
امریکا نے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے اب ڈرون حملوں کا سہارا لیا ہے۔ یہ حکمتِ عملی اس لیے زیادہ پسندیدہ سمجھی جارہی ہے کہ جنہیں نشانہ بنایا جاتا ہے وہ کوئی بھی جوابی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ امریکا کو ایسا لگتا ہے کہ ڈرون حملوں سے اُسے بظاہر کوئی بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ صرف مخالفین کے لیے نقصان دہ سمجھے جانے والے ڈرون حملوں سے امریکا اور یورپ کو بھی شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نقصان ساکھ کے حوالے سے ہے۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس نے دہشت گردوں کے خلاف ایک خفیہ مہم، غیر قانونی اور ماورائے احتساب حکمت عملی اپنائی ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا نے دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے جو حکمتِ عملی اپنائی وہ اب تک تین مراحل سے گزری ہے اور ہر مرحلے میں بظاہر مشکلات اور ناکامیاں ہی ہاتھ لگی ہیں۔ صرف تین برسوں میں حکمتِ عملی کا تین مراحل سے گزرنا خاصا تیز عمل ہے۔
نائن الیون کے فوراً بعد امریکا نے افغانستان کو نشانہ بنایا۔ زمینی افواج اتاری گئیں۔ طالبان کی حکومت ختم ہوئی۔ دوسری طرف عراق میں لشکر کشی کے نتیجے میں صدام حکومت کا خاتمہ ہوا۔ زمینی کارروائی اور قبضہ بیسویں صدی کا تصور ہے مگر خیر، ابتدا میں سب کچھ اچھا لگا۔ مگر ۲۰۰۵ء تک یہ محسوس ہونے لگا کہ زمینی قبضے کی حکمتِ عملی کام نہیں کر رہی اور سچ تو یہ ہے کہ بری فوج کے ذریعے جنگ لڑنا انتہائی دشوار ثابت ہو رہا ہے۔ جب امریکا، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں نے دیکھا کہ افغانستان میں طالبان اور عراق میں مزاحمت کار سر اٹھا رہے ہیں تو انہوں نے برطانوی استعمار اور اس سے قبل رومن سلطنت کی حکمتِ عملی اپنائی یعنی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے اصول پر عمل شروع کردیا۔ امریکا نے ۲۰۰۷ء میں افغانستان میں افواج کی تعداد بڑھائی۔ تیس ہزار فوجی بھیجے گئے تاکہ وہاں تعینات فوجیوں کا مورال بلند ہو اور وہ زیادہ دل جمعی اور استقامت سے لڑسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ مخالفین میں پھوٹ ڈلوانے کا کام بھی شروع کردیا گیا۔ عراق میں مزاحمت کاروں اور بالخصوص القاعدہ سے ہمدردی رکھنے والوں کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے رشوت کا سہارا بھی لیا گیا۔ عراق میں سرکردہ قبائل کو زیادہ سے زیادہ مالی فوائد سے نواز کر القاعدہ سے الگ تھلگ رہنے کی ترغیب دی گئی۔ دو سال بعد افغانستان میں بھی بعض علاقوں میں مقامی کمانڈروں کو رشوت دے کر اتحادی افواج پر حملوں سے گریز کی تحریک دی گئی۔ کئی علاقوں میں برطانوی اور فرانسیسی افواج کو حملوں سے بچانے کے لیے مقامی کمانڈروں کو رشوت دی گئی۔ کینیڈا، آسٹریلیا اور کئی دوسرے اتحادی ممالک کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے مقامی افغان کمانڈروں کو رشوت دے کر اپنے فوجیوں کو حملوں سے محفوظ رکھا۔
افغانستان میں اتحادی افواج کے سابق کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈیوڈ پیٹریاس نے اب سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ادارے کو پیرا ملٹری فورس میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔ پیٹریاس کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ ۲۰۱۶ء میں ری پبلکن صدارتی امیدوار ہوسکتے ہیں۔
صدر براک اوباما نے مبینہ طور پر پیٹریاس کو اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ وہ اسپیشل فورسز اور انٹیلی جنس کو یکجا کر کے حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ یہ بظاہر غیر آئینی صورتحال ہے، کیونکہ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ فوجی کارروائی کے لیے اب کانگریس کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا پڑے گا۔ ڈرون حملوں سے متعلق حکمتِ عملی میں بھی اب پینٹاگون سے کہیں بڑھ کر سی آئی اے مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب امریکی حکمتِ عملی کا مرکزی نکتہ ہیں۔
دس سال پہلے تک ڈرون حملوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ان دس برسوں میں پائلٹ کے بغیر اڑنے والے طیاروں کی ٹیکنالوجی نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کی ہے۔ امریکا کے وسطی حصے میں کہیں کسی کمپیوٹر اسکرین کے سامنے چند افراد بیٹھ کر ڈرونز کی پرواز اور حملوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ ڈرون آپریٹر خفیہ معلومات کی بنیاد پر حملے کرتے اور جان و مال کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
ڈرون حملوں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ نشانہ بالکل درست ہوتا ہے۔ طالبان بھی اس بات پر حیران ہیں کہ سوال صرف کسی کار کو نشانہ بنانے کا نہیں بلکہ میزائل کار کے اسی طرف لگتا ہے جس طرف ہدف بیٹھا ہوتا ہے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ ڈرون حملوں میں غیر متعلقہ ہلاکتوں کا تناسب بہت کم ہے۔
ڈرون حملوں کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ زمین پر امریکی فوجی محفوظ رہتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں دس بارہ فوجیوں کی ہلاکت کو سیاسی ایشو بننے میں دیر نہیں لگتی۔ پاکستان کے کسی سرحدی گاؤں یا افغانستان میں ڈرون حملے سے درجن بھر دیہاتی مارے جائیں تو کوئی بات ہی نہیں۔ جب امریکی حکومت کا کوئی ترجمان انہیں عسکریت پسند قرار دیتا ہے تو فتح کا احساس ابھرتا ہے۔
’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ ڈرون حملوں کے اہداف کی فہرست صدر اوباما کو پیش کی جاتی ہے اور وہ اہداف کی حتمی منظوری دیتے ہیں۔ کسی ہائی ویلیو ٹارگٹ کی گرفتاری کی منظوری بھی صدر اوباما خود دیتے ہیں۔
امریکا کے لیے ڈرون حملے بہت آسان ہیں مگر پاکستان کے لیے ان حملوں پر غصے کو قابو کرنا بہت مشکل ہے۔ ڈرون حملوں پر نفرت اور اشتعال کا سبب سمجھ میں آتا ہے۔ گزشتہ برس لاہور میں ایک امریکی (ریمنڈ ڈیوس) نے دو غیر مسلح پاکستانیوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا اور پھر فرار ہوتے وقت گاڑی سے کچل کر ایک اور پاکستانی کو ہلاک کیا۔ مگر اس امریکی کو امریکی حکام با آسانی چھڑاکر لے گئے۔
صدر براک اوباما نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن کی بے حرمتی پر معافی مانگی ہے۔ یہ انتخابی سال ہے اور وہ ایک برس میں دوسری بار معافی مانگنے کے موڈ میں نہیں۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی فوج کے حملے میں ۲۴ پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر معافی مانگنے سے گریز کیا ہے۔ اب تک انہوں نے صرف افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ڈرون حملوں نے جنگ کی نوعیت کو تبدیل کردیا ہے۔ امریکی فوجی اپنی زندگی داؤ پر لگائے بغیر آسانی سے دشمنوں کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ ان حملوں میں دشمن ہی نہیں ان کے اہل خانہ بھی ہلاکت سے دوچار ہوتے ہیں اور اچھا خاصا مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ اب ڈرون حملوں کے خلاف آوازیں بلند ہوتی جارہی ہیں۔ عراق میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنے والے سابق فوجی افسر ڈیوڈ کلکولین کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا ہے کیونکہ امریکا سے شدید نفرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے برطانیہ کے سابق خصوصی ایلچی سر شیرارڈ کاؤپر کولز کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں نے دشمن مارے کم، اور پیدا زیادہ کیے ہیں۔ یہ صورت حال یورپ کے لیے بھی مشکلات کا باعث ہے کیونکہ امریکا کا اتحادی ہونے کے باعث اسے بھی غصے اور اشتعال کا سامنا ہے اور مسلمانوں میں یورپ سے نفرت بھی پنپ رہی ہے۔
(بشکریہ: ’’ٹیلی گراف‘‘ برطانیہ۔ ۳۰ مئی ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply