
سفارتی مناقشے کی روشنی میں پاکستان اور سعودی عرب اپنی اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ (مقبوضہ) جموں و کشمیر میں گزشتہ برس ۵؍اگست کو بھارت کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات ابھرے ہیں۔ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اُسے بھارت کا حصہ بنانے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی کوشش پر پاکستان نے چاہا کہ اسلامی دنیا اس کا ساتھ دے۔ اس نے جموں و کشمیر کی صورتِ حال پر اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) کی سربراہ کانفرنس بلانے پر زور دیا مگر سعودی عرب اس کے لیے راضی نہ ہوا۔ جب او آئی سی کا اجلاس بلانے کی کوشش ناکام رہی تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اگست ۲۰۲۰ء کے اوائل میں سعودی عرب کے خلاف زبان کھولی اور ساتھ ہی ساتھ انتباہ بھی کیا کہ اگر سعودی عرب نے جموں و کشمیر کی صورتِ حال پر او آئی سی کا اجلاس طلب نہ کیا تو پاکستان ہم خیال مسلم ممالک کا اجلاس طلب کرے گا تاکہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جاسکے۔
اگر پاکستان (مقبوضہ) کشمیر کے مسئلے پر سعودی عرب سے اپنی بات منوانا چاہتا تھا تو اسے شدید ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سعودی عرب نے ۳؍ارب ڈالر کا قرضہ فوری ادا کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا اور ساتھ ہی ساتھ ۳؍ارب ۲۰ کروڑ ڈالر کا تیل ادھار فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ شاہ محمود قریشی کے بیان کے فوراً بعد جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے معاملات درست کرنے کے لیے سعودی عرب کا دورہ کیا تو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ان سے ملنے پر راضی نہ ہوئے۔
شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب پر تنقید کرتے ہوئے جو بیان دیا تھا اس پر ملک میں خاصا ہنگامہ برپا ہوا تاہم فوج نے ان کے بیان کی کھل کر مذمت سے گریز کیا۔ پاکستان میں بیشتر ریاستی امور پر فوج کا واضح تصرف ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی اگر مکمل طور پر فوج کے ہاتھوں میں نہیں بھی ہے تو اتنا ضرور ہے کہ اس کی بات بہت حد تک سنی جاتی ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ شاہ محمود قریشی نے جو کچھ کہا اُس کے لیے انہیں فوج کی حمایت حاصل نہ ہو یا منظوری نہ ملی ہو۔
اسٹریٹجک معاملات میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اختلافات کچھ مدت سے پنپ رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے اختلافات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ عمران خان نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’’ہماری طرح سعودی عرب کی بھی اپنی خارجہ پالیسی ہے۔ ضروری تو نہیں کہ سعودی عرب وہی کہے اور کرے جو ہم چاہتے ہیں۔‘‘ شاہ محمود قریشی نے جو کچھ بھی کہا وہ راتوں رات ابھرنے والے جذبات کا اظہار نہیں تھا۔ کم و بیش ایک ماہ سے (مقبوضہ) کشمیر کی صورت حال پر سعودی عرب کی طرف سے کچھ نہ کیے جانے کا یہی نتیجہ نکل سکتا تھا۔
کشمیر کے معاملے میں بھارت کے خلاف سعودی عرب کی طرف سے ایک لفظ بھی نہ بولا جانا ایسی بات نہیں جسے سمجھنا زیادہ دشوار ہو۔ بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔ وہ سرمائے کے حوالے سے بھی پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ کچھ دے سکتا ہے۔ سعودی عرب اور بھارت کی باہمی تجارت ۳۳؍ارب ڈالر کی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی تجارت سے یہ کم و بیش دس گنا ہے۔ محض اسلام آباد کو خوش کرنے کی خاطر ریاض ایسی کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا جو نئی دہلی کو ناراض کردے۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ کشمیر کی صورتِ حال پر اختلافات کے باوجود پاکستان کی قیادت سعودی عرب سے تعلقات زیادہ بگاڑنا نہیں چاہتی۔ پاکستان کی سعودی پالیسی میں بھی راتوں رات کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی کے بیان کے بعد آرمی چیف کا سعودی عرب کا دورہ اور اس کے بعد پاکستانی وزارتِ خارجہ کی طرف سے کشمیر پر سعودی عرب اور او آئی سی کی سابقہ خدمات کا سراہا جانا ناقابلِ فہم نہیں۔
بہت سے مواقع پر سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کرکے اُسے شدید اقتصادی بحران سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سعودی حکمران پاکستان کو بہت بڑے پیمانے پر تیل بھی ادھار دیتے رہے ہیں۔ پاکستان کو مالیاتی سطح پر بھی شدید نقصان سے بچانے کے لیے سعودی عرب کئی بار میدان میں آیا ہے۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی کماکر جو کچھ گھر بھیجتے ہیں وہ پاکستان کی ترسیلاتِ زر کا ایک چوتھائی ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی قیادت سعودی عرب پر انحصار کم کرنا چاہتی ہے۔ سعودی عرب پر انحصار بڑھنے سے داخلہ اور خارجہ پالیسی پر اس کا اثر و نفوذ بھی بڑھ گیا تھا۔ سعودی عرب پر انحصار نہ کرنے کا عمل مرحلہ وار ہے۔ راتوں رات کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ خیر، یہ عمل اب شروع کیا جاچکا ہے۔
دسمبر ۲۰۱۹ء میں ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور میں ایک نئے اسلامی بلاک کی بنیاد پڑی۔ ترکی، ایران، قطر اور ملائیشیا نے مل کر سربراہ اجلاس منعقد کیا، جس میں کشمیر کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔ اس حوالے سے ترکی اور ایران نے واضح موقف اختیار کیا۔ دونوں کا یہ کہنا تھا کہ بھارت نے کشمیریوں پر ظلم ڈھایا ہے اس لیے اس کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کو بھی شریک ہونا تھا۔ اسے دعوت نامہ بھیجا گیا تھا تاہم آخری لمحات میں اس نے، بظاہر سعودی عرب کے دباؤ پر، کوالا لمپور سربراہ اجلاس میں شریک ہونے سے گریز کیا۔ بعد میں وزیر اعظم عمران خان خصوصی طور پر کوالا لمپور گئے اور ملائیشین ہم منصب مہاتر محمد سے ملے۔ انہوں نے ترکی کے کردار کو بھی سراہا اور یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی کہ ترک صدر رجب طیب ایردوان ان کے ہیرو ہیں۔ ہوسکتا ہے پاکستان کسی نئے اسلامی بلاک کی تشکیل میں حصہ نہ لے مگر یہ بھی طے ہے کہ سعودی عرب کے مقابلے میں ایران اور ترکی سے اپنے تعلقات پاکستان بلند سطح پر ہی پر رکھنا پسند کرے گا۔
ایران اور ترکی مل کر پاکستان کو بھارت کے خلاف اتحاد بنانے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ بھارت کو ایک خاص حد تک رکھنا پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ایسے میں ایران اور ترکی ساتھ مل جائیں تو اس کے لیے معاملات بہت بہتر ہوجائیں۔ سعودی عرب نے کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے بھارت کے خلاف جانے سے اب تک گریز کیا ہے۔ اس کی طرف سے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی کشمیر پالیسی پر اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف ایران اور ترکی نے کشمیر کی صورتِ حال پر بھارت سے تعلقات بگاڑنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ انہوں نے نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی کارروائیوں اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مسلم دشمن پالیسی پر شدید تنقید کی ہے۔ دونوں ممالک نے بھارت کی طرف سے شدید ردعمل کی بھی پروا نہیں کی۔ رجب طیب ایردوان نے چند برسوں کے دوران خود کو اسلامی دنیا کے ہر بڑے کاز کا چیمپین ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ انہوں نے بھارت کو کشمیر کے حوالے سے نشانہ بنانے میں بھی تساہل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بھارت کو مزید برہم کرنے کے لیے ترک صدر نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور دنیا کو بتایا کہ یہ معاملہ ابھی سرد نہیں پڑا۔
چین اب تک پاکستان کے لیے ہر مشکل گھڑی کا ساتھی ثابت ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب سعودی عرب کی ناراضی کی بھی پروا نہیں کی جارہی۔ چین نے بہت سے معاشی و مالیاتی اور سیاسی معاملات میں پاکستان کی اس قدر مدد کی ہے کہ اب اُسے سعودی عرب سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ چین کو بھی برصغیر کے خطے میں بھارت جیسے بڑے حریف کو قابو میں رکھنے کے لیے مضبوط پاکستان درکار ہے۔ یہی سبب ہے کہ چین نے چند برسوں کے دوران کشمیر کے معاملے میں پاکستان کی غیر معمولی حمایت و معاونت کی ہے۔ ہر بڑے بین الاقوامی فورم میں چین نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ سرحدی تنازعات کے حوالے سے چین اور بھارت کے تعلقات کشیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو چین کی طرف سے مزید حمایت و تعاون کی توقع رکھنی ہی چاہیے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ چین نے کشمیر کی بدلی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں عمران خان کی حکومت کو گلگت بلتستان کو مکمل صوبے کا درجہ دینے کی صورت میں بھرپور حمایت کا یقین دلایا ہے۔
جب سعودی عرب سے سفارتی معاملات خراب چل رہے تھے اور سعودی عرب نے پاکستان سے تین ارب کا قرضہ چکانے کی بات کہی تب چین نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر دیے تاکہ وہ سعودی عرب کو قرضہ ادا کرسکے۔ چین پہلے بھی اس نوعیت کی مدد کرتا رہا ہے۔ عمران خان بھی دو ٹوک انداز سے کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین سے وابستہ ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انشئیٹیو میں شامل سی پیک (چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور) بھی پاکستان کے لیے انتہائی اہم منصوبہ ہے۔
چین جتنی بھی معاشی یا مالیاتی امداد دیتا ہے، وہ اپنے ساتھ کچھ پیچیدگیاں بھی لاتی ہے۔ چین کی طرف سے دی جانے والی بیشتر امداد بنیادی طور پر قرضے کی شکل میں ہوتی ہے۔ پاکستانی قیادت بھی اس حقیقت سے باخبر ہے مگر پھر بھی عمران خان یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے چین بہت اہم ہے اور سی پیک بھی کم اہم نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کے لیے بہت سے معاشی مواقع پیدا ہوں گے۔ حال ہی میں چند اہم منصوبوں پر کام شروع ہوا ہے۔ فوج نے بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ یہ منصوبے بروقت مکمل ہوں۔ چین کی طرف سے ملنے والی مالی امداد کے ساتھ اگر چند پیچیدگیاں بھی ہیں تو پاکستان ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے کیونکہ اسے فی الحال سعودی عرب سے تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا سامنا کرنا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Amid a diplomatic spat with Saudi Arabia, Pakistan rethinks its foreign policy”.(“World Politics Review”. Oct. 1, 2020)
Leave a Reply