
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور اس کے اثرات پر ۳۱ مئی ۲۰۱۵ء کو تھنکرز فورم پاکستان کے تحت ہونے والی نشست ہوئی، جس کی صدارت ائیر چیف مارشل کلیم سعادت نے کی اور لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) لودھی اور سول اور ملٹری سے وابستہ کئی شخصیات نے اس میں شرکت کی۔ گفتگو کے بعد سوال و جواب کا ایک طویل سیشن ہوا، جس کے بعد صدرِ مجلس نے کارروائی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے گفتگو کو سمیٹا۔ جس کی تفصیل ذیل میں دی گئی ہے۔
سی پیک (CPEC)
سی پیک کے قیام کی تجویز سب سے پہلے چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے مئی ۲۰۱۳ء میں اپنے دورۂ پاکستان کے دوران دی تھی۔ بلوچستان میں بحیرۂ عرب کے ساحل پر گوادر بندرگاہ کو شمال مغربی چین میں کاشغر سے جوڑنے کا یہ مجوزہ منصوبہ ۵ جولائی ۲۰۱۳ء کو نواز شریف کے دورہ ٔبیجنگ کے دوران منظور ہوا، جس میں ۲۰۰ کلومیٹر طویل سرنگ کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل تھا۔
چینی سرمایہ کاری
دسمبر ۲۰۱۳ء میں چین نے کراچی میں ایک بڑے جوہری بجلی گھر کی تعمیر کے لیے ۵ء۶؍ارب ڈالر کا وعدہ کیا۔ مئی ۲۰۱۴ء میں لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے میں مدد فراہم کرنے کے لیے ۲۷ء۱؍ارب ڈالر کے ایک اور معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ نومبر ۲۰۱۴ء میں دونوں ممالک نے سی پیک سے متعلقہ ۱۹؍معاہدوں پر دستخط کیے۔ علاوہ ازیں چینی کمپنیوں نے پاکستان کے توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے گلگت بلتستان میں چھ بڑے توانائی کے منصوبوں مثلاً داسو، پحندہر، باسہو، ہارپو، یالبو پر کام شروع کر دیا۔
گرم پانیوں کی تلاش
اپنے مغربی صوبوں (جو چین کی دُکھتی رگ ہیں) کی پسماندگی اور مسلسل جاری ایغور تحریک کے پیشِ نظر، چین سنکیانگ اور دیگر پسماندہ صوبوں کی تیز رفتار ترقی کا خواہاں ہے تاکہ انہیں مغربی صوبوں کے برابر لایا جاسکے۔ ان خوابوں کی تکمیل کے لیے چین کو گوادر کے راستے بحیرۂ عرب میں گرم پانیوں تک رسائی کی ضرورت ہے کیونکہ عالمی منڈیوں تک پہنچنے کا یہ راستہ سب سے چھوٹا اورسب سے سستا ہے۔ روس کو کبھی بھی یہ رسائی نہیں مل سکی۔
شی جن پنگ کا دورہ
اس مقصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے صدر شی جن پنگ نے ۲۰۔۲۱؍اپریل ۲۰۱۵ء کو اسلام آباد کا دورہ کیا اور سرمایہ کاری کی سطح کو ۲۶؍ارب ڈالر سے بڑھا کر ۴۶؍ارب ڈالر کر دیا۔ انہوں نے ۲۸؍ارب ڈالر مالیت کے ۵۱ معاہدوں / یادداشتوں پر دستخط کیے، جن میں ۱۷؍ارب ڈالر اگلے ۱۵؍سال سے زائد عرصے میں تعمیر ہونے والی پائپ لائن کے لیے مختص کیے گئے۔ ان کے دورے نے ۳۰۰ کلومیٹر لمبے، تزویراتی لحاظ سے اہم سی پیک کے تاریخی آغاز کا سنگِ میل عبور کیا۔
دیگر مجوزہ منصوبے
اس میں ۳۳؍ارب ڈالر مالیت کے توانائی منصوبے مثلاً کوئلہ، شمسی توانائی، ہائیڈرو الیکٹرک توانائی کے منصوبے شامل ہیں، جو قومی گرڈ میں ۱۸۔۲۰۱۷ء تک ۱۰,۴۰۰؍میگاواٹ بجلی کا اضافہ کریں گے۔ دیگر منصوبوں میں سنکیانگ سے راولپنڈی تک فائبر آپٹک کیبل، ۱۲۴۰؍کلومیٹر طویل کراچی لاہور موٹر وے، چھ بڑے شہروں میں میٹرو اور بس سروس، ۱۳۰۰؍کلومیٹر لمبی شاہراہِ قراقرم کی تعمیر جدید، کاشغر کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانے والی تیل/گیس پائپ لائن، تجارتی بحری راستے، خصوصی اقتصادی زونز، خشک بندرگاہیں اور دیگر تعمیراتی منصوبے شامل ہیں۔
راستے
تین راستوں کو نشان زَد کیا گیا ہے۔
مغربی راستہ: مغربی راستہ گوادر سے شروع ہو کر تربت، پنجگور، ناگ، بسیمہ، سہراب، قلات، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان، میانوالی، حسن ابدال، اسلام آباد سے گزرے گا۔
درمیانی راستہ: درمیانی راستہ گوادر سے شروع ہو کر کوئٹہ اور پھر بسیمہ، خضدار، سکھر، راجن پور، لیہ، مظفر گڑھ، بھکر سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے گا۔
مشرقی راستہ: مشرقی راستہ گوادر، بسیمہ، خضدار، سکھر، رحیم یار خان، بہاولپور، ملتان، لاہور/فیصل آباد، اسلام آباد اور مانسہرہ سے گزرے گا۔
گوادر کی اہمیت
گوادر بلوچستان کے پسماندہ ترین ضلعوں میں سے ایک ہے۔ تزویراتی لحاظ سے یہ خلیجِ فارس کے بالکل نزدیک اور آبنائے ہرمز کے قریب ہے، جہاں سے دنیا کا چالیس فیصد تیل گزرتا ہے۔ گوادر کی گہری سمندری بندرگاہ پر کام چینی سرمایہ کاری کی مدد سے ۲۰۰۲ء میں شروع ہوا تھا۔ ۲۰۱۳ء میں بندرگاہ کا انتظام، جو سنگا پوری کمپنی پی ایس اے انٹرنیشنل کے ناقص ہاتھوں میں تھا، چین کی کمپنی پورٹ ہولڈنگز کو دے دیا گیا۔ سنگاپور یا ہانک کانگ کی طرز پر ایئر پورٹ اور سی پیک کے لیے گزرگاہ کے ساتھ گوادر کو آزاد تجارتی زون بنانے کی منصوبہ سازی کی گئی ہے۔ یہ سب سے بڑی، گہری سمندری بندرگاہ ہوگی، جو چابہار اور دبئی کی بندرگاہوں کو بھی ماند کر دے گی۔
تجزیہ کاروں کی رائے
کچھ تجزیہ کاروںکا خیال ہے کہ گوادر کی بندرگاہ بحرِ ہند میں چین کا بحری اڈہ بن جائے گی اور چین کو امریکا اور بھارت کی بحری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے قابل بنا دے گی، اس طرح اس سمندر کو خصوصی بھارتی جھیل میں بدلنے کے امریکی و بھارتی عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ چین کی جانب سے پاک بحریہ کی تجدیدِ نو کو اسی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سی پیک کے ذیل میں بننے والے منصوبے پاکستان کی توانائی کی قلت کو کم کر دیں گے اور طویل مدت میں ایک واضح فرق ڈالیں گے۔
کچھ ماہرین کی نظر میں سی پیک کا قیام جنوبی ایشیا میں ہم آہنگی لا سکتا ہے، جو معاشی لحاظ سے دنیا کے غیر مربوط ترین خطوں میں سے ہے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ جغرافیائی و اقتصادی مفادات کا ٹکراؤ خطے کو غیر صحت بخش مقابلہ بازی کی طرف لے جاسکتا ہے۔
چین کے مفادات
اگرچہ سی پیک پاکستان کے لیے ’تاریخی‘ ثابت ہو سکتا ہے، چین کے لیے یہ ملک کی عالمی اقتصادی قوت کو بڑھانے کے عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے۔ چینی حکام راہداری کے منصوبے کو وسیع تر پالیسی کا ’پہلا منصوبہ‘ قرار دیتے ہیں۔ ’ایک پٹی، ایک سڑک‘ (One belt-one road) جس کا مقصد چین کو اس کی ایشیا، افریقا، یورپ اور اس کے آگے مزید منڈیوں سے جوڑنا ہے۔ نئی شاہراہِ ریشم بحرِ ہند اور جنوب چینی سمندر میں چین کی بحری آمد و رفت کو محفوظ بنانے کے لیے وسط ایشیا اور سمندری راستے کے ذریعے چین کو یورپ سے منسلک کرے گی۔ سی پیک چین کو دنیا کی تقریباً نصف آبادی سے جوڑ دے گا۔ گوادر کے راستے بحرِ ہند تک رسائی چین کے بحری جنگی بیڑوں اور تجارتی جہازوں کو آبنائے ملاکا سے گزرنے کی پابندی سے آزاد کر دے گی۔ اور یوں چین اپنے ’ملاکا مخمصہ‘ سے جان چھڑا لے گا۔
گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور اس کے اندرونی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر کی بہتری چین کو خلیجِ اومان اور بحیرۂ عرب میں اپنی مستقل بحری موجودگی قائم رکھنے میں مدد دے گی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ نئی شاہراہِ ریشم کی تعمیر وسیع تر وسط ایشیائی خطے میں سرمایہ کاری اور اثر و رسوخ کی آبیاری کے لیے چین اور بھارت کے درمیان اور کسی حد تک چین اور امریکا کے درمیان بھی جاری مقابلہ بازی کو مزید تیز کر دے گی۔
بھارتی خدشات
مودی اس وقت کئی مخمصوں کا شکار ہیں۔ آیا آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے کے آگے سر جھکا دیں اور بھارت میں موجود اُن سخت گیر ذہنیت کے حامل مفاداتی گروہوں اور لابیوں کے اسیر رہیں، جو ابھرتے ہوئے چین کے ساتھ تعلقات میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی مخالفت کر رہے ہیں اور مہا بھارت کے خام خیال کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں یا نئی پالیسی اپنائیں۔ چین نے خطہ کو ملانے کا جو پانسہ کھیلا ہے، اس نے بھارت کو پریشانی اور الجھن میں مبتلا کر دیا ہے۔ آیا وہ زوال پذیر سپر پاور کے دامن سے ہی چمٹا رہے جو اب بڑی سرمایہ کاری کرنے کی حالت میں نہیں ہے یا اُس ابھرتی ہوئی طاقت کی سواری میں سوار ہو جائے، جس کے پاس دینے کو بہت کچھ ہے۔
مودی کی پوزیشن مزید کمزور ہوگی جب پاکستان سیاسی طور پر مستحکم اور معاشی لحاظ سے ترقی کی طرف گامزن ہوگا، جب لاہور علاقائی دارالحکومت میں تبدیل ہو جائے گا اور مودی اپنے ترقیاتی ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے قابل نہیں ہوں گے۔
بھارت کو پاکستان میں چین کی بھاری سرمایہ کاری پر بھی تشویش ہے، خاص طور پر پاکستان میں جوہری ری ایکٹرز پر سرمایہ لگانے کے حالیہ فیصلے پر۔ پاکستان چینی پیسے کی مدد سے ۲۰۲۳ء تک چار نئے جوہری پلانٹ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جبکہ چار مزید ری ایکٹرز بھی زیرِ غور ہیں (جو ۲۰۳۰ء تک توانائی میں کُل ۷۹۳۰ میگاواٹ کا اضافہ کریں گے)۔ چینی تعاون سے تعمیر شدہ خوشاب ری ایکٹر پر پلوٹونیم پیدا کرنے میں چین پاکستان کی مدد کر رہا ہے اور وہ ۵؍ارب ڈالر مالیت کی ۸ آبدوزیں بھی پاکستان کو فروخت کرے گا، جو پاکستانی بحریہ کی سمندری صلاحیت کو کئی درجے اوپر پہنچا دیں گی۔
امریکا کی غیر یقینی ایشیا پیسیفک پالیسی کو غیر متاثر کُن اور چین کی امن و دوستی کی پالیسی کو زیادہ سودمند پا کر بھارت کی طرف سے پالیسی کی تبدیلی کے امکان کو رَد نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال، اس تزویراتی تبدیلی کا وقوع اُس وقت ممکن ہوگا جب چین بھی پاکستان پر بھارت کو ترجیح دینے پر راضی ہوگا۔ (جس طرح ۱۹۹۰ء میں امریکا نے پاکستان کو چھوڑ کر بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔)
پاکستان کی مشقتیں
پاکستان ایک طویل عرصے سے مشکل دور کا شکار رہا ہے۔ اس نے ماضی میں بہادری کے ساتھ آزمائشوں اور صعوبتوں کا سامنا کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پاکستان نے سوویت افواج اور عالمی دہشت گردی کے خلاف صفِ اول کی ریاست کا کردار نبھایا ہے اور بہت زیادہ مشکلات جھیلی ہیں۔ لیکن اس دوران اس نے چین کو خاموشی کے ساتھ ترقی کرنے اور خوشحالی حاصل کرنے کے ۳۵ مفت سال فراہم کیے ہیں۔
بدلتا ہوا جغرافیائی و سیاسی ماحول
جغرافیائی و سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور ایک طویل خاردار سفر کے بعد ماحول پاکستان کے حق میں سازگار ہو رہا ہے۔ چین پاکستان کے ساتھ جغرافیائی و معاشی تعلقات کے ایک نئے دور میں داخل ہوا ہے اور دو طرفہ تجارت کو موجودہ حجم ۱۲؍ارب ڈالر سے بڑھا کر ۲۰؍ارب ڈالر تک لے جانا چاہتا ہے۔ پاک افغان تعلقات بھی ڈرامائی طور پر بہتر ہوئے ہیں۔ آئی ایس آئی اور این ڈی ایس کے درمیان معلومات کے تبادلے کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔ افغانستان اور چین بھارت کے اس راگ پر اب مزید کان نہیں دھرتے کہ دہشت گردی پاکستان سے فروغ پاتی ہے۔
یمن جنگ میں حصہ نہ لینے کے دانشمندانہ پاکستانی فیصلے نے پاک ایران تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دی ہے۔ ایران پر سے بتدریج امریکی پابندیاں اٹھنے کے بعد آئی پی ایل (گیس پائپ لائن) منصوبے کی بحالی اور چین تک اس کی توسیع کا امکان روشن ہوا ہے۔ روس پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی لا رہا ہے اور عسکری اتحاد بنا رہا ہے۔ چین اور روس تزویراتی شراکت دار ہیں اور ایران کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں۔ امکان ہے کہ پاکستان کو ایس سی او (شنگھائی تعاون تنظیم) اور برکس (Brics) میں بطور رکن شامل کر لیا جائے گا۔
اندرونی طور پر پاکستان کے اقتصادی اشارے اور مجموعی ملکی پیداوار بہتر ہو رہی ہے۔ غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں اور افراطِ زر کی شرح نیچے ہے۔ ریلوے پہلی دفعہ منافع میں چلا گیا ہے۔ توانائی بحران سے بھرپور کوشش کے ساتھ نمٹا جا رہا ہے۔ راہ نما اور عوام جنگ کے ذریعے دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کے لیے ایک صفحے پر ہیں۔ پاکستان کے بارے میں دنیا کی منفی رائے بدل رہی ہے اور اب اسے احترام کے ساتھ دیکھا جانے لگا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی جھنڈہ آئے دن لہرانے لگا ہے۔ اندرونی طور پر بے گھر افراد شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، اور اسی طرح افغان مہاجرین بھی۔
چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا خطرہ مول لیا ہے کیونکہ چین کو دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کی پالیسی میں واضح تبدیلی کے پاکستانی دعوے پر اعتبار ہے۔ یہ تبدیلی فاٹا میں بلا تخصیص ضربِ عضب آپریشن اور ایغور سمیت ہر طرح کے دہشت گردوں کے خلاف شاندار کامیابیاں حاصل ہونے کے نتیجے میں آئی ہے۔
سِلک روڈ اکنامک بیلٹ نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ علاقائی ممالک کو بھی پہلی دفعہ منسلک کرے گی، ترقی میں معاون ثابت ہوگی اور امن کو فروغ دے گی۔ یہ عمل بھارت کی جارحانہ فطرت کے بَرعکس ہو گا۔
پاکستان کو حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد
(i) سی پیک نے پاکستان کے لیے عظیم مواقع کا دروازہ کھولا ہے اور یہ غربت، بے روزگاری، چھوٹے صوبوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر قابو پانے اور پاکستان کو اگلا ایشین ٹائیگر بنانے میں مدد کرے گا۔
(ii) سی پیک ہر لحاظ سے ’گیم چینجر‘ ثابت ہوگا اور پاکستان کی سلامتی اور سیکورٹی میں چین ایک اہم کھلاڑی بن جائے گا۔ یہ دونوں ممالک کے لیے سودمند صورتحال ہے۔ یہ چین کی مستحکم اور پائیدار اقتصادی ترقی کے امکانات کو بہت زیادہ بڑھا دے گا۔
(iii) چینی سرمایہ کاری کی بدولت پاکستان کا ۲۷۴؍ارب ڈالر کا جی ڈی پی ۱۵؍فیصد تک بڑھ جائے گا۔
(iv) پاکستان میں یکساں ترقی اور خوشحالی اور چین کی سرپرستی پاکستان کو دہائیوں پرانے عنوانات جیسے ’دہشت گردی کا مرکز‘، ’خطرناک ترین ملک‘، ’ناکام ریاست‘ سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد دے گا۔
(v) چین اور پاکستان کے درمیان عوام کی سطح پر دوستی کی ٹھوس بنیادوں کی وجہ سے پاکستان میں چینی اثر و رسوخ دیرپا ثابت ہوگا۔
(vi) یوں نظر آتا ہے کہ پاکستان کو چین کی صورت میں ایک محافظ میسر آگیا ہے جس نے تاریک دنوں میں پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنے کا وعدہ کیا ہے۔ ایک دفعہ پاک چین رابطوں کی جڑیں مضبوط ہو گئیں تو پھر جب کبھی پاکستان کے جغرافیائی/تزویراتی مفادات کو خطرہ ہوگا، چین ان کی حفاظت کرے گا۔
(vii) چینی سرمایہ کاری ماضی میں پاکستان میں ہونے والی تمام غیر ملکی سرمایہ کاری سے فائق تر ہے۔ دونوں کے لیے یکساں مفید تعاون کی بنیاد بھروسے، اعتماد اور مفادات کی ہم آہنگی پر ہے۔ پاکستان میں چینی اثر و رسوخ بے مثال بلند سطح پر پہنچ گیا ہے اور اس نے امریکی اثر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو ۱۹۵۴ء سے پاکستان کا سب سے پسندیدہ اتحادی رہا ہے۔
(viii) امریکا، جس نے بار بار پاکستان کو دھوکا دیا ہے اور عوام میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کو اب پاکستان سے مذاکرات کرنے میں ہمیشہ سے زیادہ مشکل ہوگی۔ اشرافیہ بھی اب، جس پر امریکا کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، اپنی مغرب پسند ذہنیت اور سمت تبدیل کرنے کی طرف مائل ہے۔
(ix) ۲۰۱۴ء میں اپنے خسارے کو جی ڈی پی کے ۷ء۴ فیصد تک لانے کے بعد بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے مالی بجٹ کی صورتحال زیادہ بہتر ہے (بھارت کی یہ شرح ۷ فیصد ہے) اور پاکستان ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے زیادہ سستا ہے۔
(x) چین کی جانب سے اقتصادی اور فوجی امداد معاشی، فوجی، جوہری شعبوں میں بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے اور دفاعی صلاحیت بڑھانے میں پاکستان کے لیے معاون ثابت ہوگا۔
(xi) بھارت کے ساتھ تزویراتی برابری اب پاکستان کے لیے ایک قابلِ حصول ہدف بن چکا ہے۔
(xii) آنے والے دور میں معیشت کا احیا غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کو ایک پُرکشش ملک بنا دے گا اور چھوٹے صوبوں کی معاشی و معاشرتی محرومیوں کو دور کرنے اور پاکستان مخالف عناصر کے لیے جگہ تنگ کرنے میں کارآمد ہوگا۔
(xiii) پاک چین شراکت داری کی کامیابی افغانستان میں صورتحال کے استحکام سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان میں استحکام میں چین اور پاکستان کا مشترکہ مفاد ہے کیونکہ پاکستان میں ’پٹی اور سڑک‘ (بیلٹ اینڈ روڈ) منصوبے کو اصل خطرہ پاک افغان خطے میں سرگرم دہشت گرد گروہوں سے ہے۔
(xiv) پاکستان افغان امن بات چیت میں بطور سہولت کار چین کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ آرام دہ محسوس کرتا ہے، بہ نسبت امریکا کے، جس کے ارادے انتہائی مشکوک ہیں۔
(xv) پاکستان میں چینی سرمایہ کاری نے دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک مثلاً سری لنکا، بنگلادیش، نیپال کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ جلدی کریں اور ترقی کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے چین کے ’پٹی اور سڑک‘ منصوبے میں شامل ہو جائیں۔
Well done pak chaina frends ship zinda abad