
صدر ٹرمپ امریکا کے قومی مفاد کی خاطر روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری لاسکتے ہیں۔ اس کے لیے سرد جنگ کے دوران اپنائے گئے اصولوں کی طرف لوٹنا ہوگا۔ امریکی صدور کی پہلی ذمہ داری امریکا کا دفاع ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جس میں روسی صدر ایسے جوہری اثاثوں کو کمانڈ کر رہا ہو جو امریکا کو صفحۂ ہستی سے مٹا سکتے ہیں، ایسا تعاون ناگزیر ہو جاتا ہے جو حالات کو اس نہج تک پہنچنے سے روکے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاسی طور پر روس جیسے دشمن سے تعاون انتہائی تکلیف دہ دکھائی دیتا ہے، دفاع سے مقدم کوئی چیز نہیں۔
سرد جنگ کی طرح آج بھی امریکا اور روس کے بہت سے قومی مفاد ات میں اشتراک پایا جاتاہے۔ اکیسویں صدی کے زیادہ تر قارئین اس صدی کو حتمی طور پر ’’آخری صدی‘‘ سمجھ رہے ہوں گے لیکن شاید وہ سرد جنگ کے تناؤ سے واقف نہیں۔ ۱۹۹۱ء میں سرد جنگ ختم ہوئی تو بیشتر امریکیوں اور بہت سے روسیوں کی یہی رائے تھی کہ جوہری ہتھیاروں کے لیے بہترین جگہ اب ردی کی ٹوکری ہے۔ یہ سوچ ایک خطرناک غلطی فہمی تھی۔ اگرچہ سوویت یونین دنیا کے نقشے سے تحلیل ہوچکا تھا لیکن اس کے ہتھیاروں کے ذخائر کہیں نہیں گئے تھے۔ پلوٹونیم کی آدھی عمر چوبیس ہزار سال ہے اس لیے خاطر جمع رکھیں۔ ابھی جوہری ہتھیار کافی عرصے تک ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس لیے آنے والی بہت سی صدیوں تک ہمیں جذبات کے گھوڑوں کو لگام دینا ہے۔
۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت، مشرقی یوکرائن کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور بالٹک کے خطے میں امریکی اور نیٹو فورسز کے مقابلے میں فوجی دستے کھڑے کرنے کی پاداش میں روس کو ’’سزا ‘‘ دینے کی باتیں کرنے والے ایک بنیادی سوال کو فراموش کررہے ہیں … یہ کہ آپ سزا دینے کے لیے جو تھپڑ ماریں گے اس کے جواب میں کیا ہوگا؟ کسی بھی کارروائی پر روس کا رد عمل کیا ہوگا؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا روس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے نتیجے میں امریکا پہلے سے زیادہ محفوظ ہوچکا ہوگا؟ بسمارک نے تو شطرنج کھیلتے ہوئے بھی ایک وقت میں ایک سے زیادہ چالیں چلنے کا سوچنے سے منع کیا تھا۔
سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں رونالڈ ریگن جانتے تھے کہ سوویت یونین ایک ’’شیطانی طاقت‘‘ ہے اور وہ اسے شکست سے دوچار کرنے کا عزم رکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جوہری جنگ کبھی نہیں جیتی جاسکتی اور نوبت کسی بھی طور یہاں تک نہیں پہنچنی چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُ س وقت امریکا بہت جامع اور قابل اعتبار و اعتماد حکمت عملی رکھتا تھا۔ اگر اُس وقت امریکا اور سوویت یونین میں جوہری تصادم ہو جاتا تو امریکا اپنے دشمن کو تباہ کرسکتا تھا مگر اس کے نتیجے میں وہ خود بھی تباہ ہو جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوہری جنگ کبھی نہیں ہوگی کیونکہ اس میں کوئی فاتح قرار نہیں پاسکتا۔ اگر مثال کے طور پر کسی بھی ریاست کی طرف سے حادثاتی طور پر جوہری ہتھیار کا بٹن دب جاتا ہے یا کوئی ریاست دوسرے کے عزائم کا غلط اندازہ لگا لیتی ہے یا دونوں کے درمیان روایتی جنگ شدت اختیار کرتے ہوئے جوہری تصادم کی طرف چلی جاتی ہے تو امریکا کی تباہی یقینی ہے۔ اگر روسی لیڈر خطرناک اقدامات کرتے ہیں، جیسا کہ خروشیف نے کیوبا میں جوہری میزائل نصب کیے تھے، تو نتیجہ جوہری جنگ کے سوا کچھ نہ نکلے گا۔ اور یہ نتیجہ بھی واشنگٹن کے لیے تباہی لائے گا۔
ٹیکنالوجی نے امریکا کے لیے ناقابل برداشت ریاست روس کا وجود بھی ناگزیر بنادیا ہے۔ یہ تزویراتی حقیقت اپنی جگہ ہے اور مستقبل قریب میں اس کے تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں، کہ روس کو اُس وقت تک مکمل طور پر تباہ نہیں کیا جاسکتا جب تک ہم خودکشی پر آمادہ نہ ہوں۔ ہمارے جوشیلے پالیسی ساز یہ چیز جتنی جلد سمجھ لیں اتناہی بہتر ہوگا۔ سرد جنگ کے پالیسی سازوں نے ان حالات میں جینا اور بچاؤ کرنا سیکھ لیا تھا۔ وہ احتیاط، ابلاغ، مفاہمت، تعاون اور ضبطِ نفس کی عادات راسخ کرچکے تھے۔ احتیاط اس لیے ضروری تھی کہ حادثاتی طور پر بھی قیامت خیز جوہری آتش فشاں پھٹ سکتا تھا۔ انتہائی حریف ریاستوں کے درمیان بھی ابلاغ غلط فہمیوں کو کسی حد تک دور کرسکتا ہے۔ موجودہ وائس چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف پال سیلوا کا کہنا ہے کہ افراد اور اقوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنی ہوں تو ہر قسم کا اابلاغ منقطع کردیں۔
خود پر کنٹرول اور ضبط کرتے ہوئے اُن اقدامات سے گریز کرنا جو فوجی تصادم کی راہ ہموار کرسکتے ہیں، بہت ضروری ہے۔ ان میں ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدے بھی شامل ہیں۔ مفاہمت تک نوبت مذاکرات کے دوران پہنچتی ہے اور اس میں وسیع تر مفاد یا تحفظ کی خاطر ایسے حقائق کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے، جو عام حالات میں ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران اسی طرح کی ایک وسیع تر مفاہمت کے پیش نظر روس کا مشرقی یورپ پر غلبہ قبول کرلیا گیا تھا۔ مشرقی یورپ پر لچک دکھاتے ہوئے اُس ہولناک تصادم سے گریز کیا گیا، جس کے نتیجے میں امریکا اور مغربی یورپ تباہ ہوسکتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ فریقین کھلے اور پوشیدہ تعاون کی گنجائش کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ وسیع تر امور میں تعاون کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے جیسا کہ عالمی سطح پر جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ یا اسی طرح کے دیگر باہمی دلچسپی کے امور۔
صدر اوباما نے اس عزم کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا کہ وہ روس کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لیں گے اور عالمی امور میں جوہری ہتھیاروں کا کردار کم سے کم کرنے کی راہ نکالیں گے۔ جب وہ آٹھ سال بعد منصب سے الگ ہوئے تب روس اور امریکا کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر تھے اور یورپ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا امکان عام مباحثے کا حصہ بن چکا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں زیادہ تر الزام ولادیمر پیوٹن کے سر جاتا ہے لیکن امریکیوں کے لیے جانچ کا پیمانہ یہ ہے کہ کیا وہ اُس سے زیادہ محفوظ ہیں جتنے آٹھ سال پہلے تھے؟ کیا پیوٹن کو ایک خوفناک کردار کے طور پر پیش کرنے کی صدر اوباما کی پالیسی کا نتیجہ امریکا کے حق میں اچھا نکلا یا بُرا؟ کیا یوکرائن، مشرق ِوسطیٰ، مشرقی یورپ اور دیگر معاملات میں روس کو سزا دینے کی باتیں کرکے ہم نے امریکا کے لیے خطرے کا گراف بلند کیا ہے یا نیچے لائے ہیں؟ آج صدر ٹرمپ کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اوباما کے اقدامات سے پیچھے ہٹتے ہوئے امریکا کو محفوظ بنائیں۔ اس کے لیے بہتر ین فارمولا وہی ہے جو سرد جنگ کے دوران کام دیتا رہا ہے۔ اس وقت ہم کسی نئے تجربے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
“America and Russia: Back to Basics”. (“nationalinterest.org”. August 14, 2017)
Leave a Reply