ملکۂ برطانیہ سے ایک دلچسپ گزارش

اطلاعات کے مطابق ایک امریکی شہری نے ملکۂ برطانیہ اور برطانوی وزیراعظم کے نام ایک مراسلہ لکھا ہے۔ مراسلہ ایک ہی ہے البتہ خطاب دونوں سے ہے۔ اس کی خبر ایک ویب سائٹ ریڈٹ کو زیر استعمال رکھنے والے ایک شخص نے دی ہے۔ اس کا کہیں نام نہیں آیا ہے اور نہ مراسلہ نگار کا نام ظاہر کیا گیا ہے۔ البتہ بکنگھم پیلس (برطانوی شاہی محل) نے اس کی تصدیق کر دی ہے کہ ملکہ کے نام اس طر ح کا ایک مراسلہ موصول ہوا ہے۔ یہی نہیں ملکہ کی طرف سے اس کا جواب بھی ارسال کر دیا گیا ہے۔

برطانوی ذرائع ابلاغ نے ان دونوں واقعات کی نہ صرف تصدیق کر دی ہے بلکہ ملکہ کی جانب سے ارسال کردہ جواب کا عکس بھی اس نے شائع کردیا ہے۔ ظاہر ہے شاہی محل کی رضامندی کے بغیر تو ایسا ہو نہیں سکتا۔ مذکورہ اطلاعات کے مطابق یہ مراسلہ ماہ گزشتہ یعنی ستمبر کے وسط میں لکھا گیا تھا، متعین طور پر اس کی تاریخ بھی بتائی گئی ہے اور وہ ستمبر کی سولہ تاریخ ہے۔ یہ وہی دن ہے جب امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این پر امریکا کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک سیاسی جماعت ری پبلکن پارٹی جس کو جی او پی (گرانڈ اولڈ پارٹی) بھی کہتے ہیں، کی طرف سے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل گیارہ افراد کی نوک جھونک دکھائی گئی تھی جو پورے تین گھنٹے تک جاری رہی تھی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ مراسلہ نگار بھی یہ منظر دیکھ رہا تھا اور یہی واقعہ اس کا محرک بھی بنا۔ مراسلہ نگار کو ایک طرف تو اینگلو فائل (ایسا شخص جس کو انگلینڈ سے وہاں کے لوگوں سے، وہاں کی تہذیب و تمدن سے جنون کی حد تک لگائو ہو) بتایا گیا ہے اور دوسری طرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ امریکا کے موجودہ احوال سے انتہائی مایوس اور امریکی سیاست دانوں کے رویے سے سخت بیزار ہے۔ اسی مایوسی اور بیزاری نے اسے ملکۂ برطانیہ کو مخاطب کرنے پر مجبور کیا ہے۔

یہ کوئی لمبا چوڑا مکتوب نہیں ہے بہت مختصر اور بہت واضح ہے۔ مکتوب نگار نے اپنا مدعا چند الفاظ میں ملکۂ معظمہ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ جملہ باشندگان ملک یعنی اہل وطن کی جانب سے ان سے یہ دست بستہ التجا کرتا ہے کہ وہ ہمیں اپنی سرپرستی میں واپس لے لیں۔ کیونکہ اس کے خیال میں اب یہ ناگزیر ہوگیا ہے۔

وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس کی اس درخواست کو فوری توجہ کا مستحق سمجھا جائے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ اب ہم قیادت کی صفات سے محروم ہو چکے ہیں۔ یعنی امریکیوں میں اب کوئی ایسا لیڈر، رہنما، قائد اس کی نظر میں موجود نہیں ہے کہ جس میں وہ قائدانہ صفات موجود ہوں، جو ایک قوم کے قائد میں واقعی ہونی چاہئیں۔ اس لیے وہ ایک بار پھر یہ التجا کرتا ہے کہ وہ متحدہ امریکا کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ یہی نہیں بلکہ اسے مملکت برطانیہ میں ایک ریاست کے طور پر شامل کرلیں۔

مکتوب نگار یہ کہتا ہے کہ بظاہر یہ ایک انتہائی سخت قدم ہے لیکن وہ اسے ضروری خیال کرتا ہے اور اس کے لیے اس کے پاس بہت معقول وجہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بننے کے لیے جو دوڑ جاری ہے اور اس سلسلے میں امشب ٹیلی ویژن پر جو مباحثہ دکھایا گیا ہے وہ اس کا کافی ثبوت ہے۔

برطانوی شاہی محل نے اس مکتوب کو اتنی اہمیت دی کہ نہ صرف اس کو وصول کیا بلکہ اس کا جواب بھی دیا، نیز دنیا کو اس کی خبر دینا بھی ضروری سمجھا ہی نہیں بلکہ ملکہ کی جانب سے اس کا جو جواب دیا گیا اس کا عکس بھی پریس کو جاری کردیا۔ شاہی محل میں ملکہ کے ڈپٹی رابطہ کار کا یہ کہنا ہے کہ انہیں ملکہ کی جانب سے آپ کے اس مکتوب کا جواب دینے کی ہدایت دی گئی ہے، جس میں آپ نے امریکی حکومت کے سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

ملکہ کی جانب سے جو جواب دیا گیا ہے وہ بھی بہت مختصر اور دوٹوک ہے۔ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے انہیں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ آپ پر یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ ملکہ معظمہ کی جانب سے کسی آزاد و مختار ملک کے معاملات میں مداخلت کا کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ امید ہے یہ معذرت آپ کے نزدیک بھی معقول ہوگی۔ بظاہر تو یہ ایک معمولی واقعہ ہے، مگر اس میں بہت سارے سوالات چھپے ہوئے ہیں۔

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۵ء)

427

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*