
امریکی فوج نے جولائی کے اختتام پر اوکی ناوامیں ۴۰ مربع کلو میٹر کا علاقہ جاپانی حکومت کے قبضہ میں واپس دینے کا اعلان کیا۔جاپان میں اس وقت تیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔۱۹۷۲ء میں جاپان پر امریکا کا قبضہ ختم ہونے کے بعد سے اب تک واپس کی جانے والی زمین میں یہ سب سے بڑا رقبہ ہے۔یہ فیصلہ جون میں مقامی خاتون کی عصمت دری اور قتل کے بعد ہونے والے امریکا مخالف احتجاج کے نتیجے میں سامنے آیا۔
حالیہ دنوں میں ترکی میں بھی امریکی اڈوں کی مخالفت دیکھنے میں آئی ہے۔جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے بہت سے ترک یہ الزام لگاتے ہیں کہ انکریلک ائر بیس پر تعینات امریکی فوجی بھی منصوبہ سازو ں میں شامل ہیں۔بغاوت کے تین دن بعد حکومت کے حامی صحافی یوسف کپلان نے ٹویٹ کیا’’امریکا!تم جانتے ہو کہ تم سب سے بڑے دہشت گرد ہو،ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس بغاوت کے پیچھے تمہارا ہاتھ ہے۔ہم بیوقوف نہیں ہیں‘‘۔
امریکا کے غیر ملکی فوجی اڈے دنیا بھر میں کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں،امریکا کے ستر سے زائد ممالک میں تقریبا۸۰۰ کے قریب فوجی اڈے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ امریکی فوجی دوسرے ممالک میں تعینات ہیں۔جس میں سے ۴۹۰۰۰ جاپان میں،۲۸۰۰۰ جنوبی کوریا میں اور ۳۸۰۰۰ جرمنی میں ہیں۔جنگ زدہ علاقوں کے علاوہ تعینات فوجیوں کے سالانہ سو ارب ڈالر کے اخراجات امریکی حکومت کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔بیسویں صدی کے بیشتر عرصے میں غیر ملکی فوجی اڈوں کے لیے سوویت یونین کے خطرے کو جواز بنایا گیا،اور اس جواز کے خاتمے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ نئے جواز سامنے آتے چلے گئے۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں ہونے والی جنگوں نے چند ممالک کی تزویراتی اہمیت میں اضافہ کر دیا جیسا کہ ترکی اور بحرین (داعش کے خلاف امریکی فضائی کاروائی کے لیے ترکی کی انکریلک کا فضائی اڈہ استعما ل کیا جاتا ہے)۔دوسری طرف حالیہ عرصے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت نے امریکا کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ بحرالکاہل میں اپنی موجودگی کو مستحکم بنائے۔
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں کے بعد غیر ملکی فوجی اڈوں کی اندرون ملک حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔۴۸ فیصد امریکیوں کاخیال تھا کہ فوجی طاقت میں اضافے سے دہشت گردی کم کرنے میں مدد ملے گی۔اب بھی اتنے ہی لوگ اس بات کی حمایت کرتے ہیں،لیکن ۴۷ فیصد لوگ ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ غیر ملکی فوجی اڈے ملک کیخلاف نفرت میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے دہشت گردی بڑھتی ہے۔امریکی یونیورسٹی کے شعبہ بشریات کے پروفیسرڈیوڈ وائن کا کہنا ہے کہ’’جہاں تک غیر ملکی فوجی اڈوں کا تعلق ہے،بیشتر امریکیوں کو ان اڈوں کے بارے میں زیادہ معلومات ہیں ہی نہیں۔ اور اگر وہ کچھ جانتے بھی ہیں تو امریکی فوج کے بارے میں بیشتر لوگوں کاتاثر مثبت ہی ہے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ فوج جہاں بھی ہوگی ٹھیک ہی کر رہی ہوگی‘‘۔صدارتی مہم کے دوران بھی صرف ریپبلکن جماعت کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسرے ممالک میں فوج کی تعیناتی کی ضرورت اور اس پر آنے والے اخراجات پر سوال اٹھایا۔ان کے علاوہ کسی نے اس بارے میں سوال تک نہیں کیا۔
بیرون ملک تعینات امریکی فوج پر آنے والے اخراجات کے بارے میں قائم جھوٹے مفروضات بھی عوام کی عدم دلچسپی کا واضح ثبوت ہیں۔پروفیسر وائن کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے نام نہاد دفاعی ماہرین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان بیرون ممالک اڈوں پر امریکا کے زیادہ اخراجات نہیں ہوتے، کیوں کہ ان اخراجات کا بڑا حصہ مہمان ممالک خود برداشت کرتے ہیں‘‘۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ۲۰۱۳ء میں رینڈ کارپوریشن کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق،فوج کے ایک سپاہی کی بیرون ملک تعیناتی پر دس ہزار سے چالیس ہزار ڈالر تک اضافی اخراجات ہوتے ہیں۔
مسلح افواج میں بیرون ملک تعیناتی کو اب بھی ستائشی نظروں سے دیکھا جاتا ہے،اور یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی بیرون ملک تعیناتی چاہتا ہے۔لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے اسٹاف سارجنٹ مارکو لوپیز کا کہنا تھا کہ’’میں نے جن لوگوں سے گفتگو کی ان میں سے ۷۵ فیصد بیرون ملک تعیناتی کی خواہش رکھتے ہیں‘‘۔ ٹینیسی کے ایک اور اسٹاف سارجنٹ اینڈریو مرے کا کہنا تھاکہ ’’نئے بھرتی ہونے والے تقریباً تمام سپاہی اس چھوٹے سے قصبے سے باہر تعینات ہونا چاہتے ہیں۔ جب میں ان کو یورپ میں اپنی تعیناتی کے قصے سناتا ہوں تو وہ مزید خوشی کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔ یورپ، بالخصوص جرمنی، آرمی رنگروٹوں میں سب سے زیادہ مقبول جگہ ہے۔ سارجنٹ کا کہنا تھا کہ جرمنی کے لوگ دوستانہ مزاج کے حامل ہیں اور بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔دوسرے سارجنٹ کا کہنا تھا کہ یورپ اس لیے بھی پسندیدہ ہے کیوں کہ وہاں سیرو تفریح کے بہت سے مقامات ہیں۔
امریکی فوجی دستوں کو بیرون ملک روانگی سے قبل تفصیلی بریفنگ دی جاتی ہے کہ انھیں وہاں جاکر کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور وہاں کس طرح کا برتاؤ رکھنا ہے۔ سارجنٹ مرے کا کہنا ہے کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ جرمن قطار میں لگنے سے کتراتے ہیں۔ سارجنٹ لوپیز کہتے ہیں کہ انھیں سیول میں تعیناتی سے پہلے بتایا گیا کہ ان علاقوں میں جانے سے گریز کریں جن کی وجہ شہرت جسم فروشی ہو۔ لیکن اوکی ناوا میں ہونے والے واقعہ نے یہ واضح کر دیا کہ بیرون ملک تعینات ہونے والے تمام فوجی یہ بریفنگ نہیں لیتے۔سام انکل کے ’’پے چیک‘‘ان علاقوں کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جہاں فوجی اڈے موجود ہیں۔ لیکن فوجیوں کی تنخواہوں کا زیادہ تر حصہ نائٹ کلب اور شراب خانوں میں ہی خرچ ہوتا ہے، جو کہ زیادہ تر مسائل کی وجہ بنتے ہیں۔
پینٹا گون نے گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں سمندر پار تعینات فوجیوں اور وہاں کی مقامی آبادیوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔۲۰۰۶ء میں امریکا کے ملٹری کوڈ آف جسٹس میں انسداد جسم فروشی کا قانون متعارف کروایا گیا(جس پر جرمنی میں تعینات فوجیوں نے غصے کا اظہار بھی کیا،کیوں کہ وہاں جسم فروشی غیر قانونی نہیں)۔وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جنسی حملوں کے مقدمات ۲۰۰۹ء میں ۴۲فیصد تھے جو کہ ۲۰۱۲ء میں بڑھ کر ۶۸ فیصد ہو گئے تھے۔لیکن جاپان اس لحاظ سے نمایاں ہے کہ وہاں تعینات فوجیوں پر ۲۰۱۲ء تک کے اعدادوشمار کے مطابق جنسی حملوں کے جو مقدمات قائم کیے گئے، ان میں سے صرف ۲۴فیصد کا کورٹ مارشل ہوا۔
جاپان میں امریکا کی ۸۵ فوجی تنصیبات ہیں،جو ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔یہ دوسری جنگ عظیم میں امریکی قبضے کی میراث ہے۔چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل اوکی ناوا کا تین چوتھائی حصہ امریکی فوج کے قبضہ میں ہے،جہاں ۴۹۰۰۰ فوجی تعینات ہیں۔اوکی ناوا کی آبادی امریکیوں کی موجودگی پر سخت غصہ کا اظہار کرتی ہے،خاص کر ان کی وجہ سے قائم قحبہ خانوں پر ان کے شدید تحفظات تھے۔یہ قحبہ خانے خاص طور پر امریکی فوجیوں کے لیے بنوائے گئے تھے اور بقیہ ملک میں پابندی کے بارہ سال بعد یعنی ۱۹۷۲ء تک کھلے رہے۔ یہاں امریکا مخالف احتجاج کی ایک تاریخ ہے،جون میں ہونے والے عصمت دری کے واقعہ پر احتجا ج اس سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔ سب سے بڑا احتجاج ۱۹۹۵ء میں کیا گیا، جب تین امریکی فوجیوں نے ۱۲ سالہ معصوم لڑکی کا گینگ ریپ کیا،جس پر ۸۵۰۰۰ شہریوں نے امریکا مخالف احتجاج میں حصہ لیا۔
ماضی میں بھی امریکی فوج کی موجودگی احتجاج کا باعث بنتی رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق سرد جنگ کے دوران مغربی جرمنی میں امریکی تنصیبات کی تعداد ۹۰۰ تھی، جس میں فوج کے زیر نگرانی چلنے والے اسپتال، اسکول، شاپنگ سینٹر اور کھیلوں کے اسٹیڈیم بھی شامل تھے۔یہ کسی بھی ملک میں امریکی تنصیبات کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ مقامی آبادیاں فوجی مشقوں کے باعث ہونے والے شور اور کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کے خلاف احتجاج کیا کرتی تھیں۔ ۸۰ کی دہائی میں حزب اختلاف نے اس احتجاجی مہم میں تیزی پیدا کر دی۔ نیوکلئیر مخالف جذبات نے اس احتجاج کو مزید غذا فراہم کی۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے ملک میں امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف ان پر پُرتشدد حملے شروع کر دیے۔ امریکی فوج کے مرکزی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا، اور فوجیوں کے اغوا کے واقعات بھی رونما ہوئے۔
آج اس احتجاجی مہم کے تقریبا تیس سال بعد امریکی فوج کا جرمنی سے انخلا جاری ہے،اس منصوبے کا اعلان ۲۰۱۰ء میں کیا گیا،جس کے تحت ۲۳ فوجی تنصیبات جرمن حکومت کو واپس کی جانی ہیں۔’’ہین شنابل‘‘جو کہ بزنس ڈیولپمنٹ منیجر ہیں اور یہ ’’شین فرٹ‘‘ شہر میں جاری ایک ترقیاتی پرگرام کے سربراہ ہیں جس کے تحت وہ پرانے امریکی فوجی اڈوں کو تبدیل کر رہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں ان کی یاد نہیں ستائے گی،لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ یہ چلے جائیں‘‘(اس شہر میں ستمبر۲۰۱۴ء سے پہلے ۱۲۰۰۰ امریکی فوجی اور ان کے اہل و عیال رہا کرتے تھے،ستمبر میں اس اڈے کو بند کر دیا گیا)۔ سرد جنگ کے بعد عوام میں امریکی فوجی اڈوں کے حوالے سے غم و غصہ پایا جاتا تھا، جس کی وجہ سے وہاں موجود امریکی فوجی دباؤ میں رہتے تھے۔ اور ایسی جگہوں پر امریکا کے خلاف مختلف احتجاجوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ جیسا کہ ابھی جون میں ’’ریمسٹن بیس‘‘ کے باہر دیکھنے میں آیا، اس اڈے کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں سے ڈرون آپریشن کیے جاتے ہیں۔ شنابل کا کہنا ہے کہ ’’شین فرٹ‘‘ کے لوگوں کی یادیں اب بھی ان اڈوں سے وابستہ ہیں۔ یہاں (جہاں پہلے امریکی بیس ہوا کرتی تھی) رہائشی کالونی کی تعمیرات کے دوران بھی لوگوں نے ایک گھر کو ’’امریکن ہاؤس‘‘ کا نام دیا ہے، اسی طرح اس کالونی میں مختلف سڑکو ں کے نام بھی امریکی ریاستوں پر رکھے گئے ہیں، جیسے کیلی فورنیا وغیرہ۔
اس کے برعکس ترکی میں امریکی فوج کی موجودگی بھی اوکی ناوا کی طرح امریکا مخا لف جذبات کو ابھارنے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔ترکی کے ساتھ اس نوعیت کے تعلقات کا آغاز ۱۹۴۶ء میں ہوا،جب امریکی جہاز میسوری استنبول میں لنگر انداز ہوا۔ اس جہاز کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ یہی امریکی موجودگی چھ سال بعد ترکی کی نیٹو میں شمولیت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں امریکی فوجی پھیل گئے۔ انقرہ میں امریکی رہائشی کالونیاں، ازمیر اور استنبول میں امریکی فوج کی عیاشیاں بھی مقامی لوگوں کے خیالات بدلنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ ۷۰ کی دہائی میں جرمنی کی طرح بائیں بازو کے انقلابیوں نے یہاں بھی امریکی سامراج سے’’آزادی‘‘ حاصل کرنے کے لیے خطرناک طریقے اختیار کرنا شروع کر دیے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں ترکش انقلابی آرمی نامی تنظیم نے ۴ امریکی فوجی اغوا کر لیے اور اس سے اگلے سال تین نیٹو انجینئر بھی اغوا کیے گئے۔
اس کے بعد سے ترکی کی اکثریت، ملک میں امریکی فوج کی موجودگی کو اپنی آزادی میں ایک رکاوٹ سمجھتی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ترکی کے لوگوں نے عراق جنگ اور مرسین کی نیول بیس پر امریکی فوج کی تعیناتی کی تجویز پر سخت احتجا ج کیا۔ ۲۰۱۱ ء میں جب امریکی بحری جہاز ’’سٹاؤٹ‘‘ بودروم کی بندرگاہ پر آیا تو ترک کمیونسٹ پارٹی کے لوگ ساحل پر کھڑے امریکا مخالف نعرے لگا رہے تھے۔تین سال بعد دو مختلف واقعات میں’’ترکش یوتھ یونین‘‘کے ارکان نے امریکی اور نیٹو اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔استنبول میں ان پر مٹی کے تھیلے اور لال رنگ پھینکا گیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ اس سال انکریلک کے اڈے پر پیش آیا۔ ۲۰۰۹ء میں جب باراک اوباما نے ترکی کا دورہ کیا تو ہزاروں شہریوں نے احتجا ج کیا جس میں ’’ہمارے ملک سے نکل جاؤ‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔
تاہم امریکی فوج کی ترکی میں موجودگی کے خلاف ہونے والے حملے پالیسی کی تبدیلی کا مظہر ہیں۔جب سے شام کی جنگ شروع ہوئی ہے،امریکی فوج انکریلک کے فوجی اڈے کو کردوں (YPG)کی مدد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ بالواسطہ طور پر وہ ترکی کے کچھ حصے کو شامل کر کے کرد ریاست بنانے میں مدد کر رہی ہے۔ امریکا اور اس کی فوج کو یہاں بہت سی سازشوں میں ملوث سمجھا جاتا ہے۔خاص کر فتح اللہ گولین کے حوالے سے، جو کہ ایک مسلمان مذہبی رہنما ہیں اور خود ساختہ جلاوطی اختیار کیے ہوئے امریکا میں رہائش پزیر ہیں۔بہت سے ترک یہ سمجھتے ہیں کہ ایردوان کے خلاف ہونے والی حالیہ بغاوت امریکا، گولین اتحاد کا نتیجہ ہے،اور امریکی فوج کی ملک میں بڑھتی تخریبی سرگرمیوں کا ثبوت بھی۔بغاوت کے بعد انکریلک ایئربیس کے بند ہونے نے ان سازشوں کو مزید ہوادی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایردوان خود بھی امریکا کو قربانی کا بکرا بنا کر ملک میں تعینات امریکی فوجیوں کیخلاف نفرت بڑھا رہے ہیں۔
امریکا کے لیے انکریلک ائر بیس کی تزویراتی اہمیت یہ ہے کہ وہ داعش کے خلاف کاروائی کے بہانے ترکی کی سرزمین پر اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے اور یہ موجودگی ترکی سے زیادہ امریکی مفادات کے لیے اہم ہے۔ غیر مستحکم اور آمریت کی طرف بڑھتے اس ملک میں ’’امریکا مخالف نعرے‘‘ ایسا عنصر ہے جو قوم کو متحد کر رہا ہے۔ایسی صورتحال میں امریکی فوجیوں کو بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ مستقبل میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ اندرونی کشیدگی میں اضافہ ہونے پر ان کو نشانہ بنایا جائے۔
دیگر کئی ممالک میں باہمی اختلافات کے باوجود امریکی فوج کی موجودگی دونوں ممالک کے مفاد میں ہوتی ہے۔ اوکی ناوا میں ۱۹۹۵ء کے احتجاج کے بعد امریکی اور جاپانی حکومت اس بات پر راضی ہو گئیں کہ گنجان آباد شہر Ginowan میں ’’فینما‘‘ کے ہوائی اڈے کو بند کر کے نیا فوجی اڈہ ماہی گیروں کے گاؤں ’’ہی نوکو‘‘میں تعمیر کیا جائے گا۔ لیکن یہ منصوبہ بھی مقامی آبادی کے غم و غصہ کو کم کرنے میں ناکام ہو گیا، جس کا ثبوت فضائی اڈے کی تعمیر کے مخالف سیاستدانوں کی جون میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ہے۔ لیکن جاپان کے وزیراعظم ہر حال میں اس منصوبے پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کشیدگی کم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی ایک ٹھوس وجہ ہے۔ شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کی بنیاد پر دھمکیاں اور جنوبی چین کے سمندر میں چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت انہیں اس بات پر مجبور کیے ہوئے ہیں کہ وہ جاپان کے دفاع کو مضبوط کریں، جس میں امریکی فوج کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ تقریباً ۴۷ فیصد امریکی ’’ایب‘‘ کے موقف کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے نزدیک چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی فوج کو ایشیا میں اپنی موجودگی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ لیکن ۴۳فیصد اس کے مخالف بھی ہیں۔ امریکا کے دشمن سمجھتے ہیں کہ وہ عالمی تھانیدار بننے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ امریکا ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا خاص کر ایسے وقت میں جب دنیا بھی احسان فراموش ہو۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“America’s foreign bases: Go home, Yankee”. (“The Economist”. August 13, 2016)
Leave a Reply