
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ کے مصداق اس وقت امریکا وہی کچھ کر رہا ہے، جو چین چاہتا ہے۔ چین کی خواہش ہے کہ ایک ایسی دنیا تشکیل دی جائے جس میں سب کچھ کسی ایک ملک کے ہاتھ میں نہ ہو۔ اس وقت عالمی سیاست و معیشت پر امریکا متصرف ہے۔ اس نظام کو ’’یونی پولر‘‘ یعنی یک قطبی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی سیاست و معیشت کے تمام فیصلے امریکا کی مرضی کے محتاج ہیں۔ چین اور روس چند دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر متعدد طاقتوں پر مبنی نظام یعنی ’’ملٹی پولر سسٹم‘‘ لانا چاہتے ہیں۔ یہ ’’کثیر قطبی‘‘ نظام تمام چھوٹی بڑی طاقتوں کو متوازن رکھنے کے لیے ہوگا، یعنی کوئی ایک ملک دنیا کے تمام اہم معاملات پر متصرف نہیں ہوگا۔
امریکا نے چند برسوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اپنائی ہے، وہ انتہائی خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ کئی ممالک ہی نہیں بلکہ خطے تباہی سے دوچار ہوئے ہیں۔ اب امریکا کو بہت حد تک احساس ہوچلا ہے کہ معاملات اُس کے ہاتھ سے سرکتے جارہے ہیں۔ اس کیفیت کو پوری طرح بھانپنا اور بات ہے اور ہضم کرنا اور بات۔ امریکی پالیسی ساز زمینی حقیقتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر پھر بھی وہ طاقت برقرار رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جہاں طاقت کا استعمال ناگزیر نہ ہو وہاں بھی طاقت بے محابا بروئے کار لائی جارہی ہے۔ ایران کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ امریکی پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ ایران کو ایک مثال بناکر پورے خطے کو دبوچے رہیں۔ ۲۰۱۵ء کے ہمہ جہت جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جو ۵ نومبر ۲۰۱۸ء سے نافذ ہو رہی ہیں۔ یہ سب کچھ چین کو کسی حد تک اپنی بات منوانے کا موقع دے رہا ہے۔ کئی ممالک اب تک تذبذب کے عالم میں تھے مگر اب امریکا جو کچھ کر رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے وہ بھی ایک طرف ہو رہنے کو ترجیح دیں گے۔
امریکا کا ایران سے طے پانے والے معاہدے سے الگ ہونا کوئی ایسا قدم نہیں، جسے جذباتی ابال کا نتیجہ قرار دے کر نظر انداز کردیا جائے۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ شروع کیا ہے اور اس کا ایک اہم جُز چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) بھی ہے۔ امریکا نے ایران کے خلاف جاکر تیل کی عالمی منڈی کو شدید بحران سے دوچار کردیا ہے۔ خام تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی ممالک کی معیشت ڈانوا ڈول ہو رہی ہے۔ چین کو ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے پر عمل کرنے میں اب غیر معمولی دشواریوں کا سامنا ہے۔ امریکا مختلف طریقے اختیار کرکے چین کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ ایک ایسی بڑی طاقت بننے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ کرسکے جس کے ہاتھ میں پوری دنیا کا نظام ہو۔
امریکا نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اس کے حوالے سے تجزیہ کاروں نے سو طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کو دیوار سے لگانے کی کوشش تہران میں نئی قیادت کے ابھرنے کی راہ بھی ہموار کرسکتی ہے۔ اعتدال پسند عناصر ایک طرف ہوجائیں گے اور انتہا پسند عناصر اقتدار میں آسکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو پورے خطے کی سیاست داؤ پر لگ جائے گی۔ ایک بار پھر فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم زیادہ نمایاں ہوجائے گی۔
امریکا نے ایران سے طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا تو اگلے ہی دن چین کے سب سے بڑے سرکاری اخبار اور کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان دی پیپلز ڈیلی کے ادارتی صفحے پر ’’صدائے چین‘‘ کے قلمی نام سے ایک مضمون شائع ہوا، جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ امریکی خارجہ پالیسی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ڈگر سے ہٹ کر اب من مانی کی راہ پر گامزن ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی صدر چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں جو کچھ بھی ہو وہ امریکا کی مرضی کے تابع ہو۔ اخبار نے مزید لکھا کہ امریکا نے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کو یکسر نظر انداز کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی پالیسی ساز اب کسی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں اور سب کچھ تن تنہا کرنا چاہتے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کئی عشروں سے چین کی کوشش رہی ہے کہ ایک ایسی دنیا تشکیل دی جائے، جس میں کوئی ایک طاقت تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہ رکھے بلکہ چند بڑی طاقتیں مل کر دنیا کو چلائیں۔ ایک طرف تو چینی قیادت اپنی تہذیبی وراثت کی بنیاد پر عالمی سیاست و معیشت میں نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل ہونا چاہتی ہے اور دوسری طرف اسے اندازہ ہے کہ تنہا جانا بہت خطرناک ہوگا، اس لیے وہ چاہتی ہے کہ روس، بھارت، جاپان اور دیگر بڑی قوتیں بھی مل کر نئے نظام کی مدد کریں۔ اس صورت میں امریکا اور یورپ کو بہتر انداز سے کنٹرول کرنا ممکن ہوسکے گا۔ اس وقت امریکا ہی من مانی کر رہا ہے۔ یورپ مجموعی طور پر پُرسکون اور اعتدال پسند ہے۔ امریکی پالیسی ساز یورپ کے قائدین کو بھی بعض اوقات مجبور کردیتے ہیں کہ وہ امریکا کا ساتھ دیں۔ چین کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس کی ابھرتی ہوئی طاقت کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو صرف امریکا ہے۔ امریکی پالیسی ساز چین کو عالمی سیاست و معیشت میں اس کا جائز مقام دینے کو تیار نہیں۔ چین کو یورپ سے بھی کچھ خاص خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یورپ بھی اب ’’ہارڈ پاور‘‘ کی راہ سے ہٹ چکا ہے اور ’’سوفٹ پاور‘‘ کے ذریعے آگے بڑھنے کے موڈ میں ہے۔ چینی پالیسی سازوں نے تین عشروں کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی ملک پر چڑھائی کرکے تباہی کی راہ ہموار کرنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ معاشی قوت کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو مسخّر کیا جائے۔ سرمایہ کاری کے ذریعے بہت سے ممالک کو چین نے ہم نوا بنایا ہے۔ افریقا کے کئی ممالک میں چین نے غیر معمولی سرمایہ کاری کی ہے، جس کے نتیجے میں وہاں ترقی بھی ہوئی ہے اور لوگوں نے ایک بڑی قوت کو قدرے نرم اور قابل قبول رویے کے ساتھ دیکھا ہے۔ اس حوالے سے بھی امریکا اور یورپ نے بہت پروپیگنڈا کیا ہے مگر چین کے پالیسی ساز اپنی راہ سے ہٹے نہیں۔
چین چاہتا ہے کہ امریکا اپنی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرے، جن سے چین اور دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کو نمایاں ہونے اور عالمی سیاست و معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔ اس حوالے سے یورپ سے بھی اہم کردار ادا کیے جانے کی توقع وابستہ کی جاتی رہی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ فی الحال ایسا نظام تشکیل دیا جائے، جس میں چند قوتیں خطوں کو بانٹ لیں اور اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں۔ امریکا اس کے لیے تیار نہیں۔ چین کی خواہش ہے کہ ایشیا میں امریکی عمل دخل زیادہ نہ ہو۔ امریکی پالیسی ساز دور افتادہ ایشیائی ممالک میں بھی مداخلت سے گریز نہ کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔
چین اس امر کے لیے کوشاں رہا ہے کہ یورپی یونین امریکی بالا دستی کے سامنے طاقت کے متبادل مرکز کی حیثیت سے ابھرے مگر امریکا اور یورپ کے عمومی اتحاد نے اب تک اِس کی راہ ہموار نہیں ہونے دی۔ یورپی یونین بعض معاملات میں قدرے تذبذب کا شکار بھی دکھائی دیا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ یورپی یونین اپنی پالیسیاں آزادانہ حیثیت میں ترتیب دے، ان پر امریکا کی چھاپ نہ ہو یا زیادہ گہری نہ ہو۔ یورپی یونین اس حوالے سے اب تک کھل کر سامنے نہیں آسکا۔ چین کو اندازہ ہے کہ اگر یورپی یونین نے اپنی پالیسیوں کو امریکی گرفت سے آزاد کرالیا تو عالمی سیاست و معیشت میں اُس (چین) کے لیے بہت کچھ کرنے کا موقع پیدا ہوگا اور وہ زیادہ جم اور ڈٹ کر اپنی بات کہہ سکے گا۔
امریکا نے دنیا بھر میں پاؤں پھیلا رکھے ہیں۔ کئی خطوں میں اس کی شراکت داری موجود ہے۔ وہ کئی اتحادوں کا مرکزی کردار ہے۔ یہ سب کچھ کثیر قطبی دنیا کے ابھرنے کی راہ میں بڑی دیوار ہے۔ چین بھی اس بات کو سمجھتا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تو ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امریکا پر دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ کرنے کا دباؤ ہی وہ عامل ہے جو امریکا کو تمام معاملات میں تن تنہا جانے سے روکتا ہے۔ امریکا کی اپنی پالیسیاں اس کی راہ میں کسی حد تک دیوار ثابت ہو رہی ہیں۔ چین اور روس کو مل کر جو کچھ کرنا ہے، وہ امریکی پالیسی ساز خود کر رہے ہیں۔ یورپ بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ امریکا واحد سپر پاور ہونے کا اب محض دعویدار ہے۔ ٹھیک ہے، کوئی اور ملک بھی واحد سپر پاور ہونے کا دعوٰی کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگر امریکا بھی یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ وہ سب کچھ اپنے طور پر کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں عالمی مالیاتی نظام پر اس کی گرفت اب بھی ہے۔ آج بھی عالمی سطح پر لین دین کے لیے امریکی ڈالر ہی پر انحصار کیا جاتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکا تمام مالیاتی معاملات میں حرفِ آخر کا درجہ رکھتا ہے۔
یورپ کے مدبرین اس امر پر حیران اور پریشان ہیں کہ پوری دنیا میں بھرپور طور پر قبول کیا جانے والا ’’گورننگ میکینزم‘‘ تیزی سے کمزور پڑ رہا ہے۔ عالمی اداروں کی دنیا کے تمام معاملات پر جو گرفت چند عشروں پہلے تک تھی، وہ اب نہیں۔ امریکا اور یورپ دونوں ہی اب اپنے اپنے طور پر چل رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ’’لبرل انٹر نیشنل ٹریڈ سسٹم‘‘ ابھر رہا ہے۔ بیشتر معاملات علاقائی سطح پر طے کیے جارہے ہیں۔ پوری دنیا کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے والا نظام دکھائی نہیں دے رہا۔ اقوام متحدہ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ محض برائے نام ادارہ ہے۔ آج کی دنیا میں ہر خطہ اپنے مفادات خود طے کر رہا ہے اور امریکا یا یورپ کی بالا دستی کے شکنجے سے نکلنے کی بھرپور تیاری کر رہا ہے۔ چین کو اس بات کا بھی اندازا ہے کہ امریکا بیشتر معاملات میں یکطرفہ کارروائی کی راہ پر گامزن رہا تو قلیل المیعاد بنیاد پر اس کا نقصان اُسے (چین کو) پہنچے گا۔
امریکا نے عالمی تجارتی تنظیم کے طے کردہ اصولوں اور ڈھانچے کو ایک طرف ہٹاکر تنہا جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین سے اس کی تجارتی جنگ اسی امر کی مظہر ہے۔ چینی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی عائد کرکے امریکا نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی بالا دستی کو آسانی سے ختم نہیں ہونے دے گا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف ٹیرف کی سطح پر اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے چین کی ۶۰؍ارب ڈالر کی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی عائد کی تو جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی عائد کردی۔ امریکا نے انتباہ کیا ہے کہ اب اگر چین نے اس طور جواب دینے کی کوشش کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ یہ بیان اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا خوفزدہ ہے اور کسی بھی اقدام کے جواب میں کی جانے والی کارروائی سے پریشان بھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ کے اختلافات ابھر ہی نہیں رہے بلکہ پنپ بھی رہے ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ یورپ ہر معاملے میں اس کا ساتھ دے۔ یورپی طاقتوں کو ایسا کرنا قرینِ دانش دکھائی دیتا ہے نہ زمینی حقیقتوں کے مطابق۔ یہی سبب ہے کہ یورپی یونین نے امریکا سے ہٹ کر اپنے طور پر چلنا پسند کیا ہے۔ افریقا اور ایشیا کے بہت سے ممالک کے حوالے سے یورپ نے آزاد پالیسی اختیار کی ہے، جو امریکی اثرات سے پاک ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ امریکا جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہے اس کا ساتھ دینا اب یورپ کو لازم دکھائی نہیں دیتا۔ یورپ کے مدبرین اس نکتے کو سمجھتے ہیں کہ امریکا کا اندھا دھند ساتھ دینے کی صورت میں یورپ کے لیے مشکلات بڑھیں گی، اور وہ کبھی بھی کسی بند گلی میں کھڑا ہوسکتا ہے۔
یورپ دیگر تمام خطوں سے بہتر علمی، ثقافتی اور تجارتی روابط چاہتا ہے۔ اس نے سوفٹ پاور کی راہ پر گامزن رہنا پسند کیا ہے۔ یورپ کے پالیسی سازوں کی اکثریت تصادم سے گریز کی راہ پر گامزن ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ تصادم سے معاملات محض خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ یورپ زیادہ سے زیادہ خطوں اور ممالک سے تجارت چاہتا ہے۔ اس نے اپنے لیے ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا ہے جس میں ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک سے تجارت کا دائرہ بڑھے اور ٹیکسوں کا دائرہ محدود سے محدود تر ہو۔ یورپ کے بہت سے ممالک برائے نام ڈیوٹیز کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں کہ ان سے مستفید ہونے والے ممالک کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوں، اور وہ تجارت کو وسعت دینے کی تحریک پائیں۔
ایران کے خلاف جانے کے معاملے میں بھی یورپ نے امریکا کا ساتھ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جنرل اسمبلی سے حالیہ خطاب میں فرانس کے صدر ایمانویل میکراں نے بھی امریکا کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نے جوہری معاہدے میں جو کچھ طے کیا تھا وہ اس پر اب تک پوری پابندی سے عمل کر رہا ہے۔ ایسے میں امریکا کا اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان غیر ضروری ہے۔ اگر کسی بات پر اختلاف تھا بھی تو بات چیت کے ذریعے دور کیا جاسکتا تھا۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے چین، روس، جرمنی اور فرانس نے ادائیگیوں کا ایک متبادل نظام اپنایا ہے۔ یہ نظام SWIFT کہلاتا ہے۔ اس نظام کے سامنے لائے جانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں سے عالمی سطح پر مالیاتی نظام کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ اگر عالمی مالیاتی نظام متاثر ہو تو کوئی ایک ملک نہیں بلکہ درجنوں ممالک اور خطے متاثر ہوں گے۔ ایسے میں لازم ہے کہ امریکی اقدامات کے اثرات زائل کرنے کا کوئی متبادل نظام موجود ہو۔ امریکا نے ایران سے لین دین کرنے والے ممالک کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ سوئفٹ کی مدد سے امریکی پابندیوں سے بچنا ممکن ہوسکے گا کیونکہ ڈالر میں لین دین کرنے کے باوجود یہ نظام اس دائرے سے باہر ہے، جس کے لیے امریکا نے پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ اگر امریکی قیادت ایران سے لین دین کرنے والے ہر ملک سے لین دین سے انکار کرتی ہے تو پوری دنیا کا مالیاتی نظام بہت بری طرح متاثر ہوگا اور کئی خطے اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ امریکی قیادت ایران کے معاملے میں جو کچھ کر رہی ہے، اُسے ہر طرف سے قبولیت مل رہی ہے۔ امریکی اتحادی (برطانیہ، فرانس اور جرمنی) اور شراکت دار (مثلاً بھارت) بھی اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ امریکا کسی بھی اعتبار سے تنہا جاکر ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرے۔ وہ ابھی سے اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ ایران پر ڈالا جانے والا امریکی دباؤ کم کریں۔ بھارت زیادہ پریشان یوں ہے کہ وہ ایران سے سستا تیل خریدتا رہا ہے۔ اب اسے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں سے مہنگا تیل خریدنا پڑے گا اور ادائیگی کے معاملے میں بھی وہ سہولت نہیں ملے گی، جو ایران فراہم کیا کرتا تھا۔ ایسے میں امریکا کے یورپی اتحادی مل کر کوئی نہ کوئی ایسا نظام تیار کریں گے جس کی مدد سے ایران یا کسی اور ملک کے خلاف امریکا کی یکطرفہ پابندیوں کا سامنا کیا جاسکے۔ یورپ نے امریکا کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی ہے کہ جو کچھ وہ ایران کے حوالے سے کر رہا ہے وہ محض جذباتیت ہے۔ آنکھ بند کرکے کسی ملک پر پابندیاں عائد کرنا امریکا اور یورپ دونوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران کی حالت مزید بگڑی تو امریکا اور یورپ کے لیے اس خطے میں قبولیت کی سطح گرے گی اور زیادہ سے زیادہ لوگ چین اور روس کی طرف دیکھنا شروع کریں گے۔ روس، ترکی اور چین اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ایسے میں امریکی پالیسی سازوں کے لیے لازم ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں اور کسی بھی ملک کے خلاف اقدامات کرکے معاملات کو مزید نہ بگاڑیں۔
(مضمون نگار سینٹر فار دی نیشنل انٹریسٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں)
“America’s Iran policy is helping China advance its vision of a multipolar world”. (“nationalinterest.org”. October 1, 2018)
Leave a Reply