امریکی ثقافت اور انسانی فطرت، دو الگ چیزیں ہیں

جب مغربی دنیا والوں کی اسلام سے رغبت کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے تو نت نئی باتیں سامنے آتی ہیں جو اُن کا زاویۂ نگاہ ہوتا ہے۔ غیرمسلم معاشروں میں ایسے مسلمان عام طور سے مل جاتے ہیں جو احکامِ الٰہی پر عمل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں لیکن انہی معاشروں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو نومسلم ہیں اور اسلام کو بطورِ دین اپنانے سے پہلے ایک مادر پدر آزاد معاشرے کا حصہ تھے۔ وہاں ان کو ہر طرح کا آرام تھا، آزادی تھی یعنی وہ لوگ خود اپنے آپ کو ایک ایسی ’’آزادی‘‘ کا ’’غلام‘‘ پاتے تھے جو ظلم و ستم اور بے راہ روی سے بھری ہوئی تھی۔ ایسے لوگوں کا اسلام قبول کرنا اور ان معاشروں میں رہنا واقعی قابلِ ستائش ہے۔

’’زہرا گونزالیس‘‘ ایسی ہی ایک خاتون ہیں جنہوں نے عشقِ الٰہی اور محبتِ رسولؐ و آلِ رسولؐ میں نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اپنے لوگوں سے دشمنی بھی مول لی۔ زہرا گونزالیس کی عمر ۳۳ سال ہے۔ ان کے شوہر ایرانی ہیں۔ پہلے یہ لوگ امریکا میں رہتے تھے اب چار سال سے ایران میں مقیم ہیں۔ ان کے تین بچے ہیں۔

زہرا گونزالیس سے کیا جانے والا انٹرویو دو قسطوں میں ماہانہ ’’طاہرہ‘‘ کراچی کے فروری و مارچ ۲۰۰۸ء کے شماروں میں شائع ہوا ہے۔ ہم یہاں قارئین کی خدمت میں انٹرویو کا وہ حصہ پیش کر رہے ہیں جو امریکی معاشرے کی تصویر کشی پر مبنی ہے۔ (ادارہ)


٭ آپ کی باتوں سے امریکی گھرانے کی جو شکل سامنے آئی ہے، اُس میں بچوں کی شخصیت پر بہت بُرا اثر ہوتا ہو گا۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

جی ہاں! شخصیت پر پڑنے والا اثر بہت اہمیت کا حامل ہے حتیٰ کہ مسلمانوں میں بھی یہی مشکل ہے۔

امریکی ثقافت انسانی فطرت کے بالکل برخلاف ہے۔ امریکی ثقافت کہتی ہے کہ مزے کرو جس سے دل ملے اس کے ساتھ خوش رہو مگر ہمارا ضمیر کہتا ہے کہ یہ برا کام ہے۔ یہیں سے مخالفت پیدا ہوتی ہے۔ آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ ہم جنس بازی کی انجمنیں پہلی کلاس سے بچوں کو جنسی تعلیم کے نام پر اس گناہِ کبیرہ سے آشنا کر رہی ہیں۔ اب اختلاف اس بات میں ہے کہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اتنی نچلی سطح پر یہ تعلیم دینا قبل از وقت ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں یہ کوئی خاص بات نہیں ہے، ہمارے معاشرے کا حصہ ہے بلکہ یہ سچائی ہے اور ہمیں اپنے بچوں کو اس کے بارے میں نرسری کلاس سے تعلیم دینا چاہیے تاکہ بوقتِ ضرورت وہ بے بہرہ نہ ہوں۔ آپ سوچیں کہ جب بچے برائی کو برائی نہیں سمجھیں گے تو ان کی شخصیت پر کتنا برا اثر پڑے گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ امریکی پروپیگنڈا انسان کی انسانیت کے بھی خلاف ہے۔ اﷲ نے ہمیں ایسا نہیں پیدا کیا ہے۔ جب بچہ ان مسائل سے کھلم کھلا واقف ہو جائے گا تو اس کی کیا شخصیت بنے گی۔ وہ تو پریشان حال بن جائے گا۔

امریکا میں تعلیم کا نظام بھی یکساں نہیں ہے بلکہ ہر ریاست کا اپنا نظام الگ ہے لیکن یہ نظام تین حصوں میں تقسیم ہے اور بارہ سال کا ہے۔ سرکاری اسکول مفت ہیں جہاں ایسے مسائل بہت ہیں جبکہ غیرسرکاری بہت مہنگے ہیں۔ اسی لیے ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے بچوں کو اپنے مہنگے مذہبی اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں تاکہ اس قسم کی لغویات سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکیں۔ دوسری طرف بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بھی نہ بنیں کیونکہ امریکا میں بچوں کو تعلیم نہ دلانا جرم ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ مطلقہ والدین کے بچے ضروری رہنمائی سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس کی بات مانیں؟ یہ صورتِ حال مسلمانوں میں بہت زیادہ ہے۔ امریکی معاشرے کی رنگا رنگی ان کو بے راہ روی کی طرف کھینچتی ہے، دوسری طرف فطرت ان کو روکتی ہے۔

آزادانہ میل ملاپ کا ایک واضح اثر افسردگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ذرا اس لڑکی کا تصور کریں جو دس سال کی عمر میں تین دفعہ اسقاط کرا چکی ہو۔ اب تمام وسائلِ زندگی موجود ہیں، دَھن، دولت، روپیا پیسا بھی ہے مگر وہ نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہے۔ بڑی مشکل سے بارہویں جماعت پاس کرتی ہے لیکن اب اس کا دل ہی نہیں چاہتا کہ یونیورسٹی جائے۔ طرفہ تماشا یہ کہ نئے قانون کی رو سے ۵۰% بچے کسی گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے لہٰذا ولدیت کا خانہ ہی شناختی کارڈ سے ختم کر دیا گیا ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ ان کا باپ کون ہے؟ اب جدید تحقیق سے معلوم بھی ہو جائے تو بھی مرد اپنے بچے کو لینے کا روادار نہیں۔

امریکی قانون عمداً گھرانے کی طرف داری نہیں کرتا بلکہ اس قانون میں انفرادی آزادی اور فرد کی آزادی کا پہلو زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا گھر اور گھرانہ ناپید ہو چکا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نوجوانوں کا کوئی سرپرست نہیں۔ وہ کس کی بات مانے۔ اگر کوئی والدین ہیں بھی تو بچے ان کی بات نہیں ماننا چاہتے۔ اسی لیے ایسی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں جو پوری زندگی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ جب میں امریکا گئی تھی تو میرے ایک قریبی عزیز نے کہا کہ تم کو کیا ہو گیا ہے جو امریکا چلی آئی ہو؟ واپس ایران جائو اور سکون سے زندگی گزارو۔ دیکھو میرے بچے ان تمام ذرائع کے باوجود لکھ پڑھ نہیں سکے ہیں۔ تم اپنے آپ کو دیکھو، تمہاری سسرال میں سب لوگ پڑھے لکھے ہیں، سکون سے ہیں اور خود تمہارے بچے اطمینان سے زندگی کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔

٭ اب آپ کو ایران سے واقفیت ہو گئی ہے، آپ اس بات پر روشنی ڈالیں کہ ایران کی اور امریکا کی لڑکیوں کی خواہشات اور اُمنگوں میں کیا فرق ہے؟

امریکا میں وہ لڑکی خوش قسمت ہے جو بہت خوبصورت ہو اور لڑکے اس پر جان چھڑکتے ہوں۔ بالفاظِ دیگر لڑکیوں کی آرزو یہ ہے کہ لڑکوں میں گھری رہے اور اس کے حسن کی تعریف ہوتی رہے۔ ایران کی لڑکیوں کی طرح بیوی بننا، ماں بننا ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ تو سوچتی ہیں کہ اچھی ملازمت مل جائے اور اپنی ظاہری وضع قطع پر خرچ کریں۔ وہ خوش رہنا چاہتی ہیں لیکن ان کو معلوم ہی نہیں کہ یہ خوشی کس طرح حاصل ہو گی لہٰذا ہر طریقہ آزماتی ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتیں۔ اس کے برخلاف ایران کی وہ لڑکیاں جو زیادہ مذہبی نہیں ہیں، ان کی بھی آرزو یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنا اور ایک ایسا شوہر حاصل کرنا ہے جس کے پاس چار چابیاں ہوں: (۱)گھر کی چابی، (۲)کار کی چابی، (۳)دکان کی چابی، (۴)باغ کی چابی۔

٭ یعنی یونیورسٹی میں داخلہ امریکی لڑکیوں کی بنیادی آرزو نہیں ہے؟

یونیورسٹی میں داخلہ ملنا اچھا سمجھا جاتا ہے مگر ہر لڑکی اس کے لیے بے تاب نہیں ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ تمام یونیورسٹیاں پرائیویٹ ہیں۔ لہٰذا وہان داخلے کے لیے پہلے کام کر کے پیسا جمع کرنا پڑتا ہے پھر داخلہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ والدین اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم پر پیسا نہیں لگاتے۔ یہ پیسا نوجوانوں کو خود جمع کرنا پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ امریکی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایرانی لڑکیوں کی طرح انجینئرنگ اور میڈیکل سے زیادہ لگائو نہیں رکھتیں، وہ ان مضامین کو لڑکوں کا مضمون سمجھتی ہیں۔

لڑکیاں عام طور پر اُستانی بننا پسند کرتی ہیں یا نرس، یا پھر آزاد ملازمتیں ڈھونڈتی ہیں، یونیورسٹی نہیں جاتیں۔ مثال کے طور پر واشنگٹن ڈی سی میں لیڈی ڈاکٹر عام طور پر انڈین، چینی یا پاکستانی ہوتی تھیں۔ امریکی خواتین میں عام طور پر ڈاکٹر بننے کا رجحان بہت کم ہے۔ ہاں نرسنگ کو زنانہ پیشہ مانتی ہیں اور اگر کوئی مرد نرسنگ میں آجائے تو اس کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ہم جنس پرست ہے حالانکہ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔

ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ امریکی لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم کی طرف مائل نہ ہونے کا ایک سبب کو ایجوکیشن بھی ہے کیونکہ شروع ہی سے اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اس کو پُرکشش بننا ہے۔ اسی لیے اس کے ذہن کا محور پُرکشش اور حسین بننا ہی رہ جاتا ہے۔ وہ ذہنی طور پر خود کو لڑکوں سے کم تر سمجھتی ہے اور لڑکوں سے دوستی کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے تاکہ ایک کامیاب زندگی حاصل ہو جائے۔

امریکا میں والدین کو توقع ہوتی ہے کہ اسکول اور استاد اُن کے بچوں کا خود ہی خیال رکھ لیں گے اور ان کے بچوں کے ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالوں کا جواب دے لیں گے۔ جب یہ بچے اپنی تعلیم کے سلسلے میں یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتے ہیں تو ان کو سولہ سال کی عمر میں کام شروع کر دینا ہوتا ہے، وہ بھی ہوٹلوں میں برتن دھونے کا یا سیلزمین بننے کا۔ ان نوجوانوں کو کم از کم دو سال کام کرنا پڑتا ہے اور پیسے جمع کرنے پڑتے ہیں تاکہ یونیورسٹی کی فیس دے سکیں۔ ایک اور مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ وہ ان دو برسوں میں اپنی جمع پونجی خرچ کرتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دو سال بعد بھی یونیورسٹی کی فیس کچھ کم رہ جاتی ہے۔ بعض اوقات کچھ والدین فیس کی مد میں مدد کر دیتے ہیں مگر بقیہ خرچہ خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پڑھائی کے دوران پیسے ختم ہو جاتے ہیں، اب دوبارہ پیسے کمانے کے لیے طالب علم کام ڈھونڈتا ہے، پیسے جمع کرتا ہے اور دوبارہ ایک سال بعد پڑھائی شروع کرتا ہے۔ یہ سب کچھ وہاں یعنی امریکی میں ایک عام سی بات ہے۔ لہٰذا چار سال کا کورس کبھی بھی چار سال میں ختم نہیں ہوتا۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت ہلکے کورس کے لیے بھی دس ہزار ڈالر فیس دینا پڑتی ہے۔

میڈیکل کی تعلیم تو بہت ہی مہنگی ہے۔ جب کوئی طالبِ علم ڈاکٹر بن جاتا ہے تو لمبی مدت تک اپنے قرضے ہی اتارتا رہتا ہے۔ اگر میڈیکل کی تعلیم کے دوران پیسے ختم ہو جائیں تو یہ لوگ پہلے کام کر کے یونیورسٹی کا قرضہ اتارتے ہیں، اس کے بعد کام کر کے اگلی ٹرم کے لیے فیس جمع کرتے ہیں، پھر دوبارہ پڑھائی شروع کرتے ہیں۔

٭ ہمیں بہت تعجب ہوتا ہے کہ جب بھی امریکی فلم دیکھتے ہیں تو تمام امریکی خواتین تعلیم یافتہ اور بڑے عہدوں پر نظر آتی ہیں۔ پولیس اور جج کے اہم عہدوں پر خواتین نظر آتی ہیں۔

یہ تو آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ فلم ہے۔ فلم کا حقیقت سے جتنا مختصر تعلق ہونا چاہیے، وہ ہی ہے۔ حقیقی زندگی میں جو خواتین پولیس میں کام کرتی ہیں وہ عموماً میز کے پیچھے بیٹھتی ہیں یا اگر باہر جاتی بھی ہیں تو نسبتاً کم خطرناک کام سر انجام دیتی ہیں۔ ان کے ذمے بہت اہم کام نہیں کیے جاتے۔ زیادہ سے زیادہ گاڑیوں کا چالان وغیرہ کرنا۔ بلاشبہ خواتین جج بھی ہیں لیکن فلم کی طرح نہیں کہ مرد اس کا مکمل تابع ہو۔ امریکی بہت خوبصورت باتیں کرتے ہیں لیکن شاید ہی کبھی ایسا ہو کہ ایک انتہائی کامیاب منیجر کوئی خاتون ہوئی ہو۔ مقصد یہ کہ خواتین ایک حد تک ترقی کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس ایک اصطلاح ہے ’’شیشے کی چھت‘‘ یعنی خواتین چھت تک ترقی کر سکتی ہیں اوپر پہنچ کر نظارہ نہیں کر سکتیں۔

٭ امریکی اقتصادی نظام میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

جی ہاں! خواتین ملازمت کرتی ہیں لیکن سب نے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل نہیں کی ہے نہ ہی انھیں بہت آسانی سے ملازمت ملتی ہے۔ عام طور پر یہ خواتین سیلز گرل ہوتی ہیں یا کلرک۔ خاص بات یہ کہ جن خواتین کے بچے ہوتے ہیں ان کو آسانی سے کام نہیں دیا جاتا لہٰذا خواتین ان بچوں کو چھپاتی ہیں۔ سرکاری ملازمت کا حصول اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ سرکاری ملازمتوں پر کام کرنے والی خواتین عموماً کنٹریکٹ بنیادوں پر کام کرتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ٹھیکے پر کام کرتی ہیں۔ ملازمین کو ملنے والے فوائد کنٹریکٹ کے ملازمین کو نہیں ملتے، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکی عوام ماہانہ سطح پر زندگی گزارتے ہیں اور اگلے مہینے کا معلوم نہیں ہوتا کہ کب ملازمت ختم۔ پھر ان کو بچت کرنے کی عادت بھی نہیں ہوتی جیسا کہ ایرانیوں میں ہے۔

امریکی معیشت بیمار ہے، بش نے اسے اور خراب کر دیا ہے۔ میری ایک سہیلی امریکا میں بہت شدید بیمار ہو گئی۔ میں نے اس سے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس جائو تو اس نے بتایا کہ اس کو صرف مہینے میں دو چھٹیاں مل سکتی ہیں جو اس نے لے لی ہیں، اس سے زیادہ کی صورت میں لگی بندھی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

امریکا میں ہفتہ وار چھٹی کے علاوہ نئے سال کے موقع پر، چند عیدوں پر اور امریکا کے یومِ استقلال پر چھٹی ملتی ہے اور بس۔ اس لیے سب لوگ کام کی سختی کو برداشت کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ہی جیسے کام کے لیے مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کم اُجرت ملتی ہے۔ ۱۹۲۰ء سے آج تک صرف باتیں ہی باتیں ہو رہی ہیں۔

٭ امریکی معیشت کے پیشِ نظر کیا امریکا میں مہنگائی اور مشکلات زیادہ ہیں یا ایران میں؟

زندگی کا خرچہ امریکا میں بہت زیادہ ہے۔ حکومت کسی چیز پر سبسڈی یا رعایت نہیں دیتی۔ صرف کریڈٹ کارڈ پر لوگ زندہ ہیں۔ ایران میں چونکہ ہر چیز نقد خریدی اور بیچی جاتی ہے لہٰذا لوگوں کو امریکا سستا لگتا ہے کیونکہ یہاں انھیں روز پیسا خرچ کرنا پڑتا ہے جبکہ امریکا میں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے یعنی ہر فرد تین ہزار ڈالر تک ماہانہ خریداری کر سکتا ہے اور اس کے جواب میں ۱۶% کے حساب سے سود دیتا ہے۔ سب لوگ کریڈت کارڈ کے عادی ہو گئے ہیں، چاہے روز مرہ کی چیز خریدنی ہو یا خدمات کی ادائیگی کرنی ہو جیسے وکیل، بروکر، ڈاکٹر وغیرہ۔۔۔ سب کریڈٹ کارڈ سے ہو جاتا ہے۔ یہ کارڈ مختلف کمپنیاں مہیا کرتی ہیں۔ لوگوں کی ماہانہ تنخواہ انہی کارڈز کی صورت میں خرچ ہوتی رہتی ہے۔ مہینے کے آخر میں ان کمپنیوں کا حساب بے باق کرنا ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنی پوری تنخواہ ہاتھ میں آنے سے پہلے انہی کارڈز کے ذریعے خرچ کر ڈالتے ہیں اور پھر ان کمپنیوں کے مقروض رہتے ہیں۔ ان کمپنیوں کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر ایک سال کے اندر اندر سارے قرضوں کا حساب بے باق نہ کیا تو ان پر قرضہ دوگنا کر دیا جائے گا۔ اگر پھر بھی نہ دے سکے تو اس کا گھر، مکان،سامان عدالت کے ذریعے نیلام کر دیا جائے گا۔ ان کارڈوں کے ذریعے انسان کی معمولی سے معمولی معلومات ان کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں اور ہر انسان مستقل طور پر ان کی خوردبین کے نیچے رہتا ہے۔ یہ کمپنیاں انسان کی نگرانی کرتی رہتی ہیں مثلاً اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اسپتال والے صرف کریڈٹ کارڈ کو دیکھ کر یہ پتا لگا لیتے ہیں کہ یہ مریض کس کس ڈاکٹر کے پاس گیا تھا، کب گیا تھا، کتنی فیس ادا کی تھی اور کون کون سی دوائیں خریدی تھیں۔ اگر کوئی شخص اپنی ادائیگیوں میں کوتاہی کرے تو دوسری کمپنیاں بھی اس کو کارڈ نہیں دیتیں۔ دراصل یہ کارڈ ایک ایسی خفیہ فائل ہے جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ہم نے کس مہینے کتنا پیٹرول استعمال کیا، خوراک پر کتنا خرچ کیا، تفریح پر کتنا اور بیماری وغیرہ پر کتنا۔ اب انکم ٹیکس کا محکمہ بآسانی ہمارے حساب کتاب کو چیک کر کے ٹیکس لاد دے گا۔ معیشت کی بدحالی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیسے والوں کے پاس پیسا بڑھتا جارہا ہے اور غریب کی غربت بڑھ رہی ہے۔

بش خود ایک مالدار آدمی ہے، اسی لیے اس نے ایسا قانون بنایا ہے کہ اگر کوئی ۵۰ ہزار ڈالر ماہانہ یا دس لاکھ ڈالر سالانہ کمائے تو اس پر ٹیکس معاف ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی قیمتی تحفہ بھی لے تو اس پر ٹیکس ادا کرے۔ ایران میں اس بات کا امکان ہے کہ کوئی غریب آدمی غریبوں کی آبادی سے نکل کر امیروں کی بستی میں جا بسے، بشرطیکہ پیسا آجائے لیکن امریکا میں سطحِ زندگی بالکل نہیں بدل سکتی۔ عموماً لوگ کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں حتیٰ کہ صرف ۲۰% اساتذہ اپنے گھروں کے مالک ہیں۔ کریڈٹ کارڈز کی بدولت یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی سکون سے سو سکے، خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کے لوگ۔

اب امریکا میں غریبوں کی تعداد میں بھیانک اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ خیراتی ادارے بھی ہیں لیکن مسئلہ قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ ’’کترینا‘‘ نامی طوفان کے بعد لاس اینجلس میں خواتین اور بچے کس بری طرح تباہ حال کھنڈرات اور سڑکوں کے کنارے آباد تھے، ان کی پریشانیوں کو دیکھ کر پولیس نے دکانداروں کو مجبور کیا کہ وہ سہ پہر کو ہی دکانیں بند کر دیں، ورنہ لوٹ مچ جائے گی۔ امریکا کی یہ حالت دیکھ کر میں مبہوت رہ گئی۔

٭ آپ ایرانی خواتین کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟

میں جو بات سب سے پہلے کرنا چاہتی ہوں، وہ صرف ایرانی خواتین کے لیے نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے ہے اور وہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کے بارے میں خود علم حاصل کریں کیونکہ عام طور پر نوجوان یہ کہتے ہیں کہ دین پر ہم نہیں چلنا چاہتے یا لڑکیاں کہتی ہیں کہ ہم پردہ نہیں کریں گے۔ کیا آپ یقین کریں گی کہ جب ایسی لڑکیاں اور خواتین کو پتا چلتا ہے کہ میری قومیت کیا ہے تو وہ کہتی ہیں کہ میں کیوں مسلمان ہو گئی یا میں نے حجاب کیوں اختیار کیا؟ حتیٰ کہ یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ یہ سب کچھ چھوڑ کر واپس چلی جائوں۔ ایک دن کیا ہوا کہ میں ایک جگہ کوچنگ کی کلاس لے رہی تھی۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ کسی نے کبھی بھی دعائے عرفہ نہیں پڑھی ہے، نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ دعائے عرفہ کیا چیز ہے۔ ایک بڑی عمر کی خاتون نے کہا کہ انھوں نے کئی سال پہلے امام رضا کی ضریح کے پاس ایک دفعہ دعائے عرفہ پڑھی تھی لیکن اس کا مطلب ان کو نہیں معلوم۔ میں نے اسی وقت ان کو دعائے عرفہ کا مفہوم سمجھایا۔ کافی عرصے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ دو سال پہلے آپ نے مجھے دعائے عرفہ کے بارے میں بتایا تھا۔ اب میں اس کو خوب سمجھ کر پڑھتی ہوں، اس سے تو میری پوری زندگی بدل گئی ہے۔ اب اس لذت بخش اور مفید دعا کو میں ضرور پڑھتی ہوں۔ میری نظر میں وہ نوجوان جو اسلام سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اس کی وجہ ان کی حقیقی اسلام سے عدم واقفیت ہے۔ دوسری طرف جو لوگ مذہبی ہیں، اُن کو بھی صحیح اور درست اسلام کی سمجھ ہی نہیں ہے بس لگے بندھے انداز میں چلے جارہے ہیں۔ ان کو نماز کا مقصد یا دوسرے اسلامی احکام کی افادیت کا پتا نہیں ہے اور نہ اس بارے میں خود سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمیں دیکھیں، ہم آپ لوگوں سے دور، مذہب سے دور، علما اور اچھے لوگوں سے دور تھے، ہم نے اپنی کوشش اور تحقیق کے بعد حجاب اختیار کیا، وہاں اس کی حفاظت کی جہاں حجاب کرنا بہت بھیانک تھا۔ اب بھی مجھ سے خواتین کہتی ہیں کہ آپ کا پردہ یا حجاب تو مکمل ہے، اب کیوں نماز پڑھتی ہیں، قرآن پڑھتی ہیں اور دینی علوم کی جستجو کرتی ہیں؟ میں ان کو جواب دیتی ہوں کہ بلاشبہ میں نے حجاب اختیار کر لیا ہے مگر میرا علم تو بالکل کم ہے، مجھے زیادہ علم چاہیے، مجھے تو ابھی کچھ بھی نہیں معلوم ہوا۔ نوجوانوں کو جب دین کے بارے میں ایک چھوٹی سی بات پتا چل جاتی ہے تو سمجھتے ہیں کہ دین کو پورا سمجھ لیا ہے اور مزید جاننے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر وہ دین کو واقعی صحیح طرح سے سمجھ لیں تو ان کو پتا چلے گا کہ دوسری سرگرمیوں اور خرافات میں ذرا سی بھی لذت نہیں ہے۔ یہ موسیقی اور ناچ گانے تھوڑی دیر کے لیے ہی خوشی دیتے ہیں لیکن قرآن اور دعائیں ہمیشہ انسان کو خوش اور شاد رکھتی ہیں۔ میری شاگرد لڑکیاں اور خواتین مجھ سے کہتی ہیں کہ میں کس طرح خود کو بغیر موسیقی اور ناچ گانے کے مطمئن رکھ پاتی ہوں اور مسکراتی رہتی ہوں؟ میرا واحد جواب یہ ہے کہ مجھے عبادت سے ملنے والی خوشی اور اطمینان کی نعمت ملی ہوئی ہے۔ جو بھی اسلام کی واقعیت اور سچائی کو پالیتا ہے، وہ خوش رہتا ہے۔ لہٰذا دینِ اسلام کا پورا سمجھ لینا ہی کامیابی اور خوشی کی ضمانت ہے۔ یہ میری پہلی نصیحت پہلے خود اپنے آپ کو اور پھر دوسرے تمام سننے اور پڑھنے والوں سے ہے۔

دوسری بات یہ کہ ہمیشہ اپنی زندگی میں قناعت پسند اور راضی برضا رہنا چاہیے۔ میں اس بات سے کاملاً راضی ہوں کہ اﷲ نے میری عقل اور ذہن کو کھول دیا، پھر مسلمان ہو گئی، ایران آئی اور اب اپنے گھر والوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں۔ اﷲ نے مجھ پر جو لطف و کرم کیا ہے، میں اس کا شکر ادا نہیں کر سکتی لیکن پھر بھی اس کی شکر گزاری کے اظہار کے لیے میں نے اپنی بیٹی کا نام ’’راضیہ‘‘ رکھا ہے۔ جب وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ میں نے اس کام نام راضیہ کیوں رکھا تو میں اسے بتاتی ہوں کہ میں اﷲ تعالیٰ سے راضی ہوں، اس لیے تم راضیہ ہو۔ میں اس کو بھی ہمیشہ راضی رہنے کی تلقین کرتی رہتی ہوں کیونکہ اﷲ انسان سے راضی ہے یا انسان اﷲ سے راضی ہے، دونوں صورتوں میں اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اب میری بیٹی اس بات پر فخر کرتی ہے کہ میں نے اس کا نام راضیہ رکھا ہے۔

میرے خیال میں عام طور سے تمام مسلمان اور خاص طور پر ایرانی عوام اپنی حالت پر خوش نہیں ہیں۔ ہر وقت فریاد اور آہ و بکا کرتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو لوگ سچ مچ میں امیر اور دولت مند ہیں، وہ بھی اپنی محدود دولت پر افسردہ ہیں۔ دوسری طرف انتہائی غریب لوگ یہ کہتے ہیں کہ اﷲ اگر ہم سے اس طرح راضی ہے تو ہم اس کی رضا پر راضی ہیں۔

تیسری بات جو خاص اہمیت رکھتی ہے، وہ ہے رہن سہن۔ کافر ممالک میں حرام و حلال کی پہچان آسانی سے ہو جاتی ہی، اچھے برے کا پتا چل جاتا ہے، نیک و بد کو پہچان کر اختیار یا ترک کر دیا جاتا ہے لیکن اسلامی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ خاص طور پر ایران میں اور دوسری جگہوں کے شیعہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ کوئی رسم یا کام رائج ہے لہٰذا ٹھیک ہے یا حرام نہیں ہے اس لیے کرتے رہو۔ مثلاً خواتین میں جو لباس رائج ہے وہ بالکل نامناسب ہے اس سے ایک غلط ثقافت جڑ پکڑ رہی ہے۔ یہ بے ہودگی کی تبلیغ ہے لیکن خواتین کہتی ہیں کہ اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ اگر کوئی برائی ہوتی تو لوگ منع کرتے، کوئی بھی ان چیزوں کو منع نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر موسیقی اور خاص طور پر گانے عام طور پر بازاروں میں مل جاتے ہیں۔ ان کے الفاظ بہت نامناسب ہوتے ہیں۔ مذہبی نوجوان بھی ان کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں اگر یہ برے ہوتے تو بازار میں نہ ہوتے۔ روس نے اپنی انقلابی ثقافت کو آہستہ آہستہ بھلا دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ سب کچھ بھلا دیا گیا۔ اگر ایران کے اسلامی انقلاب کو محفوظ رکھنا ہے تو اس کی ثقافت کو محفوظ رکھنا ہو گا۔

{}{}{}

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*


This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.