مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال نے مغربی طاقتوں کے لیے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ترجیحات بھی بدل دی ہیں۔ انہیں بہت سے معاملات میں نئے سرے سے سوچنا پڑا ہے۔ مغرب کو مشرق وسطیٰ میں زیادہ ملوث ہونا پڑا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کو یکسر فراموش یا نظر انداز کردیا جائے۔ ۲۰۰۳ء میں جب عراق کی صورت حال بگڑی تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کو نظر انداز کردیا تھا اور پھر اس کا نتیجہ بھی بھگتا۔
افغانستان میں نیم دلی سے کچھ کرنے کے بجائے زیادہ طاقت اور جوش کے ساتھ بہت کچھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ فروری میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ افغانستان میں صورت حال تیزی سے ابھر رہی ہے۔ دوسری جانب نیٹو کے غیر عسکری امور کے نمائندے مارک سیڈ ول نے بھی کہا کہ اتحادیوں کو افغانستان میں زیادہ جوش اور طاقت کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔
امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں عسکری سطح پر جس نیم دلانہ رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر معاملات صرف طاقت سے درست نہیں کیے جاسکتے۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی ۲۰۱۴ء تک افغانستان سے مکمل انخلاء چاہتے ہیں تو انہیں اینڈ گیم ترتیب دینا ہوگا۔ اس اینڈ گیم کے بغیر کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوگا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں تمام دھڑوں سے مذاکرات کرنے ہوں گے تاکہ معاملات کو پرامن طور پر حل کرنے کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملے۔ ساتھ ہی ساتھ افغان دھڑوں کی حمایت کرنے والے علاقائی پلیئرز سے بھی بات کرنا ہوگی۔
دفاع، ترقی اور سفارت کاری کی تکون میں سیاسی تصفیہ معاملات سلجھانے کا صرف ایک پہلو نہیں۔ کسی بھی قضیے کو ختم کرنے یا بہتر ڈھنگ سے نمٹانے کے معاملے میں سیاسی تصفیہ حتمی حل کا محض ایک جز نہیں ہوتا بلکہ سب سے اہم جز ہوتا ہے۔ دیگر تمام معاملات اسی جز کے گرد گھومتے ہیں اور سب کو اسی فریم ورک میں رہتے ہوئے کام کرنا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو ایک ثالث مقرر کرکے اسے اختیارات سونپنے چاہئیں تاکہ وہ تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دے۔ ثالث اسلامی دنیا سے ہونا چاہیے جو تمام فریقین کی بات سنے اور ان کے نقطہ نظر کا احترام کرتے ہوئے معاملات کو الجھانے کے بجائے سلجھانے پر توجہ دے۔ اسے افغانستان کے مستقبل پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے فریقین میں ایک دوسرے کے لیے احترام اور ایک دوسرے پر اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ابتدائی مرحلے میں کسی خلیجی ریاست، ترکی یا جاپان میں فریقین کے درمیان رابطے قائم کرائے جاسکتے ہیں۔
سب سے پہلے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو فریقین کے بنیادی مطالبات پر مبنی ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ ان کے ٹھکانوں پر راتوں کو چھاپے مارنے کا سلسلہ بند کیا جائے، انہیں مذاکرات میں شرکت کے لیے محفوظ رہداری دی جائے اور ان کے قیدیوں کو رہائی دی جائے۔ مقامی سطح پر لڑائی بند کرنے کا اعلانات ہونے چاہئیں، ترقیاتی اور تعمیر نو کے کاموں کے لیے سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ ماضی میں طالبان پولیو ویکسینیشن مہم وغیرہ میں تعاون کرتے رہے ہیں۔ اسی طور القاعدہ سے طالبان کی لاتعلق کا اعلان کرایا جانا چاہیے۔
افغانستان میں غیر ملکی یا بین الاقوامی فورسز بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کی عسکری قیادت بھی موجود ہے۔ اسی طرز پر ان کی سویلین قیادت کا بھی اہتمام کیا جانا چاہیے۔ امریکا رواں سال افغانستان میں نیا سفیر مقرر کرنے والا ہے۔ یہ شخصیت ایسی ہونی چاہیے جو عسکری اور سیاسی قیادت کو مختلف امور میں ہم آہنگ کرے تاکہ انخلاء کا عمل بہتر انداز سے مکمل ہو اور افغان دھڑوں کو کسی بھی معاملے میں نا انصافی کا شکوہ کرنے کا موقع نہ ملے۔
افغان صدر حامد کرزئی کے مرکزی رابطہ کار کو افغانستان میں موجود غیر ملکی فورسز کے کمانڈروں سے بہتر رابطے استوار رکھنے چاہئیں تاکہ افغان جنگ ختم کرنے کی حکمت عملی متوازن اور تشدد سے پرے ہو۔ اس صورت میں ایک ایسا سیٹ اپ قائم ہوگا جس میں اقوام متحدہ اور فریقین کو ہم آہنگ ہوکر کام کرنے کا موقع ملے گا اور معاملات درستی کی طرف لے جائے جاسکیں گے۔
پاکستان کو امریکا اور یورپی یونین سے احترام اور ذمہ داری کی بنیاد پر طویل المیعاد خوشگوار تعلقات کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کو کوئی خاص مقام یا درجہ نہیں دیا جاسکتا ہے تاہم اس پر دباؤ ڈالنے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں گے۔ اگر آج ہم پاکستان سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان سے انخلاء کے عمل میں ہماری سلامتی کو یقینی بنائے تو جواباً وہ بھی ہم سے ایسی ہی کسی ضمانت کی توقع رکھے گا۔ پاکستان کی سلامتی کو بھی طویل المیعاد بنیاد پر یقینی بنانے کے لیے بھی مغربی قوتوں کو کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ متبادل صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ ہم طالبان سے تمام معاملات طے کرلیں اور پاکستان کو نظر انداز کردیں۔ اس صورت میں افغانستان سے انخلاء کا عمل تاخیر کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔
افغانستان کے پڑوسی ممالک کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اقوام متحدہ کے ایلچی یا ثالث کو افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک سے رابطے قائم کرکے ان سے بات کرنی چاہیے تاکہ طویل المیعاد بنیاد پر سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے۔ علاقائی سلامتی کی کوئی کونسل بھی قائم کی جاسکتی ہے۔
۲۰۱۴ء کی ڈیڈ لائن جیسے جیسے قریب آتی جائے گی، ہماری پوزیشن کمزور ہوتی جائے گی۔ افغانستان میں مختلف دھڑے تیزی سے طاقت حاصل کرتے ہوئے بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔ نسلی بنیاد پر مناقشے خانہ جنگی کی سی تصویر بھی پیش کرسکتے ہیں۔ اتحادی اور افغان افواج پر حملوں میں بھی شدت آسکتی ہے اور ایسے حملوں کو روکنے سے متعلق ان دونوں افواج کی طاقت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ موسم گرما میں ایک کانفرنس کابل میں اور دسمبر میں ایک کانفرنس جرمن شہر بون میں ہوگی۔ مقاصد میں ہم آہنگی پیدا کرکے ان دونوں کانفرنسوں کو سیاسی ایجنڈے کے حوالے سے تاریخی بنایا جاسکتا ہے۔
شورش کو کچلنے کے لیے اپنائے جانے والے نظریے اور حکمت عملی کی بنیاد پر آخر میں سب یہی کہتے ہیں کہ طاقت سے معاملات درست نہیں کیے جاسکتے۔ لوگ وہی کہتے ہیں جو انہیں دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ افغان مسئلے کا کوئی عسکری حل ممکن تھا مگر ہم نے سیاسی حل اپنایا۔
افغانستان کے معاملے میں ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ معاملات کو جیسے تیسے، عجلت میں نمٹانے اور بھگتانے سے بہتر یہ ہوگا کہ معاملات کو درست کرنے پر توجہ دی جائے۔
(مضمون نگار برطانیہ کے سیکریٹری اسٹیٹ آف فارن افیئرز رہ چکے ہیں)
(بشکریہ: ’’گارجین‘‘ ۱۷؍ اپریل ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply