امریکی ڈالر پر لکھے ہوئے “In God We Trust” (ہم خدا پر بھروسا کرتے ہیں) اس جملے سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی سیاست میں الحاد (خدا کے وجود سے انکار) اور لادین ہونے کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن اس کے برعکس امریکی کانگریس میں ہم جنس پرستوں کی طرح ملحدین بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ امریکا کے سیاسی حلقوں میں عیسائیت کو ہمیشہ ہی خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ بش انتظامیہ کے قریبی حلقوں تک رسائی کے لیے انجیلی اور بینڈکٹ کیتھولک ہونا پہلی شرط تھی، مگر ایسا نہیں ہے کہ مذہب کا عمل دخل صرف ری پبلکن کی سیاست ہی میں ہے، بلکہ ڈیموکریٹس بھی مذہب کو نمایاں حیثیت دیتے ہیں۔ ڈیموکریٹس نے اپنی مہم میں خصوصی طور پر مذہب کے حوالے سے ایک مذاکرات منعقد کیا جو کہ مذہب کی سیاسی اہمیت کا پتا دیتا ہے۔ اس مذاکرے میں مدمقابل امیدواروں نے بڑھ چڑھ کر عیسائیت کے لیے اپنی وفاداری اور سعادت مندی کے جذبات کا اظہار کیا۔ باراک اوباما نے قدرے مدلّل انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ جو بعد میں ان کے لیے مددگار ثابت ہوا۔
مذہب کی اس درجہ اہمیت کے باوجود امریکی معاشرہ تیزی سے ’’لادینیت‘‘ کی راہ پر گامزن ہے۔ امریکا میں مذہبی رجحان پر ہونے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق کیتھولک اور بپتمسٹ عیسائیوں کے بعد، لادین افراد امریکا کا تیسرا بڑا طبقہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ لادینیت کی طرف امریکیوں کی رغبت نوے کی دہائی میں خاصی تیز رہی، اس عرصے میں ملحدین کی تعداد ۸ فیصد سے بڑھ کر ۱۵ فیصد ہو گئی۔ اسی طرح مغربی امریکا میں پروٹسٹنٹ ۱۹ فیصد سے کم ہو کر ۱۳ فیصد رہ گئے ہیں۔ سائوتھ کیرولینا میں جسے بنیاد پرست پروٹسنٹ انجیلی فرقے کا گڑھ کہا جا سکتا ہے کیتھولکس تعداد میں ۱۹۹۰ء کے مقابلے میں دگنا اور دہریوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب میساچوسٹس میں کیتھولک عیسائیوں کی تعداد ۵۴ فیصد سے کم ہو کر ۳۹ فیصد ہو گئی ہے، جب کہ اس ریاست میں اطالوی، پرتگیزی اور آئرش تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہے۔ کیتھولک فرقے سے نکلنے والے افراد کی کچھ تعداد تو انجیلی ہو جاتی ہے جب کہ بڑی تعداد ایسی ہے جو کوئی مذہب اختیار نہیں کرتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس فرقے کے ایک مذہبی رہنما پر جنسی اسکینڈل ثابت ہونے کے باوجود بچ نکلنا بھی تھی، بعد ازاں اس پادری کو روم میں ایک اچھی ملازمت بھی دے دی گئی۔ ظاہر ہے کہ ایسے واقعات گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اسی لیے تو کیتھولک ازم کو اپنے اکثریتی علاقوں میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
امریکا کے شہری مضافات اور نو آباد علاقوں میں چرچ، سیاست زدہ انجیلی فرقے اور لادین گروہوں کی کش مکش نے ایک دلچسپ صورت حال اختیار کر لی ہے۔ چرچ کے روایتی کردار کو تبدیل کر کے اسے کمیونٹی سینٹر بنایا جا رہا ہے۔ عبادت کے غیر روایتی طریقے متعارف کرانے کے لیے پاپ میوزک کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ چرچ موسیقی کے پروگراموں کے لیے مخصوص میدانوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ایسے چرچ عبادت گاہ کے بجائے موسیقی سے شغف رکھنے والوں کے فین کلب بن گئے ہیں۔ جہاں بڑی بڑی دکانیں، ڈے کیئر سینٹرز اور سماجی خدمات انجام دینے والے گروہ موجود ہیں البتہ بڑی تعداد میں لوگ عبادت کی تقریبات میں شرکت بھی کرتے ہیں۔
۲۰ برس میں ایسے مقامات پر اپنی اور خدا کی تلاش کرنے والے امریکیوں کی تعداد ۲ لاکھ سے بڑھ کر ۸ ملین تو ہو گئی ہے لیکن نہ تو یہ کوئی بڑی کامیابی ہے اور نہ ہی یہ مذہب کے حوالے سے سنجیدہ اور منطقی طرزِ عمل، بلکہ پروٹسٹنز کا حربہ ہے تاکہ لوگوں کو کسی بھی طریقے سے اپنے حلقۂ فکر سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ سابق صدر بش (جونیئر) نے مذہبی قدامت پسندی کو خاطر خواہ فروغ دیا ان کی اس حکمت عملی کے باعث ہر تین میں سے ایک امریکی انجیلی پروٹسٹنٹ بن گیا اور ہم جنس پرستی، اسقاطِ حمل اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی جیسے معاملات کی مخالفت کرنے لگا۔ ان محرکات کے سیاسی ہونے کے باعث اس کا ردعمل مذہب سے بے زاری کی صورت میں سامنے آ رہا ہے یہ ردعمل شدید بھی ہے اور تیز بھی۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق لادینیوں کی روز بہ روز بڑھتی تعداد کے باوجود امریکا اب بھی مغربی یورپ کے مقابلے میں زیادہ مذہبی ہے، لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی گو کہ اسلام زیادہ پر اثر اور کامیاب ثابت ہو رہا ہے لیکن ابھی اس کا حلقہ مختصر ہے۔
امریکا میں عیسائیت داخلی طور پر فکری مسائل سے دوچار ہے۔ یہاں اب عیسائیت کے لیے علمی بنیادوں پر سنجیدگی سے کام کرنے والی نسل ختم ہو چکی۔ اب یہاں کوئی تھامس مارٹن، رین ہولڈ نیبہر، واکر پرسی یا فلینری اوکونر جیسے مفکر نہیں رہے۔ اس فکری بحران کی وجہ سے عام عیسائی ہم جنس پرستی اور اس جیسے سماجی مسائل پر تذبذب کا شکار ہیں۔ ایسے ہی خیال کا اظہار ایک پروٹسٹنٹ نے کرسٹن سائنس مانیٹر کو اپنے ایک مراسلے میں بھی کیا وہ لکھتا ہے ’’نئے پیدا شدہ سماجی مسائل کے حوالے سے خاص مؤقف رکھنے والے عیسائی بھی بائبل کے مندرجات کو دلائل کی بنیاد پر بیان کرنے کی اہلیت تک نہیں رکھتے‘‘۔
اسی طرح کیتھولک فرقے کے مذہبی پیشوا اور پادریوں کی اگلی نسل زیادہ روایتی اور محدود ذہنیت رکھتی ہے۔ ممکن ہے کہ ریاست ہائے متحدہ میں کہیں کہیں عیسائیت مضبوط ہو لیکن بہرحال مجموعی طور پر عیسائیت مسائل کا شکار ضرور ہے۔ اہم بات یہی ہے کہ امریکا کے مذہبی رجحانات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ایک بار پھر تجزیے کی ضرورت ہے، مثلاً کیا مذہب عصرِ حاضر کے تقاضے پورے کر سکتا ہے؟ کیا بائبل کو صرف متن کی حد تک پڑھنے کا کوئی عقلی جواز ہے؟ اور مذہب، خصوصاً عیسائیت کے مبلغین کو ان سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔ ہم جنس پرست اور سیکولر سماج میں جنسی مساوات جیسے معاملات تو چیلنج ہیں ہی لیکن شاید تمام تر وسائل کے باوجود عیسائیت سے تعلق رکھنے والے مفکرین بھی اپنی علمی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے اور اسی لیے عیسائیت عام ذہن کو موجودہ حالات میں مطمئن کرنے میں ناکام ہے۔ اگر یہ لاپروائی اور غیر ذمے دارانہ رویہ یوں ہی جاری رہا تو اس ناکامی کو مذہب سے انکاری قوتیں اپنی طاقت اور کامیابی میں تبدیل کر لیں گی اور یقین اور بے یقینی کی اس جنگ میں کون فتح مند ہوتا اس کا انحصار دونوں کی حکمت عملی پر ہے۔
(بحوالہ: ’’جنگ سنڈے میگزین‘‘ کراچی۔ ۱۲ اپریل ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: رانا محمد آصف)
Leave a Reply