
نائن الیون کے بعد کی صورت حال نے امریکا بھر میں مسلمانوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ انہیں قدم قدم پر دل برداشتہ کرنے والے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے امتیازی سلوک برداشت کیا اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی۔ ایک بات خاصی خوش آئند ہے، یہ کہ امریکی میڈیا بھی اب اس بات کو تسلیم کر رہا ہے کہ حالات کی خرابی کے باوجود امریکی مسلمان دیگر مذہبی گروپوں کے مقابلے میں زیادہ پرامید ہیں۔
نائن الیون کے دس سال مکمل ہونے کی مناسبت سے ایک سروے کا اہتمام کیا گیا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے شروع کیے جانے سے اب تک کا زمانہ مسلمانوں پر کیسا گزرا ہے، وہ اس حوالے سے کیا سوچ رکھتے ہیں۔ سروے سے معلوم ہوا کہ براک حسین اوباما کے صدر بننے کے بعد سے امریکی مسلمانوں کی اکثریت معیشت اور سیاست کے بارے میں خاصی پرامید ہے۔ اوباما کو امریکی مسلمانوں میں سے ۸۰ فیصد کی حمایت حاصل ہے۔ سروے میں ۶۰ فیصد مسلمانوں نے بتایا کہ وہ امریکا میں خوش ہیں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ ۶۱ فیصد یہودیوں، ۵۴ فیصد کیتھولک اور ۵۲ فیصد پروٹیسٹنٹ عیسائیوں نے بھی یہی جواب دیا۔ ۳۷ فیصد مسلمانوں نے کہا کہ وہ بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور انہیں قدرے مشکلات کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ اپنی زندگی کو مشکلات سے عبارت قرار دینے والوں میں مسلمانوں سے زیادہ یہودی اور عیسائی شامل تھے۔ سروے میں صرف ۳ فیصد مسلمانوں نے کہا کہ وہ سخت مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ ۵۴ فیصد مسلمانوں نے امریکی معیشت کی کارکردگی کو ’’اطمینان بخش‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے حکومت کی معاشی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے لیے بہتر امکانات تلاش کر رہے ہیں۔ سروے میں قومی معیشت کو اطمینان بخش قرار دینے والے امریکیوں میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی قلیل تعداد سامنے آئی۔
سروے پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے مقابلے میں مسلمان اپنی زندگی سے زیادہ مطمئن اور پرسکون ہیں۔
ایک امر البتہ پریشان کن ہے اور وہ یہ کہ امریکی مسلمان خواہ اپنی زندگی سے مطمئن ہوں، حقیقت یہ ہے کہ انہیں اب بھی امتیازی سلوک اور نسل پرستی پر مبنی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سروے میں ۴۸ فیصد مسلمانوں نے بتایا کہ انہیں ایک سال کے دوران کسی نہ کسی حوالے سے نسل پرستی یا امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امتیازی سلوک کا نشانہ بننے والوں میں مارمون چرچ سے تعلق رکھنے والے ۳۱ فیصد، یہودی ۲۱ فیصد اور عیسائی ۲۰ فیصد تھے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کیے جانے والے اقدامات نے امریکی مسلمانوں کو فوج اور ایف بی آئی سے متنفر کردیا ہے۔ بہت سے مسلمانوں کی رائے یہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پر جنگ اور دیگر اقدامات میں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ سروے سے یہ بھی سامنے آیا کہ کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے مقابلے میں مسلمان زیادہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکا کو اسلامی دنیا میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ اس نے اپنے لیے خود پیدا کی ہیں۔ ایسے میں یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ ۸۹ فیصد امریکی مسلمان شہریوں پر کیے جانے والے حملوں کے خلاف ہیں۔ ان کے خیال میں خود کش حملوں اور دیگر وارداتوں میں نہتے شہریوں کو نشانہ بنانا درست نہیں اور یہ انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے ایسی واضح اکثریت کے ساتھ شہریوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی۔
سروے کا اہتمام ابو ظہبی گیلپ سینٹر نے کیا تھا۔ جنوری ۲۰۰۸ء سے اپریل ۲۰۱۱ء کے دوران ۳۸۸۳ مسلمانوں سمیت ۹ ہزار سے زائد افراد سے آراء لی گئیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۴؍اگست ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply