
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کی حیثیت سے جو چار سال گزارے اُن کے دوران امریکا کو بہت سے معاملات میں پیچھے دھکیل دیا۔ امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت کا حامل اب بھی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب اس میں وہ بات نہیں رہی۔ امریکا بہت سے معاملات میں پیچھے ہٹتا جارہا ہے۔ عالمی سطح پر اُسے جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ کردار ادا کرنے کی سکت بظاہر اُس میں نہیں رہی۔ وہ چاہتا ہے کہ تمام معاملات پر اُس کا اجارہ برقرار رہے، مگر ایسا اب ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔
کورونا وائرس کی وبا کے دوران امریکا نے چین کے سامنے خاصی کمزوری دکھائی۔ چین میں کورونا وائرس پر خاصے متاثر کن انداز سے قابو پایا گیا مگر امریکا اور یورپ میں ایسا نہ ہوسکا۔ یورپ نے تو جیسے کورونا وائرس کے سامنے ہتھیار ہی ڈال دیے اور پھر امریکا نے بھی اُس کی ’’پیروی‘‘ کی۔ امریکا اور یورپ میں بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ باقی دنیا یہ دیکھ کر سہم گئی کہ جب حیران کن ترقی کے باوجود امریکا اور یورپ کا یہ حال ہوا تو باقی دنیا کا کیا بنے گا۔ بات کچھ غلط بھی نہ تھی۔ امریکا اور یورپ نے کورونا وائرس کے حوالے سے جس ردِعمل کا اظہار کیا وہ نیم دِلانہ تھا۔ دونوں خطوں میں لوگ بہت تیزی سے اس وبا کے سامنے ہتھیار ڈال بیٹھے۔
زیر نظر مضمون میں امریکا کے گھٹتے ہوئے عالمی کردار پر بحث کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اگر امریکا کو عالمی سیاست و معیشت میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنا ہے تو کورونا وائرس کے حوالے سے باقی دنیا کی قیادت کرنا ہوگی۔ اب تک چین اس معاملے میں نمایاں حد تک کامیاب رہا ہے۔ امریکا کو یہ ثابت کرنے پر بہت محنت کرنا پڑے گی کہ وہ اب بھی غیر متنازع عالمی قائد ہے۔
امریکی کانگریس بہت جلد صدر جوزف بائیڈن کی طرف سے پیش کیے جانے والے ۱۹۰۰؍ ارب ڈالر کے کووڈ بل کی منظوری دینے والی ہے۔ اس منظوری سے جو بائیڈن کا یہ نعرہ کامیاب بنانے میں خاصی مدد ملے گی کہ ’’امریکا واپس آگیا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نعرہ اب تک بڑھک ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ’’امریکا کمزور پڑچکا ہے‘‘۔ وہ عالمی سطح پر اپنی برتری سے بہت حد تک محروم ہوچکا ہے۔ صدر جوبائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران امریکا کی واپسی یعنی عالمی سطح پر اُسے پہلی سی برتری اور سبقت واپس دلانے کی بات کی جس نے بیشتر امریکیوں کی توجہ پائی۔ امریکا کچھ مدت سے متنازع ہے اور اس کی برتری بھی گم ہوچکی ہے۔ وہ عالمی برادری میں بہت حد تک الگ تھلگ ہوکر رہ گیا ہے۔ ساکھ خراب ہوگئی ہے۔ جوبائیڈن امریکا کی غیر متنازع عالمی سربراہ کی حیثیت بحال کرانے کی تگ و دَو میں مصروف ہیں۔
اب امریکا میں بھی یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ امریکا کو عالمی سطح پر قائد کا کردار ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے اور ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ امریکا اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے۔
حق تو یہ ہے کہ امریکا کی کامل اور غیر متنازع برتری کا دور جاچکا ہے۔ امریکا معاشی اور عسکری قوت کے ملاپ سے بہت کچھ کرچکا ہے۔ ایک زمانے تک اس کی حیثیت مست و بے لگام ہاتھی کی سی رہی ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ طاقت کے کئی مراکز ابھر کر سامنے آچکے ہیں۔ چین ہی نہیں، برازیل، بھارت اور انڈونیشیا جیسے ممالک بھی بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں ترکی ہے جو اپنی کھوئی ہوئی قائدانہ حیثیت بحال کرنے کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے باقی دنیا کو اپنی مٹھی میں لینے یا جیب میں رکھنے کا دور رہا نہیں۔ امریکا باقی دنیا کی قیادت کرسکتا ہے یا نہیں یہ سوال اہم ہے، مگر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ امریکا کہاں کھڑا ہے۔ امریکی پالیسی ساز جو کچھ بھی سوچتے ہیں زمینی حقیقتوں کی روشنی میں سوچتے ہیں۔ کوشش کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا لازم ہے کہ امریکا باقی دنیا پر اپنی برتری ثابت کرنے اور اُن کی قیادت کرنے کی پوزیشن میں ہے بھی یا نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ صدارت میں امریکا نے اپنے اتحادیوں سے کنارا کرلیا۔ وہ تنہا آگے بڑھنے کی ذہنیت کے ساتھ سامنے آیا تو رابطے کم رہ گئے اور بہت سے اتحادی شدید ناراض ہوئے۔ ایک سال کے دوران ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ کورونا وائرس کی وبا نے امریکا کو باقی دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔ وہ اتحادیوں کے لیے کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھا نہ پس ماندہ ممالک کے لیے۔ کورونا وائرس کی وبا جب تیزی سے پھیلی تو امریکا اور یورپ شدید دباؤ میں آئے۔ یہ افتاد اُن کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بنی۔ امریکا اور یورپ میں کورونا وائرس سے بہت بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوئیں۔ کورونا کی وبا پھیلی تو دنیا نے امریکا کی طرف دیکھا کہ وہ اس وبا سے نمٹنے میں باقی دنیا کی مدد کیسے کرے گا۔ کورونا کی وبا نے خود امریکا کو بحران کی نذر کردیا۔ ایسے میں دوسروں کی مدد کرنے کی گنجائش ہی کہاں رہی تھی؟
اس وقت امریکا کے لیے سب سے بڑا چیلنج پوری دنیا کے لوگوں کو کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگانے میں مدد دینے کا ہے۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک امریکا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ چین نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کیے ہیں۔ اس نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران پس ماندہ ممالک کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے میں خاصی مدد دی۔ امریکا تو ماسک کی پیداوار کے معاملے میں پیچھے رہ گیا۔ چین نے میدان مار لیا۔ کورونا کی وبا نے چین کو عالمی سطح پر تیزی سے اور غیر معمولی حد تک ابھرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ امریکا کو برابری کی بنیاد پر اتحادیوں کو بھی کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کا اہتمام کرنا ہے۔ اس مد میں وہ چار ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ رواں سال کے آخر تک دو ارب خوراکوں کا اطلاق کرنے کا ہدف ہے۔ اب تک کم آمدنی والے صرف ۷ فیصد ممالک کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین تک رسائی پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکا پس ماندہ دنیا کو کورونا وائرس اور دوسری بہت سے وباؤں سے بچانے میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اب امریکا کو اپنی عالمی قائد کی حیثیت ثابت کرنا ہے۔ اس موسمِ گرما میں کورونا ویکسین کے حوالے سے امریکا کی ضرورت تو پوری ہوجائے گی مگر صدر بائیڈن کو ڈیفنس پروڈکشن ایکٹ کے تحت کورونا ویکسین کی پیداوار میں اضافے کی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کے لیے بڑی تعداد میں کورونا ویکسین کی خوراکیں موجود ہوں۔
دوا ساز ادارے جانسن اینڈ جانسن نے ایک ارب خوراکیں تیار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پس ماندہ ممالک کو کورونا ویکسین فراہم کرنے کے وعدے پر عمل کے بعد بھی بہت بڑے پیمانے پر خوراکیں محفوظ کی جائیں گی تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں الجھن اور خِفّت کا سامنا نہ ہو۔ فائزر کی بنائی ہوئی ویکسین بھی منظوری کے مرحلے سے گزرنے ہی والی ہے۔ ایسی صورت میں کورونا ویکسین کی پیداوار بڑھے گی مگر سب سے بڑا مسئلہ اب بھی لاگت کا ہے۔ افریقی ممالک کے لیے زیادہ لاگت کسی بھی طور موزوں نہیں۔ یہ برِاعظم کچھ زیادہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ افریقی اتحاد کی تنظیم نے ۳ ڈالر فی ویکسین کے نرخ سے خریداری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ امریکی دوا ساز ادارے دیگر (بالخصوص ترقی یافتہ) ممالک سے جو کچھ وصول کر رہے ہیں یہ اُس کا صرف ۲۰ فیصد ہے۔ دنیا بھر میں ایک ارب افراد کو فوری طور پر کورونا ویکسین دینا ہے۔ اب ٹرمپ دور کی کمپنی نووا ویکس بھی میدان میں ہے۔ امریکا کو اس مشن میں کامیاب ہونا ہی ہے۔
اگر امریکا نے کورونا ویکسین کے حوالے سے اہداف حاصل کرلیے اور دنیا کو اُس کی ضرورت کے مطابق ویکسین فراہم کردی تو عالمی سیاست و معیشت میں اس کی واپسی کے حوالے سے کوششیں کامیاب ہوں گی۔ مگر خیر، امریکا کا کردار یہاں تک محدود نہیں۔ اُسے ثابت کرنا ہے کہ وہ دنیا بھر میں عام آدمی کے لیے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت و سکت کا حامل ہے۔ آج بھی کئی بیماریاں ہیں جو عالمی سطح پر خرابیاں پیدا کرتی رہتی ہیں۔ ہر سال کم و بیش بیس کروڑ افراد ملیریا کا شکار ہوتے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ کینسر کے موثر علاج کے حوالے سے امریکا کچھ خاص کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے مگر خیر، یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں کیونکہ کینسر کے علاج کے لیے کئی بیماریوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ ہاں، افریقا میں ایبولا وائرس کی وبا جیسے معاملات سے نمٹنے میں امریکا کو واضح طور پر قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کو دیگر ترقی یافتہ ممالک سے مل کر کام کرنا پڑے گا۔ بڑے پیمانے پر مسائل پیدا کرنے والی بیماریوں پر قابو پانے کے معاملے میں یہی طریقہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“America will be ‘back’ if it helps vaccinate the World”. (“worldpoliticsreview.com”. March 3, 2021)
Leave a Reply