
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا ایک اہم ستون میڈیا ہے۔ جس کے ذریعہ حق و انصاف کی آواز بلند کی جاتی ہے، صحیح خبر کو شائع کیا جاتا ہے اور غلط خبروں یا جھوٹ پر مبنی باتوں کی حقیقت سامنے لائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی قیامِ عدل و انصاف میں میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ کہا جاتا ہے، وہ کس حد تک قابلِ اعتبار ہے؟ میڈیا کا جو کردار ہونا چاہیے، کیا آج وہ اپنے کردار کو ادا کر رہا ہے؟ سوال کے جواب میں یہ بات بھی لازماً سامنے آنی چاہیے کہ میڈیا جسے آج عوام الناس کی رائے عامہ ہموار کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے، وہ خود کس کے اختیار میں ہے۔ باالفاظِ دیگر مختلف زبانوں میں جاری اخبارات و رسائل اور نیوز و انٹر ٹینمنٹ چینلوں کے مالکان کون ہیں؟ حکومت؟ فلاحِ عام اور قیامِ امن میں مصروف افراد و گروہ؟ یا وہ تجارت پیشہ افراد جو ہر چیز کی بازار میں قیمت لگانے سے نہیں چُوکتے؟ ساتھ ان افراد پر بھی گفتگو ہونی چاہیے جو میڈیا میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے مقاصد و نصب العین کیا ہیں؟ غیر مساویانہ و دولت کا حصول؟ یا ایک عظیم مقصد کو انجام دیتے ہوئے شب و روز کی ضروریات کی تکمیل؟ یہ اور ان جیسے بے شمار سوالات ہیں جو آج میڈیا کے کردار کے سلسلے میں اٹھتے ہیں۔ لہٰذا سوالات کے پس منظر میں وہ لوگ بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے جو اس پیشہ کو اختیار کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں یہ خبر اہم تھی کہ اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے ’ہیگ‘ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو متنازع بنانے اور عدالت کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے اندرون اور بیرون ملک میڈیا مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ نیتن یاہو کی جانب سے یہ اعلان آئی سی سی کی پراسیکیوٹر جنرل فاٹو بنسوڈا کے اس بیان کے ردعمل میں آیا ہے جس میں انہوں نے فلسطین میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی فوج داری عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کی تحقیقات کے اعلان کے ردعمل میں فوری اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے عالمی ابلاغی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ آئی سی سی کے وجوہ کو آئینی طور پر متنازع بنا کر جنگی جرائم کی تحقیقات کو غیر موثر بنایا جاسکے۔ رپورٹ کے مطابق یاہو نے وزرات خارجہ اور وزرات اطلاعات و نشریات کو ہدایت دی کہ وہ ملک اور بیرون ملک ابلاغی مہم شروع کریں۔ جس کے ذریعہ عالمی فوج داری عدالت اوراس کی خاتون پراسیکیوٹر جنرل بنسوڈا کو متنازع بنایا جاسکے۔ اپنے شاطرانہ منصوبوں کے بارے میں بتاتے ہوئے یاہو نے کہا کہ ہم اس کا ہر سطح پر مقابلہ کریں گے اور دوسروں کو بھی اس جنگ میں استعمال کریں گے، لہٰذا وہ بھی اس کے لیے تیار رہیں۔ ہم اسرائیلی فوجیوں کو عالمی عدالت کے سامنے جواب دہ نہیں ہونے دیں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیل اور امریکا کے افسران بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں، جس کے تحت اس بات کی تحقیق کی جائے گی کہ پچھلی جنگ میں اسرائیل یا فلسطین میں سے کس کی جانب سے جنگی جرائم کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ اس خبر سے ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ والی مثال خوب اچھی طرح ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں تو کیوں بین الاقوامی عدالت کو قائم کرنے والے خود ہی بین الاقوامی عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا چاہتے ہیں؟
متذکرہ خبر کے تناظر میں یہ دیکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ وہ عالمی میڈیا خصوصاً مغربی میڈیا جس پر ہمارا انحصار ہے۔ جن کے حوالوں کے ساتھ ہماری خبریں و مضامین نہ صرف شائع ہوتے ہیں بلکہ اُن ہی خبروں کی بنیاد پر اپنی اور عوام کی رائے ہموار کرنے کا بھی کام انجام دیا جاتا ہے۔ وہ خبریں کہاں سے آتی ہیں ؟اور ان وسائل پر کن لوگوں کی گرفت ہے؟ گزشتہ دنوں ’عالمی میڈیا پر کنٹرول کس کا‘ کے عنوان سے ایک سروے منظر عام پر آیا تھا۔ جس میں دنیا بھر میں میڈیا پر براہ راست کنٹرول کرنے والی کمپنیوں اور ان کے مالکان کے بارے میں تفصیلات دی گئیں تھیں۔ سروے رپورٹ کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ فی الوقت عالمی میڈیا کے ۹۰ فیصد حصے پر یہودی خبررساں ادارے، اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، اور بین الاقوامی جرائد قابض ہیں۔ اور یہ وہی خبررساں ادارے ہیں جن کے ذریعہ ملکی و بین الاقوامی سطح کا مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے ۹۰ فیصد میڈیا پر صرف ۶ کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ یہ سبھی کمپنیاں یہودیوں کی ہیں۔ سب سے بڑی کمپنی ’’والٹ ڈزنی‘‘ ہے، اِس کمپنی کے امریکا میں سب سے زیادہ پروڈکشن ہاؤس ہیں۔ کمپنی کے پاس ۷ بڑے نیوز پیپرز، ۳ میگزین اور بڑا کیبل نیٹ ورک ہے، جس کے ۱۴؍ ملین صارف ہیں۔ دوسری کمپنی ’’ٹائم وارنر‘‘ جس کی ملکیت ایچ بی او ہے، جو امریکا کا سب سے بڑا ٹی وی کیبل نیٹ ورک ہے۔ کمپنی کی ملکیت میں امریکا کا سب سے بڑا میگزین ’’ٹائم میگزین‘‘ بھی آتا ہے، جو خالصتاً یہودیوں کا ہے۔ تیسری کمپنی ’’وائی کام‘‘ ہے۔ پیرا مائونٹ پکچرس اور ایم ٹی وی اس کی ملکیت ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں بلکہ ذہن سازی کا کام بھی بڑے پیمانہ پر انجام دے رہے ہیں۔ بچے، بڑے، مرد و خواتین سب ہی کے نہ صرف ذہنوں کو بلکہ اُن کی معاشرتی، تمدنی و تہذیبی شناخت کو بھی انٹرٹینمنٹ پروگراموں کے ذریعہ تبدیل کرنے کی مہم جاری ہے۔ چوتھی کمپنی ’’نیوز کارپوریشن‘‘ ہے جس کی ملکیت فاکس ٹی وی چینل ہے۔ پانچویں ’’ڈریم ورکس‘‘ ہے اور چھٹی ’’فاکس ٹی وی‘‘ ہے۔ ان کمپنیوں کے ذریعہ روزانہ ۶ کروڑ اخبارات فروخت ہوتے ہیں، جس میں ۷۵ فیصد ملکیت یہودیوں کی ہے۔ دنیا کے مقبول ترین اخبار و رسائل نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ مخصوص گروہ کی ملکیت میں آتے ہیں۔ میڈیا کی عالمی اجارہ داری و صورتحال کے تناظر میں نیتن یاہو کی بین الاقوامی فوج داری عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کی تحقیقات کے خلاف اعلان شدہ میڈیا مہم کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
اسی سلسلے میں مولانا نذر الحفیظ ندوی کی کتاب ’’مغربی میڈیا اور اس کے اثرات‘‘ کا یہ حصہ بڑا اہم ہے۔ جس میں وہ صہیونی پروٹوکول کے بارے میں بارہویں دستاویز سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔ اقتباس مزید شواہد فراہم کرتا ہے کہ یہودیوں نے صحافت کو کتنی اہمیت دی ہے۔ اس سے نہ صرف دفاعی بلکہ اقدامی اور جارح طریقہ کار کا کام بھی لیا گیا ہے۔ اقتباس اس طرح ہے: ’’ادب اور صحافت عوام کا ذہن تیار کرنے کے لیے اہم ستون ہیں۔ اس لیے بیشتر اخبارات اور رسالے ہم اپنی حکومت کی ملکیت میں رکھیں گے۔ یہ ذرائع ابلاغ نجی ملکیت کے پریس کے منفی اثرات زائل کریں گے اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لیے ہمارے ہاتھوں میں زبردست طاقت ہوں گے۔ اگر عوام کو ہم دس رسالوں کے اجرا کی اجازت دیں گے تو یہ اجازت اپنے تیس رسالوں کو دیں گے۔ اور جتنے بھی رسالے شائع ہوں گے، اُن کا تناسب یہی ہوگا‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’ہمارے یہ سب اخبار اس بڑے دیو کی طرح ہوں گے جس کے بے شمار ہاتھ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک انگلی حسب ضرورت رائے عامہ کے ہر شعبہ پر رکھی ہوئی ہوگی۔ جس نبض کی رفتار تیز ہوگی، یہ ہاتھ رائے عامہ کا رخ ہمارے نصب العین کی طرف موڑ دیں گے۔ ہمارے مخالفین کے پاس چونکہ پریس کے ذرائع نہیں ہوں گے جن کے ذریعہ وہ اپنے خیالات کا کماحقہٗ اور حتمی طور پر اظہار کرسکیں، ہم پریس کو ان کے خلاف استعمال کرکے فتح حاصل کر لیں گے‘‘۔ (ناشر۔ ندوۃ العلما۔ لکھنؤ)
گفتگو کے پس منظر میں سوال پھر اٹھے گا کہ ہم کیا کریں؟ جواب بہت واضح ہے۔ کہا کہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو دانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو‘‘ (الحجرات:۶)۔ اس بنیادی تعلیم کی روشنی میں وہ تمام اہل حق جو صحافت کو ایک مقدس مشن سمجھ کر داخل ہوئے ہیں، انہیں چاہیے کہ حمایت و مخالفت کا اسلامی اصول اختیار کرتے ہوئے جرائم کا پردہ فاش کرنے، شہادت کا حق ادا کرنے اور ظلم و ناانصافی کے خلاف پُرامن اور قانونی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے نہ صرف پیشہ وارانہ ذمہ داری انجام دیں بلکہ اظہارِ رائے کی آزادی کے بے جا استعمال سے گریز کرتے ہوئے حکومتِ وقت سے بھی سوال اور باز پرس کرنے سے نہ گھبرائیں۔ تاکہ وہ چوتھا ستون جو امارت کے قیام میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے، وہ نہ صرف اخلاق باختہ افراد کی نشاندہی کرے بلکہ اعلیٰ ترین نصب العین کے حصول میں بھی کامیاب ہو۔ ساتھ ہی وہ ظلم و زیادتیاں جو چہار طرفہ برپا ہیں، ان کا خاتمہ ہو اور امن و امان کے قیام میں موثر کردار ادا کر سکے!
○○○
Leave a Reply