بیس سال قبل میخائل گوربا چوف نے پریسٹرائیکا (Perestroika) کا انکشاف کیا اور اس کے ساتھ ہی سرد جنگ کے خاتمے کا آغاز ہوگیا‘ جس نے اس زمانے کی دوسری سب سے بڑی طاقت کو مجبورا کیا اُس خلیج کا جائزہ لینے پر جو اس کے عظیم ترین مقاصد اور روبہ زوال انفرااسٹرکچر کے مابین تھا۔ لیکن جونہی اپنا ۷۵ واں یوم پیدائش منایا‘ گوربی (Gorby) کے پاس سابق آہنی پردہ (سویت یونین) کے مقابل (امریکا) کے لیے ایک بہت ہی واضح پیغام تھا۔ یعنی یہ کہ امریکا کو خود اپنے پیرسٹرائیکا کی ضرورت ہے‘‘۔ یہ بات انہوں نے یہ وضاحت کرتے ہوئے کہی کہ یہ امریکا ہے جس کو اب بنیادی اصلاحات اور خودتشخیصی (Self Assessment) کی ضرورت ہے۔ امریکا واحد سپرپاور بننے کے بعد سے اپنے لیے کوئی کردار تلاش کرنے سے قاصر ہے۔ جب تک وہ اپنے فاتح ہونے کے خمار سے اپنی جان نہیں چھڑاتا ہے‘ یہ مزید غلطیاں کرے گا۔ جارج ڈبلیو بش نے عراق میں عظیم غلطی کی ہے۔ ایک انٹرویو میں جناب گوربا چوف نے انہی خیالات کو دہرایا جو روسی معاشرے میں ہر سو پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سرد جنگ کی پالیسی کا دفاع کیا اور مغرب سے بہت زیادہ مشکوک دکھائی دیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ برطانوی خفیہ ایجنسی نے عام تباہی کے اسلحوں سے متعلق غلط ڈاٹا فراہم کرنے میں مدد کی۔ ان کے مطابق عراق پر حملہ سلامتی کونسل اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ایک ضرب تھی اور اب ہم مشرق وسطیٰ میں تیزی سے ابتر ہوتی ہوئی صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ دو سالوں میں روس کے سیاسی استحکام کو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے کیونکہ ایک ایسے جانشین کی تلاش جاری ہے جو ۲۰۰۸ء میں ولادیمیرپیوٹن کی جگہ لے سکے۔ یہ جانشین ملک کے باہر سے آئے گا اس لیے کہ مغرب روس کو کمزور رکھنا چاہتا ہے۔ روسی حکام نے بھی اس طرح کی تشویش کو دہرایا ہے‘ روس میں NGOs کو مغرب سے ملنے والی مدد کے پیش نظر کیونکہ یہی ایک ممکن طریقہ ہے امریکا اور یورپی یونین کے لیے جس کے ذریعہ وہ روس کی داخلی سیاست پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور اس کے اندرونی اختلافات کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ گوربا چوف نے کہا کہ صرف امریکا ہی نہیں بلکہ ہمارے بہت سارے قریب ترین مغربی دوست بھی روس کو ایک نیم مردہ ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ لوگ کسی مدمقابل یا حریف سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ جونہی روس ذرا طاقتور ہوا ہے‘ ہمارے مغرب کے دوستوں میں اچانک پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ ’’ہوسکتا ہے کہ کہیں دوبارہ ایک سلطنتِ عظیم (EMPIRE) کی تعمیر نہ کررہے ہوں۔‘‘ اور تمہاری سوچ یہ ہے کہ یہ ایک خطرناک امر ہے۔ تم کس انداز میں سوچتے ہو اس کا ہمیں احساس ہوگیا ہے۔ وہ تمام فوجی اڈے جو تم نے قائم کئے ہیں وہ ہماری سرحدوں سے قریب تر کیے ہیں ان کا سوال تھا آخر یہ کیوں کیاگیا ہے؟ بعض روسی گوربا چوف کو ناپسند کرتے ہیں اور انہیں ایک ایسا آدمی گردانتے ہیں جس نے احمقانہ طریقے سے روس کی سپرپاور کی حیثیت کو امریکا کی چوکھٹ پر سرنگوں کردیا جس کی وجہ سے دسیوں سال تک ملک معاشی اور سیاسی انتشار سے دوچار رہا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے ۷۵ ویں یوم پیدائش پر روسی صدر ولادمیرپیوٹن سے مبارکباد وصول کی ’’ان تبدیلیوں کے لیے جس نے ہمارے ملک کو اس لائق بنایا کہ ہم جمہوری اصلاحات کی جانب ایک فیصلہ کن قدم اٹھاسکیں‘‘۔ صدر کو بہرحال اس تقریب میں شرک کی دعوت نہیں دی گئی تھی جس کا اہتمام ماسکو ریسٹورنٹ میں کیا گیا تھا۔
کئی موقعوں پر گوربا چوف نے انہیں شکوک کا اظہار کیا ہے اور مغربی پالیسی پر انہی تنقیدوں کو دہرایا ہے جو آج کریملین کے بعض بڑے سیاسی رہنمائوں سے سننے کو مل رہی ہیں۔ انہوں نے بش انتظامیہ کے نئے فلسفۂ سلامتی پر بھاری تنقید کی ہے اور اسے اس معاہدے کے بالکل خلاف بتایا ہے جو ان کا ریگن کے ساتھ طے پایا تھا۔ یہ دونوں ممالک تاریخی طور سے متفق تھے کہ نیو کلیائی جنگ میں فاتح کوئی نہیں ہوسکتا لیکن اب یہ (امریکی) دوبارہ کہہ رہے ہیں کہ جوہری اسلحوں کو پیشگی حملے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جناب گوربا چوف نے مغرب کی اس تنقید کو مسترد کیا کہ کس طرح جمہوریت‘ پیوٹن کے دورِ مطلق العنانیت میں پیچھے جارہی ہے‘ مغرب جس کی مثال اس طرح پیش کرتا ہے کہ انتخاب کی جگہ صدر کے مقرر کردہ علاقائی گورنروں نے لے لی ہے اور یہ کہ منعقدہ دو انتخابات مغربی مبصرین کی تنقیدوں کا نشانہ بنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ تمام مغربی ہمیں اس سوال سے ٹارچر کررہے ہیں (جو روسی جمہوریت کے بارے میں ہے)جبکہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایک عبوری مدت ہے جس میں کہ ایک ریاست کلیت پسندی سے جمہوریت کی جانب گامزن ہے۔ جمہوریت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے صبح صبح ایک پیالی میں رکھ کر پیش کیا جاسکتا ہو جس طرح کہ ایک آدمی کافی کی پیالی اپنی بیوی کو پیش کرتا ہے۔ روس کی جمہوری پیش رفت سے متعلق انہوں نے مغرب کے بے رنگ رویے پر شدید خفگی کا اظہار کیا ہے۔ ’’یقینا دورِ جبر کی کچھ جھلک پائی جاتی ہیں اورجمہوریت سے واپسی کا کچھ عمل بھی موجود ہے لیکن کیا آپ کے خیال میں اس کی وجہ سے ہمیں اپنے آپ کو گولی مار لینی چاہیے؟ کوئی بھی چیز اب ہمیں ماضی کی طرف نہیں کھینچ لے جاسکتی ہے۔ آبادی نے آزادی کا مزہ چکھ لیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’امریکیوں نے اپنی جمہوریت کی تعمیر میں دو سو سال کا عرصہ لگایا لیکن وہ روس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ صرف دوسو دن میں یہ کام مکمل کرے۔ میں امریکیوں سے کہتا ہوں کہ ہم آپ سے زیادہ باصلاحیت واقع ہوئے ہیں‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام ہم صرف ۲۰ برس میں مکمل کرلیں گے یعنی آپ سے دس گنا کم وقت میں‘‘ ایک عالی شان دفتر میں گفتگو کرتے ہوئے جو کہ ان کا گوربا چوف فائونڈیشن‘ ماسکو بینک کے ساتھ شراکت ہوئے ہے‘ انہوں نے کہا کہ نوے کی دہائی بدعنوانی پر مبنی نجکاری اور کرنسی کے فقدان سے عبارت ہے۔ یہ غلطیاں یلسن دور کی تھیں انہوں نے کہا کہ جناب یلسن نے روس کو فری مارکیٹ کے خطرناک دہانے پر لاکر چھوڑ دیا‘ اس طرح کہ انہوں نے ریاست کے اثاثوں کو بیچنے کا پروانہ دے دیا جو کہ واضح طور سے چوری تھی۔ ہم اس کے نتائج کو ایک طویل عرصے تک مستقبل میں بھی بھگتتے رہیں گے۔ انہوں نے صورتحال کو مستحکم کرنے کے حوالے سے صدر پیوٹن کی تعریف کی‘ انہوں نے روس کے علاقوں کی بڑھتی ہوئی خودمختاری کا حوالہ دیتے ہوئے‘ جو نوے کی دہائی میں دی گئی جبکہ چیچنیا کو آزادی دی گئی‘ کہا کہ ’’انہیں ورثے میں ہر طرف انتشار و شکستگی ہی ملی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام غلطیاں جو پیوٹن کے دور میںکی گئیں بھلادی جائیں گی لیکن اس حقیقت کو نہیں بھلایا جائے گا کہ انہوں نے ملک کی شکست و ریخت کے سلسلے کو روکا ہے۔‘‘
پیوٹن پر جو سب سے زیادہ کھلی تنقید گوربا چوف نے کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ چار برطانوی سفارتکاروں پر ان کے بہت زیادہ نرم ہونے کے حوالے سے ہے جنہوں نے جنوری میں روس کے اندر ایک چٹان میں جاسوسی کرنے کے لیے ایک ہائی ٹیک ٹرانسمیٹر چھپا رکھے تھے’’پیوٹن نے ان کے خلاف کچھ نہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن میرا فیصلہ مختلف ہوتا آپ کو معلوم ہے مارگیریٹ تھیچر کے ساتھ ہماری جنگ تھی جو زیادہ جاسوسوں کو نکال سکتی تھی۔ میں نے اسے جتلادیا کہ میں اس معاملے کو آخر تک لے کر جائوں گا۔ انہوں نے مبینہ جاسوسی کو سفاکی قرار دیا اور کہا کہ ’’برطانیہ ! تم کچھ بھی کرنے کے عادی ہوگئے ہو‘ اس خوف سے آزاد ہوکر کہ تمہیں اس کی کوئی سزا ملے گی۔‘‘
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ شمارہ۔ ۱۵ مارچ ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply