
انقرہ کانفرنس جو کل تک جاری تھی، اس میں صدر پاکستان اور آرمی چیف نے شرکت کی۔ جنرل پیٹریاس اور رچرڈ آرمٹیج نے یہ دھمکی دی کہ اگر پاکستانی فوج نے پاکستانی علاقوں میں مشتبہ دہشت گردی کے ٹھکانوں پر حملہ نہ کیا تو امریکی فوج خود حملہ کرے گی۔ اس دھمکی کا صدر نے کیا جواب دیا اور آرمی چیف کا کیا ردِعمل تھا، ہمیں معلوم نہیں لیکن اس دھمکی نے ہماری قومی غیرت کو للکارا ہے۔ اس کا جواب کیا ہو گا، پاکستانی قوم اس کا فیصلہ کرے گی۔ افغانستان میں جنگ ہارنے کے بعد اب امریکا کے اعصاب پر بدحواسی کا عالم طاری ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستان یہ جنگ جیت کر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جھولی میں ڈال دے لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ پاکستان خود اپنی تمام تر عسکری قوت استعمال کرنے کے باوجود وزیرستان، باجوڑ، دیر اور سوات میں فوجی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور بالآخر سیاسی حکومت کی کوششوں سے قبائل کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا ہے۔ پاکستان پر شدید دبائو ہے کہ لشکر کشی کا آغاز کر کے دیر، باجوڑ اور وزیرستان میں دوبارہ قتل و غارتگری کا بازار گرم کرے جس طرح یہ سنگین غلطی جنرل مشرف کے ہاتھوں سرزد ہوئی تھی اور ایک بار پھر پورا سرحدی علاقہ طوائف الملوکی کا شکار ہو جائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکا اپنے عوام کو افغانستان کی اصل صورت حال سے اندھیرے میں رکھنا چاہتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے اور یہ بات اپنے عوام کو بتانے میں جھجک محسوس کرتا ہے۔ اوبامہ نے اس حقیقت کا سامنا کرنے میں جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ عام انسانوں جیسا رویہ اختیار کر کے اپنے تشخص کو داغدار کیا ہے۔
امریکی صدر کی نئی پالیسی تاریخی حقائق سے چشم پوشی ہے۔ افغانستان میں مدافعت کو کچلنے کی بات اس بات کا واضح اعتراف ہے کہ زمینی حالات و حقائق پر ان کی نگاہ سطحی ہے اور ساتھ ہی وہ افغانستان سے فوجوں کی مرحلہ وار واپسی کے متعلق جامع حکمتِ عملی کی بھی بات کرتے ہیں جس میں انہیں نئے اتحادیوں مثلاً ایران، بھارت، چین، روس اور دیگر کئی ممالک سے تائید و تعاون کی توقع ہے جبکہ ان کے پرانے یورپی اتحادی جنگ لڑنے کا حوصلہ ہار چکے ہیں۔ اوبامہ نے بھارت اور ایران کو ’’رابطہ گروپ‘‘ کا نام دیا ہے جس کے پیچھے ایک نئی سازش نظر آتی ہے جو پاکستان کی سلامتی اور قومی یکجہتی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
جارش بش اور ان کا نیو کونز ٹولہ امریکا کے تشخص کو مجروح کرنے کا مکمل طور پر ذمہ دار ہے جبکہ اربوں ڈالر کا نقصان اس سے الگ ہے جو کہ غلط مہمات کی نذر ہو گئے۔ ان مہمات پر بے دریغ دولت لٹانے کا مقصد امریکا کی عالمی بالادستی کا قیام اور مسلم دنیا کی تزویراتی دولت کو اپنے کنٹرول میں لانا تھا۔ عالمی رائے عامہ کو اتنی آسانی سے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا کہ وہ پس پردہ عزائم کا اندازہ نہ کر سکے۔ جارج بش عراق اور افغانستان پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی آڑ میں جنگ مسلط کر کے عظیم امریکی قوم کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اوبامہ کا دھمکی آمیز اور تحکمانہ لہجہ صرف امریکیوں کا مورال بلند رکھنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ ان کا یہ کہنا کہ مدافعت کو ختم کر دیا جائے گا، محض ان کی خام خیالی ہے۔
امریکا نے اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ افغانستان میں مدافعت کو شکست دینا اس کے بس میں نہیں، تو اب یہ کام پاکستان کو سونپ دیا ہے۔ یہ انتہائی غلط سوچ ہے کیونکہ پاکستانی فوج ماضی قریب میں اپنے فوجی مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے اور مذاکرات کے ذریعے صلح کے معاہدے کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ اگر پاکستان نے امریکا کی خواہش پر امن معاہدے کو ختم کیا تو اس سے مراد پرویز مشرف کی غلطیوں کا اعادہ ہو گا۔ اگر پاکستان نے اس معاہدہ کو توڑ ڈالا تو اس سے نہ صرف محاز آرائی میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستانی فوج کی جگ ہنسائی بھی ہو گی اور یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے گی کہ ’’پاکستان میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں‘‘۔ اور اس کی قومی قیادت حوصلے اور اعتماد سے بے بہرہ ہے۔ یہی وہ احساس ہے کہ جس کی بنا پر امریکی قیادت کو جرأت ہوئی ہے کہ کل انقرہ میں کانفرنس کے دوران حملے کی دھمکی دی ہے جبکہ صدر اوبامہ اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوج پاکستان کی زمینی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرے گی اور امریکی فوج ہماری زمینی حدود کی خلاف ورزی کی جرأت کرتی ہے تو ہماری فوج اور ہمارے قبائلی اس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ہوش کے ناخن لیں ورنہ بعد میں انہیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے گا۔
یہ ایک المیہ ہے اور ہماری قومی قیادت کی فہم و فراست کا امتحان بھی ہے کہ وہ امریکا کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر اپنے تشخص کو داغدار بناتے ہوئے صدر مشرف کے جانشین ثابت ہوتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا حامل ہونے کے باوجود ایک ناکام ریاست ہونے کے مقام پر لاکھڑا کیا تھا۔ یاد رہے کہ اگر پاکستان نے محض ڈیڑھ بلین ڈالر کے عوض امریکی احکامات تسلیم کر لیے تو یہ ایک المیہ ہو گا۔ اوبامہ نے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ یہ امدادی پیکیج بلینک چیک کی صورت میں نہیں ہو گا بلکہ امریکی حکام اس کا باقاعدہ آڈٹ کیا کریں گے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امریکا کو پاکستان پر اعتماد نہیں ہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے واضح جواب یہ ہونا چاہیے کہ ’’افغانستان سے غیرملکی قابض فوجیں غیرمشروط طور پر نکل جائیں‘‘۔ امریکا پر یہ حقیقت واضح کر دی جانی چاہیے کہ علاقے میں مستقل امن کے قیام کی واحد راہ غیرملکی افواج کا انخلا ہے کیونکہ غلامی کی زندگی افغان قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ طالبان اور القاعدہ دونوں نے امریکا سے مل کر سرخ فوج کی شکست میں اہم کردار ادا کیا تھا جسے اب امریکا ختم کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ وسطی ایشیائی ممالک میں تیل و گیس کی معدنی دولت تک اس کی رسائی ممکن ہو سکے لیکن ان اہداف کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کرنا ناممکن ہے بلکہ چین کی طرح ’امن، تعاون اور رابطے‘‘ کی حکمتِ عملی اختیار کر کے مقاصد کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔
اسلامی مدافعتی قوت جو کہ پاک۔ افغان سرحدی علاقے سے ابھری تھی اور گزشتہ تیس برسوں سے مسلسل آزادی کی کامیاب جدوجہد کر رہی ہے، اس نے روس جیسی سپر پاور کو شکست سے دوچار کیا اور اب امریکا اور اس کے اتحادی بھی عنقریب اسی انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ اسلامی مدافعتی قوت ایک حقیقت ہے جو کہ اﷲ تعالیٰ کی ودیعت کردہ ہے جس سے انکار اپنے آپ کو شکست دینے کے مترادف ہے۔ مجاہدین کی جدوجہد اپنی سرزمین کی آزادی کا دفاع ہے اور جو عناصر افغانستان کے باہر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اُن کا اِن مجاہدین سے کوئی تعلق نہیں۔ مجاہدین کی اس جدوجہد کو جو بھی نام دے لیں لیکن ان کی دفاع وطن اور ملکی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کرنا ناانصافی اور خود فریبی ہے۔ یہ آزادی کی جنگ ہے جو منطقی انجام تک پہنچ چکی ہے۔ جونہی افغانستان سے غیرملکی فوجیں نکلیں گی مدافعتی کارروائیاں آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گی۔ یہ خدشہ کہ افغانستان سے غیرملکی فوجوں کے نکل جانے سے وہاں طالبان کی حکومت قائم ہو جائے گی اور پاکستان اور ملحقہ علاقے انتشار کا شکار ہو جائیں گے، ایک غلط سوچ ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ۱۹۹۰ء میں جب امریکا نے روسی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا تو کیا افغانستان اور پاکستان میں انتشار پھیلا؟ اس کے برعکس افغانستان میں طالبان نے مثالی امن و امان قائم کیا اور پاکستان میں جمہوری نظام مضبوط ہوا۔ اس لیے آج بھی قابض فوجیں اگر افغانستان سے نکل جائیں تو پورے علاقے میں امن کی فضا پیدا ہو گی جس طرح امریکا نے عراق سے نکل جانے کا اعلان کیا تو وہاں امن کی فضا قائم ہو چکی ہے اور قابض فوجوں کا انخلا ممکن ہوا ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ امریکا کی افغانستان پالیسی کو نیا رخ دیا جائے اور افہام و تفہیم کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جائے اور اس مشاورت میں روس، چین، ایران، بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کو بھی شامل کر کے ایک جامع لائحہ عمل تیار کیا جائے جس پر اقوامِ متحدہ عمل کرے اور افغانستان سے قابض فوجوں کے انخلا کے ساتھ ساتھ افغانستان کی تعمیر نو اور علاقے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
پاکستان پیپلز پارٹی ایک قومی سیاسی جماعت ہے اور اسی قدر اس کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں۔ اسی طرح نواز شریف کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلّمہ ہے اور انہیں چاہیے کہ ملک کو درپیش خطرات کے پیشِ نظر حکومت کے شانہ بشانہ کام کریں۔ بدقسمتی سے صدرِ پاکستان اور وزیراعظم کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اوبامہ کی نئی پالیسی کا خیرمقدم کیا ہے جو مناسب نہیںہے اِس لیے کہ اس پالیسی پر عملدرآمد سے پاکستان کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس پالیسی پر پارلیمنٹ کے اندر تفصیل کے ساتھ غور کرنے کے بعد ایک متفقہ لائحہ عمل پیش کیا جائے۔
عدلیہ کا آزاد اور بااعتماد ادارے کے طور پر ابھرنا نہایت حوصلہ افزا بات ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ نظامِ عدل کے قیام سے غریب اور پسے ہوئے عوام کو سستا اور یکساں انصاف مہیا ہو گا اور ان کا استحصال ختم ہو گا۔ سوات میں قاضی عدالتوں کے قیام کا صرف یہی مقصد ہے کہ عوام کو سستا اور فوری انصاف ملے۔ اگر سوات کی عدالتیں عوام کو انصاف مہیا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو اس سے قاضی عدالتوں کی افادیت ثابت ہو جائے گی۔ کیونکہ معاشرتی انصاف ایک ایسا عمل ہے جس سے مردہ معاشرے میں بھی زندگی کی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ عدالتوں میں اپنی مرضی کے ججوں کی تعیناتی سے ادارے کی افادیت بری طرح مجروح ہوتی ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کو محض شو پیس کے طور پر استعمال کرنے سے اس کے اغراض و مقاصد فوت ہو جائیں گے۔
ہماری قومی قیادت کو پاکستانی قوم کے شانہ بشانہ ہمت، حوصلے اور اعتماد کے ساتھ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر ہونا لازم ہے۔ یہ ہمارے امتحان کا وقت ہے کیونکہ ہمارے اپنے قبائلی ہمارے دشمن نہیں ہیں جن کے مقابل ہم جیت نہ سکے لیکن ہمارے دشمنوں نے ہماری سرحدیں عبور کر کے حملے کی دھمکی دی ہے اور ’’اصل دشمن کی نشاندہی کر دی ہے‘‘۔ کون پاکستانی ہے جو اصل دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر اس کی ناپاک سازشوں کو خاک میں ملانے کے لیے تیار نہ ہو گا۔
حضرت علی کرم اﷲ کا یہ قول ہمیشہ ہماری راہنمائی کرتا رہے گا ’’ناکامی کی بڑی وجہ بزدلی ہے اور مایوسی کی وجہ اعتماد کا فقدان ہوتا ہے‘‘۔ پاکستانی قوم نہ تو بزدل ہے اور نہ ان میں اعتماد و حوصلے کی کمی ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply