
چیف ایگزیکٹو Fu Chengyu کا کہنا ہے کہ امریکی اس کی کمپنی سے خوفزدہ نہیں ہوں گے جب وہ ایک بار اس سے اچھی طرح واقف ہوجائیں گے۔ فو China National Offshore Oil Co. (CNOOC) کے چیف ایگزیکٹو ہیں‘ جس نے 18.5 بلین ڈالرکے عوض کیلیفورنیا کے Unocal کو خریدنے کی ناخواستہ پیش کش کی ہے۔ یہ اب تک چین کی جانب سے کسی امریکی کمپنی کوسب سے بڑی پیشکش ہے۔ اس اقدام نے واشنگٹن میں اس خوف کو جنم دیا ہے کہ CNOOC اس چینی مہم کا آغازہے جس کے تحت وہ امریکہ کے نقصان پر دنیا کے تیل کے ذخائر پر قابض ہونا چاہتاہے۔ لیجسلیٹرز نے گزشتہ ہفتے متامل وائٹ ہائوس کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس ڈیل کو روک دے، فو نے اس ردعمل کا موازنہ ۸۰ء کی دہائی میں امریکہ کا جاپان کے تئیں پائے جانے والے خوف سے کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’میں ذاتی طور پر یہ محسوس کرتا ہوںکہ چینیوں کو ہمیشہ غلط سمجھا گیا ہے۔ وہ لوگ ایک دل او ردو آنکھیں رکھتے ہیں وہ کوئی جِن نہیں ہیں‘‘۔ فو کا اصرار ہے کہ ان کی کمپنی چین کی دیگر ریاستی فرموںسے بالکل مختلف ہے جسے بیجنگ کی جانب سے زیادہ آزادی حاصل ہے۔ چین کی تین بڑی کمپنیوںمیں سے CNOOC دو کے مقابلے میں کاروباری لحاظ سے کہیں آگے ہے ۔ جبکہ باقی دو کمپنیوں کے ہزاروںملازمین ہیں اوران کی فیکٹری کیمپس میں ہسپتال و اسکول کی سہولیات شامل ہیں۔
CNOOC ایک قدرے نئی کمپنی ہے جو1982ء میں قائم ہوئی۔ یعنی اس وقت جب چین میں مارکیٹ ریفارم کاآغازہوا۔ یہ کمپنی چھوٹی ہے۔ (۲۵۲۴ اس کے ملاز مین ہیں) لیکن منافع کے حوالے سے بہت حساس ہے۔ فو نے اپنی ماسٹرز کی ڈگری جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی سے حاصل کی ہے اور وہ رواں انگریزی میں عالمی مالیاتی منڈی کی زبان بولتے ہیں۔ پھر بھی تاثر ہے کہ وہ اپنی آزادی کے لیے بہت زیادہ احتجاج کرنے والے ہیں۔ فو کا اصرار ہے کہ Unocal ڈیل کے پیچھے ان کا اصل ہاتھ ہے ، ریاستی ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے نہیں بلکہ خالصتاً ہمارے شیئر ہولڈرز کے لیے Value مین اضافہ کرتے ہوئے۔ بہرحال CNOOC میں حکومت کی ملکیت 70 فیصد ہے۔ کارپوریشن کے کمیونسٹ پارٹی کے باب کے سربراہ ہونے کے ناتے فو حکومت کو رپورٹ کرتے ہیں۔
جب فو کہتے ہیں کہ ان کی فنانسنگ اصلاً کمرشیل بینکوں سے ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ 16 بلین ڈالر کی رقم جو اسے اس ڈیل کو مکمل کرنے کے لئے درکارہے، اس کا بیشترحصہ حکومتی پیرنٹ کمپنی اور کمرشیل بینک آف چائنا سے حاصل ہوگا۔ JASON KINDOPP یورو ایشیا گروپ کے نیویارک میں ماہر تجزیہ نگار ہیں CNOOC کو اگلی صف میں دیکھتے ہیں جو قومی آئل فرمز تعمیر کرکے تیل سپلائی کو اپنی دسترس میں کرنے کی بیجنگ کی حکمت عملی کو کامیاب بنانا چاہتی ہے تاکہ چین تیل کے مغربی سورمائوں سے آمنے سامنے مقابلہ کرسکے۔ اس میں کوئی حرج نہیںہے۔ چین امریکہ کے بعد سب سے زیادہ تیل خرچ کرنے والا ملک ہے۔ اس ک معیشت 9 فیصد شرح سے سالانہ ترقی کررہی ہے۔ ایسی حالت میں بیجنگ کی جانب سے توانائی کی سپلائی کو اپنی دسترس میں کرنے کی کوشش اچھی طرح قابل فہم ہے۔بہت سارے صنعتی افسران کے نزدیک جو درحقیقت آئل کمپنیوں کے مالک ہیں، یہ کوشش غیر متعلق ہے۔ تیل کی فروخت ایک مستحکم عالمی مارکیٹ میں ہورہی ہے جہاں سپلائی کا رخ ان کی جانب ہے جو سب سے زیادہ قیمت کی پیشکش کرتے ہیں۔ مفروضہ ہے کہ شدید بحران کی صورت میں ریاست کی زیر ملکیت بڑی کمپنیاں اپنے ملکی گاہکوں کو تیل کم قیمت پر اور کم مقدارمیں فراہم کرتی ہیں، لیکن اس طرح سے حاصل فوائد عالمی مارکیٹ میں فروخت نیچے جانے کے سبب ہونے والے نقصان کی وجہ سے برابر ہو جاتا ہے۔ شبہ کرنے والوںکا ردعمل یہ ہے کہ چین پہلے ہی اس انداز میںعمل پیراہے جسے Kindopp جارحانہ اقتصادی قومیت کا نام دیتاہے۔ وہ ان باغی تیل کی ریاستوںسے معاہدہ کررہاہی جسے دوسرے چھوڑ چکے ہیں۔ خاص طور سے سوڈان سے، او ر تیل کی زیادہ قیمت ادا کررہاہے۔ CNOOC نے Unocal کے لئے 18.5 بلین ڈالر کی جو پیشکش کی ہے وہ اس قیمت سے 2بلین ڈالر زیادہ ہے جو اسے ٹیکساس کے Chevron نے کیا تھا اور اسے بھی زیادہ تر تجزیہ نگاروںنے زیادہ بتایا تھا‘ اگرچہ چین اکیلا ملک نہیںہے جو تیل کی غیریقینی مارکیٹ میں جارحانہ کھیل کھیل رہاہو۔ Lin Boqiang جو ایشیائی ترقیاتی بینک میں توانائی کے حوالے سے ماہر معیشت ہیں کا کہنا ہے کہ ایسی کمپنیاں جو عالمی مارکیٹ میں تیل کی اہم کھلاڑی ہیں کی نصف تعداد وہ ہے جن کی ملکیت کا کچھ حصہ حکومت کے پاس ہے۔
Lin کا کہنا ہے کہCNOOC کوئی بڑی فرم نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی طریقے سے بھی چھا جانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ تاہم یہ اتنا بڑا زیر بحث مسئلہ اس لئے ہے کہ یہ کمپنی چین سے آئی ہے۔ واشنگٹن میں قائم Centre for Strategic & International Studies کے توانائی سے متعلق تجزیہ نگار Frank Verrastro کا کہنا ہے کہ دونوں عالمی منڈیوں کے لئے قدرے نوواردہونے کے ناتے اور بین الاقومی انضمام کے رجحان کے پیش نظر یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ چین کے حقیقی ارادے کیا ہیں؟ فو کا کہنا ہے کہ یہ جزوی طور پر صحیح ہے کہ یونو کال ڈیل سے چین کا مقصد تیل کی فراہمی کو اپنے لئے یقینی بنانا ہے۔ لیکن وہ اپنے اس خیال پر مصر ہیں کہ چین کا ارادہ وسائل کو ذخیرہ کرکے رکھنا نہیں ہے۔ فو کے مطابق CNOOC کا اصل مقصد ایک بین الاقوامی کمپنی کی حیثیت سے شہرت حاصل کرناہے۔ یقینا جیسا کہ بعض تجزیہ نگاروںکا خیلا ہے، مشہور برانڈ کی خریداری کے ذریعہ چین کی عالمی منڈی میں مقام حاصل کرنے کی یہ تازہ کوشش ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح Haeir کی اوزار بنانے والی کمپنی Maytag کو خریدنے کی تازہ پیش کش ہے۔ مختصر مدت کے لئے ہی سہی واشنگٹن کا خوف تو نمایاںہے۔ اصل تشویش یہ ہے کہ CNOOC تیل کی فراہمی کا رخ امریکہ سے چین کی جانب موڑ دے گا۔ لیکن Unocal ایک میڈیم سائز کی تیل کمپنی ہے۔ جو مارکیٹ کو جنبش دینے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ تیل کی بہت تھوڑی مقدار اب امریکی مارکیٹ میں جاتی ہے اور CNOOC نے پہلے ہی یہ وعدہ کرلیاہے کہ وہ فراہمی کی اس مقدارکو برقرر رکھے گا۔ قبل اس کے کہ اس حوالے سے ردعمل اپنے نقطۂ عروج کو پہنچے CNOOC نے اسے یوں ٹھنڈا کردیا۔ درحقیقت نصف سے زیادہ ذخائر Unocal کے ایشیاء میں ہیں اور طویل المیعاد سپلائی کا اس نے معاہدہ کرلیا ہے جو کئی دہائیوں تک جاری رہے گی۔ بالخصوص انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں۔ چین کی خارجہ پالیسی ایسے پڑوسیوں کو حلیف بناکر رام کرنا اور انہیں تجارت میں شراکت دار بنانا ہے۔ ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ بیجنگ تیل کے معاہدوںکی خلاف ورزی کرکے ایشیاء میں ابھرتے ہوئے سفارتی رہنما کی اپنی حیثیت کو خواہ مخواہ دائود پر لگائے۔ بہرحال امریکی تیل سپلائی خطرے میں نہیں ہے اور نہ ہی پیچیدہ امریکی ٹیکنالوجی کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ جیساکہ واشنگٹن میں بعض لوگ اس خوف میں مبتلا ہیں۔ Kindopp کا کہنا ہے کہ برازیل کے ساتھ معاہدہ کرکے چین امریکہ کے مساوی ترقی یافتہ drilling ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے قریب ہے جسے خطرے کی گھنٹی محسوس کی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ اگر یونوکال معاہدے کو روک بھی دیا جائے تو اس سے کوئی منفعتی مقصدحاصل نہیں ہوپائے گا۔
یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکہ CNOOC چین کی اتنی طاقتور کمپنی بن جائے کہ اہم کھلاڑی کی حیثیت سے عالمی تیل کی منڈی کی جنبش پر اپنی نظر رکھ سکے۔ اس نے ٹیکساس کی کمپنی Public Strategies کی خدمات معاوضے پر حاصل کی ہیں، جس کا تعلق بش کے وائٹ ہائوس سے ہے تاکہ امریکہ میں اپنی P.R بڑھاسکے۔ فو کا کہنا ہے کہ وہ مطمئن ہیں۔ اس ڈیل پر بیرونی سرمایہ کاری کی کمیٹی کے ذریعہ فیڈرل ریویو جاری ہے اور اس کی رپورٹ CNOOC کے لئے اطمینان بخش ثابت ہوگی اور یہ کہ وہ واشنگٹن میں موجود منفی ردعمل کو سمجھتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہ ایک فطری بات ہے۔ اس لئے کہ انہوںنے CNOOC کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنا تھا، فو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔، انہیں یہ بھی کبھی معلوم نہیں تھاکہ چینی اپنا بزنس کس طرح چلاتے ہیں۔ جبکہ تیل کے لئے چین کی پیاس مستقل بڑھ رہی ہے ایک بات واضح ہے، وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ امریکی ان تینوں کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ میگزین ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ۔ ۱۱ جولائی ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply