
یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بے وفائی ہو گی اور اس دغا بازی کو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ امریکا نے جنوب مشرقی شام میں اسد حکومت کے خلاف برسرپیکار باغیوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اب مغرب سے اسد حکومت کے خاتمے کے لیے مزید مدد کی توقع نہ رکھیں۔ اس امریکی اقدام کوشام کی خانہ جنگی کا ٹرننگ پوائنٹ اور فری سیرین آرمی کے ساتھ شرمناک دھوکہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ درعا شہر پر شام کی فوج کے قبضہ کی صورت میں امریکی نواز باغیوں کے تباہ کن انجام کے بعد اسد حکومت باغیوں سے پورے شام کا قبضہ واپس لینے کے لیے پورے عزم سے لڑنے کے لیے تیار ہوگی۔ گزشتہ ہفتے درعا، قنطیرہ اور السویدا شہروں میں باغیوں نے جب اسد حکومت سے امن مذاکرات کرنے سے انکار کیا تو روس نے میزائل حملے کیے بعد میں شام کی فضائیہ نے بمباری شروع کردی، جس کے بعد ان علاقوں سے شہریوں نے ہجرت شروع کردی۔ رائٹر کے مطابق امریکا کی جانب سے انکار مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ امریکا نے واضح الفاظ میں پیغام دیا ہے اب آپ امریکی فوج کی مداخلت کی توقع رکھے بغیر اپنے فیصلے کریں۔ ہمیں آپ کے مسائل کا بخوبی ادراک ہے۔ اس لیے امریکا روس اور شام کی افواج کو بھی مشورہ دے گاکہ وہ خطہ میں تناؤ کم کرنے کے لیے آپ کے علاقوں میں جنگ بندی کی خلاف ورزی نہ کریں۔ جب واشنگٹن کی طرف سے یہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے کہ امریکا کو اپنے اتحادیوں کی مشکلات کا اندازہ ہے اور یہ کہے گا کہ امریکا کا مشورہ ہے کہ روس اور شام بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی نہ کریں تو کیا یہ روس کی بھی پہلی خواہش نہ ہوگی کہ امریکا ایسی ہی بات کہے۔ کیا آپ کو اس بات کا ذرہ بھر بھی اندازہ ہے کہ آپ کے یہ الفاظ آپ کے اپنے ہی اتحادیوں کے پاؤں تلے سے زمین کھینچنے کے مترادف ہیں لیکن امریکا کو یہ احساس بھی ہے کہ اس نے النصرہ پر اربوں ڈالر تربیت اور ہتھیاروں کی فراہمی پر صرف کیے مگر اسلحہ بدنام زمانہ القاعدہ کے جنگجوؤں تک پہنچ گیا اور اسی سرمایہ سے جنگجوؤں نے اس علاقہ کا قبضہ شام کے جمہوریت پسندوں سے لیا تھا۔ آپ کو یاد ہو گاکہ ۷۰ہزار پونڈتو ڈیوڈ کیمرون نے دیے تھے۔ ان علاقوں میں حزب اللہ اور ایران کے چند پاسداران انقلاب کو بھی جرأت نہ تھی کہ وہ اس علاقہ میں جنگجوؤں کا سامنا کرسکیں اور یہ کام امریکا اور روس کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ بعد میں یہ فیصلہ ہوا کہ اس علاقے میں شام اور روس کی فوج مل کر حملہ کرے گی۔ یہ منصوبہ ولادی میر پیوٹن کے علاوہ جس ذہن کی بھی پیداوار تھا اس نے صدر ٹرمپ کی وساطت سے اسرائیل کو یہ گارنٹی دی تھی کہ اس علاقے کے شام کے کنٹرول میں جانے کے باوجود بھی اسرائیل کے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا جس کے بعد عمان میں نام نہاد ملٹری آپریشن سنٹر نے بھی اپنا کام بند کردیا، جو اردن کی سرحد کے قریب باغیوں کی مدد کر رہا تھا، مگر اب ایسا نہیں کر رہا۔ یہاں تک کہ اسرائیل جو شام میں القاعدہ اور اسلامی شدت پسندوں پر حملوں کی بجائے ایران اور اسد فوج پر حملے کر رہا تھا، امریکا کے مایوس ہونے اور شام میں اسد حکومت کے اسلحہ کے زور پر خاتمہ کے منصوبہ کو ترک کرنے کے بعد امریکا نے اسرائیل کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ شام میں اسد فوج اور ایران کے پاسداران انقلاب پر حملوں سے باز آ جائے تو امریکا گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضہ برقرار رہنے کی گارنٹی دینے کے لیے تیار ہے۔ اس لیے اسرائیل کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ شام اور ایران سے جنگ کا خطرہ مول لینے کی بجائے اقوام متحدہ کے بفر زون کو تسلیم کرلے۔ دمشق میں حکومت مخالف باغیوں کے مطابق جب چار برس پہلے ملٹری آپریشن سنٹر نے شام کے تمام باغیوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا تھا اس وقت دمشق میں جنگ جاری تھی اور باغیوں نے بشارالاسد کے محل پر حملہ کے لیے مارٹر گولوں اور آرٹلری سے مدد کا مطالبہ کیا تھا تو اس وقت بھی ایک برطانوی میجر اور سعودی افسر نے صرف چھوٹے ہتھیار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جو اس وقت بھی ایک اشارہ تھا، اسی قسم کے حالات کا سامنا شمالی شام میں کردوں کو بھی رہا ہے۔ امریکا اس طرح کا پیٹھ میں چھرا پہلے بھی دو مرتبہ گھونپ چکا ہے۔ ۱۹۷۵ء میں جب امریکا نے شاہ ایران اور صدام حسین کے درمیان معاہدہ کروا دیا تو کسنجر نے سی آئی اے کے فنڈز میں ۱۶ ملین پونڈ کی کٹوتی کر کے صدام حسین کے لیے کردوں کو کچلنے کی راہ ہموار کی تھی جس کے بعد امریکیوں نے ۱۹۹۱ء میں صدام حسین کو کردوں کو تباہ کرتے ہوئے بھی خاموشی سے دیکھا تھا جبکہ امریکا نے کویت پر صدام کا قبضہ ختم کروانے کے لیے کردوں کو استعمال کیا تھا۔ شام کو یہ خوف بھی ہے کہ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں کے نیچے اپنا بفرزون قائم کرسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اسرائیل نے جنوبی لبنان میں اسلحہ کے زور پر خود ساختہ بفر زون بنایا تھا جو ۲۲ ماہ تک قائم رہا۔ مگر بعد میں اسرائیل کی حمایت یافتہ لبنانی ملیشیا کا شیرازہ بکھر گیا۔ کیونکہ جنوبی لبنان کی اسرائیل نواز ملیشیا ناقابل بھروسہ اور صلاحیتوں سے عاری تھی اور بعد میں افسانہ ثابت ہوئی۔ ۲۰۰۰ء کی طرح اب کی بار سیرین فری آرمی کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونے جارہا ہے۔ شام کے نقشہ پر جتنا بھی ہنگامہ تھا وہ مغرب کی قوت کے بل بوتے پر تھا۔ جو اب اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی جنوبی اور شمالی شام میں اپنے اتحادیوں کی مدد سے ہاتھ کھینچنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو یہ روس اور اسد کی فتح ہو گی۔ باغیوں کی ترکی کی سرحد پر یا پھر درعا میں جو باقیات بچی ہیں ان کو امریکا کا ہتھیار پھینکنے کا مشورہ ہی بہتر ہوگا کیونکہ ایسا کرنے سے کم از کم امریکا یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ ایران کو اسرائیل سے دور رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ واشنگٹن اور نیٹو نے اسد حکومت کے خاتمے کا فیصلہ ترک کردیا ہے۔
(ترجمہ: ذوالفقار چودھری)
(بحوالہ: روزنامہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ ۳۰ جون ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply