امریکا ، ہر مذہب اور عقیدے کے ماننے والوں اور کئی گرجاگھروں، یہودی معبدوں، مساجد‘مندروں اور دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں کا ملک ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں آئین کے تحت مذہبی آزادی کے اصول پر بھرپور انداز میں عمل کیا جاتا ہے اور لوگوں کو وسیع پیمانے پر تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایسی ایک عمارت ، جو ملکی تاریخ میں فن تعمیر کی عمدہ مثال ہے بحالی کے بعد دوبارہ کھول دی گئی ہے۔
بالٹی مور گرجا گھر بسلیکا آف ازمپشن کا سنگ بنیاد دو سو برس قبل یعنی ۱۸۰۶ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ عمارت امریکا میں مذہبی فن تعمیر اور مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال ہے۔ گرجا گھر کے ہسٹورک ٹرسٹ کے ایگزیکٹوڈائریکٹر مارک پورٹر نے اس سال نومبر میں گرجا گھر کی تزئین و آرائش کے بعد جس پر تین کروڑ بیس لاکھ ڈالر خرچ ہوئے، اس کے دوبارہ افتتاح کے موقع پر اپنے ایک نشری انٹرویو میں کہاں کہ اس گرجا گھر کا دلکش منظر ایک نئی قوم کی امنگوں اور عزائم کی عکاسی کرتا ہے جو خود کو سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے مستحکم کر نے کے لیے کوشاں ہے۔
اس گرجا گھر کو سرکاری طور پر بسلیکا آف دی نیشنل شرائن آف دی ازمپشن آف دی بلیسڈورجن میری (Basilica of the National Shrine of the Assumption of the Blessed virgin mary) کہا جاتاہے۔ یہ پہلا کیتھولک گرجا گھر ہے جو ۱۷۸۳۔۱۷۷۵ میں انقلاب امریکہ کے بعد تعمیر کیا گیا۔ اس کا ڈیزائن بین جامن ہینری لیٹروب (Benjamin Henry Labtrobe) نے تیار کیا تھا جو واشنگٹن میں امریکی کیپٹل ہل کے بھی معمار تھے۔ گرجا گھر کے بیرونی حصے میں یونانی طرز کا سائبان اور پہلوئوں میں ستون تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ قدیم یونانی تصورات کی یاد تازہ کرتے ہیں جو نئی جمہوریہ کے لیے باعث تقویت اور مذہبی آزادی کے لیے مینار ہ نور ہیں اس سے کیتھولک فرقے کے لوگوں کو اس نئے ملک میں اپنے عقیدے پر آزادی سے عمل پیرا ہونے کا حوصلہ ملا۔ امریکہ کی رواداری اور کثیر المذہب ہم آہنگی کی خصوصیات نے کیتھو لک فرقے کے ان کئی تارکین وطن کو راغب کیا جنہیں ان کے آبائی ملک انگلستان میں ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس لیے یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ امریکا کے پہلے کیتھولک بشپ جان کیرل نے گرجا گھر کے لیے اس دور میں یورپ کے مقبول گوتھک طرزِ تعمیر کی بجائے لیٹروب کا قدیم متناسب ڈیزائن منتخب کیا تھا۔
گرجا گھر کے اندرونی حصے میں جو کئی گوتھک گرجا گھروں کے داخلی حصوں کا عمدہ امتزاج ہے، بہت زیادہ روشنی کا انتظام کیا گیا ہے۔ پوٹر کے مطابق تھامس جیفرسن نے جو ۱۸۰۱ سے ۱۸۰۹ء تک امریکا کے صدر رہے اور جو تعمیرات کے دلدادہ تھے، لیٹروب پر زور دیا کہ وہ گرجا گھر کے گنبد میں روزن رکھیں۔ اگرچہ ان کے ذریعہ گرجا گھر میں قدرتی روشنی داخل ہوتی ہے لیکن گنبد میں روزن پوشیدہ ہونے کی وجہ سے روشنی کا ذریعہ واضح طور پر دکھائی نہیں دیتا۔
پوٹر نے کہا کہ یہ پراسرار روشنی عبادت کرنے والوں اور سیاحوں دونوں کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی امریکا کے کیتھولک چرچ کی تاریخ میں اس گرجا گھر کے مرکزی کردار اور اس کے اعلیٰ طرزِ تعمیر کی وجہ سے یہ ملکی اور غیرملکی سیاحوں میں یکساں مقبول ہے۔
مساجد اور دوسری مذہبی عمارتیں امریکی تنوع کی عکاس ہیں۔
امریکا میں ۱۲۰۰ سے زائد مساجد اور اسلامی مراکز جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن کا اسلامی مرکز جسے مشرقِ وسطیٰ کے طرزِ تعمیر کی وجہ سے بے حد پذیرائی حاصل ہے، ملکی دارالحکومت میں پہلی مسجد ہے جو ۱۹۵۷ء میں صدر آئزن ہاور نے وقف کی۔ یہ مرکز جس کا ۴۹ میٹر ایک دلکش مینار بھی ہے، واشنگٹن کے علاقے میں مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ کا کام دیتا ہے اور غیرمسلموں کو اپنے عمدہ فنِ تعمیر سے محظوظ ہونے کے علاوہ اپنی لائبریری میں مطالعے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
امریکا کے دیگر حصوں میں دیگر مذہبی عمارتوں کے طرزِ تعمیر سے ملک بھر میں مذہبی گروپوں کی ترقی کے شواہد ملتے ہیں۔
پیٹر ہیریسن نے منفرد طرزِ تعمیر کی حامل یہودی عبادت گاہ ٹورو (Touro)، امریکی نوآبادیاتی دور میں ۱۷۵۹ء سے ۱۷۶۳ء تک کے عرصے میں تعمیر کی۔ سادگی، ضخامت اور روایتی طرزِ تعمیر کی وجہ سے یہ عمارت شاندار منظر پیش کرتی ہے۔
روڈ آئی لینڈ کے شہر نیو پورٹ میں اس یہودی عبادتگاہ کے قیام سے اٹھارہویں صدی میں نیو انگلینڈ میں چھوٹی مگر بڑھتی ہوئی یہودی آبادی کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ ۱۷۹۰ء میں صدر جارج واشنگٹن نے یہودی اجتماع کو ایک تحریری پیغام بھیجا جس میں کہا گیا کہ امریکی حکومت تعصب اور ظلم و زیادتی کو مسترد کرتی ہے۔ ۱۹۴۶ء میں کانگریس کے ایک قانون کے ذریعہ امریکی صدر ہینری ٹرومین نے ٹورو عبادتگاہ کو تاریخی عمارت قرار دیا جو یہ حیثیت حاصل کرنے والی ملک کی پہلی مذہبی عمارت تھی۔
سالٹ لیک کا گرجا گھر، چرچ آف جیسس کرائسٹ آف لیٹر ڈے سینٹس (مورمنس) سالٹ لیک سٹی میں بنایا تھا۔ یہ گرجا گھر مورنز کے بانیوں ۱۸۵۳ء سے ۱۸۹۳ء تک چالیس برس کی مدت میں تعمیر کیا گیا۔ گرینائٹ کا بنا یہ گرجا گھر جس پر چھ نوکیلے مینار تعمیر کیے گئے ہیں، یوٹا کے دارالحکومت میں تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ قلعہ نما بنی ہوئی یہ عمارت، اپنے معماروں کی لگن اور ناموافق صحرائی ماحول میں ان کی کاریگری کی عکاسی کرتی ہے۔
رانچس (Ranchos) کا معروف گرجا گھر۔۔ نیو میکسیکو کے شہر رانچس ڈی ٹائوس (Taos) میں واقع ہے اس گرجا گھر کو سرکاری طور پر سینٹ فرانسس آف اسیسی چرچ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی صحرا میں واقع ہے۔ تاہم یہ یوٹا سالٹ لیک ٹمپل سے قطعی طور پر مختلف دکھائی دیتا ہے۔ اسے ۱۰۷۱ء میں اسپین کے مشنریوں نے قائم کیا تھا اور اس پر کام ۱۸۱۵ء میں مکمل ہوا۔ یہ گرجا گھر ایک ایسی تراشیدہ عمارت ہے جیسے زمین سے اگی ہوئی اور ماحول سے مطابقت رکھنے والی کوئی چیز ہو۔ مقامی اینٹ، گارے اور لکڑی سے بنے ہوئے اس گرجا گھر کو فرانسسکن قدیم طرزِ تعمیر اور نئی دنیا کے تعمیراتی انداز کے امتزاج کی عمدہ مثال قرار دیا جاتا ہے۔
امریکی مصور جارجیا اوکیفے نے رانچس گرجا گھر کو اپنی تصاویر کے ذریعے امر بنا دیا ہے جو مصوروں اور فوٹو گرافروں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے اور ہسپانوی اور امریکی انڈین ثقافتی روایات کے امتزاج کی ایک علامت ہے۔ یہ گرجا گھر امریکا کی تشکیل میں برابر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ایشیائی ملکوں سے بڑی تعداد میں امریکا جانے والے تارکینِ وطن نے ملک کے کئی حصوں میں بدھ مت کے بارے میں دلچسپی بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بدھ مت کے امریکی پیروکار، مذہب تبدیل کرنے والے ایشیائی اور غیرایشیائی باشندوں سے مختلف ہیں۔ چینی، جاپانی، تبتی اور کوریائی بدھ مت کے پیروکاروں کی عبادتگاہیں امریکا کے انتہائی بڑے بڑے شہروں میں پائی جاتی ہیں۔
بیوڈوان ٹمپل (Byodo-In Temple)‘ جو موروں کے حامل سرسبز جاپانی باغوں اور کوئی (Koi) مچھلی کے بڑے بڑے تالابوں میں گھرا ہوا ہے، ہوائی کے جزیرے اوہو میں واقع بدھ مت کا ایک الگ تھلگ مندر ہے۔ یہ مندر جاپان کے قدیم بیوڈوئن (Byodoin) ٹمپل جیسا ہے۔ خوبصورتی سے سجے ہوئے اس پگوڈے کو دیکھنے دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں کیونکہ اس کی رسومات میں تمام عقائد کے ماننے والوں کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔
(بشکریہ: ’’خبرونظر‘‘ بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ اسلام آباد، شمارہ: نومبر۔دسمبر ۲۰۰۶)
Leave a Reply