
مصر کے جزیرہ نما سینا میں طیارے کے المناک حادثے کے بعد خطے میں واشنگٹن کی امن فوج کے دعوؤں کی حیثیت پر روشنی ڈالی جانی چاہیے۔
اِس ہفتے مصر میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ کی جانب سے سینا میں روس کے مسافر طیارے کو تباہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی گئی، طیارے میں سوار تمام ۲۲۴؍افراد حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ماسکو اور قاہرہ نے طیارہ حادثے میں دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ طیارے کو تیس ہزار فٹ کی بلندی پر مشکلات پیش آئیں اور خود کو ’سینا کا صوبہ‘ کہلانے والی تنظیم کے پاس زمین سے فضا میں نشانہ بنانے والے ایسے ہتھیار نہیں ہیں جس سے اتنی بلندی پر طیارہ تباہ کیا جاسکے۔ اگر مقامی گروپ کے ہتھیاروں کے بارے میں یہ اندازے درست ہیں تو پُرامید ہونے کے لیے تھوڑی وجہ موجود ہے۔ اِس دوران ’سینا کا صوبہ‘ نامی تنظیم کی جانب سے مین پیڈس یعنی دستی فضائی دفاعی نظام اور ٹینکوں کو تباہ کرنے والے جدید ہتھیاروں کی تنصیب کی جارہی ہے اور یہ جزیرہ نما سینا میں مصری سکیورٹی فورس کے لیے پریشان کردینے والا خطرہ ہے۔
لیکن سینا میں دولت اسلامیہ کا خطرہ مصر کی سرکار اور سیاحتی اہداف سے بڑھ کر ہے۔ رواں برس ۲؍اگست کو مصر میں سڑک کے کنارے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں چار امریکی فوجی زخمی ہوگئے تھے۔ زخمی ہونے والے اہلکار کثیر الملکی فورس اور مبصرین کے ہمراہ جزیرہ نما سینا میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ جزیرہ نما سینا امریکا کے قیام امن کے لیے کیے جانے والے دعوؤں میں سب سے اہم جگہوں میں سے ایک ہے۔ امریکا سینا میں مصر اور اسرائیل کے درمیان ۱۹۷۹ء میں طے پانے والے امن معاہدے کی نگرانی کے لیے وہاں موجود کثیرالملکی فورس اور مبصرین (ایم ایف او) میں سیکڑوں فوجیوں اور فضائی فوج کے ذریعے اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اگر زمینی کارروائیوں کی بات کی جائے تو ایم ایف او کے اہلکار سینا میں مصری سکیورٹی فورس کی نگرانی کرتے ہیں کہ وہاں مصری فورس کی تعیناتی ۱۹۷۹ء کے امن معاہدے کے مطابق ہے یا نہیں اور اِس کے لیے فضائی جاسوسی بھی کی جاتی ہے۔ حالیہ چند سالوں کے دوران سینا کی بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورتحال اور اِس حملے نے اوباما انتظامیہ کو ایم ایف او کی تعیناتی اور مشن کا جائزہ لینے پر آمادگی ظاہر کرنے کے ترغیب دی ہے۔
ایم ایف او کا قیام کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ جب چین اور روس نے سلامتی کونسل میں اِس مشن کو ویٹو کردیا تھا تو امریکا، مصر اور اسرائیل نے اقوام متحدہ کے منشور سے باہر جاتے ہوئے ایم ایف او کے قیام پر آمادگی ظاہر کی اور اِس فورس کا انتظام اور مالی امداد اِن کی اپنی ذمہ داری ہے۔ معاہدے کی دفعہ نمبر دو کے تحت ایم ایف او کا مقصد ’زون سی‘ کی نگرانی کرنا تھا۔ یہ اسرائیل کے سرحد سے ملحقہ سینا کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے۔ اس وقت سے امریکی حمایت یافتہ ایم ایف او دونوں فریقین کے درمیان ایک ڈھال اور ثالث کے طور فرائض انجام دے رہی ہے۔
ایم ایف او میں بارہ مختلف ممالک کے ۱۶۶۷؍فوجی اور ۱۷؍سول حکام شامل ہیں۔ لیکن اِس تنظیم کا دل اور روح امریکا ہے۔ پیدل فوجی دستے، فضائی حملہ کرنے اور جہاز دینے والے لاجسٹک یونٹ اور دیگر اہلکاروں کی صورت میں تقریباً ۷۰۰؍امریکی فوجی ایم ایف او کا حصہ ہیں۔ واشنگٹن کا اِس تنظیم میں ایک تہائی حصہ ہے اور اِس کے سالانہ بجٹ میں ۸۶ ملین امریکی ڈالر کی رقم مختص کی جاتی ہے۔
گزشتہ ۳۶ برسوں کے دوران اسرائیل اور مصر کے تعلقات میں بہت نشیب و فراز آئے ہیں۔ مثال کے طور پر مصری صدر حسنی مبارک کے دورِ اقتدار کے دوران، قاہرہ اسرائیل کی جانب سے غزہ اور مغربی کنارے میں کی جانے والی فوجی کارروائیوں کی مذمت کرتا تھا۔ ۲۰۰۳ء میں اسرائیل نے مصر کے جاسوس طیارے کو مبینہ طور پر ہوائی اڈے کی جاسوسی کرنے پر گرانے کی دھمکی دی تھی۔ حال ہی میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مصر کے صدر محمد مرسی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا تجربہ کیا۔ اِن کی جماعت نے اسرائیل سے امن معاہدہ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اِن سب کے دوران جزیرہ نما سینا میں امن کی کوششوں کے تحفظ کے لیے ایم ایف او کی موجودگی مستحکم اور یقینی ہے۔
آج کم سے کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ سرکاری طور پر اسرائیل اور مصر کے تعلقات پہلے سے بہتر ہیں۔ حالیہ کچھ سالوں میں جیسے جیسے اسلامی باغیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اسرائیل اور مصر کے تعلقات کے مقابلے میں شدت پسند غیرمعمولی حد تک بڑھ گئے ہیں۔ اپریل ۲۰۱۳ء میں مصری افواج نے سینا میں مبینہ طور پر مسلح ڈرون کے ذریعے پانچ اسلامی شدت پسندوں کو نشانہ بنایا تھا۔
جزیرہ نما سینا میں دولت اسلامیہ کے خلاف مشترکہ مفادات اسرائیل اور مصر کو ایک دوسرے کے قریب لے آئے ہیں۔ اِس شورش کے بعد وہاں ایم ایف او کی موجودگی بھی خطرے میں ہے۔ گزشتہ جولائی میں اوباما انتظامیہ نے سینا میں امریکی فوجیوں کی حفاظت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا اور اطلاعات کے مطابق ایم ایف او سے دستوں کی واپسی اور وہاں موجودگی کی پالیسی کا جائزہ لینے کا آغاز کردیا تھا۔
بلاشبہ ایم ایف او کو یہاں اپنے فوجیوں کے جنازے بھی اٹھانے پڑے۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۷ء میں جزیرہ نما سینا میں ایم ایف او کا جہاز گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ حادثے میں آٹھ فرانسیسی اور کینیڈا کا ایک فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔ تاہم سینا میں ایم ایف او کی ۳۶ برسوں کی تعیناتی کے دوران اہلکار وقتاً فوقتاً نشانہ بنتے رہے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ ایم ایف او کے سپاہیوں کے خطرات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دو سال قبل ستمبر میں قبائلیوں کے ایک گروپ نے ایم ایف او کے کیمپ پر حملہ کردیا تھا۔ انھوں نے کیمپ پر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی اور گرنیڈ پھینکے جس سے امن دستے کے چار اہلکار زخمی ہوگئے۔ اگست ۲۰۱۴ء میں کیمپ کے نزدیک ایک امریکی فوجی کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا گیا تھا۔ جون ۲۰۱۵ء میں شمالی کیمپ سے متصل ایم ایف او کے ہوائی اڈے پر گولہ باری کی گئی اور سب سے تازہ واقعہ اگست میں پیش آیا، جب دولت اسلامیہ کی آئی ای ڈی بم حملے میں ایم ایف او کے چھ اہلکار زخمی ہوگئے تھے، جس میں چار امریکی اور فیجی فوجی شامل تھے۔
اگرچہ قاہرہ جزیرہ نما سینا میں ہزاروں اضافی دستے اور بھاری ہتھیار، جن میں ایف سولہ جنگی طیارے اور اپاچی ہیلی کاپٹر شامل ہیں، بھیج چکا ہے لیکن اِن سب کے باوجود مصر یہاں تشدد کے واقعات پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ تادم تحریر ایک ہزار سے زائد مصری فوجی اور پولیس اہلکار سینا میں ہلاک ہوچکے ہیں، جس میں اِن گرمیوں میں ایک روز میں ۶۴ سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت بھی شامل ہے۔ گزشتہ سال اسلامی شدت پسندوں نے سینا میں مصری فوجی ہیلی کاپٹر مار گرایا تھا۔ اِس سال جولائی میں انہوں نے بحریہ کی کشتی ڈبو دی تھی۔ اگست ۲۰۱۳ء میں دہشت گردوں نے نہر سوئز سے گزرنے والے جہازوں پر راکٹوں کے ساتھ دھاوا بول دیا تھا۔
اس دوران جیسے کہ سینا میں دولت اسلامیہ کی شورش میں اضافہ ہوا ہے تو کیا یہ ایم ایف او اور اِس کے مقصد کے لیے خطرہ ہے؟ آج کل ایم ایف او کے گشت کرنے والے اہلکاروں کو مصری بکتربند گاڑیوں کی حفاظت میں لے جایا جاتا ہے اور ایم ایف او نے اپنی فضائی کارروائیوں میں کمی کردی ہے اور دور دراز کے علاقوں میں مبصرین کو بھیجنا بھی محدود کردیا ہے۔
اِن تدابیر کے باوجود امریکی افواج اب بھی بحران کی سی کیفیت میں ہیں۔ امریکی فوجیوں کی روانگی سے ایم ایف او ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکتی ہے۔ اِس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ واشنگٹن خطے کے اتحادیوں سے کیے گئے اپنے وعدوں میں کمی کررہا ہے اور اِس دولت اسلامیہ کو بالکل غلط وقت پر اخلاقی اور آپریشنل فتح مل جائے گی۔ مصر اور اسرائیل اِس فیصلے کی مخالفت کرسکتے ہیں اور ممکنہ طور پر وہ اِس کی واپسی کے لیے ہر ممکن تعاون کریں گے۔
اگر اوباما انتظامیہ ایم ایف او سے امریکی اثر و رسوخ میں کمی کے فیصلے کو واپس لیتی ہے تو یہ پہلی بار نہیں ہوگا۔ اِس سے قبل ۱۹۹۰ء میں امریکا کے محکمہ دفاع نے دستوں کو واپس بلانے کا آغاز کیا تھا اور بعد میں اِس فیصلے کو محکمۂ خارجہ نے منسوخ کردیا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کے ابتدائی دنوں میں جارج بش نے سینا سے ۸۶۵ فوجیوں کی کمی اور صرف علامتی شراکت کے طور پر ۲۷ فوجیوں کی وہاں تعیناتی منظور کرانے کی کوشش کی۔ اگست ۲۰۰۲ء میں امریکا کے محکمہ دفاع نے کمی کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے سہ فریقی اجلاس کی میزبانی کی۔ اِس حوالے سے مصر اور اسرائیل کا ردعمل اتنا شدید تھا کہ امریکا کو اپنے فوجیوں میں ۲۰ فیصد سے بھی کم کی کمی کرنا پڑی۔
اگرچہ اِس وقت دوطرفہ ماحول بہتر ہونے سے مصر اور اسرائیل دونوں نے اپنے تعلقات میں کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے۔ ۲۰۱۱ء ستمبر میں اسرائیل نے سینا سے ہونے والے دہشت گردوں کے بڑے حملے کا بھرپور جواب دیا تھا، جس میں غلطی سے پانچ مصری فوجی مارے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد قاہرہ میں قائم اسرائیلی سفارت خانے پر لوگوں نے دھاوا بول دیا تھا اور چھ اسرائیلی سفارتکاروں نے محفوظ کمرے میں بند ہوکر جان بچائی۔ اگر اس کمرے کا چھ انچ کا دروازہ مضبوط نہیں ہوتا تو سفیر تقریباً موت کے منہ میں چلے گئے ہوتے۔
پانچ سال قبل اس وقت اسرائیلی سفارت خانے کے چھ انچ کے مضبوط دروازے نے امن معاہدے کو بچا لیا تھا لیکن آج بھی مصریوں کی بڑی تعداد اسرائیل کو اپنا دشمن مانتی ہے۔ سرکاری سطح پر یہ معاہدہ آج بھی اتنا مضبوط ہے جتنا کہ ۳۶ سال قبل تھا لیکن یہ دو لوگوں کے درمیان امن قائم نہ کرسکا۔ اگست میں مصر کی ایک عدالت میں ایک امریکی نژاد مصری طالبعلم پر، جو کہ تل ابیب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا، ’سنگین غداری‘ کا مقدمہ دائر کرکے اس کی مصری شہریت منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اگر امریکا کی پالیسی کا جائزہ لینے کی بات کی جائے تو ستمبر میں اوباما انتظامیہ نے سینا میں ایم ایف او کی حفاظتی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے مزید ۷۵ فوجیوں کو تعینات کیا۔ یہ ایک اچھا قدم ہے، اِس سے بھی زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس میں امریکی اور دوسرے ممالک کے دستوں کو ایم آر اے پی بکتر بند گاڑیاں کی فراہمی شامل ہے۔ اسی دوران محکمہ دفاع کو ایم ایف او کی نگرانی کی نوعیت اور دیگر چیزوں پر غور کرنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ واشنگٹن کو مصر پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ مصر امریکا سے دہشت گری کو روکنے کی تربیت لینے اور سینا میں دولت اسلامیہ کو ختم کرنے کے لیے جدید حکمت عملی اپنائے۔
(ترجمہ: معاذ احمد)
“America’s least-known Mideast Military Force”. (“washingtoninstitute.org”. Nov.1, 2015)
Leave a Reply