
سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا کہنا ہے کہ ایشیا کی ترقی سے بھرپور استفادہ امریکی معاشی اور تزویری مفادات کے لیے ناگزیر ہے۔
مالی میں فرانس کی عسکری مداخلت امریکا کے لیے بظاہر زیادہ اہم نہ تھی اور یہ بہت حد تک انفرادی معاملہ تھا، مگر اب چند ہفتوں ہی کے اندر یہ معاملہ مغربی مداخلت تک جا پہنچا ہے۔ کئی طاقتوں کے مفادات داؤ پر لگ گئے ہیں۔ امریکا اب اپنے حقیقی مفادات کے حوالے سے افریقا اور ایشیا دونوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔
مالی میں فرانس کی مداخلت نے دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔ لندن اور واشنگٹن کو محسوس ہو رہا ہے کہ فرانس کا تنہا جانا ان کے مفادات کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوگا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ مالی میں مغرب کو جو ریسپانس دینا ہے، وہ ہفتوں اور مہینوں پر نہیں بلکہ عشروں پر محیط ہوسکتا ہے۔ برطانیہ نے فرانس کے ساتھ مل کر کمانڈو اور ڈرون مالی بھیجنا شروع کردیے ہیں۔
امریکی دارالحکومت میں افریقی ساحلوں کے ساتھ ساتھ ایک وسیع جنگ چھیڑنے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ مغربی سفارت کار بھی اس حوالے سے خطرناک صورت حال کا انتباہ کر رہے ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ امریکا کسی بھی طور مالی کو شدت پسندوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ بنائے جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون میں بھی اعلیٰ افسران یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مالی میں امریکی عسکری مداخلت عین ممکن ہے کیونکہ یہ ملک تیزی سے شدت پسندوں کے لیے موافق مقام بنتا جارہا ہے۔ امریکا کسی بھی حال میں نہیں چاہے گا کہ افغانستان کے بعد ایک اور ملک شدت پسندوں کے لیے محفوظ مقام بنے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی عوام بھی ایک اور جنگ کے لیے تیار ہیں۔ ایک نیا محاذ اُن کے لیے زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ امریکا نے فرانسیسی طیاروں کو پرواز کے دوران ایندھن فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔ ساتھ ہی لاجسٹک کی سہولتیں بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ فرانسیسی فوجی امریکی طیاروں میں سوار ہوکر افریقی ممالک پہنچ رہے ہیں۔
دوسری طرف فضائی نگرانی کے امریکی شعبے نے فرانس کو شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے بارے میں بتانا شروع کردیا ہے۔ یہ نشاندہی ممکن طور پر بمباری اور ڈرون حملوں کے لیے ہے۔ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے لکھا ہے کہ امریکی محکمۂ دفاع نے شمال مغربی افریقا میں ایک ڈرون بیس بنانے کی تیاری بھی شروع کردی ہے تاکہ القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروپوں کے مشتبہ ارکان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے اور ضرورت پڑنے پر ڈرون حملے بھی کیے جاسکیں۔ یہ بیس نِیجر (Niger) میں ہوگی اور ضرورت پڑنے پر میزائل حملوں کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ شمالی افریقا میں ڈرون بیس کا قیام بنیادی طور پر مالی کی صورت حال کے حوالے سے ہے لیکن اگر ضرورت محسوس ہوئی تو امریکا اس خطے میں اپنی عسکری موجودگی کو توسیع بھی دے گا۔
مگر اب تک یہ واضح نہیں کہ امریکا کو اب القاعدہ سے کون سا خطرہ ہے۔ معروف امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ کے مینیجنگ ایڈیٹر بلیک ہاؤنشیل کہتے ہیں: ’’اب تک یہ واضح نہیں کہ امریکی مفادات کو اب القاعدہ سے کون سا خطرہ یا خطرات لاحق ہیں۔ بہت سے معاملات میں توضیح کی ضرورت ہے‘‘۔
شمال مغربی افریقا میں امریکی اور یورپی افواج کی مداخلت اور طویل موجودگی برقرار رکھنے کے لیے یہ بہانہ گھڑا جارہا ہے کہ وہاں سے شدت پسند مغربی مفادات پر حملے کرسکتے ہیں۔ محفوظ ٹھکانوں کا بہانہ بھی خوب تراشا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ دونوں مل کر یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ مالی کو مغربی ممالک پر حملوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اسٹیفن والٹ نے درست سوال کیا ہے کہ اس بات کا فرانس کے پاس کیا ثبوت ہے کہ مالی میں موجود شدت پسند اس پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ان کے نشانے پر یورپ کے دیگر ممالک اور امریکا بھی ہیں؟ اور اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ مالی میں موجود دہشت گرد اور شدت پسند مغربی ممالک پر حملے کی خواہش رکھتے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ ان کی اس حوالے سے تیاریاں کیا ہیں اور کیا وہ کسی طرح کا حملہ کرنے کی سکت بھی رکھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شدت پسندوں کے حملوں سے ہونے والا نقصان اس نقصان سے کم ہو جو مالی میں مداخلت کے نتیجے میں امریکا اور یورپ کو برداشت کرنا پڑ سکتا ہے؟
الجزائر میں اغوا کے ڈرامے سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات تیزی سے خراب ہوسکتے ہیں۔ فرانس کے صدر فرانکوا اولاند کا کہنا ہے کہ الجزائر میں جس طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مالی میں فرانسیسی فوج کی مداخلت درست تھی۔
ہم بارہا دیکھ چکے ہیں کہ کسی بھی ملک میں مداخلت سے صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ مداخلت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کسی بھی ملک یا خطے میں عسکری مداخلت مزید کئی مداخلتوں کو جنم دیتی ہے۔
مغربی دنیا کے قائدین اپنے اپنے عوام کو یہ یقین دلانے میں مصروف ہیں کہ مالی میں مداخلت ضروری ہے اور اس سے مفادات مستحکم ہوں گے مگر ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے لکھا ہے کہ مالی کی فوج کو تربیت دے کر مستحکم کرنے کے امریکی اور فرانسیسی دعوے بے بنیاد ہیں۔ اب تک یہ فوج اتنی مستحکم نہیں ہوسکی کہ معاملات کو بہتر انداز سے کنٹرول کرسکے۔ مغربی طاقتوں کو یقین اور امید ہے کہ وہ مالی میں جہادیوں کو بڑی تعداد میں قتل کرکے مغرب کے لیے خطرات کم کرنے میں بھرپور کامیابی حاصل کرلیں گی۔ مالی میں عشروں تک رہنے کی جو بات کہی جارہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب کی امیدیں رنگ لاکر رہیں گی۔
القاعدہ کے حوالے سے جو کچھ کہا جارہا ہے، اس میں بہت کچھ الجھا ہوا ہے۔ امریکا کی افریقی کمانڈ کے سربراہ جنرل کارٹر ہیم کہتے ہیں کہ مالی کے حوالے سے امریکی مداخلت کی بہرحال چند حدود ہیں۔ افریقا میں القاعدہ کس حد تک موجود ہے اور اس سے مغربی مفادات کو کس حد تک خطرات لاحق ہیں، اس حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے ۲۰۱۱ء میں کہا تھا کہ القاعدہ دوبارہ مستحکم ہو رہی ہے اور اس سے امریکی مفادات خطرے میں ہیں۔ جنرل کارٹر ہیم کہتے ہیں کہ ’’القاعدہ کے خلاف سب سے بڑی کامیابی یہ ہوگی کہ اسے مزید حملوں کے قابل نہ چھوڑا جائے اور شمالی افریقا میں اس کی جڑیں کمزور کردی جائیں‘‘۔
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ لیبیا اور شام میں اسلام نواز گروپوں کو مغرب کی طرف سے ملنے والی امداد کے نتیجے میں ان دونوں ممالک میں القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروپ بھی تقویت پاگئے ہیں۔
امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت ایک عشرے سے القاعدہ کے خلاف لڑائی اور اس پر قابو پانے کی بات کرتی آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ کا پیچھا کرنا اور اس پر قابو پانا امریکی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ اگر القاعدہ ختم ہوگئی یا اسے شکست دے دی گئی تو امریکا کے مختلف ممالک میں عسکری مہم جوئی کا کیا جواز رہ جائے گا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک بہتر یہ ہے کہ القاعدہ کا راگ الاپتے رہو اور اسے ختم کرنے یا قابو میں رکھنے کے نام پر عسکری مہم جوئی کرتے رہو۔ القاعدہ کا نام و نشان نہ رہا تو امریکا دنیا بھر میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کس بنیاد پر کرے گا؟ حتمی تجزیے میں یہی ثابت ہوگا کہ القاعدہ اس قدر مفید ہے کہ امریکا اسے ختم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ امریکا اور اس کے یورپی اتحادی مالی کی صورت حال کنٹرول کرنے کے نام پر دراصل افریقا میں چین کے اثرات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین نے افریقا میں قدم جمانے میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اس سے مغرب کی نیند اڑ گئی ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات اور خطے کے بدلتے ہوئے حالات نے مغرب کو افریقا کے معاملے میں ایک بار پھر نوآبادیاتی سوچ کی طرف دھکیل دیا ہے۔
اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں افریقا سے متعلق تحقیق کے شعبے کی سربراہ رضیہ خان کہتی ہیں کہ افریقا اور چین کے درمیان سالانہ تجارت اب ۲۰۰؍ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ایک عشرے کے دوران چین اور افریقا کی تجارت سالانہ ۶ء۳۳ فیصد کی شرح سے بڑھتی رہی ہے۔ یہ سب کچھ مغرب کے لیے بہت پریشان کن ہے اور سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ چند ہی برسوں میں چین کے لیے امریکا یا یورپ نہیں بلکہ افریقا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہوگا۔
ایسا نہیں ہے کہ امریکا نے یہ سب کچھ نظر انداز کر رکھا ہے۔ وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ امریکا نے صورت حال پر نظر رکھی ہے اور جان بوجھ کر پردے کے پیچھے رہتے ہوئے کام کر رہا ہے۔ کیری کہتے ہیں کہ چین نے افریقا میں اپنے قدم جمالیے ہیں۔ قدرتی وسائل کی تلاش اور ان سے استفادے کے حوالے سے کئی بڑے معاہدے کیے جاچکے ہیں۔ افریقا کے طرز زندگی پر چینی اثرات نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔
افریقا میں چین اپنے اثرات کا دائرہ جس تیزی سے وسیع کرتا جارہا ہے، وہ امریکا کے لیے حیرت انگیز رہا ہے اور اس نے معاملات کو کسی بھی مرحلے پر نظر انداز نہیں کیا۔ چین کو کسی نہ کسی طرح کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور اب شمالی افریقا میں القاعدہ کا ہوّا جان بوجھ کر کھڑا کیا جارہا ہے تاکہ غیر یقینی صورتِ حال کے ذریعے چین کے لیے مشکلات بڑھائی جائیں۔ امریکا اور یورپ اب اس معاملے میں قدرے جارحانہ رخ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ مالی میں انتہا پسندوں اور عسکریت پسندوں کی موجودگی کا تو بس بہانہ ہے، مقصد تو چین کو سگنل دینا ہے کہ وہ خطے میں اپنے اثرات بڑھانے سے اجتناب برتے۔ افریقا کے دوروں میں امریکی رہنما اپنے ارادوں کا کھل کر اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہلیری کلنٹن نے افریقا کے دورے میں واضح طور پر کہا تھا کہ امریکا جمہوریت اور عالمگیر سطح پر تسلیم شدہ بنیادی حقوق کی پاس داری کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرے گا، اور ایسی حالت میں آگے بڑھے گا جب ایسا نہ کرنے کی صورت میں زیادہ سہولت دکھائی دیتی ہو۔ مالی میں امریکی ماہرین سے تربیت پانے والی فوج نے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرکے امریکی دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ چین نے تمام معاملات پر نظر نہیں رکھی۔ چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے ہی وینپنگ کہتے ہیں: ’’مالی میں فرانسیسی فوج کی مداخلت نے بہت کچھ واضح کردیا ہے۔ اب مزید مداخلت کی راہ ہموار ہوگی۔ چین اس حوالے سے تمام امکانات کا جائزہ لے رہا ہے‘‘۔
اِس بدلتی ہوئی صورتِ حال میں چین کے لیے اپنے مفادات کا تحفظ ناگزیر ہوگیا ہے۔ اگر امریکا چاہتا ہے کہ ایشیا اور بالخصوص چین کی بڑھتی ہوئی ترقی اور خوشحالی سے مستفید ہو تو لازم ہے کہ وہ افریقا میں بھی ترقی کی لہر کو آگے بڑھنے دے تاکہ وہاں غیر معمولی معاشی فروغ کا فائدہ امریکی معیشت کو بھی پہنچے۔ اگر امریکا اور یورپ مل کر افریقا میں چین کے اثرات کم کرنا یا کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کئی طریقے اپنانے پڑیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طریقہ لازمی طور پر سب سے زیادہ پسندیدہ اور سب سے زیادہ کارگر طریقہ نہیں۔
(بین شرائنر امریکی ریاست وسکونسن کے آزاد تجزیہ نگار ہیں )
(“Hidden Agenda Behind America’s War on Africa: Containing China by Fighting Al-Qaeda”… “Global Research”. Jan. 29th, 2013)
Leave a Reply