
امریکا ۱۹۹۰ء کے عشرے میں غیر معمولی، تشدد آمیز جرائم کی لہر کا شکار ہوا۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ یہ رجحان عشروں تک برقرار رہے گا۔ مگر محض دو برسوں میں یہ رجحان دم توڑ گیا۔ اب ماہرین نے کہا کہ چھوٹے ہتھیاروں پر موثر کنٹرول، پولیس کی جانب سے بہتر نگرانی اور معاشی استحکام نے اس تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ تمام تصورات غلط تھے۔ امریکی حکومت نے ۲۰ سال قبل اسقاطِ حمل کو قانونی قرار دیا تھا۔ اس اقدام کے نتیجے میں ’’ان چاہے‘‘ بچوں کی پیدائش کا سلسلہ تھم گیا۔ وقتی محبت کی یادگار بن کر دنیا میں آنے والے بچے ہی سڑکوں پر پل کر جرائم کی وارداتیں کرتے تھے۔ جب ایسے بچوں کی پیدائش میں کمی واقع ہوئی تو جرائم کا گراف بھی گرگیا۔
مشہور ماہر معاشیات اسٹیون ڈی لیوٹ اور صحافی اسٹیفن جے ڈیوبنر نے ۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’فریکونومکس‘‘ میں اسی نوعیت کے حیرت انگیز حقائق پر بحث کی ہے۔ کسی بھی چیز کے خفیہ پہلوؤں کو بے نقاب کرکے یہ کتاب دراصل ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کس طرح چل رہی ہے۔ یہ کتاب روایتی سوچ کو چیلنج کرکے بتاتی ہے کہ عمومی سطح پر یہ سوچ غلط اور ناکام ثابت ہوتی ہے۔ کتاب میں تازہ اور دلچسپ سوال اٹھاکر ان پر بحث کی گئی ہے۔ ان میں ایسے سوالات بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ماہرین معاشیات عموماً سوچتے بھی نہیں۔ مثلاً یہ کہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث افراد اگر اتنے ہی دولت مند ہیں تو اپنی ماں کے ساتھ رہنے کو کیوں ترجیح دیتے ہیں! یا یہ کہ زیادہ خطرناک چیز کون سی ہے، ہینڈ گن یا سوئمنگ پول!
لیوٹ نے ڈبوبنر کے اشتراک عمل سے جدید طرز زندگی کے بارے میں دلچسپ، بروقت اور معیاری سوالات اٹھائے ہیں۔ ان سوالات کی مدد سے جدید دور کے مسائل کو سمجھنے میں غیر معمولی مدد مل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں لیوٹ اور ڈیوبنر نے مختلف شعبوں سے متعلق مواد کو عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ جدید طرز زندگی کی ایک یا دو پرتیں اتار کر انہوں نے بتایا ہے کہ سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ لیوٹ کے نزدیک اخلاقیات کا تعلق اس بات سے ہے کہ لوگ دنیا کو کیسا دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کے مقابلے میں معیشت دان دنیا کو اسی رنگ میں پیش کرتے ہیں جس رنگ میں وہ پائی جاتی ہے۔ جو لوگ معاشی امور پر نظر رکھتے ہیں وہ حقیقت کی دنیا کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر بات کرتے ہیں۔ اس صورت میں وہ دنیا کو چلانے والے عوامل کو بہتر انداز سے سامنے لاکر قابل فہم بناتے ہیں۔ لیوٹ کا استدلال ہے کہ معاشی امور کے علم اور فن کو سمجھنے کے لیے پانچ نکات کا سمجھنا ناگزیر ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہر انسان زندگی بھر ترغیبات کے تحت کام کرتا ہے۔ کسی بھی طرز عمل یا واقعے کو سمجھنے کے لیے ترغیبات یا محرکات کا سمجھنا ناگزیر ہے۔ کسی بھی ترغیب یا تحریک کے نہ ہونے کی صورت میں انسان کے لیے کسی کام میں واضح دلچسپی نہیں ہوتی۔ ہر انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اس کی پشت پر چند ایک محرکات ضرور ہوتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ روایتی اور لگی بندھی سوچ بالعموم غلط ثابت ہوتی ہے۔ ہم سائنس دانوں اور ماہرین سے بہت سی باتیں سنتے ہیں اور انہیں حقائق سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں، حالاں کہ ان میں کچھ بھی علمی سطح کا نہیں ہوتا! مثلاً یہ کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ روزانہ کم از کم آٹھ گلاس پانی پینے سے صحت برقرار رہتی ہے۔ سائنسی سطح پر اسے اب تک ثابت نہیں کیا جاسکا۔ روز مرہ زندگی میں ہم بہت سی باتوں کو سوچے سمجھے بغیر قبول کرلیتے ہیں۔ کسی خاص نسل کے بارے میں ہم پہلے سے یہ رائے قائم کرلیتے ہیں کہ اس سے تعلق رکھنے والے کسی خاص طرز عمل ہی کے حامل ہوں گے۔ یہ متعصب سوچ ہمیں حقیقت کی دنیا سے دور کردیتی ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ڈرامائی واقعات اور اثرات کی کچھ نہ کچھ، ڈھکی چھپی وجوہ ضرور ہوتی ہیں۔ مثلاً امریکا میں جرائم کا گراف گرنے کا سبب یہ نہیں تھا کہ پولیس نے نگرانی کا عمدہ نظام قائم کرلیا تھا یا معاشی ترقی نے نوجوانوں کو تیز رفتار ترقی کے بہتر مواقع فراہم کردیے تھے بلکہ اس کا اصل سبب یہ تھا کہ دو عشروں قبل اسقاطِ حمل کو قانونی حیثیت دے دی گئی تھی۔ بہت سے معاملات اور واقعات ہماری سمجھ میں نہیں آتے اور ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کی پشت پر کوئی بھی محرک نہیں۔ یا یہ کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کسی سبب کے بغیر ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر واقعے کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ ماہرین بالعموم معلومات کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ریئل اسٹیٹ ایجنٹس سے سائنس دانوں تک سبھی ماہرین اپنے مفادات کے لیے معلومات کو متصبانہ انداز سے استعمال کرتے ہیں۔
پانچواں نکتہ یہ ہے کہ معاملات کو سمجھنے سے دنیا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ہم زندگی بھر بہت سی باتوں کو سمجھے بغیر دن گزارتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ہمیں معلوم ہو کہ مختلف معاملات کی پشت پر کون سے محرکات اور عوامل ہیں تو دنیا کو سمجھنا اور پرسکون زندگی بسر کرنا خاصا آسان ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید دنیا اگرچہ پیچیدہ ہے تاہم حقائق کی مدد سے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ جدید دور کی تفہیم ہماری بہت سے نفسیاتی پیچیدگیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور ہم معاشی جدوجہد کے لیے بھی بہتر طور پر تیار ہوسکتے ہیں۔
٭ محرکات کو سمجھنا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ جدید طرز زندگی میں محرکات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی معاملے کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہمیں محرکات سمجھنے ہوں گے۔ کوئی بھی محرک در اصل وہ بات ہے جو کسی شخص کو اچھے کام کے لیے راضی کرے اور برے کام سے دور کردے۔ بچپن سے ہی ہمیں کسی نہ کسی طرح ترغیب سے روشناس کرایا جاتا رہا ہے۔ امتحان میں کامیابی کی صورت میں بائیسکل ملتی ہے اور ناکام رہنے پر ڈانٹ ڈپٹ۔ ملازمتوں میں بھی یہی حالت پائی جاتی ہے۔ اگر آپ کرفیو کی خلاف ورزی کریں تو حوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑے تو زندگی میں بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ معاشیات میں ہم محرکات ہی کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ لوگ کیا اور کیوں چاہتے ہیں اور وہ انہیں کس طور ملتا ہے، جبکہ دوسرے لوگ بھی وہی کچھ طلب کر رہے ہیں یا حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔
محرکات بنیادی طور پر تین قسم کے ہوتے ہیں۔ اخلاقی، معاشرتی اور معاشی محرکات۔ عام طور پر کسی بھی محرک میں یہ تینوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ مثلاً امریکا میں سگریٹ پر تین ڈالر کا اضافی ٹیکس نافذ کیا گیا جو سگریٹ نہ خریدنے کے لیے معاشی محرک تھا۔ ریستورانوں اور کھلے مقامات پر سگریٹ نوشی ممنوع قرار دے دی گئی جو معاشرتی محرک تھا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ دہشت گرد بلیک مارکیٹ میں سگریٹ فروخت کرکے رقوم جمع کرتے ہیں۔ یہ گویا نہ خریدنے کے لیے اخلاقی محرک تھا۔ کسی بھی معاشرے میں بہتر محرکات ترقی اور کامیابی کی جانب بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ حکومت کی سطح پر بہتر منصوبہ بندی سے لوگوں کو معیاری زندگی کے لیے تیار کرنے کی غرض سے عمدہ محرکات پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مختلف پروگراموں کے ذریعے ان میں کام کرنے کی صلاحیت بہتر بنائی جاسکتی ہے اور کام کرنے کا جذبہ بیدار رکھا جاسکتا ہے۔ جدید زندگی میں محرکات کا معیاری ہونا ناگزیر ہے۔ کوئی بھی معاشرہ زندہ محرکات کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
٭ روایتی سوچ بالعموم غلط ثابت ہوتی ہے۔ یہ ہم سب کا عام مشاہدہ ہے کہ لوگ گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرکے روتے رہتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ بیس تیس سال قبل جرائم زیادہ نہیں تھے اور معاشرے میں مجموعی طور پر سکون تھا۔ اگر آپ حقائق کا جائزہ لیں تو یہ سوچ حقیقت سے بہت دور دکھائی دے گی۔ اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے معلوم ہوگا کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی، بلکہ ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں کے مقابلے میں اب جرائم خاصے کم ہیں! اور یہ بھی محرکات ہی کے دم سے ہے۔ گزری ہوئی صدیوں کے مقابلے میں اب ہمارے پاس کسی جرم کو نہ کرنے کے لیے معاشی، معاشرتی اور اخلاقی محرکات موجود ہیں۔ اب کسی جرم کے ارتکاب کی صورت میں نوکری جاسکتی ہے اور ہم جیل جاسکتے ہیں۔ یہ معاشی محرک ہے۔ معاشرتی محرک یہ ہے کہ کہیں کوئی جرم کرتے ہوئے دیکھ نہ لے اور بدنامی نہ ہو۔ اخلاقی محرک یہ ہے کہ تعلیم کے بڑھتے ہوئے معیار کی بدولت ہم اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ جرم کرنا کوئی اچھی اور مفید بات نہیں۔
ایک روایتی سوچ یہ بھی ہے کہ دولت کی مدد سے انتخابات جیتے جاسکتے ہیں۔ اب اگر آپ انتخابی امیدواروں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف خرچ کی جانے والی رقوم کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ انتخابی نتائج کے مقابلے میں یہ رقوم تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں۔ اب فرق دراصل اس بات سے پڑتا ہے کہ کوئی بھی امیدوار ووٹروں کی نظر میں کیسا ہے۔ آج کا ووٹر صرف دولت کے حصول کا خواہش مند نہیں بلکہ اور بھی بہت سے امور پر نظر رکھتا ہے۔ اس کی ترجیحات میں تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا نمائندہ حقیقی قائدانہ صلاحیت کا حامل ہو۔
٭ ڈرامائی واقعات کے پوشیدہ اسباب اور محرکات ہوسکتے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں امریکا میں کوکین کی سستی شکل کریک کوکین کے نام سے مارکیٹ میں آئی۔ اس کی مارکیٹنگ میں سیاہ فام نوجوانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس سے قبل امریکا بھر میں شہری حقوق کی تحریک نے سیاہ فام امریکیوں کے حالات بہتر بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ان کی صحت اور تعلیم کا معیار بلند ہوا۔ ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہونے سے ان کی معاشی حالت بہتر ہوئی۔ مگر کریک کوکین نے سیاہ فام نوجوانوں کو اس نشے کا عادی بنایا۔ ان کی زندگی برباد ہوئی۔ بیشتر سیاہ فام گھرانوں میں شیر خواروں کی شرح اموات پھر بڑھ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ کریک کوکین کے باعث امریکی سیاہ فام دس سال پیچھے چلے گئے۔ قومی سطح پر کریک کوکین نے جرائم کی نئی لہر پیدا کی۔
٭ ماہرین معلومات اور حقائق کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آپ اپنا مکان یا پلاٹ فروخت کرنے لیے اسٹیٹ ایجنٹ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آپ کے خیال میں اسٹیٹ ایجنٹس کو املاک کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہوتی ہیں اور وہ آپ کے مکان یا پلاٹ کو بہتر قیمت پر فروخت کرواسکتے ہیں۔ اسٹیٹ ایجنٹس بھی انسان ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ پہلی ہی پیشکش قبول کرنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ وہ سودے کو جلد از جلد بھگتاکر کسی دوسرے سودے پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی یقین اور علم ہوتا ہے کہ انتظار کرنے کی صورت میں جو پیشکش آئے گی اس سے ان کے کمیشن پر کچھ خاص اثر مرتب نہیں ہوگا۔ جب کوئی اسٹیٹ ایجنٹ اپنی پراپرٹی فروخت کرتا ہے تو گاہکوں کا تادیر انتظار کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کی جاسکے۔
ایک میڈیکل اسٹڈی سے انکشاف ہوا ہے کہ جن علاقوں میں شرح پیدائش کم ہوتی ہے وہاں زچہ و بچہ کے امور کی ماہرین سیزرین آپریشن سے ولادت پر زور دیتی ہیں کیونکہ اسی صورت وہ اپنی آمدنی میں پیدا ہونے والی کمی کو پورا کرسکتی ہیں! اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماہرین کسی بھی صورت حال سے متعلق حقائق کو اپنے مفاد میں کس طرح استعمال کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ عام آدمی کو اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ معاشی محرکات کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر انسان دوسروں کے مفادات سے جی بھر کے کھیلتا ہے۔
٭ اسکول اساتذہ اور سومو ریسلرز میں قدر مشترک کیا ہے؟ یہ سوال آپ کو حیرت انگیز محسوس ہوگا، مگر خیر لیوٹ اور ڈیوبنر نے پوری کتاب میں جا بجا ایسے ہی عجیب سوالات اٹھائے ہیں اور ان کے جواب بھی دیے ہیں۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد معاشی محرکات کو بہتر انداز سے سمجھنا ہے تاکہ ان کی روشنی میں زندگی کا رخ درست سمت میں موڑا جاسکے۔ شکاگو میں تحقیق سے ثابت ہوا کہ بہت سے اسکول اساتذہ اپنے طلبا کو امتحان میں کامیابی دلانے کے لیے جانبداری یا دھوکہ دہی سے کام لیتے ہیں۔ وہ بسا اوقات کمزور طلبا کو بھی پاس کردیتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب محکمہ تعلیم کی غلط پالیسی ہے۔ جن اداروں کے طلبا زیادہ مارکس لیکر کامیاب ہوتے ہیں انہیں صرف سراہا نہیں جاتا، بلکہ زیادہ فنڈ اور دوسری سہولتیں بھی دی جاتی ہیں۔ اور اساتذہ کو بھی خصوصی الاؤنس کے علاوہ پروموشن دیا جاتا ہے۔ اور جن اسکولوں کے طلبا کم مارکس لیتے ہیں یا فیل ہو جاتے ہیں ان کے فنڈ بھی روک لیے جاتے ہیں اور اساتذہ کو ترقی نہیں ملتی۔ اور کبھی کبھی ان کی ملازمت بھی جاتی رہتی ہے۔ لیوٹ نے جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ بہت سے اساتذہ نے اپنے طلبا کو کسی جواز کے بغیر اچھے مارکس دیے۔ بہت سے کمزور طلبا کو اتنے اچھے مارکس دیے گئے کہ کوئی بھی چونکے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بعض امتحانی پرچوں میں یہ تماشا بھی دکھائی دیا کہ طلبا نے آسان سوالوں کا تو کوئی جواب نہیں دیا یا کمزور جواب پر اکتفا کیا اور مشکل سوال کا جواب بڑی عمدگی سے دے دیا! جب چند ایک طلبا کا دوبارہ ٹیسٹ لیا گیا تو اساتذہ کی دھوکہ دہی سامنے آئی اور چند ایک ’’دلیر‘‘ اساتذہ کو برطرف بھی کیا گیا۔ اسکول کے معیاری جانچ کے طریقے کی بھی اصلاح کی گئی۔
لیوٹ نے مشاہدے اور تحقیق سے یہ رائے قائم کی کہ جاپان کے سومو پہلوان بھی بیشتر مقابلوں میں غیر دیانت دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ دھوکا دینے کے طریقے البتہ بہت نازک اور ڈھکے چھپے ہیں اس لیے ان کا سراغ پانا آسان نہیں۔
لیوٹ نے تحقیق سے ثابت کیا کہ بڑے شہروں میں لوگ بعض چھوٹی چھوٹی اشیاء کے لیے ادائیگی سے گریز کرتے ہیں۔ اس طرح کی دھوکا دہی گویا ان کی سرشت میں لکھ دی گئی ہے۔ واشنگٹن اور دوسرے شہروں میں ایک طریق یہ تھا کہ لوگوں کو بہت سے چیزوں تک رسائی دے دی جاتی تھی جبکہ ادائیگی کرنا بھی مکمل طور پر ان کے اختیار میں تھا۔ مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی کہ کم آمدنی والے افراد نے کم ہیرا پھیری کی۔ بعض بڑے افسران چیز لیکر ادائیگی سے گریز کرتے پائے گئے۔
٭ امریکا میں سفید فام اکثریت کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں قائم کیے جانے والے گروپ کو کلکس کلین اور ریئل اسٹیٹ ایجنٹس میں کون سی بات مشترک ہے؟ دونوں معلومات کو اپنے فائدے اور دوسروں کے نقصان کے لیے استعمال کرتے ہیں! ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ معلومات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کی جائے۔
کلین کو امریکا میں خانہ جنگی ختم ہونے کے فوراً بعد قائم کیا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد ابتدا میں سیاہ فام نسل پر سفید فام نسل کی برتری برقرار رکھنا تھا۔ بعد میں سیاہ فام افراد کے علاوہ یہودیوں اور دیگر نسلوں کے خلاف بھی کلین کو استعمال کیا گیا۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں کلین نے تیزی سے فروغ پایا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس کی طاقت کم ہوتی گئی اور قومی وحدت کی تحریک نے زور پکڑا تو کلین بس برائے نام رہ گیا۔ مگر پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جب جنگ کے خوف کی جگہ معیشت کی غیر یقینی صورت حال نے لی تو کلین کو ایک بار پھر تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی۔
کلین کے زوال اور خاتمے میں کس چیز نے مرکزی کردار ادا کیا؟ معلومات نے۔ کلین کی اصل قوت اس حقیقت میں مضمر تھی کہ یہ ایک خفیہ سوسائٹی تھی جس کے بارے میں لوگوں کو برائے نام معلومات حاصل تھیں۔ جب تک لوگوں کو زیادہ معلوم نہ تھا، یہ گروپ کامیاب رہا۔ اسٹیٹسن کینیڈی نے بھیس بدل کر اس خفیہ سوسائٹی میں شمولیت اختیار کی اور اسے کے طور طریقے سیکھ کر دنیا کو بتایا کہ کلین سے وابستہ افراد کس طرح زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ اسٹیٹسن کینیڈی نے جو کچھ دیکھا تھا اسے عمدگی سے قلم بند بھی کیا اور دنیا کے سامنے لانے سے گریز نہیں کیا۔ ان تحریروں کی بدولت ہی لوگوں کو اس خفیہ سوسائٹی کے مختلف طور طریقوں کے بارے میں معلوم ہوسکا۔ ہالی وڈ نے اسٹیٹسن کے ریکارڈ کی روشنی میں کئی کامیاب فلمیں بنائیں۔ امریکا بھر میں بچے اسکولوں میں اس کلین سے متعلق ڈرامے پیش کیا کرتے تھے۔ ریڈیو پر کئی سیریز تیار کی گئیں۔ جب دنیا کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ کو کلکس کلین کیا ہے تو اس کا خاتمہ بھی ہوگیا! یعنی منظر عام پر آ جانا اس کی موت کا باعث بنا۔
لیوٹ نے شکاگو میں منشیات فروخت کرنے والوں کے حالات زندگی پر تحقیق کرنے والے سدھیر وینکٹیش کی محنت سے بھی خوب استفادہ کیا۔ سدھیر وینکٹیش کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ منشیات کی تجارت سے وابستہ افراد کے بارے میں یہ تاثر یکسر بے بنیاد ہے کہ ان کی زندگی میں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ جس قدر خطرات مول لیتے ہیں ان کے مقابلے میں ان کے مالیاتی فوائد کچھ بھی نہیں۔ اس معاملے میں انہوں نے مکڈونلڈز کی مثال پیش کی ہے جس میں چند اعلیٰ افسران اور منیجر وغیرہ ہی نچلی سطح کے بے حساب محنت کشوں کی محنت کا پھل لے اڑتے ہیں۔ اسی حوالے سے یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ منشیات کی تجارت سے وابستہ افراد اگرچہ بظاہر بہت بے لگام سی زندگی بسر کرتے ہیں مگر وہ والدین کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں! بالکل ماں کے ساتھ رہنا وہ زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ گویا نفسیاتی سہارا پانے کی عمدہ کوشش ہے!
کتاب لکھنے سے کچھ پہلے لیوٹ کا ایک شیر خواہ بچہ بیمار ہوکر چل بسا تھا۔ اس دکھ کو بانٹنے کے لیے لیوٹ نے بچوں سے محروم ہو جانے والے دیگر والدین سے خیالات کا تبادلہ کیا۔ اس کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ جو والدین اپنے بچوں کو سوئمنگ پول میں کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں ان کے لیے بچوں سے محروم ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے! ویسے تو ہینڈ گن بھی جان لے سکتی ہے، مگر اس سے کہیں بڑھ کر سوئمنگ پول کے آس پاس کھیلنا بچوں کے لیے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ بہت سے کالموں میں انہوں نے لکھا کہ دنیا بھر کی کتابیں پڑھ کر بھی کوئی بچوں کی بہتر تربیت کے حوالے سے کچھ خاص نہیں سیکھ سکتا۔ کسی بھی بچے کی عمدہ تربیت کے لیے والدین کا تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہے اور اس سے کہیں بڑھ کر یہ کہ ان کی معاشی اور سماجی حیثیت بلند ہونی چاہیے۔ جن کے گھر میں خوش حالی ہو اور جنہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہو ان کے بچوں میں اعتماد کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔
اسکولوں اور دفاتر کے ریکارڈ سے لیوٹ اور ڈیوبنر نے یہ حیرت انگیز نتیجہ بھی اخذ کیا کہ بعض نسلی ناموں کے حوالے سے امتیازی رویہ پروان چڑھا ہے۔ سفید فام امریکیوں میں جو نام عام طور پر پائے جاتے ہیں ان ناموں کے حامل افراد جب ملازمت کے لیے درخواست دیتے ہیں تو تیزی سے جواب آتا ہے اور ملازمت کی پیشکش بھی کی جاتی ہے۔ دوسری طرف سیاہ فام امریکیوں کے ناموں میں ملازمت کی پیشکش کرنے والوں کو زیادہ کشش محسوس نہیں ہوتی۔
☼☼☼
Leave a Reply