
حالیہ برسوں میں امریکیوں میں شدید گروہی اختلافات نے جنم لیا ہے اور میرے وائٹ ہائوس چھوڑنے کے بعد ایسا ہوا ہے۔ ان دنوں کانگریس کا میری تجاویز قبول کرنے کا گراف بہت شاندار تھا۔ سیاسی اختلافات پارٹی سے تعلق کے بجائے معاملات کی بنا پر ہوتے تھے۔ میں جنوب سے تعلق رکھنے والے نیوی کے ایک سابق جدت پسند افسر کے طور پر روایتی مالیاتی پالیسی اور مضبوط دفاع کا حامی تھا۔ انسانی حقوق کے معاملے کے حوالے سے مجھے اپنے ملک میں نسلی تقسیم کے تباہ کن اثرات کا ذاتی طور پر تجربہ تھا۔ واشنگٹن آمد کے بعد مجھے نہ صرف حیرت بلکہ مایوسی ہوئی کہ کانگریس کا کوئی ڈیموکریٹ رکن وفاقی افسر شاہی کی تشکیلِ نو کی میری ابتدائی تجاویز کو اپنانے پر آمادہ نہیں‘ مجبوراً مجھے ری پبلکن ارکان کو پہل کرنے کے لیے کہنا پڑا۔ اس کے بعد میری حمایت دونوں پارٹیوں کے ان ارکان تک محدود ہو کر رہ گئی جو مخصوص معاملات پر میرے نقطۂ نظر کے حامی تھے۔ اس عرصے میں مجھے سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ڈیمو کریٹک پارٹی کے لبرل ونگ کی طرف سے ہوا (اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ سینٹرٹیڈ کینیڈی میری جگہ صدر بننا چاہتے تھے)۔
آج کا واشنگٹن بالکل مختلف ہے‘ اب ہر معاملے کو بڑی سختی سے جماعتی بنیادوں پر نمٹایا جاتا ہے۔ قانون سازی کے اہم موضوعات پر تحقیقی عوامی مباحثے قصۂ ماضی بن چکے ہیں۔ اب اہم معاملات قانون سازوں اور لابی کرنے والے اداروں کے مابین بند کمروں میں انجام پاتے ہیں جہاں پارٹی نظم و ضبط کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔ سینٹ کے ارکان میں تعاون کی روایت کا تقدس باقی نہیں رہا۔ بنیاد پرست رجحانات اور مذہبی و سیاسی انتہا پسندی نے کانگریس کے ارکان میں عدم تعاون‘ عدم ہم آہنگی اور غیردوستانہ رویّے کو فروغ دیا ہے۔
خوش قسمتی سے عام آدمی میں اس قدر تضاد اور ہٹ دھرمی پیدا نہیں ہوئی۔ اس کتاب کی تیاری کے دوران میں نے امریکی رائے عامہ کے اندازے لگانے کے لیے بہترین تحقیقی طریقے اختیار کیے تاکہ میں ٹھیک ٹھیک جان سکوں کہ ہمارے لوگوں میں تقسیم اور وحدت کی شدت کا پیمانہ کیا ہے۔ ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن ممبران کی ایک بڑی اکثریت اعتراف کرتی ہے کہ امریکا سیاسی طور پر جتنا تقسیم آج ہے‘ اس کی مثال ماضی میں دور دور تک نہیں ملتی۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ۲۰۰۰ء کے مشکوک انتخابات میں بھی جزوی طور پر سامنے آئی۔ بعد کے برسوں میں ’’سرخ‘‘ اور ’’نیلی‘‘ ریاستوں میں تقسیم کا تناسب تبدیل نہ ہونے سے بھی یہی سچائی سامنے آتی ہے۔ جماعتی سطح پر ہمارے حالیہ دو صدور کی حمایت میں فرق اور حمایت نہ ملنا بالکل ظاہر ہے‘ صدر کلنٹن کی ری پبلکن کی نسبت اب ڈیمو کریٹ میں صدر بش کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی مقبولیت کا سلسلہ جاری ہے۔ حالیہ عراق جنگ اس کا بہترین نمونہ ہے۔ کیا جنگ درست سمت جارہی ہے یا اس نے قومی سلامتی کو بہتر بنایا ہے؟ اس سلسلے میں دو مختلف نظریات موجود ہیں جن میں بعد المشرقین ہے۔ اگر ان سنگین اختلافات کے پیچھے صرف جماعتی عصبیت ہوتی تو ان کو ختم کیا جاسکتا تھا لیکن ان کے ہمارے حال اور مستقبل کی عالمی پالیسیوں پر بھی بڑے گہرے اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔ ری پبلکن ڈپلومیسی کے حامی ہیں اور فوجی طاقت کا کم سے کم استعمال چاہتے ہیں جبکہ ڈیمو کریٹ اس سے یکسر متضاد نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ دو تہائی ری پبلکن دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے بے تحاشا طاقت کا استعمال درست سمجھتے ہیں لیکن دو تہائی سے زیادہ ڈیمو کریٹس یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری مسلح افواج کو ہر اس موقع پر استعمال کیا جانا چاہیے جب ہماری قومی سلامتی خطرے میں ہو۔ ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال ہمارے ملک کے خلاف نفرت میں اضافہ کر رہا ہے اور اس سے مزید دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی تنازعات کو ڈپلومیسی کے ذریعے حل کیا جائے یا فوجی کارروائی کے ذریعے؟ اب یہ معاملہ تیزی سے ابھرتا ہوا اختلاف اور پارٹی وابستگی کا سب سے بڑا نشان بن چکا ہے۔ آج یہ مسئلہ اسقاطِ حمل‘ ہم جنس پرستی اور یک صنفی شادی (Gay marriage) سے کہیں بڑا ہے۔
یہ صورتحال خاصی حوصلہ افزا ہے کہ امریکی بہت سے اہم معاملات پر متفق ہیں۔ مثلاً نجی زندگی میں مذہب کی اہمیت‘ فرد کی ذاتی صلاحیت کے اظہار کی قوت کے شعور‘ بھاری اخراجات کے باوجود ماحولیات کے تحفظ کی ضرورت‘ بڑے کاروباروں کی بقا کے بارے میں شبہات اور عریانی کے خلاف وفاقی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کے بارے میں وہ یکساں رائے رکھتے ہیں۔
تاہم اتفاق رکھنے والوں کے تناسب میں بہت فرق ہے۔ ڈیمو کریٹس سے چار گنا زیادہ ری پبلکن کا خیال ہے کہ ماحولیاتی قوانین ہماری معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔ حکومت پر اعتماد کرنے والے ری پبلکن کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اپنی حکومتوں کی حمایت کے ضمن میں پارٹیوں میں فرق بہت محدود ہو گیا ہے۔ امریکی اب ضرورت مندوں کی زیادہ امداد کے خواہاں ہیں لیکن اب بھی ایک فرق موجود ہے کہ بہت سے ڈیمو کریٹس کے برعکس ری پبلکن کا یہ خیال ہے کہ غریب لوگوں کی زندگی آسان ہے۔ عام امریکیوں میں غریبوں کے خلاف تعصب میں قابلِ ذکر کمی ہوئی ہے۔
سماجی مسائل پر اختلافات شدید تر ہیں لیکن نقطہ ہائے نظر تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور ان کے سیاسی منظرنامے پر بہت کم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ متنازعہ مسائل کے بارے میں احساس کی شدت اکثر عددی تقسیم سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کا خصوصی اظہار ابارشن اور بندوق پر پابندی جیسے معاملات پر بحث کے موقعوں پر ہوتا ہے جہاں امریکیوں کی بھاری اکثریت کے نقطۂ نظر کا سیاست کی دنیا پر اثر بہت کم ہوتا ہے۔
امریکیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ابارشن تمام یا زیادہ صورتوں میں قانونی قرار دے دی جائے۔ ہر طرح کے اسقاطِ حمل کو غیرقانونی قرار دینے کے حق میں چھ میں سے صرف ایک امریکی ہے۔ یہ چھوٹی سی اقلیت امریکی کانگریس سمیت دیگر فورموں پر اپنی موجودگی کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح امریکیوں کی اکثریت ذاتی ہتھیار رکھنے کے حق میں ہے۔ پانچ میں سے چار امریکیوں کا خیال ہے کہ ہتھیار ہلکی قسم کے ہوں اور ان پر حکومتی نگرانی بھی ہو۔ حکومت کی پالیسی میں آتشیں اسلحے کی صنعت کے بارے میں تبدیلی سے خاصی اتھل پتھل ہوئی ہے۔ ۱۹۹۴ء میں کانگریس نے ۱۹ ایسے نیم خودکار ہتھیاروں کی تیاری‘ تبدیلی اور حصول پر ایک بل کے ذریعہ دس برس کے لیے پابندی عائد کر دی جنھیں شکار کے بجائے دوسروں کے قتل کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اس پابندی کو یکے بعد دیگرے صدر ریگن‘ بش اور کلنٹن کی تائید حاصل رہی۔ ۲۰۰۴ء میں ملک بھر سے گیارہ سو پولیس سربراہوں اور شیرفوں نے کانگریس اور صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ ان ہتھیاروں پر پابندی کو مزید آگے بڑھائیں لیکن وائٹ ہائوس میں موجود ’’گن لابی‘‘ نے اس پر کان نہ دھرے اور یہ پابندی ختم کر دی۔
اس تنازعے میں گھروں کے مالکان‘ شکاری یا گھومنے والے ملوث نہیں۔ میں جب سے ہتھیار چلانے کے قابل ہوا ہوں‘ میری پاس اپنے ہتھیار رہے ہیں‘ میں انہیں استعمال کرتا آیا ہوں۔ اب بھی میرے پاس ایک ہینڈ گن‘ چار شارٹ گنیں اور دو رائفلیں ہیں۔ میں اب بھی انہیں بڑی احتیاط سے استعمال کرتا ہوں۔ اپنے خاندان کے ساتھ اپنے فارمز‘ جنگلوں میں شکار وغیرہ کرتا اور اپنے حقوق سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ میرے بعض دوستوں کی بھی خواہش ہے کہ وہ نایاب ہتھیار رکھیں۔
قاتل بندوق کے نتائج کتنے خطرناک ہیں‘ اس کا اندازہ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دوسرے صنعتی ممالک کے مقابلے میں امریکا میں سولہ گنا بچے بندوق کی گولی سے مارے جاتے ہیں۔ بندوق سے خودکشی کرنے کا تناسب گیارہ گنا زیادہ ہے اور بندوق کے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد نو گنا زیادہ ہے۔
’’جانز ہاپکنز سنٹر فار گن پالیسی اینڈ ریسرچ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں دنیا کے ۳۵ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں آتشیں اسلحے سے ہلاکتوں کی تعداد انیس گنا زیادہ ہے۔ حالیہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق آسٹریلیا میں ہینڈ گن سے ۳۳۴‘ برطانیہ میں ۱۹۷‘ سویڈن میں ۱۸۳‘ جاپان میں ۸۳‘ آئر لینڈ میں ۵۴‘ کینیڈا میں ۱۰۳۴ جب کہ امریکا میں ۳۰۴۱۹ افراد ہلاک ہوئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے میں متعلقہ اداروں کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا چاہیے۔
امریکیوں سے پوچھا گیا کہ وہ ہم جنسوں ’’گے‘‘ اور لزبین‘‘ کے باہمی ازدواجی رشتے کو قبول کرتے ہیں تو ان کی اکثریت کا جواب ہاں میں تھا۔ گذشتہ بیس برس کے عرصے میں یہ ایک بہت بڑی نظریاتی تبدیلی ہے۔ دو عشرے قبل اس سوال کا جواب بالکل برعکس تھا‘ اس طرح کے بھی اشارے ملے ہیں کہ اس طرح کی تبدیلیوں کے اثرات ریاستی حکام اور وفاقی ججوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔
امریکیوں کا سزائے موت کے بارے میں بھی نکتہ نظر تبدیل ہو چکا ہے۔ اب وہ پیرول کے بغیر زندگی کی حمایت کر رہے ہیں‘ اب صرف ایک تہائی امریکی سمجھتے ہیں کہ سزائے موت سے جرائم میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ایک قومی سطح کے پول کے مطابق صرف ایک فیصد پولیس سربراہوں کا خیال ہے کہ سزائے موت جاری رکھنے سے جرائم میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یہ امریکی خیالات کی ایک مکمل تصویر ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس میں حالیہ پانچ برسوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ تاہم ہماری حکومت کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں ان برسوں میں انقلابی تبدیلیاں ضرور رونما ہوئی ہیں جن کے نتیجے میں ہماری اخلاقی اقدار کی تعریف بھی بدل گئی ہے۔
ایک ایسے امریکی کے طور پر جو ملک کی سیاسی زندگی میں پوری طرح شامل رہا ہے‘ یہ اعداد و شمار خاصے دلچسپ ہیں۔ دوسرے تمام شہریوں کی طرح میرے نظریات پر میری نجی زندگی کا بھی بڑا اثر ہے اور دوسروں کے اجتماعی خیالات پر میرے ذاتی ردِعمل کے اثرات سے بھی انکار ممکن نہیں۔
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’جہادِ کشمیر‘‘ مظفرآباد، راولپنڈی۔ یکم تا ۱۵ نومبر ۲۰۰۶)
Leave a Reply