
امریکا کو قائم ہوئے ۲۲۵ سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس وقت سے یہ قومی بحث چل رہی ہے کہ کون امریکی ہے۔ موجودہ دور میں تارکینِ وطن کے بارے میں دو سوالوں پر جو بحث چل رہی ہے (یعنی تارکینِ وطن کی تعداد کی حد اور ان کا امریکی معاشرے کے سانچے میں ڈھلنا)‘ وہ جارج واشنگٹن کے جذبات کی ہی بازگشت ہے۔ تاہم ان سوالوں کی ترتیب کئی مرتبہ تبدیل ہوئی ہے اور اس تبدیلی کی وجہ تارکینِ وطن کی یکے بعد دیگرے آنے والی لہریں ہیں۔ ان لہروں کی آمد کے دوران قومی تشخص کو مختلف الاصل نوواردوں کے باعث ازسرِ نو متعین کرنا پڑا ہے۔ تاہم اس عمل کے دوران امریکا مختلف الاصل لوگوں کی منفرد شناخت کو چھیڑے بغیر کسی نہ کسی طرح انہیں سماجی‘ سیاسی اور اقتصادی طور پر یکجا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ قومی شعور میں امیگریشن اس تصور کو مستحکم بھی کرتی ہی اور اس کے لیے چیلنج بھی پیش کرتی ہے کہ امریکا ایسی جگہ ہے‘ جسے کوئی بھی شخص اپنا وطن بنا سکتا ہے۔
تاہم موجودہ دور میں تارکینِ وطن کی امریکا آمد کی رفتا اور ان کا تنوع‘ امریکا کے نسلی امتزاج میں تیزی سے تبدیلی لارہا ہے اور ایک دفعہ پھر یہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ نئے لوگوں کی آمد سے امریکی معاشرہ ایک بے جوڑ معاشرہ بن جائے گا۔ کیا ایسا تو نہیں ہو گا کہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے دہشت گردانہ حملوں اور جنگ عراق کے اثرات اور معیشت کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کی وجہ سے نئے آنے والوں کو قبول کرنے کے عوامی جذبے میں کمی آجائے؟ یا کیا امریکا بدستور اس سوچ پر قائم رہے گا کہ نئے لوگوں کی آمد سے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور چیلنجوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
یہ حقیقت بھی مختلف نسلی گروہوں کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بناتی ہے کہ موجودہ دور میں تارکینِ وطن کی امریکا آمد‘ امریکا میں لوگوں کی آبادکاری کے تاریخی عمل کی تازہ ترین کڑی ہے۔ دورِ غلامی اور فتوحات کے اثرات‘ امریکا کے موجودہ تنوع میں اہم اجزا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نسلی امتیاز اور نسلی تعصب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم مساوات‘ وہ تلخ حقیقتیں ہیں‘ جو یہ بتاتی ہیں کہ آباد کاری کا تاریخی عمل انتہائی خراب رخ بھی اختیار کر سکتا ہے۔
آج کے دور میں امریکا پہنچنے والے لوگ‘ امریکا کے سماجی‘ ثقافتی اور اقتصادی تانے بانے پر ایک اضافی بوجھ کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اگرچہ حکومت‘ ملک میں آنے والے لوگوں کی تعداد کنٹرول کرتی ہے لیکن جب یہ لوگ امریکا آجاتے ہیں تو پھر حکومت کی طرف سے ان کی کوئی براہِ راست مدد نہیں کی جاتی۔ وفاقی حکومت انہیں زبان سکھانے یا روزگار دلانے کا کوئی انتظام نہیں کرتی۔ ان کے بارے میں یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ وہ خود ہی عزیز و اقارب کی مدد سے اپنے لیے کوئی نہ کوئی بندوبست کر لیں گے یا اپنی برادری کی تنظیموں یا مذہبی تنظیموں سے مدد حاصل کر لیں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ سماجی اور ثقافتی سطح پر ایک ایسے معاشرے میں خود کو ڈھالنا‘ جو متنوع بھی ہے اور مسلسل ارتقا پذیر بھی‘ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ چیلنج نئے اور پرانے آباد کاروں سب کے لیے ایک جیسا ہے۔
۲۰ویں صدی میں امیگریشن نے امریکا کے سماجی اور نسلی نظام کو کس طرح تبدیل کیا ہے؟ مضمون ہذا میں اس تبدیلی کے رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ آئندہ یہ رجحانات کس نوعیت کے ہوں گے۔
کن علاقوں سے لوگ امریکا آتے ہیں؟
۲۱ویں صدی کا امریکا نسلی لحاظ سے ۲۰ویں صدی کے امریکا سے یقینا مختلف نظر آئے گا۔ ۲۰۰۰ء کی مردم شماری سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا پہلے کے مقابلے میں نسلی‘ ثقافتی اور لسانی لحاظ سے کہیں زیادہ متنوع ملک بن چکا ہے۔ صرف ۳۰ سال پہلے بیشتر امریکی بآسانی دو طبقوں میں تقسیم کیے جاسکتے تھے۔ کالے اور گورے لیکن آج ایشیا‘ لاطینی امریکا اور کئی دوسرے علاقوں کے لوگوں کی آمد کی وجہ سے قومی تصویر نئے نئے رنگوں سے مزین ہو رہی ہے۔ گذشتہ چند عشروں میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ ان کے کئی اسباب ہین۔ مثلاً نئے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ‘ مختلف النسل لوگوں میں شادیاں اور ان شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد اور شہریوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے سرکاری طریقہ کار میں تبدیلی وغیرہ۔
نسلی نقشے میں تبدیلی کی ایک وجہ اگر یہ ہے کہ نئے آنے والوں کی تعداد بڑھی ہے تو دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کئی نئے ملک بھی ان ملکوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں‘ جہاں سے لوگ امریکا آتے ہیں۔ ۲۰ویں صدی کے پہلے دو عشروں کے دوران امریکا آباد ہونے والے ۵ء۱۴ ملین لوگوں میں سے ۸۵ فیصد کا تعلق یورپ بالخصوص جنوبی اور مشرقی یورپ سے تھا جبکہ اس کے برعکس گذشتہ دو عشروں میں امریکا انے والے ۹ء۱۴ ملین لوگوں میں سے تقریباً ۸۵ فیصد کا تعلق ایشیا‘ لاطینی امریکا‘ کیریبئین اور افریقہ سے ہے۔
آج جو مسابقت اور سماجی ٹکرائو نظر آتا ہے اور جس کی وجہ یہ ہے کہ نئے نئے ملکوں اور نئے نئے نسلی‘ لسانی اور سیاسی پس منظر رکھنے والے لوگ امریکا آرہے ہیں‘ وہ اس کشمکش سے مختلف نہیں ہے‘ جو ۲۰ویں صدی کے اولین عشروں میں دیکھنے میں آئی تھی۔ اس زمانے میں بھی قابلِ فہم اختلافات کی وجہ سے جنوبی اور مشرقی یورپ سے آنے والے بہت سے لوگوں کو اسی طرح نفرت سے دیکھا جاتا تھا‘ جس طرح آج کے دور میں آنے والے بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے۔
نسلی اور علاقائی شناخت
امریکا کے نسلی اور علاقائی تنوع کا نقشہ کھینچنا بہت مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰ برس میں جتنی مرتبہ بھی مردم شماری ہوئی‘ تقریباً ہر مرتبہ اس میں نسلی اعداد و شمار جمع کرنے کا طریقہ تبدیل کیا گیا۔ اسی طرح جو کیٹگریاں بنائی گئیں‘ اُن میں بھی تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ ان میں زیادہ تر سیاسی قوت اور نمائندگی کے رجحانات کی عکاسی کی گئی۔ صورتحال میں مزید پیچیدگی ۲۰۰۰ء کے مردم شماری کے فارم کے باعث پیدا ہوئی۔
سب سے پہلے تو ۲۰۰۰ء کی مردم شماری میں پہلی مرتبہ لوگوں کو اس بات کی بھی اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنی ایک سے زیادہ نسل ظاہر کر سکتے ہیں۔ نسل کے بارے میں سوالنامے میں چھ بڑے گروپ بنائے گئے: سفید فام یا کاکیشیائی‘ سیاہ فام‘ افریقی امریکی یا حبشی‘ امریکی انڈین یا الاسکا کا باشندہ‘ ایشیائی‘ ہوائی کا باشندہ اور بحرالکاہل کے دوسرے جزیروں کے باسی اور کچھ اور نسل کے لوگ۔ ایک سے زیادہ کیٹگری میں لوگوں کی شمولیت سے نسلی گروپوں کی تعداد‘ جو پہلے مٹھی بھر تھی‘ ۶۳ تک جاپہنچی۔
دوسرے‘ امریکی ادارہ مردم شماری نے لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے اور ہسپانوی زبان بولنے والے لوگوں (Hispanic-Latino) کے لیے سوالنامے میں الگ الگ کالم بنائے۔ اس طرح لوگوں نے اپنی شناخت “Hispanic” کے طور پر ظاہر کرنے کے علاوہ ایک الگ سوال کے جواب میں اپنی نسل کی کیٹگری یا کیٹگریوں کا بھی انتخاب کیا۔ Hispanic-Latino اصطلاح کا استعمال امریکا میں ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ایک واحد انتظامی لیبل کے طور پر شروع ہوا۔ مردم شماری کے ادارے نے بھی ۱۹۸۰ء کی مردم شماری میں یہ لیبل استعمال کیا۔ تاہم اس مردم شماری سے پہلے بھی اور بعد میں بھی Latino سمیت دوسرے لیبل بھی استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ مردم شماری کا ادارہ Latino کے لیبل کو Hispanic کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کرتا ہے۔ نسل کی کیٹگریوں میں جب Hispanic-Latino کا پیمانہ بھی شامل کر لیا گیا تو ان کیٹگریوں کی ممکنہ تعداد ۱۲۶ تک جاپہنچی۔
۱۹۷۰ء میں تقریباً ۹۹ فیصد امریکی‘ دو طبقوں ’’گورے اور کالے‘‘ پر مشتمل تھے۔ ۳۰ سال بعد یہ شرح تقریباً ۸۷ فیصد پر آگئی۔ اس میں سفید فام آبادی‘ جو ۱۹۷۰ء میں ۴ء۸۷ فیصد تھی‘ ۲۰۰۰ء میں کم ہو کر ۱ء۷۵ فیصد پر آگئی اور کالی آبادی جو ۱ء۱۱ فیصد تھی‘ بڑھ کر ۳ء۱۲ فیصد ہو گئی۔ سفید فام آبادی میں کمی ’’دوسری‘‘ کیٹگری کے آبادی میں اضافے کے ذریعے پوری ہو گئی۔ اس کیٹگری کی آبادی جو ۱۹۷۰ء میں ۴ء۱ فیصد تھی‘ ۲۰۰۰ء میں ۵ء۱۲ فیصد تک پہنچ گئی۔
ایک اور اہم رجحان‘ اُن بچوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہے‘ جو ۲۰۰۰ء کی مردم شماری میں ’’نہ گورے نہ کالے‘‘ کے زمرے میں شمار کیے گئے۔ اس رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں آبادی میں مزید تنوع پیدا ہو گا۔ ۲۰۰۰ء میں ’’نہ گورے نہ کالے‘‘ کی کیٹگری میں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کی شرح ڈیڑھ فیصد زیادہ تھی۔ اس طرح کی نسل کے بچوں کی تعداد میں اضافے کا سبب مختلف النسل شادیاں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تارکینِ وطن کے بعض گروپوں کے ہاں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ۲۰۰۰ء میں یہ رجحان بھی دیکھنے میں آیا کہ بالغوں کے مقابلے میں بچوں کے کثیرالنسل ہونے کی شرح زیادہ ہے۔ یہ شرح بالغوں میں دو فیصد اور بچوں میں تقریباً چار فیصد تھی۔ اس طرح کے بچوں جوں جوں بالغ ہوتے جائیں گے‘ امریکا کا کثیرالنسلی تشخص بھی اسی نسبت سے وسیع ہوتا جائے گا کیونکہ اس طرح کی نسل کے لوگوں کو سماجی طور پر زیادہ پذیرائی ملتی جائے گی اور ساتھ ہی اس نسل کے بچوں کے آگے جو بچے ہوں گے‘ وہ بھی اپنے آپ کو کثیرالنسل بچے کہوائیں گے۔
۲۰۰۳ء میں ادارہ مردم شماری کا یہ اعلان شہ سرخیوں کا موضوع بنا کہ امریکا میں ہسپانوی نسل کے لوگوں کی تعداد سیاہ فاموں سے بڑھ گئی ہے۔ ہسپانوی لوگوں کی زیادہ تعداد میں امریکا آمد اور ان کے ہاں شرح پیدائش زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی آبادی افریقی امریکیوں کے مقابلے میں مسلسل زیادہ رفتار سے بڑھتی رہے گی۔ پہلی مرتبہ ۱۹۸۰ء کی مردم شماری میں ہسپانوی لوگوں کے بارے میں الگ سے معلومات جمع کی گئیں (اس سے پہلے یہ معلومات الگ سے درج نہیں کی جاتی تھیں)۔ ۱۹۸۰ء میں ہسپانوی لوگوں کی تعداد ۴ء۶ فیصد تھی جبکہ ۲۰۰۰ء میں یہ تعداد ۵ء۱۲ فیصد تک جاپہنچی۔
’’تنوع میں فرق‘‘ امریکی ریاستوں میں زیادہ نمایاں ہے‘ جہاں تارکینِ وطن زیادہ تعداد میں آرہے ہیں۔ ایری زونا‘ کیلیفورنیا‘ ہوائی‘ نیومیکسیکو اور ٹیکساس میں اور بعض بڑے شہروں میں تارکینِ وطن کی آمد کی وجہ سے ۱۸ سال سے کم عمر لوگوں میں اقلیتوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ اس بات پر بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ تارکینِ وطن نئے نئے شہروں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ پہلے وہ شمال مشرق اور وسط مغرب میں فلاڈلفیا‘ بفیلو اور سینٹ لوئیس جیسے شہروں کا رخ کرتے تھے‘ لیکن اب وہ جنوب اور مغرب میں لاس اینجلس‘ مائیامی اور ہیوسٹن جیسے شہروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ تارکینِ وطن ان شہروں کے مضافات میں آباد ہو رہے ہیں۔ بعض مقامات مثلاً اٹلانٹا‘ جارجیا اور واشنگٹن ڈی سی میں تارکینِ وطن کی تعداد میں حالیہ اضافہ تقریباً تمام کا تمام مضافات میں ہوا ہے۔ ۲۰۰۰ء کی مردم شماری سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ عشرے میں مضافاتی علاقوں میں نسلی تنوع خاص طور پر اس وجہ سے بڑھا کہ وہاں غیرسفید فام باشندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور یہ تعداد ۱۹ فیصد سے بڑھ کر ۲۷ فیصد ہو گئی۔ اس تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امریکا میں پیدا ہوئے اور وہ بھی جو بیرونِ ملک پیدا ہوئے۔
نسلی شناخت لیکن کس کی؟
تارکینِ وطن جو شناخت لے کر امریکا آتے ہیں وہ ضروری نہیں کہ اس معیار سے مطابقت رکھتی ہو‘ جو وفاقی حکومت نے نسل کی درجہ بندی کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ مردم شماری کی بعض کیٹگریز بہت عمومی نوعیت کی ہیں مثلاً ’’ایشیائی‘‘ سے مراد وہ لوگ لیے جاتے ہیں جو مشرق بعید‘ جنوبی مشرقی ایشیا اور برصغیر ہند سے امریکا آتے ہیں‘ اس کیٹگری میں وہ لوگ شامل ہیں۔ جنہوں نے ۲۰۰۰ء کی مردم شماری میں اپنے آپ کو ایشیائی انڈین‘ چینی‘ فلپائنی‘ کوریائی‘ جاپانی‘ ویتنامی یا ’’دوسرے ایشیائی‘‘ ظاہر کیا ہے‘ یا جنہوں نے نسل کے خانے میں اپنے آپ کو برمی‘ ہمانگ‘ پاکستانی یا تھائی لکھا ہے۔ Latino لوگوں کی طرح بیشتر ایشیائی بھی اپنا تعلق اپنے ہم وطنوں سے جوڑتے ہیں‘ نہ کہ اس جغرافیائی درجہ بندی سے‘ جو وفاقی حکومت نے لفظ ’’ایشیائی‘‘ کے ذریعے مقرر کر رکھی ہے۔
چونکہ ایک طرف نسل کی کیٹگریوں میں کوئی لچک نہیں پائی جاتی اور دوسری طرف نسلی اور علاقائی شناخت میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے‘ اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بہت سے لوگ مردم شماری کی درجہ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء کی مردم شماری کے فارم مکمل کرتے ہوئے پانچ لاکھ لوگوں نے اس ہدایت کی خلاف ورزی کی‘ جس میں کہا گیا تھا کہ صرف ایک نسل ظاہر کی جائے۔ ان لوگوں نے نسل کے دو تین خانوں میں نشان لگائے۔ اسی صورتحال کی وجہ سے ادارہ مردم شماری نے ۲۰۰۰ء میں لوگوں کو کثیرالنسل لکھنے کی اجازت دے دی۔ بہت سے لوگ بالخصوص وہ لوگ‘ جو سنِ بلوغت کے بعد امریکا آکر آباد ہوے ہیں یا وہ لوگ‘ جو مخلوط النسل شادیوں سے پیدا ہوتے ہیں‘ اپنے آپ کو اُن معدودے چند کیٹگریوں میں سے کسی ایک میں شامل نہیں کرتے‘ جو حکومت نے مقرر کر رکھی ہے۔
اس بارے میں بڑی حد تک اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ نسل اور علاقائی شناخت‘ سماجی اور انفرادی سطح پر متعین ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اس طرح کے اعداد و شمار کیوں جمع کرتی ہے؟ وسیع تر معنوں میں اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی معاشرے کے بہت سے شعبوں میں جو مواقع پائے جاتے ہیں‘ ان سے مساویانہ طور پر استفادہ کرنے کے لیے نسل بھی ایک عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ معیشت‘ روزگار اور صحت وغیرہ کے شعبوں میں نسل کے اعتبار سے خاص فرق پایا جاتا ہے۔ حکومت نسل کے بارے میں جو اعداد و شمار جمع کرتی ہے‘ اس سے ان رجحانات کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ نسلی امتیاز کی روک تھام کے لیے جو قوانین‘ پالیسیاں اور پروگرام تیار کیے جاتے ہیں مثلاً شہری حقوق کا قانون اور نفرت پر مبنی جرائم کے انسداد کے قوانین‘ ان پر عملدرآمد کے لیے ان اعداد و شمار کی موجودگی ضروری ہے۔
تنوع کا مستقبل
اگر امریکا آج تمام تارکینِ وطن کی آمد پر پابندی عائد کر دے تو بھی نسلی اور علاقائی تشخص اور تنوع ایک طویل عرصے تک بڑھتا رہے گا‘ کیوں؟ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ کئی عشروں سے بڑی تعداد میں تارکینِ وطن امریکا آرہے ہیں اور ان کی خاصی بڑی تعداد یہاں پہنچ چکی ہے۔ دوسرے امریکی لوگ‘ شادی کرتے وقت نسل اور علاقے کو بنیاد بنا کر تنگ نظری سے کام نہیں لیتے۔ پہلی وجہ کی طرف تو کافی توجہ دی گئی ہے لیکن دوسری کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی‘ باوجود اس حقیقت کے کہ گذشتہ ۳۰ برسوں میں مختلف النسل شادیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
گورے اور کالے کی حیثیت سے امریکی معاشرے کی پہچان یقینا تبدیل ہو چکی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ نئے آنے والے گروپ‘ امریکی معاشرے میں کس طرح شامل ہوتے ہیں۔ میکسیکو‘ ڈومینیکن ری پبلک‘ ویتنام اور ہندوستان سے آنے والے لوگ امریکی معاشرے کو کیا شکل دیتے ہیں‘ جو پہلے صرف دو طبقوں گورے اور کالے پر مشتمل تھا۔ کیا یہ تفریق مزید گہری ہو گی یا آج کی نسل کے بچے جو اپنے والدین سے زیادہ متنوع النسل ہیں‘ جب خود جوان ہوں گے تو ایک مربوط معاشرے کو جنم دیں گے۔
پُرامید رہنے کی ایک مضبوط دلیل امریکا کی سابق تاریخ ہے‘ جو ہمیں بتاتی ہے کہ امریکی مختلف گروہوں کو ایک معاشرے اور ایک قوم میں ضم کر لیتا ہے۔ بیشتر تارکینِ وطن‘ خواہ وہ کسی بھی علاقے سے آئے ہوں‘ اپنی سماجی اور اقتصادی حیثیت بہتر بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے‘ جو جاری رہ سکتا ہے۔
آڈری سنگر‘ بروکنگسن انسٹی ٹیوشن میٹرو پولیٹن پالیسی پروگرام کی امیگریشن فیلو ہیں۔ وہ کارنیگی ادارہ برائے عالمی امن کی ایسوسی ایٹ اور جارج ٹائون یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف ڈیمو گرامی کی ممبر بھی رہ چکی ہیں۔ سنگر‘ امریکا میں امیگریشن کے رجحانات‘ غیرقانونی امیگریشن اور امریکا کے بدلتے ہوئے نسلی تشخص پر بہت سی تحریریں قلمبند کر چکی ہیں۔ ان میں حال ہی میں شائع ہونے والی ان کی کتاب “The Rise of New Immigrant Gateways” بھی شامل ہے۔
(بحوالہ ماہنامہ ’’خبرو نظر‘‘۔ مارچ ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply