پہلے امریکی افواج کا انخلا، سوال بعد میں!

امریکی افواج افغان سرزمین تیزی سے چھوڑ رہی ہیں۔ امریکا رخصت تو ہو رہا ہے مگر افغانستان کے مستقبل پر پہلے سے بھی بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے کیونکہ کسی ایک معاملے میں بھی پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

فائزہ ابراہیمی کو کچھ زیادہ یاد نہیں۔ تب وہ بہت چھوٹی تھی، جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ فائزہ کے والدین جب اُسے بتاتے ہیں کہ افغانستان پر کئی سال تک طالبان کی حکومت رہی جو شریعت کے طے کردہ قوانین کے مطابق تھی تو اُسے یقین ہی نہیں آتا۔ فائزہ مغربی شہر ہرات میں ریڈیوپریزنٹر ہے۔ فائزہ کو یقین ہی نہیں آتا جب اسے بتایا جاتا ہے کہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے اور مدارس میں تعلیم پانے والے نوجوان کسی بھی لڑکی کو اس وقت تک گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دیتے تھے جب تک وہ مکمل حجاب میں نہ ہو۔ فائزہ کہتی ہے کہ میں ایسے کسی بھی وقت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ دوبارہ آئے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی والدہ گھر سے نکل نہیں سکتی تھیں۔ کام کرنا بہت مشکل تھا اور یوں گھر کا چولہا جلتا رکھنا بھی انتہائی دشوار تھا۔

۲۰۰۱ء میں امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی فوج کے حملے کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی۔ طالبان حکومت نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت افغانستان میں دو تہائی آبادی کی عمر ۲۵ سال سے کم ہے اس لیے اُسے اچھی طرح یاد نہیں کہ طالبان کی حکومت کیسی ہوا کرتی تھی۔ افغانستان کی نئی نسل نہیں چاہتی کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے۔ طالبان ایک بار پھر اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا نے کم و بیش ۱۹ برس تک افغان نیشنل فورسز کی مدد کی ہے تاکہ وہ طالبان سے بہتر طور پر نمٹ سکے۔ امریکا کے لیے ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اسے افغانستان سے کسی نہ کسی طور انخلا کرنا تھا، مگر ظاہر ہے کہ جب تک حالات پرامن نہ ہوجاتے، ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ امریکا نے ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء کو طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے تاکہ ملک سے امریکی افواج کو نکالا جاسکے۔ اس وقت افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ۸۶۰۰ سے ۱۳ ہزار کے درمیان ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ افغان سرزمین پر تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں مزید کمی لائی جائے گی۔ طالبان نے عہد کیا ہے کہ وہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو پناہ دینا ختم کردیں گے اور افغان حکومت سے مذاکرات بھی کریں گے۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بعض معاملات پر شدید اختلافات اب تک برقرار ہیں۔ امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں افغان حکومت فریق نہیں تھی، پھر بھی اس نے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دوسری طرف طالبان نے افغان فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ بعد میں افغان حکومت نے کہا کہ پانچ ہزار کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کئی ماہ اس اختلاف کی نذر ہوئے۔

ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان نے افغان نیشنل فورسز کے سپاہیوں اور عام شہریوں پر حملے روکے نہیں۔ فروری میں طالبان نے کچھ دن کے لیے جنگ بندی کی تاکہ معاہدے پر دستخط ہو جائیں۔ بعد میں وہ پھر اپنی پرانی روش پر گامزن ہوگئے۔ حکومت کہتی ہے کہ طالبان نے صرف جون میں کم و بیش ۴۲۲ حملے کیے۔ یہ تو امن قائم کرنے کے وعدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ تشدد کا گراف نیچے لانے پر طالبان نے اگر رضا مندی ظاہر کی بھی تھی تو محض نجی طور پر۔ معاہدے کے متن میں جنگ بندی سے متعلق کوئی واضح شق شامل نہیں۔

عیدالفطر کے موقع پر طالبان نے حملے روکے، جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کا گراف بھی نیچے آیا۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے انتہائی مطلوب افراد سمیت بڑی تعداد میں طالبان کو رہا کیا، مگر عید کے بعد تشدد کا گراف پھر اوپر چلا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ہلاکتوں کا گراف بھی۔ انتہائی مطلوب طالبان کو رہا کرنے کے حوالے سے اب بھی غیر معمولی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ سنگین وارداتوں میں ملوث ۲۰۰طالبان کو رہا کرنے سے حکومت اب بھی گریز کر رہی ہے۔ کابل میں بہت سے سفارت کاروں کا خیال ہے کہ اس نکتے پر پائے جانے والے اختلافات دور کرنے کے لیے افغان حکومت اور طالبان ایک بار پھر قطر کی راہ لیں گے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ بھی وہیں ہوا تھا۔ اگر مذاکرات ہوتے ہیں تو یہ جاننے کا موقع بھی ملے گا کہ طالبان کے ذہنوں میں کیا چل رہا ہے، اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے علاوہ طالبان کے ذہنوں میں کیا ہے، وہ ملک کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے حوالے سے ان کا جو بھی تصور ہے وہ ان کے بیانات سے واضح نہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا خواتین کے حوالے سے ان کی رائے بدلی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب لڑکیوں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے خلاف نہیں ہیں، مگر پھر بھی طالبان کے زیر قبضہ بہت سے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کو بلوغت تک پہنچنے کے بعد اسکولوں میں رہنے نہیں دیا جاتا۔ یہ بات ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ میں بتائی ہے۔

متعدد معاملات میں طالبان واضح رائے پیش کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ذہن میں صرف یہ بات ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد کسی نہ کسی طور اقتدار پر گرفت مضبوط کی جائے۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ طالبان میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں، اس لیے وہ کوئی بھی بات کھل کر نہیں کہہ رہے۔ امریکیوں سے مذاکرات کو حقیقت پسندی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے تاہم یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ طالبان اب بھی خود کو امارتِ اسلامیہ کے ذمہ داران گردانتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں کہا کرتے تھے۔ انٹر نیشنل کرائسز گروپ کے اینڈریو واٹکنز کہتے ہیں کہ اگر معاملات یہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب طالبان یہ کہنے کی پوزیشن میں نہ رہیں گے کہ معاملات بعد میں طے کرلیے جائیں گے۔

افغان حکومت کہتی ہے کہ وہ ملک کو آزاد، جمہوری اور متحدہ رکھنا چاہتی ہے۔ وہ یقینی طور پر نہیں چاہتی کہ اسلامی شریعت کے مطابق قائم ہونے والی طالبان حکومت بحال ہو۔ ۲۴ جون کو ایک امریکی تھنک ٹینک سے وڈیو لنک پر خطاب میں عبداللہ عبداللہ نے، جو درحقیقت افغان حکومت کے سب سے بڑے ترجمان ہیں، کہا تھا کہ ہم افغان باشندوں کے بنیادی حقوق داؤ پر لگاکر امن قائم نہیں کرسکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ مذاکراتی ٹیم میں خواتین کو بھی شامل کریں گے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے افغان حکومت کو تھوڑی بہت قربانی ضرور دینی پڑے گی۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ قربانی کس نوعیت کی ہوگی۔

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا

افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے امریکا کی طرف سے بھی معاملات مبہم ہیں۔ نام نہاد امن منصوبے کا ایک جز پوری طرح انجام کو پہنچ رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ویسٹ پوائنٹ کی ملٹری اکیڈمی میں کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دور افتادہ خطوں جن کے بارے میں ہم نے کبھی سنا بھی نہیں کے قدیم جھگڑے نمٹانا امریکی فوجیوں کا کام نہیں۔ یہ دعویٰ بھی امریکی صدر کی پریشانی میں اضافہ کر رہا ہے کہ روس نے افغان سرزمین پر مارے جانے والے ہر امریکی فوجی کے عوض طالبان کو غیر معمولی انعام دینے کا عہد کر رکھا ہے۔ نومبر کے صدارتی انتخاب میں اُن کے حریف جوبائیڈن افغانستان میں تعمیرنو کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار رہے ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ دونوں میں سے کون افغانستان میں جمہوریت کو مستحکم تر کرنے میں زیادہ پرجوش اور فعال کردار ادا کرے گا۔ بہت سوں کا خیال یہ ہے کہ اگر امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان افغان حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کی پوزیشن میں آگئے تب شاید ہی ٹرمپ یا جوبائیڈن میں سے کوئی انہیں کنٹرول کرنے کے لیے وہاں فوج بھیجے۔

کورونا وائرس کی وبا نے معاملات کو بہت زیادہ الجھا اور بگاڑ دیا ہے۔ افغان فورسز میں بھی کورونا کی وبا نے بہت سوں کو جکڑ رکھا ہے۔ جن امریکی فوجیوں کو معاہدے کے تحت علامتی طور پر افغانستان میں رہنا ہے وہ تربیت کے معاملات سے دور ہیں اور کورونا وائرس سے بچنے کے لیے افغان فورسز سے تعلقات کو محدود رکھنے پر مجبور ہیں۔ قومی تعمیر نو کی کوششوں کو بھی کورونا وائرس کی وبا نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ افغان حکومت کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

فائزہ ابراہیمی سمیت بہت سے افغانوں کے ذہنوں میں سوالات بھرے ہوئے ہیں۔ وہ طالبان کی سوچ اور ارادوں کے حوالے سے الجھے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ طالبان کی سوچ بدل چکی ہے۔ فائزہ کا کہنا ہے کہ اگر طالبان کی واپسی اُسی سوچ کے ساتھ ہوئی جو اکتوبر ۲۰۰۱ء سے پہلے تھی تو ملک میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا، معاملات جوں کے توں رہیں گے۔

(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

“Withdraw first, ask questions later” America is rapidly pulling troops from Afghanistan”.(“The Economist”. July 4, 2020)

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*