مصر کے سابق وزیر خارجہ امر موسیٰ کہتے ہیں کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام سے پیدا شدہ بحران کے خاتمے کے لیے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی سے تو مذاکرات کے لیے تیار ہے مگر عرب دنیا سے بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتا۔ کیوں؟
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اپنے دفتر میں انٹرویو دیتے ہوئے امر موسیٰ نے کہا کہ ایران کا ایٹمی بحران خطے کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اسے عرب دنیا سے بات چیت کرنی چاہیے۔
امر موسیٰ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۱ء تک ۲۲ عرب ریاستوں کی تنظیم عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے ہیں۔ اس سے پہلے آپ ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۱ء تک مصر کے وزیرخارجہ رہے، ۱۹۹۰ء میں آپ کو اقوام متحدہ میں مصر کا مستقل مندوب مقرر کیا گیا۔ امر موسیٰ سے انٹرویو میں ’’عرب بہار، ترکی کے علاقائی کردار، مصر کے خارجی تعلقات، مصر ترکی تعلقات، شام کے بحران اور مسئلہ فلسطین‘‘ پر گفتگو ہوئی۔ انٹرویو کے اقتباسات نذر قارئین ہیں:
☼ مصر میں عوامی بیداری کی لہر کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
امر موسیٰ: مصر میں انقلاب آیا اور ملک تبدیل ہوگیا۔ نتائج خواہ کچھ رہے ہوں، ملک میں انتخابات کے بعد اخوان المسلمون کی حکومت بنی ہے اور انقلابی نہ سہی، اسلامی رجحان ضرور رونما ہوا ہے۔ اور ایک مصر پر کیا موقوف ہے، پوری عرب دنیا ہی تبدیلی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب کوئی بھی تبدیلی کو روک نہیں سکتا۔
☼ مصر میں انقلاب تکمیل سے ہمکنار ہوچکا ہے یا اس حوالے سے ابھی تبدیلیوں کی گنجائش ہے؟
امر موسیٰ: ایک مرحلہ ختم ہوا ہے اور دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ مصر میں بہت کچھ بدل رہا ہے۔ انقلابی جذبہ سلامت ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ اس کے لیے لازم ہے کہ زیادہ سے زیادہ شعبے تبدیل ہوں، خرابیوں کا خاتمہ ہو اور خوبیوں کو راہ ملے۔ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا، اسے واپس لانے والی کوئی بھی چیز قبول نہیں کی جائے گی۔ آمریت کی طرف لے جانے والے ہر عمل کی راہ مسدود کردی جائے گی۔ جمہوریت کی راہ ہموار ہوچکی ہے اور ملک سلامتی و استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
☼ انقلاب کے لیے مغرب کی حمایت اور مدد کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
امر موسیٰ: ابتدا میں مغرب مصر کے انقلاب کی بھرپور حمایت کرنا چاہتا تھا اور اس نے حمایت کی بھی۔ مگر تذبذب ابھرا اور نہ صرف مغربی طاقتوں بلکہ اخوان المسلمون اور نوجوان انقلابیوں کے درمیان بھی یہ کیفیت پیدا ہوئی۔ جو تھوڑی بہت بے یقینی پائی جاتی ہے اس سے قطع نظر، مغربی دنیا کا فرض ہے کہ انقلاب کے بعد کے مصر کی بھرپور مدد کرے تاکہ جمہوریت کو استحکام ملے۔
☼ اسلامی دنیا کے حوالے سے مغرب کے رویے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
امر موسیٰ: صدارتی امیدوار کی حیثیت سے میں نے کہا تھا کہ اگر مجھے منصب ملا تو میں مصر کو یورپی یونین کا رکن بنانے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ یورپی یونین کی رکنیت کے لیے کوششوں کا آغاز کرنے کے بعد ترکی میں بھی کئی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ہم یورپی نہیں ہیں اور نہ ہمارا یورپ سے کوئی لنک ہے۔ مگر اس کے باوجود میری خواہش ہے کہ ترکی جیسا تجربہ کیا جائے۔ ترکی اپنے آپ کو یورپ کا حصہ کہتا ہے۔ مگر اسے اب تک یورپی یونین کی رکنیت نہیں ملی۔ اس کے لیے ہم ’’امکانی ممبر شپ‘‘ کی اصطلاح استعمال کر سکتے ہیں۔
☼ ترکی کے علاقائی کردار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
امر موسیٰ: ترکی ایک مضبوط ملک ہے جسے مشرق وسطیٰ میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی نرم قوت غیر معمولی وقعت رکھتی ہے۔ میں ذاتی طور پر مصر اور ترکی کے درمیان کوئی تنازع نہیں دیکھتا اور مجموعی طور پر پوری عرب دنیا ترکی کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ہاں، ترکی کے علاقائی کردار کے بارے میں غور کرتے وقت چند امور کا خیال رکھنا لازم ہے۔ سب سے پہلے تو ترکی کی پوزیشن، پھر فلسطین کا مسئلہ اور آخر میں حزب اللہ کا معاملہ۔ مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے حوالے سے بھی ترکی کا کردار بہت اہم ہے، اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ عرب دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور بالخصوص شام کی صورتِ حال کے تناظر میں ترکی کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔ عرب ایران تعلقات اور کردوں سے تعلقات پر بھی ترکی کا کردار بہت اہم ہے۔ ترکی کئی اعتبار سے خطے کا ایک اہم ملک ہے۔
☼ مشرق وسطیٰ میں استحکام پیدا کرنے کے حوالے سے ترکی اور مصر مل کر کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
امر موسیٰ: میرا خیال یہ ہے کہ دونوں ممالک خطے کے لیے بہت اہم ہیں اور مل کر بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے اسٹریٹجک سطح پر افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ عرب اسرائیل تنازع، عرب دنیا میں بیداری کی لہر، شیعہ سُنّی تقسیم اور دیگر معاملات میں دونوں ممالک مل کر بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اب تک دونوں نے اشتراکِ عمل کے حوالے سے کچھ سوچا نہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ دونوں ممالک کی ترجیح، باہمی اشتراک ہوگی۔
☼ انقلاب کے بعد مصر ایک بار پھر اپنا علاقائی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اس اعتبار سے مصر کی قیادت اور عوام ترکی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
امر موسیٰ: دونوں کو مل کر آگے بڑھنا ہے۔ اگر مصر کا علاقائی کردار وسعت اختیار کرتا ہے تو ترکی میں اِسے مخاصمانہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ مصر کے کردار میں وسعت کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ ترکی کا کردار گھٹ رہا ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے جسے برملا تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کو اشتراکِ عمل کے شعبے تلاش کرنے چاہئیں۔
☼ ترک قیادت مصر میں تمام سیاسی قوتوں کو ایک نظر سے دیکھتی ہے، مساوی اہمیت دیتی ہے۔ آپ اس معاملے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
امر موسیٰ: میں یہ کہوں گا کہ مصر ایک معاشرہ ہے۔ دو طرفہ تعلقات میں وسعت اُسی وقت آسکتی ہے جب ترکی مصری معاشرے کو اکائی کی حیثیت سے برتے، کسی ایک سیاسی پارٹی یا گروپ کی حمایت نہ کرے۔ ترکی کو مصر میں کسی ایک سیاسی فریق یا چند سیاسی فریقوں کی حمایت کرنے کے بجائے مجموعی طور پر تمام سیاسی دھڑوں کی حمایت کرنی چاہیے۔
☼ اب جبکہ محمد مرسی صدر بن چکے ہیں، آپ کو لگتا ہے کہ مصر کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی رونما ہوگی؟
امر موسیٰ: مصر کی روایتی خارجہ پالیسی میں بہت سی تبدیلیاں پہلے ہی لائی جاچکی ہیں کیونکہ زمانہ بھی بدل گیا ہے۔ ابھی کچھ مدت تک بنیادی اصول تو وہی رہیں گے، ہاں تیزی سے بدلتے ہوئے زمانے کو دیکھتے ہوئے چند ایک بنیادی تبدیلیاں ضرور لائی جائیں گی۔ برطرف کیے جانے سے قبل پانچ سال تک حسنی مبارک نے انتہائی کاہلانہ خارجہ پالیسی اپنائی جس سے ملک کو شدید نقصان پہنچا۔ اب یہ سب کچھ تبدیل ہونا چاہیے۔ مصری قیادت کو خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا عمل شروع کردینا چاہیے مگر اس معاملے میں غیر معمولی احتیاط لازم ہے۔
☼ اِس بدلتی ہوئی صورتِ حال میں مصر اور امریکا کے تعلقات میں کیا تبدیلیاں متوقع ہیں؟
امر موسیٰ: میں ہمیشہ اس بات کے حق میں رہا ہوں کہ امریکا اور یورپ سے اچھے، متوازن تعلقات استوار کیے جانے چاہئیں۔ اگر خارجہ پالیسی حقیقت پسندانہ اور متوازن ہو تو ہم یورپ اور امریکا سے بہت سے معاملات میں اختلاف رکھ سکتے ہیں اور اِس کے اظہار کی جرأت بھی۔
گستاخانہ فلم پر شدید ردعمل کے اظہار کے دوران قاہرہ میں مغربی سفارت خانوں پر حملوں نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ وہ مصر کو اتحادی نہیں سمجھتے، لیکن دشمن بھی نہیں گردانتے۔ یہ بیان خاصا سنجیدہ ہے اور اس پر فی الفور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ امریکی صدر نے امریکا مصر تعلقات کو کمزور قرار دیا ہے یا یہ کہ اب امریکا کو خطے میں اتحادی بدلنا ہے۔ صدر محمد مرسی کو امریکی دورے میں یہ معاملہ اٹھانا چاہیے۔
☼ محمد مرسی نے گزشتہ ماہ تہران میں دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے اہم بیان دیا۔ کیا نئے، بدلتے ہوئے دور میں مصر ایران تعلقات نئی جہت اختیار کریں گے؟
امر موسیٰ: مصر کی تمام پالیسیاں قومی مفادات کے تابع ہیں۔ ایران کے بارے میں بھی اس کی ایک رائے ہے۔ ایران خطے میں خصوصی معاملے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں ایران کے ساتھ رہنا ہے۔ وہ مسلم ملک ہے اور مسلم کمیونٹی کا حصہ ہے۔ مصر اور ایران کی قیادت اور لوگوں کا ایک زمانے سے اشتراکِ عمل چلا آ رہا ہے۔ ایران اور عرب ممالک کے درمیان کئی معاملات پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی ہمیں اشتراکِ عمل، دوستی اور مفاہمت کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں تاکہ بہتری کی راہ ہموار ہو۔ مصر عرب کمیونٹی کا حصہ ہے۔ وہ عربوں کے اجتماعی مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کرسکتا۔ جب میں وزیر خارجہ تھا تب میں نے صدر کو تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں ایران سے بات کرنی چاہیے تاکہ تنازعات کا حل نکالا جاسکے مگر میری تجویز پر عمل نہیں ہوا۔
جب میں عرب لیگ کا سیکرٹری جنرل تھا تب بھی میں نے تجویز پیش کی کہ ایران سے بات کی جائے، مختلف معاملات پر اس کا موقف سنا جائے تاکہ افہام و تفہیم کو راہ ملے اور معاملات درست کیے جاسکیں۔ فلسطین کے حوالے سے ایران کی رائے مختلف ہے۔ ہمیں اس کا موقف ضرور سُننا چاہیے تاکہ بہتری کی راہ ہموار ہو۔ اسرائیل سے اختلافات کے معاملے میں ایران اور عرب دنیا کے موقف میں فرق ہے۔ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے عرب دنیا کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی اقدام کرنے کی بات کرتے ہیں مگر ایران کو یہ منظور نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاملے کو سیاسی طور پر نمٹایا جائے مگر ایسا لگتا ہے کہ ایران اس کے لیے تیار نہیں۔ چند ایک معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ہمیں اتفاق رائے کو اہمیت دینی چاہیے۔
☼ نئے، بدلے ہوئے دور میں مصر اور اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟
امر موسیٰ: مصر میں انقلاب کے بعد میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ اسرائیل سے تنازع ختم کرنے کے سلسلے میں عرب دنیا کے مفادات کو اولیت دی جانی چاہیے۔ اسرائیل سے کیمپ ڈیوڈ (امریکا) میں طے پانے والا معاہدہ برقرار رہنا چاہیے۔ سیکورٹی پالیسی تبدیل ہونی چاہیے تاکہ جزیرہ نما سینا کی سلامتی کو اولیت دی جاسکے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ غرب اردن اور غزہ پر مشتمل فلسطینی ریاست قائم کی جانی چاہیے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔
☼ الفتح اور حماس میں مصالحت کے حوالے سے مصر کیا کردار کرسکتا ہے؟
امر موسیٰ: مصر اس معاملے میں غیر معمولی کردار ادا کرسکتا ہے مگر اس کے لیے اسے فریقین کی بھرپور حمایت درکار ہے۔ فلسطینیوں میں تفریق سے مکمل تباہی آئے گی۔
☼ شام کے معاملات میں بڑی طاقتیں تذبذب کا مظاہرہ کر رہی ہیں؟ مصر کیا چاہتا ہے؟
امر موسیٰ: مصر اس معاملے میں واضح موقف رکھتا ہے۔ یہ بحران جلد از جلد حل ہونا چاہیے۔ مصر، ایران، سعودی عرب اور ترکی کو مل کر شام کے بحران کا پُرامن حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ خطے میں استحکام کی راہ ہموار ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں اس معاملے میں کوئی واضح پالیسی نہیں رکھتیں۔ شام کے بحران کے حوالے سے خطے اور عالمی برادری کی پالیسی میں جگہ جگہ سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔ شام کے معاملے میں کئی ممالک کا مفاد داؤ پر لگا ہوا ہے جس کے باعث کنفیوژن کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
☼ مغربی میڈیا نے کہا ہے کہ جمہوریت سعودی معاشرے کے لیے موزوں نہیں۔ آپ کیا مصر کو جمہوریت کے لیے تیار سمجھتے ہیں؟
امر موسیٰ: مصر کو جمہوریت کی ضرورت ہے۔ جمہوریت ہی میںملک حقیقی ترقی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ جب عرب دنیا میں تبدیلی کی لہر اٹھی تب ہمیں سُنائی دیا کہ عرب دنیا تبدیلی کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہ بہت بے بنیاد بات ہے۔ جب کسی تبدیلی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تو وہ رونما ہوکر رہتی ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں مصر خطے کا واحد جمہوری ملک تھا۔ مصر کے عوام کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جمہوریت کیا ہے اور اس کے کیا فوائد ہیں۔ جمہوریت صرف مغربی معاشرے کے لیے نہیں۔
(“Amr Moussa: Iran Needs to Discuss its Nuclear Program with Arabs”… “Todays Zaman” Turkey. Sep. 24th, 2012)
Leave a Reply