
عظیم تر مشرق وسطیٰ کی تشکیل کے لیے امریکی ایجنڈے پر کچھ اس طرح عمل ہو رہا ہے کہ حال ہی میں ختم ہونے والے اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں امریکا نے افغانستان اور عراق کو تاراج کردیا ہے اور اب بھی اسے سکون سے سانس لینا نصیب نہیں ہو رہا ہے۔ امریکا نے پورے عشرے کے دوران کسی بھی مرحلے پر یہ نہیں سوچا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ امریکیوں نے اکیسویں صدی کا خیر مقدم گولہ بارود سے کیا تھا۔ اور پھر یہ ہوا کہ پورا عشرہ گولہ بارود کی نذر ہوگیا۔ ۱۱ ؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا جو ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشروں میں ویت نام اور کمبوڈیا کے بعد ایشیا میں اس کی پہلی باضابطہ جنگ تھی۔ یہ معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کی پہلی زمینی جنگ تھی اور ایشیا میں بھی یہ اس کی پہلی معرکہ آرائی تھی۔
دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر امریکا نے پوری افغان قوم کو کچل کر رکھ دیا۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ دہشت گردی ختم کردی جائے گی مگر اس کے بجائے افغان باشندوں کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔ ۱۹۹۱ء میں کویت پر سے عراق کا قبضہ ختم کرانے کے نام پر امریکا نے لشکر کشی کی اور پورے علاقے پر قابض ہوکر بیٹھ گیا۔ انسانی ہمدردی کے نام پر مداخلت کا بہانہ خوب تراشا گیا۔ امریکیوں نے جہاں بھی موقع دیکھا، فوجی اتار دیے۔ بیشتر معاملات میں یہ ہوا کہ امریکیوں نے لشکر کشی اور مداخلت کے مواقع خود پیدا کرلئے۔ اس معاملے میں بین الاقوامی قوانین کی بھی پروا نہیں کی گئی۔ اس وقت کونسا خطہ ہے جس میں امریکا کی تھوپی ہوئی پالیسیاں خرابیاں پیدا نہیں کر رہیں۔ یمن پر امریکی لشکر کشی کا خطرہ موجود ہے۔ ۲۰۰۳ء میں امریکا نے عراق پر لشکر کشی کی تو نیٹو کے مکمل ارکان نے زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ امریکا نے نیٹو کے ایسوسی ایٹ ارکان سے کہا کہ اگر وہ اس کا ساتھ دیں گے تو ان کی مکمل رکنیت کی راہ ہموار کی جائے گی۔ یہی سبب ہے کہ عراق پر امریکی لشکر کشی کے دوران مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والے ممالک نے امریکا کاکھل کر ساتھ دیا۔
امریکا نے فلپائن، صومالیہ اور ایتھوپیا پر فضائی اور بحری حملے کیے ہیں۔ اری ٹیریا سے جنگ میں امریکا نے جبوتی کی بھرپور مدد کی ہے۔ اسے اسلحے کے علاوہ تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔ جبوتی افریقا کا واحد ملک ہے جہاں کیمپ لیمونیئر میں مستقل امریکی فوجی اڈا قائم ہے۔ امریکا نے جبوتی، ایتھوپیا، اری ٹیریا، کینیا، سیشلز، صومالیہ، سوڈان، تنزانیہ، یوگنڈا، یمن، کوموروز، ماریشیس، مڈغاسکر اور بحیرہ عرب کے مغربی ساحلوں پر خوب قتل و غارت کی ہے۔ بحیرہ عرب اور بحر ہند کے علاقے عالمی تجارت کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ تیل کی ترسیل کے اعتبار سے یہ خطہ کم اہم نہیں۔
امریکا نے ایک عشرے کے دوران زمینی حملوں کے علاوہ ڈرون، میزائل اور دیگر فضائی حملے بھی کیے ہیں۔ بڑے پیمانے پر طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو استعمال کیا گیا ہے۔ امریکی جنگی جہاز پوری دنیا کے سمندروں میں متحرک رہے ہیں۔ ۲۷ دسمبر کو امریکی سیاست دان جوزف لائبر مین نے ایک اخبار میں لکھا کہ امریکا کو یمن میں جنگ چھیڑنے میں اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ دو دن بعد نیٹو کی سپریم کمانڈ برائے یورپ اور امریکا کی جنوبی کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل ویزلے کلارک نے کہا کہ امریکا کو اب یمن پر حملہ کردینا چاہیے۔ ان کی یہ بات بعد از وقت سی لگی۔ امریکا نے دسمبر کے وسط تک شمالی یمن میں القاعدہ کے مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ ایک گاؤں پر حملے میں مبینہ طور پر ۱۲۰ شہری جاں بحق ہوئے۔
یمن پر لشکر کشی کے لیے امریکا نے خاصا بھونڈا بہانہ یا جواز تلاش کیا ہے۔ کرسمس کے موقع پر ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم سے امریکی شہر ڈیٹرائٹ جانے والی پرواز پر نائجیریا کا نوجوان باشندہ عمر فاروق عبدالمطلب سوار ہوا۔ اس نے پرواز کے دوران ہی طیارے کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کرنے کی کوشش کی اور پکڑا گیا۔ امریکی انٹیلی جنس نے اعتراف کیا کہ اسے عمر فاروق کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا تاہم یہ معلومات کسی بھی دوسرے ادارے کو نہیں دی گئیں۔ اس پر امریکی صدر بارک اوباما خاصے برہم دکھائی دیے اور خفیہ اداروں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ مبصرین کے خیال میں صدر کی برہمی اور انٹیلی جنس کو تنقید کا نشانہ بنانا محض ڈراما ہے۔ عمر فاروق سے تفتیش کے دوران یہ بیان منسوب کیا گیا کہ اس نے دھماکہ خیز مواد استعمال کرنے کی تربیت اور امریکی طیارہ تباہ کرنے کی ہدایت یمن میں حاصل کی تھی۔ اس انکشاف کو بنیاد بناکر امریکا اب یمن میں جنگ چھیڑنے کا خواہش مند دکھائی دے رہا ہے۔
امریکا کہتا ہے کہ القاعدہ کو یمن میں ختم کرنا ناگزیر ہے۔ القاعدہ کی موجودگی اور فعالیت کو جواز بناکر شمالی یمن میں فضائی حملے کیے گئے ہیں اور ان حملوں میں القاعدہ کے بگ وگز کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے جبکہ خود امریکی دعووں کے مطابق القاعدہ جنوبی یمن میں سرگرم ہے!
امریکا نے اپنی عسکری سرگرمیوں کو ایشیا اور افریقا تک محدود رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ۳۰ ؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو امریکا نے جنوبی امریکا کی ریاست کولمبیا سے معاہدہ کیا جس کے تحت وہ سات فوجی اڈے استعمال کرسکے گا۔ ان اڈوں کو وینیزوئیلا اور اکواڈور پر حملوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کولمبیا کی باغی تنظیم ریوولیوشنری آرمڈ فورسس آف کولمبیا پر دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اسے سبق سکھانے کے نام پر وینیزوئیلا اور اکواڈور کی حدود میں مختلف ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ امریکا بولیویا کے خلاف بھی جنگ چھیڑنے کے موڈ میں ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کیریبین کے علاقے میں یہ اس کی تھوپی ہوئی پہلی جنگ ہوگی۔ ۲۸ جون ۲۰۰۹ء کو امریکا نے ہونڈراس میں فوجی بغاوت کی حمایت کی۔ اس حمایت کا مقصد بظاہر بولیویا کے خلاف ہونڈراس کو استعمال کرنا ہے۔ امریکا کو ہونڈراس میں سوٹوکانو ایئر بیس استعمال کرنے کی اجازت دی جاچکی ہے۔ کولمبیا نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ وینیزوئیلا کی سرحد کے نزدیک ایک ایئر بیس پر ۶ ؍ایئر بورن بٹالینز تعینات کر رہا ہے۔ ہالینڈ کے ایک سیاست دان ہیری وان بومیل نے بتایا ہے کہ وینیزوئیلا کے ساحل کے نزدیک نیدر لینڈ اینٹیلیز کے جزیرے کوراکاؤ کی ایئر بیس کو بھی امریکا استعمال کر رہا ہے۔
اکتوبر میں امریکی مسلح افواج کی مطبوعات نے انکشاف کیا کہ امریکا محکمہ دفاع نے بلغاریہ اور رومانیہ میں سات نئے فوجی اڈوں کے قیام کی مد میں ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر مختص کیے ہیں۔ ان فوجی اڈوں پر چار ہزار امریکی فوجی تعینات کیے جائیں گے۔ دسمبر میں امریکا نے پولینڈ سے بھی ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت، ۱۹۹۱ء میں وارسا پیکٹ اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی بار، پولینڈ کی سرزمین پر امریکی فوجی تعینات کیے جائیں گے۔ امریکا پولینڈ میں پیٹریاٹ ایڈوانسڈ کیپیبلٹی تھری اور اسٹینڈرڈ میزائل تھری کی بیٹریاں نصب کرنا چاہتا ہے۔ امریکا پولینڈ میں گلوبل انٹرسیپٹر میزائل سسٹم نصب کرکے پورے یورپ پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔
چند ماہ قبل امریکی صدر بارک اوباما نے ترک وزیر اعظم طیب اردگان سے ملاقات کے دوران انہیں اس بات پر آمادہ کرلیا کہ ترک سرزمین پر امریکی میزائل شیلڈ کے کمپوننٹس نصب کر دیے جائیں۔ ان کا وعدہ تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں نیٹو میں ترکی کا پروفائل مضبوط ہوجائے گا اور اسے یورپی یونین کی مکمل رکنیت کے حصول میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ترک وزیر خارجہ احمد داؤتوغلو نے انہی دنوں کہا کہ تہران سے ان کے ملک کو کچھ خاص خطرہ محسوس نہیں ہوتا تاہم اگر نیٹو نے تہران سے نمٹنے کے لیے کوئی میکنزم وضع کیا تو ترکی کے لیے اس کا حصہ نہ بننا ممکن نہ ہوگا۔
افغانستان اور عراق میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا سلسلہ سات آٹھ سال کے دوران جاری ہی رہا ہے۔ متعدد فوجی ایسے ہیں جو عراق یا افغانستان میں تین یا چار مرتبہ خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وار زون میں تعیناتی کے باعث ان میں بہت سی نفسیاتی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوچلی ہیں۔ امریکی فوج کو بھی اس چیلنج کا احساس ہے۔ اس کے باوجود امریکی حکومت عسکری پالیسیاں تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ افغانستان، یمن، صومالیہ اور دوسرے کمزور ممالک پر ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
جن ممالک میں کوئی تنازع چل رہا ہے وہاں تعیناتی کے علاوہ امریکی فوجی ان ممالک میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں جو تنازع کے بعد کا دور گزار رہے ہیں۔ البانیہ، بوسنیا، بلغاریہ، کولمبیا، جبوتی، جارجیا، اسرائیل، اردن، کوسووو، کویت، کرغزستان، مقدونیہ، مالی، فلپائن، رومانیہ، یوگنڈا اور ازبکستان میں بھی امریکی فوجی تعینات ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ۲۰۱۰ء کے دوران امریکا مختلف خطوں میں جنگ چھیڑنے کی کوشش کرے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ غیر یقینی صورت حال پیدا کی جاسکے۔
(بحوالہ: ’’گلوبل ریسرچ ڈاٹ کام‘‘۔ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply