمّہ دار نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس کے باوجود راس موسین نے اپنی رائے پر حجت و اصرار کرتے ہوئے یہی کہا کہ یہ مفروضات جنگی نوعیت کے ہیں:
’’حفاظتی نقطہ نظر سے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلہ کو ریاستی حفاظتی منصوبے میں شامل کیا جائے اور دفاعی تزویراتی منصوبوں میں بھی شامل کیا جائے ۔جیسا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا پہلے ہی اس مسئلہ کو اپنے چار سالہ دفاعی تنقیدی جائزہ میں شامل کرچکا ہے۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی دفاعی اور حفاظتی اداروں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس مسئلہ کو اہم ترین نکتہ کے طور پر دیکھیں ۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ دفاعی جنگی ماہرین کو یقینی طور چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے دیرپا اثرات اور نتائج پر غور و خوض کر کے ممکنہ نتائج کا ادراک کریں اور ان صلاحیتوں کا بھی جو مستقبل میں درکار ہوں گی‘‘۔
اس (راس موسین) نے مزید اس بات کی وکالت کی کہ ۴۰ سے زائد اقوام جو کہ ۲۸ رکنی اس جنگی بلاک میں انفرادی اور اجتماعی مشترکہ شراکتی معاہدات کی بنیاد پر شامل ہیں اور اصرار کے ساتھ کہا: ’’ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ ہم اپنی شراکت داری میں مطابقت پیدا کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کو زیرِ بحث لائیں۔ فی الوقت، ناٹو جنگی تربیتی پروگراموں اور صلاحیت کار میں اضافہ کے لیے تمام دنیا کے ممالک کے ساتھ مصروفِ عمل ہے۔ ہم اس وقت جن معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ان میں قیامِ امن، زبانوں کی تعلیم اور انسداد ِ دہشت گردی ہیں۔ لیکن کیوں نہ اس میں ان معاملات کو بھی شامل کر لیا جائے جیسے کہ شراکت دار ملکوں کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ، تاکہ وہ شدید نوعیت کے طوفان یا سیلاب یا اچانک طور پر وقوع ہونے والی نقل مکانی کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکیں۔‘‘
ٍراس موسین نے ناٹو کے لیے جس پنڈورا کے صندوق کو کھولا ہے اس کی جھلکیاں ان کے پیش رو یآپ دی ہوپ شیفر Jaap de Hoop Scheffer سالہا سال سے پیش کررہے تھے اور جنھوں نے دو سال قبل کہا: :’’وہ موضوعات جن پر بخارسٹ کانفرنس (بہار ۲۰۰۸ء) کے دوران، معاہدہ کے رکن ممالک کے سربراہوں کو غور کرنا ہے ، اُن میں یہ شامل ہیں: ’’ناٹو کے رکن ممالک میں اضافہ ،میزائلی دفاع، جنگی صلاحیتیں، توانائی کے لیے تحفظی اقدامات، بحری تجارتی جہازرانی کی موجود کیفیت اور اس سے آگاہی، سائیبر دفاع اور وہ تمام نئے خطرات جن سے تحفظ فراہم کرنا لازمی ہے۔‘‘ یہ ایک بیان میں کہا گیا تھا اور ایک دوسرے بیان میں جو اسی دوران دیا گیا تھا: ’’۔۔۔ان معاملات کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے جیسے کہ ’’رکنیت میں اضافہ؛ شراکت داری؛ توانائی؛ تحفظ؛ عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ؛ توانائی کے وسائل کو محفوظ بنانا؛ سائیبر اور میزائل کے حملوں کے خلاف دفاع؛ جن کے لیے وہ پر امید ہے کہ بخارسٹ کانفرنس کے دوران ان مسائل پر یقینی طور پر غور کیا جائے گا‘‘۔
مارچ ۲۰۰۸ء کے دوران شیفر کے ایک بیان کے اقتباسات اخباری رپورٹ میں دہرائے گئے ، جس کا عنوان تھا: ’’ناٹو کے سربراہ کا عندیہ کہ میثاقِ اطلانتک میں تزویراتی منصوبہ بندی کی تعریف شامل کی جائے۔‘‘ جس میں کہا گیا تھا: ’’مختلف النوع اور مختلف الجہات خطرات جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،ان کا سامنا ہے جو کل کسی وقت بھی کسی طرف سے نمودار ہوسکتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی فکر و دھیان کو تزویراتی اُفق پر مرکوز رکھیں اور انداز ے لگائیں کہ کیا پیش آسکتا ہے ، ہم صرف ردِ عمل کا اظہار نہیں کر سکتے۔۔۔۔ ناٹو کو دنیا کے کسی بھی گوشے میں کسی بھی وقت کوئی کارروائی کر سکنے کی صلاحیت رکھنی ہوگی اور اس کے لیے ہمیں عالمی طور پر شراکت دار، درکار ہیں۔۔۔‘‘
پچھلے جنوری میں اسرائیل کے دورے کے موقعہ پر شیفر نے اسی موضوع کا اعادہ کیا: ’’ناٹو تبدیل ہو چکی ہے اور اب یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ آج کے اور مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے بخوبی نپٹ سکتی ہے۔ ہم نے دنیا کے مختلف حصّوں میں واقع ممالک کے ساتھ شراکتی معاہدے کر لیے ہیں ۔جاپا ن سے آسٹریلیا تک، وہاں سے پاکستان تک اور بلاشبہ بحیرہ متوسط (بحیرہ روم) کے اہم ممالک کے ساتھ اور خلیجی ممالک کے ساتھ بھی ایسے ہی معاہدے کیے جا چکے ہیں۔ ہم نے (یعنی ناٹو نے) اقوام متحدہ، افریقی یونین کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کر لیے ہیں جو اس سے پہلے کوئی وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ہم نے نئے ممالک کو بھی ساتھ ملا لیا ہے جس کی بنا پر ناٹو کے ۲۸ رکن ہوجائیں گے اور ان کے علاوہ بھی دوسرے ہیں جو قطار میں ہیں۔۔۔ہم اب نئے کردار ادا کرنے کی جانب پر امید ہیں ، جس میں توانائی کا تحفظ اور سائیبر حملوں سے دفاع شامل ہیں ۔۔۔۔‘‘
۲۲ مارچ ۲۰۰۹ء کو ایک تقریر کے دوران،جس کا عنوان تھا: ’’ناٹو کا مستقبل‘‘، اس نے بیان دیا: ’’طویل المدتی، قیمتی اور اندیشوں سے پُر کارروائیاں میں اپنے اپنے ممالک سے دور، مصروف ہونا‘‘ اس کے علاوہ دخل اندازیاں ’’ایسے معاملات میں جو ناٹو کے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور اس کے مفادات ہیں۔۔جس میں خطوں کا دفاع ،جس کے لیے علاقے میں استقلال لازمی ہے سے لے کر سائیبر حملوں کے خلاف دفاع، توانائی کا تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مابعد اثرات:
’’ہم، (ناٹو) صرف ۱۲ رکن ممالک سے ۲۶ تک پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی ۲۸ ہو جائیں گے۔ اور صرف اس نقطہ نظر سے کہ یورپ کا دفاع اس اتحاد کی جزو لازمی ہے، یہ اتحادی تنظیم اب ارتقا کرتی ہوئی عالمی سطح پر تحفظ کرنے والی ایک بڑی طاقت بن چکی ہے۔ جو اس وقت کئی بر اعظموں میں مصروف کار ہے جس میں اس کے ساتھ مختلف اہم علاقائی ممالک اور ادارے شریکِ کار ہیں۔‘‘
اس کا افریقی یونین کے بارے میں دیا گیا حوالہ، سوڈان کے خطہ دارفور سے متعلّق تھا جہاں پر ناٹو کی افواج ۲۰۰۵ء سے متعین ہیں۔جو کہ اس تنظیم کا افریقا میں پہلا آپریشن تھا۔ اور اس کا یہ حوالہ کہ اقوام متحدہ کے ساتھ ’’سیاسی تعلقات‘‘، ان بند کمروں میں ہونے والی کارروائی سے تھا کہ جس کے تحت ستمبر ۲۰۰۸ء میں ایک معاہد ہ شیفر اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے درمیان طے پایا تھا، جس کے لیے سیکورٹی کونسل کے دیگر مستقل ارکان وفاق روس اور چین کو نظر انداز کیا گیا تھا۔
درحقیقت ناٹو کی جانب سے عذرات یا خود ساختہ جوازات کی یہ بڑھتی ہوئی فہرست جن کی وجہ سے ناٹو کہیں بھی کوئی بھی کارروائی کرسکتی ہے اور کسی بھی ملک میں دراندازی کر سکتی ہے۔ جو پہلے شیفر نے پیش کی اور اب راس موسین جن کا اعادہ کر رہے ہیں۔ یہ فہرست ایک انتہائی مغرورانہ حرکت ہے جس کے تحت ناٹو وہ سب کچھ کرسکے گی جو دراصل اقوام متحدہ کو کرنا چاہیے نہ کہ غیر منتخب فوجی سالاروں کا ایک ٹولہ جس کے رکن ممالک کی کل آبادی، کرئہ ارض کے تمام باسیوں کے مقابلے میں ایک بہت ہی معمولی حصّہ ہے۔
ناٹو میں بتدریج ارکان کا اضافہ اور بتدریج وسیع تناظر میں کارروائیاں جو کہ پچھلے ۱۰ سالوں سے جاری ہیں ،اس جانب غیر مبہم انداز میں واضح اشارہ کرتی ہیں کہ اتحاد (ناٹو) کی نیت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے وجود کا خاتمہ کرنا ہے ۔ جس کی بابت میں ایک اور مقالہ بعنوان ’’مغرب، اقوام متحدہ کی جگہ ایک عالمی ناٹو کو دینا‘‘ ہے میں کر چکا ہوں۔
اس کے علاوہ کہ ’’توانائی کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے‘‘، جس کے لیے ساحل سمند ر پر فوجی اڈے قائم کیے گئے ہیں ،خاص طور پر بلقان میں، وسطی اور جنوبی ایشیا میں، قفقاز میں،خلیج فارس میں، قرن افریقا میں اور خلیج گنی میں ۔اس کے ساتھ امریکی نیوکلیائی ہتھیار یورپ میں ہی رہیں گے اور امریکیوں کی سرکردگی میں ایک عالمی دفاعی میزائلی ڈھال Global Missile Defence Shield کا قیام شامل ہے۔ ناٹو نے از خود یہ حق تولیت اپنے نام کر لیا ہے کہ وہ ازخود جہاں چاہے تمام وہ مسائل جو بنی نوع انسان کو پیش آسکتے ہیں، ان کے لیے کارروائی کر سکتی ہے۔اس کے لیے اس کے ساتھ تعاون کرنے والوں میں مغربی ممالک کے تمام اسلحہ ساز، لائڈز اور رائل ڈچ شیل جیسے ادارے شامل ہیں۔
(ترجمہ:م۔ص۔ف۔رفعت)
Leave a Reply