گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد سے ایک جملے کی مستقل تکرار سے ہمارے کان پک گئے ہیں۔ وہ جملہ ہے ’’دہشت گردی ہمارے زمانے کی عظیم بلا ہے‘ دہشت گرد بدی کا مظہر ہیں‘‘۔ ۲۱ویں صدی میں امریکا اسلام پسندوں کی نئی کلیت پسندی کے خلاف جنگ کرے گا یعنی اُسی جنگ کا اعادہ کرے گا جو اس نے اس سے پہلے کمیونزم اور فاشزم کے خلاف چھیڑ رکھی تھی۔ مہذب دنیا جس کا امریکا سربراہ ہے‘ یہ جنگ جیت جائیگی جیسا کہ اس نے گذشتہ دو جنگیں جیتی تھیں لیکن یہ ایک طویل جنگ ہو گی اور شاید بہت مہنگی بھی۔ اب جبکہ دہشت گردی ایک واضح کنایہ ہے عالمی و علاقائی تصادم کو جنم دینے کا چنانچہ یہ مناسب بات ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو سمجھنے کی کوشش کریں یہ پرکھتے ہوئے کہ امریکا اس بھیڑیے کی کیا تعریف متعین کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ امریکی تعریف کو نچوڑ کر دیکھیں کہ اس سے دہشت گردی کی کیا شکل متعین ہوتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں چند ایسی چیزوں کا علم ہو جس کا علم ہمیں امریکا کے سرکاری اعلامیہ سے کبھی بھی حاصل نہ ہو پائے: یعنی یہ کہ امریکا نے کیوں یہ جنگ چھیڑی اور دشمن کون ہے؟ سمجھ لیجیے کہ دہشت گردی کی تعریف جسے تین امریکی ایجنسیوں نے ایک متعین روپ دیا ہے وہی اس سے لڑنے کی بھی ذمہ دار ہیں۔
ایف بی آئی
طاقت اور تشدد کا غیرقانونی استعمال اشخاص اور جائیداد کے خلاف تاکہ حکومت اور اس کی شہری آبادی یا اس کے کسی جز کو دھمکایا اور مجبور کیا جاسکے اور اس طرح اپنے سیاسی و سماجی مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔
ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس (DOD)
تشدد کا نپا تلا استعمال یا تشدد کی دھمکی جس کا مقصد حکومت اور معاشروں کو ڈرا دھمکا کر ان اہداف کے حصول کے لیے ان پر دبائو ڈلا جائے جو عام طور سے سیاسی و مذہبی اور نظریاتی ہیں۔
ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ (DOS)
Subnational یا خفیہ ایجنٹوں کے ذریعہ غیرمحارب ٹھکانوں پر ایسی جارحیت و تشدد جو منصوبہ بند ہو اور جس کا اصل محرک سیاسی مفاد ہو اور عام طور پر جس کا مقصد مخاطب پر اثرانداز ہونا ہو۔
اہم بات یہ ہے کہ پہلی دو تعریفیں اُن ایجنٹوں کی شناخت نہیں کر پاتی ہیں جو دہشت گردی میں مصروف ہیں‘ اس کے بجائے یہ صرف اتنا بتاتی ہیں کہ ان ایجنٹوں کا کام کیا ہے۔ ’’یہ کسی حکومت اور شہری آبادی یا اس کے کسی جز کو ڈراتے دھمکاتے ہیں‘‘ یا ’’حکومتوں اور معاشروں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں‘‘۔ تیسری تعریف میں Subnational خفیہ ایجنسیوں کا حوالہ غیرحکومتی عاملوں کی طرف اشارہ ہے اگرچہ یہ واضح نہیں ہے۔
اصولاً یہ امریکا کو آزاد چھوڑ دیتا ہے کہ حکومتی و غیرحکومتی عاملوں کے خلاف دہشت گردی کا الزام عائد کرے۔ ’’تشدد‘‘ اور ’’طاقت‘‘ کی شناخت کی جو سرکاری تعریفات ہیں وہ متفق علیہ ہیں اور یہ سبھی دہشت گردی کی نشاندہی کرنے والی ہیں۔ دوسری تعریف میں تشدد کی دھمکی بھی شامل ہے۔ دوسرے الفاظ میں دہشت گردی کو پُرتشدد ذرائع کے استعمال سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ ایسی کارروائیاں اس سے خارج ہیں جو بظاہر پُرتشدد ہوں لیکن لوگوں کی جان لے سکتی ہیں۔ لہٰذا ’’پُرتشدد ذرائع‘‘ پرزور سیاسی لحاظ سے مفید ہے۔ یہ اس مخصوص دہشت کو نظرانداز کر دیتا ہے جو غیرمساوی قوت کے اسٹرکچرز کے ذریعے جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے۔ دہشت گردی کے قریبی اہداف سے متعلق تعریفات مبہم ہیں۔ DOD ہدف کا تعین نہیں کرتا ہے جبکہ ایف بی آئی اس امر کا تعین نہیں کرتا ہے کہ آیا ’’اشخاص اور جائیداد‘‘ جنہیں نشانہ بنایا جاتا کا تعلق نجی‘ سرکاری یا فوجی حلقوں سے ہے۔ صرف DOS اہداف کو ’’غیرمحاربوں‘‘ تک محدود کرتا ہے۔ بہرحال یہ بہت ہی وسیع کیٹوگیری ہے۔ یہ فوج کے صرف ان حصوں کو خارج قرار دیتا ہے جو بہت فعال طریقے سے عسکری دشمنیوں میں مصروف ہوں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کے دشمنوں کو بعض جائز اہداف کی پیشکش کی گئی ہے۔ بالآخر امریکی ایجنسیاں دہشت گردی کے مقاصد کا ایک وسیع برش کے ساتھ تعین کرتی ہیں۔ دہشت گرد اپنے مقاصد میں دوسرے سیاسی کھلاڑیوں سے مختلف واقع نہیں ہوئے ہیں‘ ان کے مقاصد سیاسی‘ مذہبی اور نظریاتی ہیں۔ دہشت گرد Audience کو متاثر کرنا چاہتے ہیں خواہ یہ حکومت ہو‘ معاشرہ ہو یا معاشرے کا کوئی حصہ ہو۔ پیغام واضح ہے کہ سیاسی‘ مذہبی یا نظریاتی مقاصد کی پشت پناہی تشدد سے نہیں کی جاسکتی۔ امریکا کی حکومتی تعریف کی رو سے دہشت گرد وہ حکومتی و غیرحکومتی عاملین ہیں‘ جو پرتشدد کارروائیوں میں یا تو شریک ہیں یا پُرتشدد کارروائیاں انجام دیتے ہیں جن سے جائیداد اور اشخاص (غیرمحارب) کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ کارروائیاں سیاسی‘ مذہبی اور نظریاتی اغراض سے انجام دی جاتی ہیں۔ متبادل کے طور پر دہشت گردی کی تعریف اس کے چار اجزا کے لحاظ سے کی گئی ہے۔ دہشت گردی کے ایجنٹ حکومتی وغیرحکومتی عامل ہو سکتے ہیں۔ دہشت گرد پُرتشدد ذرائع کا استعمال کرتے ہیں‘ خواہ اس کا مقصد حقیقتاً تشدد کرنا ہو یا محض دھمکانا ہو۔ وہ ذرائع جن کا استعمال دہشت گرد کرتے ہیں‘ پرتشدد کہلائیں گے اگر ان کا نتیجہ اشخاص اور جائیداد کا نقصان ہے۔ آخری تجزیہ ہے کہ دہشت گردی کے اہداف میں صرف چند پابندیاں ہیں۔ امریکا کی دہشت گردی کی حکومتی تعریفات کے قدیم مضمرات پر غور کریں تو نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ بوسٹن ٹی پارٹی دہشت گردی کا ایک عمل ہے۔ اس پارٹی میں برطانوی قانون کی خلاف ورزی کی گئی‘ اس نے املاک کو نقصان پہنچایا اور اس کا مقصد برطانوی حکومت کو ڈرانا دھمکانا تھا۔
امریکا کی حکومتی تعریفات کے مطابق امریکا میں برطانیہ کی قانونی حکومت کے خلاف بغاوت کا بیج بونے والے بنیادی رہنما بھی دہست گردوں میں شمار ہوں گے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس پر کم لوگوں کی توجہ ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ دہشت گردی کی امریکا کی طرف سے کی گئی سرکاری تعریف تشدد کی ہر شکل کو ناجائز قرار دے جو سیاسی مقاصد کے لیے ہو۔ اب جبکہ یہ مشکل ہے کہ ان جائز سیاسی مقاصد کو جرم قرار دیا جائے محض اس بنا پر کہ وہ امریکی مفادات کے خلاف جاتے ہیں تو امریکا کی یہ کوشش ہے کہ ان جائز وسائل کو محدود کر دے جو جائز مقاصد کے حصول میں معاون ہو سکتے۔ تشدد مزاحمت کا جائز ذریعہ نہیں ہے خواہ وہ جس بھی صورتحال کی مخالفت میں ہو۔ اگر یہ ایپروچ امریکا کے اساسی رہنمائوں کو بھی دہشت گرد قرار دے تو بھی لامتناہی جنگ کے پیچھے بیان کردہ امریکی منطق کو اس سے کم ہی نقصان پہنچے گا۔ اس بے ربطی سے کم ہی امریکی پریشان ہیں۔ دہست گردی سے متعلق امریکا کی جو حکومتی تعریفات ہیں‘ وہ بھی ایک برعکس مسئلے سے دوچار ہیں۔ دہشت گردی کوریج ان میں نہیں ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ دہشت صرف انہی ذرائع سے انجام پا سکتی ہے جو فی نفسہٖ پُرتشدد ہوں۔ اگر غیرسرکاری لوگ جو کہ ایڈز میں مبتلا ہوں اور ملک میں داخل ہو کر معاشقے کی بعض سرگرمیوں میں مصروف ہوں جس سے لازمی طور سے ایڈز پھیلتا ہے تو امریکی تعریف کی رو سے اسے دہشت گردی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ عام طور سے خواہ جراثیم پانی کے ذریعہ پھیلے یا غذا‘ ہوا‘ ٹیکہ‘ کمبل نیز معاشقہ کے ذریعہ پھیلے‘ اس پر دہشت گردی کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جراثیم کو پھیلنے کے لیے کسی پُرتشدد کارروائی کی ضرورت نہیں۔ دہشت گردی کی امریکی تعریف اور بھی زیادہ باعثِ پریشانی ہوتی ہے جب ہم انہیں متواتر امریکی حکومتوں کے رویے کی جانچ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ امریکا نے تہذیبوں کے خلاف اپنے ملک میں بھی اور باہر کے ملکوں میں بھی کثرت سے پُرتشدد واقعات کیے ہیں جو دہشت گردی کی سادہ مگر خود اس کی تعریف کی رو سے وہ دہشت گردانہ اقدامات تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ گذشتہ دو صدیوں پر محیط عالمی دہشت گردی کا کوئی بھی معروضی جائزہ یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہے کہ امریکا اس دہشت گردی کا سب سے بڑا مرتکب رہا ہے۔ یقینا جرمنی‘ برطانیہ‘ فرانس‘ اسپین‘ بیلجیم‘ اٹلی اور سوویت یونین بھی اس فہرست میں بہت اوپر ہیں۔ اگر صدام کے زیرِ انتظام عراق کو اس فہرست میں شامل کیا جاتا تو اس کا نام باکل آخر سے تھوڑا ہی اوپر ہوتا۔ کیا ان سب باتوں میں کوئی سبق پوشیدہ ہے؟ دو تو بڑی آسانی سے ذہن میں آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی کو بھی جو خود شیشے کے گھر میں رہتا ہو‘ دوسرے کے گھر پتھر نہیں پھینکنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ اگر کوئی ناراض ہجوم چند پتھر آپ پر پھینکتا ہے اور اس کے نتیجے میں آپ کی کھڑکیوں کے کچھ شیشے ٹوٹ جاتے ہیں تو قبل اس کے کہ آپ اس پر اپنا ردِعمل دکھائیں‘ آپ اس بات کا جائزہ لیں کہ خود آپ نے سالہاسال تک کتنے پڑوسیوں کے گھروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ایک مناسب ردِعمل ہو گا بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو پارسا ثابت کرتے ہوئے ان تمام گھروں پر سنگ باری شروع کر دیں‘ جنہیں آپ اس کے محلِ وقوع اور قیمت کی وجہ سے لالچ بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بہرحال جب کبھی سبق واضح ہو کر سامنے آتا ہے‘ کسی کو اس کے حصول کی طلب نہیں ہوتی۔ بہرحال طاقتور کبھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتا تاآنکہ وہ دوسروں کو ایک دو سبق نہ سکھا دے۔ لہٰذا معلوم یہ ہوتا ہے کہ پتھروں کے تبادلے کا سلسلہ جاری رہے گا تاآنکہ ایک فریق یا دوسرا فریق یا دونوں ہی ایک دو سبق سیکھ نہیں لیتے۔ اس وقت تک ہم باقی لوگوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ زمین پر لیٹے رہیں اور اپنے سروں کو ناقابلِ تلافی نقصان سے بچانے کی کوشش کریں۔ جب تک ہماری گردنوں پر ہمارے سر موجود ہیں‘ ان لوگوں کے سروں میں یہ احساس جاگزیں کرنے کی کوششیں کریں جو ہمارے گرد و پیش سنگ باری میں مصروف ہیں۔
مضمون نگار امریکی شہر بَوسٹن کی ایک یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ شمارہ۔ ۶ اگست ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply