امریکا اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ کھٹّے میٹھے رہے ہیں۔ ان تعلقات کو بہتر ڈھنگ سے موشے دایان نے ادا کیا تھا، جب انہوں نے کہا تھا کہ ’’امریکی دوست ہمیں دولت، ہتھیار اور مشورے دیتے ہیں اور ہم دولت اور ہتھیار تو لے لیتے ہیں مگر مشورہ ٹھکراتے ہیں‘‘۔ موشے دایان آج ایک اچھے بلاگر اور ٹوئیٹر ثابت ہوتے۔ مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امریکا اور اسرائیل کی دوستی یا تعلقات کو چند الفاظ کے ذریعے بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ تعلقات کبھی ریاست کی دانش پر منحصر نہیں رہے۔ ان دو ممالک کے تعلقات نے جامعات کے شعبۂ سیاسیات کا نصاب بارہا بدلا ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے تسلیم شدہ معیارات کو بھی مشکوک بنایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں دولت، ہتھیار اور مشورے بھی شامل ہیں مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ تعلقات اس سے کہیں ہٹ کر نازک بھی ہیں۔ بہت کچھ ہے جو پوشیدہ ہے اور صرف سمجھا، یا محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اسرائیل امریکا تعلقات سمجھنے کے لیے آپ کے حافظے کا مستحکم ہونا شرط ہے۔ آپ کو صدر ٹرومین کا زمانہ یاد کرنا پڑے گا۔
فی الحال ہمیں حافظے کو زیادہ دور نہیں لے جانا۔ نوجوان اسرائیلی امریکا کو نائن الیون، انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز، سی ایس آئی، بیٹ مین اور اوباما کے حوالے سے جانتے ہیں۔ ویسٹ سائڈ اسٹوری ری میک سے اوکیوپائی وال اسٹریٹ ٹی شرٹس تک ہر معاملے میں اسرائیلی باقی دنیا کے ساتھ رہے ہیں۔ استثنیٰ صرف یہ رہا ہے کہ ہم نے کبھی یورپی یا مسلم برانڈ کا اینٹی امریکن ازم پروان نہیں چڑھایا۔ ہم بیشتر معاملات میں امریکا پر انحصار کرتے تھے اور اس بات کو پسند بھی کرتے تھے۔ ہم میں سے سب تو خیر نہیں۔ بہت سی عادتیں، بہت سے اطوار اور بہت سے جملے ترجمے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل کے یہودی نیو یارک کے علاقے مین ہیٹن کے یہودیوں جیسے نہیں۔ مگر ہاں، اُنہیں یورپ اور مشرق وسطیٰ کے یہودیوں کا حسین امتزاج قرار دیا جاسکتا ہے۔ امریکی ہر معاملے میں صاف گوئی پر یقین رکھتے ہیں اور اسرائیلی خاصے منہ پھٹ ہوتے ہیں۔ ان دونوں کا ایک ہونا مشکل ہے۔ آرتھوڈوکس سے سوشلسٹ تک تمام مثالیت پسند یہودی امریکیوں کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ان کے نزدیک زندگی کا حقیقی مقصد صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور مسرت سے بھرپور زندگی بسر کی جائے اور دوسری طرف امریکیوں کی اکثریت اسرائیلیوں کو بہت سے معاملات میں خاصا خام تصور کرتی ہے۔
ماضی میں فاصلے کی بہت اہمیت تھی۔ تل ابیب سے نیویارک پہنچنے کے لیے دو سمندر پار کرنے پڑتے تھے۔ آج ہم دونوں کے سمندری طوفانوں اور میزائل داغے جانے کو آن لائن دیکھتے ہیں۔ اور اسرائیلی اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ ان کے ہاں ساؤتھ پارک کا نیا سیزن دو ہفتوں کی تاخیر سے شروع ہوتا ہے۔ ثقافت کی پرانی پرتیں نئی ثقافت سے مِلتی ہیں۔ موبی ڈِک سے میڈ مین تک ہم آہنگ ہیں۔
امریکا نے اسرائیل کو کبھی نوآبادی نہیں بنایا۔ کسی نے بھی بیت المقدس میں میکڈونلڈ کا فرینچائز کھلنے پر احتجاج کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ احتجاج کرنے کے بجائے اسرائیلیوں نے امریکی چیزوں اور رجحانات کو اپنایا ہے۔ اسرائیل کی سلیکون ویلی امریکی سلیکون ویلی سے کسی حد تک مسابقت کرتی ہے اور خاصے باک انداز سے کام کرتی ہے۔ ہمارے ٹی وی کا بھی یہی حال ہے۔ اگر کوئی چھوٹی ثقافت عالمگیر ثقافت کا جواب نرمی اور توازن سے دے تو ایسا کرنا اس کے لیے خاصا سودمند ثابت ہوتا ہے۔ اسرائیلی اپنا تخلیقی جوہر برآمد کرکے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔
۲۰۱۱ء کے موسم گرما میں اسرائیلیوں نے معاشی نظام کی خرابیوں کے خلاف سڑکوں پر آکر احتجاج کیا تھا۔ یہ امریکا میں ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ تحریک سے پہلے کی بات ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی تحریک کو اسرائیل میں رُونما ہونے والی تحریک سے کچھ نہ کچھ سیکھنے اور ولولہ بیدار کرنے کا موقع ملا ہوگا۔ ہمارا گلیوں کی سطح کا احتجاج بہت چھوٹا، متوازن اور مثبت تھا اور کسی نہ کسی شکل میں یہ اب بھی جاری ہے۔ اسرائیلیوں کو امریکی ’’ہائی ٹیک‘‘ سے رغبت ہے مگر سماجی معاملات میں وہ امریکیوں کو خاصا ’’لو ٹیک‘‘ سمجھتے ہیں۔ جب سیمپسنز کا مسٹر برنس کہتا ہے: ’’دِز اِز امریکا۔ جسٹس فیورز دی رچ‘‘ تو اسرائیلی متوجہ ہوتے ہیں۔ بہت سے اسرائیلی امریکی آئین کے استحکام کو بھی پسند کرتے ہیں اور شہری حقوق کو بھی استحسان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر جب اپنے ہاں سماجی انصاف کی بات آتی ہے تو اسرائیلی کسی اور ہی سمت دیکھنے لگتے ہیں۔
کیا اسرائیلیوں کے دِلوں میں امریکی بن جانے کی خواہش پنپ رہی ہے؟ لاکھوں اسرائیلی امریکی شہریت حاصل کرچکے ہیں اور امریکی لہجہ اسرائیل بھر میں سُنا جاسکتا ہے۔ اسرائیلیوں کے ذہنوں میں ایک لوکل برانڈ ’’ایتھنکس‘‘ کے اشتہار میں استعمال کیے جانے والے جملے گونجتے ہیں۔ ’’لائف اِز ناٹ امریکا، امریکا اِز جسٹ ایندر پلیس، اِٹ اِز آل اِن یور ہیڈ، اِف یو وانٹ اِٹ، دی ڈریم اِز ہیر، ٹو۔‘‘ اگر امریکی محکمۂ خارجہ بیچلر ڈگری رکھنے والے تمام اسرائیلیوں کو صرف ویزا نہیں بلکہ گرین کارڈ تھما دے، تب بھی وہ سب کے سب امریکا میں آباد ہونے کو ترجیح نہیں دیں گے۔ اب بھی اسرائیل میں ایسا بہت کچھ ہے جو کسی کو امریکا جانے سے روک سکتا ہے۔ ہیلتھ کیئر سسٹم بہت اچھی حالت میں ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی معیاری ہے اور حب الوطنی بھی امریکیوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔
اور فلسطینی؟ اسرائیل کے بہترین امریکی دوست بھی اس چھیالیس سال پرانے مسئلے کو دن بہ دن سنگین ہوتا ہوا بحران تصور کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے دشمنوں پر گولیاں تو بہت برسائیں ہیں مگر بات چیت بہت کم کی ہے۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ اوسلو معاہدے کو پٹڑی سے اُتارنے والا ابو مازن تھا یا بنیامین نیتن یاہو۔ بیشتر اسرائیلیوں کو یقین ہے کہ ان کے قائدین امریکا سے رقم بھی لیتے ہیں اور ہتھیار بھی مگر مشورہ لینے سے انکار کرتے ہیں اور پھر یہ بھی سوچتے رہتے ہیں کہ یہ کھیل کب تک جاری رہے گا۔
جوناتھن پولارڈ کا کیس بہت اہم ہے۔ بہت سے اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ یہ امریکی جاسوس کچھ زیادہ ہی مقید رکھا گیا ہے۔ کم ہی اسرائیلی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ امریکا کو اب غداری اور بے وفائی کا احساس ہوتا جارہا ہے۔ ویسے پولارڈ محض ایک کیس ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان کیا معاملہ ہے۔
کیا ہماری حکومت نے طنابیں کچھ زیادہ ہی کھینچ دی ہیں؟ واقعات اور شواہد تو بتاتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ تو کیا طنابیں کھینچی جاسکتی ہیں؟ امکان تو ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکا دونوں کو اندازہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاسی کہکشاں میں ستاروں کی پوزیشن وہ نہیں رہے گی جو ہے۔ صدر اوباما کے دورۂ بیت المقدس اور بنیامین نیتن یاہو کے دورہ ہائے واشنگٹن کو دیکھتے ہوئے تو کوئی خرابی محسوس نہیں ہوتی۔ اگر امریکی اسرائیل کو کٹھ پتلی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو شاید پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اسرائیلی اس قدر سخت مزاج ہیں کہ کٹھ پتلی نہیں بن پائیں گے۔
امریکی بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اسرائیلیوں سے اپنی بات منوانا آسان نہیں۔ بہت سے معاملات میں اسرائیلی اپنی بات پر اڑے رہے ہیں اور بالآخر فریق ثانی کو جھکنے پر مجبور کیا ہے۔ اسرائیل کا معاملات کو اپنے ذرائع سے طے کرنا امریکیوں کے لیے بے حد کشش کا باعث بھی رہا ہے۔ یہ کشش مغرب کے اسرائیلیوفوبیا کا حصہ ہے۔ اگر محمود احمدی نژاد اسرائیل کو امریکا کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ اسرائیلی کسی کی بات آسانی سے نہیں مانتے اور امریکی اس نوعیت کے مزاج سے بخوبی آشنا ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی یہودی بھی کہانی کا ایک اہم حصہ ہیں مگر وہ محض حصہ ہی ہیں، پوری کہانی نہیں۔ میری نسل ایک دور افتادہ آغوش میں پلی اور جوان ہوئی۔ یہ آغوش انکل فرام امریکا کی نہیں بلکہ انکل شُیمیوئل کی تھی۔ انکل شیمیوئل کی دلی خواہش تھی کہ انکل سام بن جائیں۔ آج انکل شیمیوئل کے پوتوں اور پوتیوں کے نام بائبل کے مطابق رکھے جارہے ہیں تو وہ اسرائیل کے بارے میں نئے اعتماد سے سوالات کر رہے ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ ان باتوں سے بے حواس سے ہو جاتے ہیں مگر بہتوں کو اس بات کی خوشی ہے کہ جو بحث اسرائیل کے اندر رہی ہے، وہ اب امریکا میں بھی سرعام ہو رہی ہے۔ اگر اسرائیل میں کوئی یہودی حکومت پر تنقید کرے اور اسے اینٹی اسرائیل قرار نہ دیے جانے کا خوف ہو تو اچھا ہے کہ امریکا میں ہمارے یہودی بھائی بھی کھل کر تنقید کریں اور اینٹی امریکا قرار دیے جانے کے خوف سے آزاد ہوں۔
بہت سے غیر یہودی امریکی اسرائیل کے بارے میں جو کچھ سوچتے ہیں، جو تصور رکھتے ہیں وہ بہت انوکھا ہے۔ آج بھی اسرائیل کی پالیسیوں اور مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں لابنگ کے بارے میں اسی طرح سوچا جاتا ہے جس طرح عام طور پر یہودیوں کے بارے میں سوچا جاتا ہے یعنی انہیں دولت کا لالچی اور کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ کمانے کی کوشش کرنے والا ٹھہرایا جاتا ہے۔ بہر کیف، امریکا اور اسرائیل کے تعلقات جدید سیاسیات کے تناظر میں اس امر کا اندازہ لگانے کا بہترین ذریعہ ہیں کہ کسی بھی ریاست کے مفادات کیا ہوتے ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ مشکل لمحات میں شدید جذبات کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہوتا۔ امریکا اسرائیل تعلقات اس حوالے سے بھی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
امریکا نے اسرائیل کے لیے بہت سی اچھی اور بری یادوں کا اہتمام کیا ہے۔ دو طرفہ تعلقات مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ہنری کسنجر نے ۱۹۷۳ء میں جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کرایا۔ یہ ایک خوشگوار یاد ہے۔ مصر سے امن کے ضامن کی حیثیت گنواکر اب سابق امریکی صدر جمی کارٹر اسرائیلی پالیسیوں کے شدید ناقد بن کر ابھر چکے ہیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے امن معاہدہ بھی کرایا اور پھر وہ یزاک رابن کی آخری رسوم میں بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے جنازے کے سرہانے کہا ’’شیلوم شیور‘‘ (خدا حافظ دوست) اور یہ دو الفاظ ان کی طرف سے اسرائیلیوں کے دلوں میں بس گئے۔ سابق امریکی صدر جارج واکر بش نے عراق سے جنگ کی اور فلسطینیوں کو تقسیم کیا جس سے اسرائیل میں ان کے لیے دوستوں کی تعداد بڑھی مگر اس حوالے سے جو کامیابی ہنری ٹرومین نے پائی وہ کوئی بھی نہ پاسکا۔
ڈیوڈ بین گوریان نے ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا اور ہنری ٹرومین نے چند ہی گھنٹوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ ٹرومین کی نظر میں یہودیوں کو ایک ریاست دی جانی چاہیے تھی اور دی گئی۔ اور تاریخی و مذہبی اعتبار سے بھی وہ اس کے حق میں تھے کیونکہ بائبل کے لوگ اپنی سرزمین پر واپس بس گئے تھے۔
یہودی مختلف ادوار میں تعذیب سے گزرتے ہوئے ریاست کے قیام کی طرف آئے۔ انہیں مختلف زمانوں میں موت کے گھاٹ اتارا گیا، نقل مکانی پر مجبور کیا جاتا رہا۔ پابندیاں عائد کی جاتی رہیں۔ یہ سب کچھ ہوا تو بالآخر اپنی ریاست کے قیام کا خواب دیکھا اور شرمندۂ تعبیر کیا گیا۔ کیا اوباما اسرائیلیوں کے دلوں پر اپنا نقش قائم کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ اس حوالے سے اسرائیلی منقسم ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ایسا ممکن ہے اور بہتوں کا خیال ہے کہ ایسا کسی بھی طور ممکن نہیں۔
۱۹۷۳ء میں میرے والد شام کے محاذ سے واپس آئے۔ ان کے بازو میں بم کا ٹکڑا لگا ہوا تھا۔ انہوں نے تل ابیب کے نزدیک ایئر پورٹ دکھایا جو بعد میں ڈیوڈ بین گوریان سے موسوم ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’کوئی سویلین فلائٹ نہیں آرہی۔ صرف امریکی جنگی جہاز اتر رہے ہیں جو اسلحہ اور عسکری ساز و سامان لا رہے ہیں۔ یاد رکھنا کہ امریکا ہی ہمارا سچا دوست ہے‘‘۔ میں ان کی بات اب تک نہیں بھولی۔ مجھے امید ہے کہ ہمیں اسلحہ اور عسکری ساز و سامان مہیا کرنے والا امریکا جلد فلسطینیوں سے حقیقی اور دائمی امن معاہدہ بھی کرائے گا اور میں اپنے بچوں سے کہہ سکوں گی کہ دیکھو ہمارا سچا دوست یہ امن معاہدہ کرا رہا ہے۔ میں انہیں یہ بھی بتاؤں گی کہ کوئی اور ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ صرف امریکا ہی ہمارا سچا دوست ہے اور اس نے یہ کر دکھایا ہے۔
(مضمون نگار حیفہ یونیورسٹی، اسرائیل میں تاریخ کی پروفیسر ہیں)
(“What America Means to Israel”…
“Newsweek Pakistan”. April 28th, 2013)
Leave a Reply