
جوہری پھیلاؤ اور ماحول کی تبدیلی موجودہ دور کے انتہائی تشویش ناک مسائل ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی اب تک کی کارکردگی نے اسے ناگہانی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ ان دونوں مسائل کی سنگینی بڑھتی جارہی ہے۔ ’’ٹروتھ آؤٹ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ مفکر نوم چومسکی نے حالیہ مہینوں میں پیش آنے والے چند اہم واقعات (مثلاً شام کی ایئر بیس پر امریکی بمباری اور روس، ایران اور شمالی کوریا سے امریکا کے تناؤ) پر بات کی ہے۔ یہ انٹرویو ڈینیل فالکن نے لیا۔ اس انٹرویو کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
ڈینیل فالکن: آپ ماحول کی تبدیلیوں اور جوہری پھیلاؤ جیسے اہم معاملات پر مین اسٹریم میڈیا کی خاموشی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
نوم چومسکی: اگر آپ جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں یعنی کہ ان کے معاملات مین اسٹریم میڈیا میں کیوں نہیں لائے جاتے تو ’’دی بلیٹن آف تھع ایٹمک سائنٹسٹس‘‘ کے یکم مارچ کے شمارے پر نظر دوڑایے۔ اس میں میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے دو ماہرین ہنس ایم کرسٹن سن اور ٹیڈ پیسٹول کا ایک شاندار مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں دونوں نے اس نکتے پر بحث کی ہے کہ اوباما دور میں دو نئے ٹارگٹ سسٹم ایجاد ہوچکے ہیں۔ اب ٹرمپ انتظامیہ اسے خطرناک طریقے سے آگے بڑھا رہی ہے۔ اس مضمون سے پتا چلتا ہے کہ امریکی میزائل سسٹمز اس قدر جدت حاصل کرچکے ہیں کہ وہ پل بھر میں روسی ڈیٹرنس کو مٹا سکتے ہیں۔
اس پیش رفت نے جوہری ہتھیاروں کے دم سے قائم ہونے والے طاقت کے توازن اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے استحکام کو ختم کردیا ہے۔ اور روسی اس بات سے بے خبر نہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر اُنہیں کبھی خطرہ محسوس ہوا تو وہ فوری حملے پر مجبور ہوں گے کیونکہ اُنہیں بعد میں حملہ کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ انہیں اس خطرے کا احساس ہونے کا مطلب ہے کہ ہم سب پہلے مریں گے۔ مجھے حیرت ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں اس پر بات نہیں کی جارہی۔ نیو یارک ٹائمز اور چند دوسرے اخبارات و جرائد نے اپنی عادت کے مطابق امریکی پالیسیوں کو سراہتے ہوئے ٹرمپ کے شام پر میزائل حملے کی تعریف کی لیکن اس پر افسوس کیا کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی انتہائی ناقص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خارجہ پالیسی ڈاکٹرائن کا دارومدار کابینہ میں کی گئی نامزدگی پر ہے۔ یہ ٹیم ایک ویڈیو گیم کی طرح کمزور اہداف منتخب کرتی ہے۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردی اور جوہری پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ان کی فعالیت دیکھ کر یہ تاثر گہرا ہوتا ہے وہ ان معاملات کو مزید سنگینی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
دہشت گردی ایک غیر واضح جہت رکھتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ جوہری پھیلاؤ روکنے کی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کر رہے۔ اگر وہ ایسا کر رہے ہوتے تو اب تک بہت سی تبدیلیاں نظر آتیں۔ ایک بات یاد رہے کہ ایران کوئی حقیقی ایشو نہیں۔ اُس کے ساتھ مسائل کئی سال پہلے طے ہوجانے چاہیے تھے۔ برازیل کے ایک سابق سفارت کار سیلسو اموریم نے ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے ۲۰۱۰ء میں ترکی کے ساتھ مل کر ایران سے تنازع حل کرنے کی کوشش کا آغاز کیا تو اُنہیں پتا چلا کہ امریکا سے باہر کی دنیا ایران کو مسئلہ سمجھتی ہی نہیں۔
غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بنی نوع انسان کو بدترین خطرے کا سامنا ہے لیکن وہ ایران کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں۔ اوباما اور مس کلنٹن نے یہ معاہدہ فوراً طے کرلیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دیگر افراد اس میں شامل ہوں۔ امریکا نے ان معاملات کو آگے بڑھانا تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔ بظاہر اس کا سبب یہ تھا کہ ہلیری کلنٹن چاہتی تھیں کہ سیکورٹی کونسل ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دے۔ ایران پر پابندیاں لگانے کا مطلب ایٹمی پھیلاؤ کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ یہی کچھ اب شمالی کوریا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں شمالی کوریا کے خلاف جارحانہ اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
سمندر سے فائر کیے جانے والے میزائلوں سے خطرہ بڑھ چکا ہے لیکن سفارتی آپشن کیوں استعمال نہیں کیا جا رہا؟ شمالی کوریا اور چین نے تجویز پیش کی جو کافی معقول دکھائی دیتی ہے کہ شمالی کوریا اپنے ایٹمی پروگرام کو ترقی دینا روک دے گا (جتنے ہتھیار موجود ہیں اُنہیں برقرار رکھے گا) اور اس کے بدلے میں امریکا اس کے خلاف جارحانہ فوجی اقدامات روک دے۔ یہ ایک معقول تجویز تھی لیکن امریکا نے اسے فوراً مسترد کردیا۔ اس پر پریس نے کچھ کہنا گوارا نہ کیا۔ ہتھیاروں کو جدت دینے والا پروگرام ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح سیکیورٹی کے پیمانے غیر اہم ہوچکے ہیں۔ اب ہمیں سیکیورٹی دکھائی نہیں دیتی۔ دشمن کی ڈیٹرنس کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس پیش رفت کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلے گا۔ حریف ملک خطرہ محسوس کرتے ہی پوری قوت سے حملہ کردے گا۔ اور اس کا مطلب جوہری تصادم اور دنیا سے زندگی کا خاتمہ ہوگا۔
ڈینیل فالکن: ہم وہاں فوجی موجودگی بھی رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ آپ نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے ڈیٹرنس ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ جنوبی کوریا اور وہاں موجود امریکی فوج ہے۔
نوم چومسکی: اگر امریکا شمالی کوریا پر حملہ کرے تو اس کے لیے شمالی کوریا کو تباہ کرنا کچھ مشکل نہیں مگر اس کے ساتھ ہی جنوبی کوریا بھی صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اس کے لیے شمالی کوریا کو جوہری بم استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کا خوفناک توپ خانہ ہی اس مقصد کے لیے کافی ہوگا۔
ڈینیل فالکن: شام میں امریکی موجودگی کے تناظر میں سوچیے تو کیا خانہ جنگی کے شکار اس ملک کے لیے اب بھی کوئی سیاسی حل موجود ہے؟
نوم چومسکی: شام سے امریکا کے تعلقات اور سیاسی حل کے حوالے سے سوچنے پر مجھے میدیا بینجامن یاد آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ امریکا اور شام کے پاس سیاسی حل کے امکانات موجود تھے لیکن اُنہیں کبھی آزمانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ۲۰۱۲ء میں کچھ تجاویز سامنے آئی تھیں۔ اقوام متحدہ میں روسی سفارت کار نے سیاسی حل سے متعلق چند تجاویز پیش کی تھیں جن کے مطابق بشارالاسد کو بتدریج ہٹایا جانا تھا لیکن مغرب نے ان تجاویز کو بیک جنبش قلم مسترد کردیا۔
ہم نہیں جانتے کہ وہ تجاویز کس حد تک حقیقت پسندانہ تھیں لیکن وہ کریملن کی طرف سے نہیں آئی تھیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تجاویز کو زیر بحث لائے بغیر کیوں مسترد کردیا گیا؟ نائن الیون کے بعد بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ طالبان شاید اسامہ بن لادن کو وطن سے نکال دیتے لیکن طیش کے عالم میں امریکا کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ وہ طاقت کا استعمال کرنے پر تلا ہوا تھا۔ ایک معقول بات کو ذہن میں رکھیں، طالبان نے کوئی غلط بات نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ نائن الیون میں اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت فراہم کیا جائے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply