
جان برینن نے ۸ مارچ ۲۰۱۳ء کو امریکا کے مرکزی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ (ڈائریکٹر) کا منصب سنبھالا۔ اس سے قبل انہوں نے چار سال تک ہوم لینڈ سکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے امریکی صدر براک اوباما کے معاون کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
جان برینن نے سی آئی اے میں ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۵ء تک مختلف حیثیتوں میں کام کیا۔ اس دوران انہیں مشرق وسطٰی میں اسٹیشن چیف بھی بنایا گیا اور وہ بعد میں ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بھی رہے۔ جان برینن نے انسدادِ دہشت گردی کے قومی مرکز کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا اور ۲۰۰۴ء میں اس کے عبوری ڈائریکٹر بھی رہے۔
کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر (سی ٹی سی) نے ان سے حال ہی میں ایک انٹرویو کیا، جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
سی ٹی سی: نائن الیون کے بعد امریکا تو خاصا محفوظ ہوگیا ہے۔ القاعدہ کہاں کھڑی ہے؟
جان برینن: نائن الیون کے زمانے میں القاعدہ بنیادی طور پر افغانستان اور اس سے ملحق پاکستانی علاقوں میں مرتکز تھی۔ تب سے اب تک صورت حال بہت تبدیل ہوچکی ہے۔ اب یہ تنظیم پورے خطے میں بکھر گئی ہے۔ عرب ممالک میں یہ تنظیم کئی شاخوں میں بٹ گئی ہے۔ جبہۃ النصرۃ بھی اسی کی ایک شاخ ہے۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر اٹھنے کے بعد سے کئی ممالک میں القاعدہ نے مختلف روپ دھارے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر گروپ مقامی ایجنڈے کے تحت کام کرتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر جاکر کچھ کرنے کے بجائے ملکی حالات کے مطابق ایجنڈا تیار کرتے ہیں اور اپنی حکمتِ عملی کو اس ایجنڈے کی تکمیل تک محدود رکھتے ہیں۔ شام میں جبہۃ النصرۃ اور اس کے ہم خیال دیگر گروپوں نے خود کو بشار الاسد کا تختہ الٹنے تک محدود کر رکھا ہے۔ قصہ مختصر ہم نے القاعدہ کو بہت حد تک بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ القاعدہ اب بھی پریشان کن ہے مگر پریشانی کی وہ سطح نہیں۔ اس کی طاقت کم ہونے کے ساتھ ساتھ بکھر بھی گئی ہے۔ ایمن الظواہری اور ان کے قریبی رفقاء اب بھی مغرب ہی کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ ان کے لیے اب کچھ زیادہ کرنا انتہائی دشوار ہے۔
ایبٹ آباد میں کمپاؤنڈ سے جو کچھ ملا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسامہ بن لادن غیر معمولی پیمانے پر واقع ہونے والی ہلاکتوں سے پریشان تھے۔ انہیں یہ احساس شدت سے ستا رہا تھا کہ القاعدہ جن مقاصد کے حصول کے لیے بنائی گئی تھی وہ ایک طرف رہ گئے ہیں۔ اور یوں تنظیم غیر متعلق معاملات میں الجھ کر بدنام ہو رہی ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ان کی نظر میں سب سے بڑا حریف امریکا تھا۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اب امریکا بہت محفوظ ہے۔ القاعدہ اور دیگر ہم خیال گروپوں کے لیے زیادہ آسانی سے کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ اب اگر وہ امریکی سرزمین کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں بہت محنت کرنا پڑے گی۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کا نظام جامع اور مضبوط ہے۔ اب اگر کوئی بھی ایسی ویسی سرگرمی ہو تو متعلقہ افراد کا پکڑا جانا مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔
سی ٹی سی: تجزیہ کار کہتے ہیں کہ القاعدہ دوبارہ افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے جامع خفیہ رپورٹس کیا ہیں؟
جان برینن: نائن الیون کے بعد کے پندرہ برسوں میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والوں نے بیشتر وقت پاکستان میں گزارا ہے مگر وہاں وہ زیادہ کامیاب نہیں رہے۔ محفوظ مقامات کی تلاش میں انہیں بہت سے ملکوں کی خاک چھاننا پڑی۔ اب وہ پھر محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں افغانستان کا رخ کر رہے ہیں۔ افغانستان میں چند ایک علاقے طالبان کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ ان علاقوں میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والوں کو پناہ مل سکتی ہے۔ مگر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ القاعدہ کے ساتھ ساتھ طالبان پر بھی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ افغانستان کے بہت سے علاقوں میں سرکاری فوج لڑ رہی ہے اور اس کا اچھا خاصا جانی نقصان بھی ہو رہا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب افغان نوجوان اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے جان دے رہے ہیں۔ القاعدہ کے کچھ لوگ افغانستان واپس آئے ہیں مگر ابھی ان کی طاقت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ وہ پریشانی کے عالم میں ہیں۔ دوبارہ منظم ہونے میں انہیں کچھ وقت لگے گا۔
سی ٹی سی: جولائی ۲۰۱۶ء میں القاعدہ اور جبہۃ النصرۃ الگ ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں جبہۃ الفتح الشام معرض وجود میں آئی۔
جان برینن: جی ہاں۔ امریکا اور روس نے غیر معمولی دباؤ ڈال کر جبہۃ النصرۃ کو القاعدہ سے الگ ہونے پر مجبور کیا۔ ان دونوں گروپوں کے لیے مل کر کام کرنا اور آگے بڑھنا ممکن نہ رہا تھا۔ یہ دونوں گروپ اب الگ رہ کر کام کر رہے ہیں مگر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ان کے مقاصد میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ جن مقاصد کے لیے ان تنظیموں یا گروپوں کو بنایا گیا تھا یہ انہی کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ انہیں چلانے والی، ان سے کام لینے والی بیرونی قوتیں بھی پیچھے نہیں ہٹیں، وہ اپنا کام کر رہی ہیں یعنی انہیں استعمال کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا بنیادی کام ہے متعلقہ ملک کی باضابطہ، تسلیم شدہ فوج پر دباؤ برقرار رکھنا، اسے زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان سے دوچار کرنا۔ نام بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے سے مقاصد تبدیل نہیں ہوجایا کرتے۔ کام کرنے کے طریق میں تو تبدیلی واقع ہوسکتی ہے مگر مقاصد وہی رہیں گے۔ احرار الشام اور چند دیگر جہادی گروپوں کے ساتھ جبہۃ النصرۃ کا اشتراک عمل ہو رہا ہے مگر اس راہ میں تو پہلے بھی کوئی رکاوٹ حائل نہ تھی۔
شام میں جبہۃ النصرۃ اور داعش کے درمیان بہت کم اشتراک عمل رہا ہے۔ اب معاملہ دشمنی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ بہت حد تک ذاتی نوعیت کی پرخاش کا نتیجہ ہے۔ مگر خیر، القاعدہ اور جبہۃ النصرۃ کے الگ الگ راہ پر گامزن ہونے سے کوئی بڑا فرق رونما نہیں ہوگا۔
سی ٹی سی: القاعدہ اور داعش میں کون زیادہ منظم اور مضبوط ہے اور کس کی سرگرمیاں زیادہ پھیلی ہوئی ہیں؟ یا یوں کہیے کہ کون بازی لے گیا ہے۔
جان برینن: داعش ہر اعتبار سے مضبوط تر ہے۔ القاعدہ کے مقابلے میں اس کی کارکردگی کا دائرہ پھیلتا ہی جارہا ہے۔ اس سے وابستہ نوجوانوں میں غیر معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ القاعدہ میں اب تک قیادت کا انداز پرانا ہے جس کے نتیجے میں نوجوان اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ القاعدہ سے وابستہ افراد اب پہلی سی دل جمعی سے کام کرنے کے موڈ میں بھی نہیں۔ جن علاقوں میں داعش موجود ہے وہاں اگر القاعدہ اپنی پوزیشن کسی حد تک بحال کرنے کی بھرپور کوشش کرے تو کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ تو فطری عمل ہے۔ القاعدہ کی حیثیت اب وہ نہیں رہی جو کسی زمانے میں تھی۔ وہ بہت کچھ کھوچکی ہے۔ کھوئے ہوئے کو دوبارہ پانے کی کوشش میں وہ بہت کچھ کرسکتی ہے۔
سی ٹی سی: اس وقت امریکا کے لیے سب سے بڑا اندرونی اور بیرونی خطرہ کون سی تنظیم ہے؟ داعش یا القاعدہ؟
جان برینن: بلا خوف و تَردُّد کہا جاسکتا ہے کہ داعش امریکا کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ اس کی پوزیشن واضح طور پر بہت مضبوط ہے۔ وہ امریکی سرزمین پر بھی جڑیں رکھتی ہے۔ القاعدہ اور داعش میں قیادت کے انداز کا فرق نمایاں ہے۔ داعش میں نئی نسل کے لیے بہت کچھ ہے۔ یہ لوگ ڈیجیٹل عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں۔ رابطے کے جدید ترین اطوار اپناتے ہوئے انہوں نے اپنے لیے خاصی گنجائش پیدا کی ہے۔ دورِ جدید میں رابطے کی جتنی بھی مہارتیں ہیں ان کے حصول پر داعش کی قیادت نے خصوصی توجہ دی ہے۔ نئی نسل کو داعش سے وابستہ ہونے میں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے۔
القاعدہ نے عہدِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے پر زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔ اس سے جڑے ہوئے بڑی عمر کے افراد عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔
سی ٹی سی: بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے حوالے سے داعش کس حد تک مضبوط ہے؟
جان برینن: اچھی خاصی۔ اس تنظیم کا ڈھانچا اگرچہ القاعدہ کے تنظیمی ڈھانچے سے مختلف اور کمزور ہے مگر مجموعی طور پر جوش و خروش اتنا ہے کہ یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے۔ اس نے نئی نسل کو مختلف ایشوز پر لڑنے کی بھرپور تحریک دی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اس کے بہت سے ارکان نے تارکین وطن یا پھر پناہ گزینوں کے بھیس میں یورپ کے متعدد ممالک میں پناہ لی ہے۔ اب وہ موزوں موقع کے منتظر ہیں۔ جیسے ہی گنجائش دکھائی دے گی یہ کچھ نہ کچھ کر گزریں گے۔
داعش کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس نے تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھے۔ یہ متعدد ممالک میں موجود اور متحرک ہے۔ یہی اس کے زندہ رہنے کی ایک سبیل ہے۔ شام اور عراق تک محدود رہنے کے بجائے اس تنظیم نے یورپ اور امریکا تک بھی رسائی حاصل کی ہے۔ اپنے علاقوں سے نکل کر اس نے کئی گروپوں سے اشتراکِ عمل بڑھایا ہے۔ افریقا میں اس نے بوکو حرام سے رابطے بڑھائے ہیں۔ بوکو حرام کو داعش کا افریقی ورژن بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ داعش کی قیادت کو سرخیوں میں رہنے کا شوق ہے اور اسے یہ فن آتا بھی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ داعش کو ہر وقت لوگوں کی نظر کے سامنے رکھنے کی بہتر صورت کیا ہوسکتی ہے۔ بھرپور کامیابی یعنی زیادہ سے زیادہ خوف یقینی بنانے کے لیے میڈیا میں خود کو زندہ رکھنا لازم ہے۔
داعش کی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ جُڑ کر کیسے رہا جاتا ہے اور کس گروپ کے ساتھ زیادہ اشتراکِ عمل کرنا چاہیے۔ یہی اس کی کامیابی کا راز ہے۔
سی ٹی سی: چند یورپی ممالک سے جو لوگ داعش کے ساتھ کام کرنے گئے تھے ان سے کی جانے والی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ داعش میں مجموعی طور پر کوئی جامع اور مستقل نوعیت کی پالیسی ہے نہ حکمتِ عملی۔ بیشتر معاملات ایڈہاک بنیاد پر چلائے جارہے ہیں۔
جان برینن: یہ بات درست ہے کہ داعش بہت منظم نہیں۔ اس کے طویل المیعاد مقاصد یا اہداف بھی نہیں۔ اس تنظیم کی بیشتر سرگرمیاں فوری نوعیت کی اور فوری مقاصد کے لیے ہوا کرتی ہیں۔ القاعدہ ایک منتظم تنظیم تھی۔ اس کے چند مقاصد تھے اور ان مقاصد کو ہمیشہ ذہن نشین رکھا جاتا تھا۔ نائن الیون کی پشت پر واضح منصوبہ بندی تھی۔ یہ سب کچھ اچانک، پلک جھپکتے میں یا راتوں رات نہیں ہوگیا تھا۔ داعش کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ اس کی بیشتر سرگرمیوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زیادہ سوچا نہیں گیا اور معاملات کو جیسے تیسے نمٹادیا گیا ہے۔
داعش کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ کسی بھی موقع سے فوری فائدہ اٹھایا جائے ورنہ کوئی اور فائدہ اٹھالے گا۔ جب اس نے دیکھا کہ یورپ کو نقصان پہنچاکر توجہ پائی جاسکتی ہے تو پیرس اور نائس میں دہشت گردی کی۔ یہ تنظیم اچھی طرح جانتی ہے کہ یورپ میں غیر معمولی جانی نقصان شدید خوف کی فضا پیدا کرے گا۔ اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ یورپ میں چند بڑے وارداتیں کرکے وہ وہاں اپنے خوف کا سِکّہ جمانا چاہتی ہے۔ امریکا کے مقابلے میں یورپ کو دہشت گردی کا نشانہ بناکر زیادہ فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
داعش کی مجموعی سوچ یہ ہے کہ کام تیزی سے ہو، نتائج فوری طور پر حاصل کرلیے جائیں۔ طویل المیعاد منصوبہ بندی پر اس نے اب تک زور نہیں دیا۔ طویل المیعاد مقاصد بھی اس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ بیشتر کام جہاں ہے، جیسا ہے کہ بنیاد پر کیے جارہے ہیں۔ مگر خیر، ایسا نہیں ہے کہ طویل المیعاد پالیسی کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ بس یہ ہے کہ اس پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔
سی ٹی سی: قیاس آرائی ہے کہ داعش نے شام اور عراق میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی غیر معمولی کارروائیوں سے بچنے کے لیے اب دیگر ممالک میں بھی اپنی بنیاد مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔
جان برینن: یہ بات کچھ زیادہ غلط بھی نہیں۔ امریکا اور روس نے جو کارروائیاں کیں ان کے باعث داعش کو مجبور ہوکر اپنے علاقوں سے نکلنا پڑا۔ عراق میں داعش کے ۶۰۰ تا ۸۰۰ ارکان رہ گئے تھے۔ مگر خیر ایسا نہیں ہے کہ داعش نے ختم ہوجانے کے خوف سے عراق اور شام سے نکلنا گوارا کیا۔ یہ تنظیم خود کو بین الاقوامی سطح پر منوانے کی بھرپور خواہش رکھتی ہے۔ داعش کی قیادت چاہتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ دیکھا اور تسلیم کیا جائے۔ عراق میں القاعدہ متحرک ضرور تھی مگر اس میں اور داعش میں بنیادی فرق یہ تھا کہ القاعدہ کسی بھی اعتبار سے شدید شیعہ مخالف نہ تھی۔ داعش کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ اس گروپ کو واضح طور پر اینٹی شیعہ انجن کے طور پر بروئے کار لایا گیا۔ ابتدا میں زیادہ پیچیدگیاں نہیں تھیں۔ مگر جب داعش نے پالیسی اور حکمتِ عملی تبدیل کی تو القاعدہ نے اس سے الگ ہوجانے میں عافیت محسوس کی۔ کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہے، اندازہ لگاسکتا ہے کہ جب شام اور عراق میں تشدد کی سطح بلند ہوئی تو داعش کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔
داعش نے بغداد اور دمشق دونوں کے خلاف یعنی دونوں ہی باضابطہ حکومتوں کے خلاف جانے کا اعلان کیا۔ یہ سب کچھ بالکل اسی انداز سے تھا جس انداز سے کوئی بڑا کاروباری ادارہ لانچ کیا جاتا ہے۔ حکمتِ عملی جارحانہ تھی جس کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہوئیں۔ کوئی بھی کاروباری ادارہ جب لانچ کیا جاتا ہے تو کسی ایک جگہ مرتکز ہوتا ہے اور اس کے ملازمین کی تعداد بھی ضرورت سے تھوڑی زیادہ ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ معاملات کو معمول کی سطح پر لایا جاتا ہے۔ افرادی قوت کو تھوڑا سا منتشر کیا جاتا ہے تاکہ کاروباری اثرات والے علاقوں میں اضافہ ہو یعنی شاخیں قائم کی جاتی ہیں۔
داعش میں منصوبہ بندی کی کمی ہے، فقدان نہیں۔ بنیاد مضبوط کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ سرگرمیوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس صورت وہ مستقبل کے لیے اپنی پوزیشن مستحکم کر رہی ہے اور ایسے شعبوں میں مالی وسائل اور افرادی قوت صَرف کر رہی ہے، جن کے پنپنے میں کچھ وقت لگے گا۔
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ داعش نے شام اور عراق میں اپنی پوزیشن کمزور پڑتی محسوس کی تو باہر نکلنے پر مجبور ہوئی۔ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔ وہ اپنے علاقوں سے باہر نکلنا اور خود کو بہتر انداز سے منوانا چاہتی ہے۔ داعش اگر خطے سے باہر بھی پہنچ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمزوری یا عارضی شکست سے گھبراکر ایسا کر رہی ہے۔ وہ مزید مضبوط اور وسیع البنیاد ہونا چاہتی ہے۔ عالمی سطح پر کام کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے پوری تیاری بھی کرلی گئی ہے۔
سی ٹی سی: شمالی افریقا میں داعش کی سرگرمیوں کے حوالے سے آپ کی رائے کیا ہے؟ کہا جارہا ہے کہ لیبیا میں اس کے پنپنے کی زیادہ گنجائش ہے۔ آپ کے خیال میں شمالی افریقا میں داعش کے لیے کیا امکانات ہیں؟
جان برینن: لیبیا میں کوئی واضح، مضبوط حکومت نہیں۔ ملک کے بیشتر حصوں میں گورننس کا واضح فقدان محسوس کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے بنیادی مسائل حل نہیں کیے جارہے۔ یہ صورتحال ان میں شدید اشتعال کو جنم دے رہی ہے۔ ایسے حالات سے فائدہ اٹھانا داعش جیسی تنظیموں کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔ جہاں نوجوان پورے معاشرے سے ناراض اور برگشتہ ہوں وہاں انتہا پسند گروپوں کے لیے بھرتی بہت آسان ہوجاتی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جذبات کو کس طرح اپنے فوائد کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
مصر کے علاقے سینائی میں الانصار البیت المقدس سرگرم ہے۔ لیبیا میں الانصار الشریعہ اور نائجیریا میں بوکو حرام فعال ہے۔
افریقا کے بیشتر حصوں میں غیر معمولی کرپشن پائی جاتی ہے۔ لوگ بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔ حکومتیں ان پر توجہ دینے کے بجائے ذاتی مفادات کے حصول کو ترجیح دے رہی ہیں۔ ایسے معاشروں میں لوگ عموماً مشتعل رہتے ہیں اور ذرا سا موقع ملنے پر کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ افریقا کے بیشتر ممالک میں سیکیولر تنظیمیں بھی مسائل حل کرنے کے لیے کھڑی ہوتی رہی ہیں مگر انہیں کچھ زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ کامیاب وہی تنظیمیں ہوئی ہیں، جو مذہب کا سہارا لے کر میدان میں نکلتی ہیں۔ داعش جیسی تنظیموں کے پاس حقوق اور سہولتوں سے محروم نوجوانوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ مالی وسائل کی کمی ہے نہ ہتھیاروں کی۔ اور پھر لٹریچر بھی ہے۔ پروپیگنڈے کے ذریعے بھی ذہنوں کو خطرناک حد تک متاثر کیا جاتا ہے۔ حالات کے ستائے ہوئے نوجوانوں کے پاس کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ جب انہیں کوئی مقصد، خواہ غلط ہو، ملتا ہے تو وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور اپنی سکت تسلیم کروانے کے لیے میدان میں آجاتے ہیں۔
ہم نے عراق اور شام میں داعش اور القاعدہ کو کنٹرول کرنے میں غیر معمولی حد تک کامیابی حاصل کی ہے مگر داعش کو دیگر خطوں میں قدم جمانے سے ہم نہیں روک پائے ہیں۔
ہمیں یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ عراق اور شام میں القاعدہ اور داعش کے درمیان غیر معمولی سطح کا اشتراکِ عمل نہیں تھا اور وہ بہت حد تک الگ رہ کر کام کرتی تھیں، مگر دیگر ممالک یا خطوں میں ایسا نہیں ہے۔ جہاں کہیں بھی انہیں کوئی مشترکہ دشمن دکھائی دیتا ہے، یہ مل کر کام کرنے لگتی ہیں۔ یمن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں داعش اور القاعدہ کو مجموعی طور پر چار دشمنوں کا سامنا ہے یعنی چومکھی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ ان دونوں کے درمیان اشتراکِ عمل کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔
سی ٹی سی: سعودی عرب اور یمن میں جہادی تھیٹر کے حوالے سے آپ کس حد تک تشویش میں مبتلا ہیں؟
جان برینن: سعودی عرب میں جہادی عناصر پہلے القاعدہ سے منسلک تھے اور اب ان کا جھکاؤ داعش کی طرف ہوگیا ہے۔ صورتِ حال تشویش ناک ضرور ہے مگر ایک حد تک۔ سعودی عرب کی خوش نصیبی یہ ہے کہ وہاں باضابطہ نظامِ حکومت پایا جاتا ہے۔ داخلی سلامتی یقینی بنانے پر مامور ادارے باخبر اور متحرک ہیں۔ چند ایک دھماکے ضرور ہوئے ہیں مگر مجموعی طور پر فضا پرسکون ہے۔
یمن کا معاملہ البتہ تشویشناک ہے۔ مغرب کے خلاف دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے حوالے سے اس وقت یمن بہت اہم ہے۔
نائجیریا میں داعش اور بوکو حرام نے مل کر کام کرنے کو زیادہ ترجیح نہیں دی ہے۔ بوکو حرام نے اب اسلامک اسٹیٹ آف ویسٹ افریقا کے نام سے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ بوکو حرام سولو فلائٹ کے موڈ میں ہے۔ اس میں اندرونی اختلافات بھی بہت نمایاں ہیں۔ ایسے میں اس کا اور داعش کا ساتھ چلنا قدرے مشکل ہے۔
سی ٹی سی: دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے کا بہتر طریقہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟ کیا ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ان تنظیموں کو فیصلہ کن حد تک کمزور کیا جاسکتا ہے؟
برینن: ہر دہشت گرد تنظیم میں مختلف سطح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ کچھ محض ہدایات جاری کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ اہداف کسی بھی قیمت پر حاصل کیے جائیں۔ ہم نے ہر سطح پر کام کیا ہے۔ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ہم آگے بڑھتے گئے ہیں۔ ہم نے القاعدہ کی قیادت کو غیر معمولی یا یوں کہیے کہ فیصلہ کن نقصان پہنچایا ہے۔ کسی بھی تنظیم کا بنیادی ڈھانچا توڑنے کے لیے مختلف سطحوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر سطح کے لوگوں کو نشانہ بنانا پڑتا ہے۔ ہم نے القاعدہ کی قیادت کے ساتھ ساتھ اس کے نچلی سطح کے کارکنوں کو بھی نشانہ بنایا۔ ہماری کوشش یہ رہی ہے کہ جو لوگ اس تنظیم میں بنیادی نوعیت کے فیصلے کرتے ہیں سب سے پہلے انہیں نشانہ بنایا جائے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کو میدان سے ہٹایا جاتا ہے تو لڑنے والوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان کا مورال گر جاتا ہے۔ ہم یمن کی بات کر رہے تھے۔ ایمن الظواہری کا نائب ناصر وحیشی بھی بہت سرگرم تھا۔ مگر جب اسے میدان سے ہٹایا گیا تو بہت فرق پڑا۔ کوئی بھی شخص یہ محسوس کرسکتا تھا کہ ناصر وحیشی کے الگ ہونے سے لڑائی کی رفتار پر فرق پڑا اور القاعدہ کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ کسی بھی تنظیم کو کمزور کرنے میں سب سے اہم عنصر اس کے مورال کا گرنا ہے۔ اگر چند ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے مورال گرتا ہو تو خرابیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا جاتا ہے اور بالآخر تنظیم کا بنیادی ڈھانچا فیصلہ کن حد تک متاثر ہوکر رہتا ہے۔
القاعدہ کو پہنچنے والا سب سے بڑا نقصان رابطوں کے نظام کا تتر بتر ہوجانا تھا۔ اب ان کے ہاں کوریئرز کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ کسی بھی پیغام یا ہدایت کو متعلقہ افراد تک پہنچانا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ یعنی وہ اب آسانی سے کہیں بھی دہشت گردی نہیں کرسکتے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ رابطوں کا نظام اگر داؤ پر لگ جائے تو کوئی بھی دہشت گرد تنظیم آسانی سے کام نہیں کرسکتی۔
سی ٹی سی: کیا شام اور عراق دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں؟ کہ اپنی پرانی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہوں؟
برینن: دونوں ہی ممالک میں اتنا خون بہایا گیا ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی واقع ہوئی ہے کہ اب ان دونوں کا مستقبل قریب میں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا انتہائی دشوار دکھائی دیتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ دونوں ممالک میں بہت جلد کوئی مضبوط مرکزی حکومت بھی قائم کی جاسکے گی۔ بھرپور استحکام حاصل کرنے کے لیے پہلے ان دونوں ممالک کو خون خرابے پر قابو پانا ہوگا۔ اس کے بعد ان کی حدود میں رہنے والوں کے لیے ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم اور قبول کرنے کا مرحلہ درپیش ہوگا۔ جو کچھ ہوا وہ سب کچھ بھلاکر مستقبل کی طرف دیکھنے اور اس کے بارے میں سوچنے کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔ یہ سب کہنے کو بہت آسان ہے مگر عملی سطح پر بہت مشکل۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ممالک میں چند خود مختار علاقے معرض وجود میں آجائیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پہلے کی طرح کی مضبوط مرکزی حکومتیں ممکن بنائی جاسکیں تو یہ بھی خطرناک ہوگا۔ وہ حکومتیں بہت سخت گیر تھیں اور کسی بھی معاملے کو افہام و تفہیم کے بجائے صرف طاقت سے کچلنے پر یقین رکھتی تھیں۔ اگر دوبارہ اسی نوعیت کی حکومتیں معرض وجود میں آئیں تو پھر ویسی ہی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ عراق اور شام میں استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا کس حد تک دشوار ثابت ہوسکتا ہے۔
عراق اور شام کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مغربی طرز کی لبرل ڈیموکریسی ان دونوں ممالک میں یقیناً نہیں بنائی جاسکتی۔ نمائندہ حکومتیں قائم کرنا اور بات ہے جبکہ حقیقی لبرل ڈیموکریسی کا اپنایا جانا بالکل الگ حقیقت ہے۔ ان ممالک کے اپنے حالات اور روایات ہیں۔ مغربی نوعیت کی جمہوریت کو ان پر تھوپا نہیں جاسکتا۔ اگر تھوپا گیا تو مزید عدم استحکام پیدا ہوگا۔ عرب دنیا میں جب بیداری کی لہر دوڑی تو یہ کہا گیا کہ آمریت کو ختم کرنے سے حقیقی جمہوریت آئے گی یعنی عوام کے حقیقی نمائندے بہتر انداز سے حکومت چلانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ مگر ہم نے دیکھا کہ ایسا نہیں ہوا۔ مصر میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ تیونس اور دیگر ممالک میں بھی اب تک مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔
سی ٹی سی: عراق اور شام سے نکل کر آنے والے جہادیوں کو آپ کس نوعیت کے خطرے کی شکل میں دیکھ رہے ہیں؟
برینن: اگر یہ جہادی لڑائی میں مارے نہ گئے تو ہماری حکومتوں کے لیے کئی برس تک شدید خطرات کے روپ میں موجود رہیں گے۔ انہیں ٹھکانے لگانا لازم ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو امریکا اور یورپ دونوں ہی کے لیے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ مغربی معاشروں میں عدم استحکام کا خطرہ منڈلاتا ہی رہے گا۔ ایک الجھن یہ بھی ہے کہ داعش اور القاعدہ کو مغربی معاشروں میں پروان چڑھانے والے لوگ بھی مل جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے معاشروں کی کمزوریوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان پر کوئی زیادہ شک بھی نہیں کرتا۔ ایسا نہیں ہے کہ مغربی معاشرے اب مکمل طور پر محفوظ ہوگئے ہیں۔ ان کے لیے خطرات کم ہوئے ہیں، ختم نہیں ہوئے۔ اور خطرات کی نوعیت بھی تبدیل ہوگئی ہے۔ مغربی معاشروں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا ارادہ رکھنے والوں نے اب اپنا طریق کار تبدیل کرلیا ہے۔
اگر مغربی حکومتیں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے میں کامیاب ہونا چاہتی ہیں تو انہیں آپس میں تعاون یا اشتراکِ عمل بڑھانا ہوگا۔ معاملات محض خفیہ معلومات کے تبادلے تک محدود نہیں رہنے چاہئیں۔ تمام مغربی حکومتوں کو اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع تر کرنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو ان کے لیے بہتر اور منظم انداز سے کام کرنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔
داعش ہمارے لیے اب بھی ایک مشکل ہدف ہے۔ ہم اسے سمجھنے میں کامیاب رہے ہیں مگر اس کا طریق کار اتنی تیزی سے تبدیل ہوتا ہے کہ اس پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ داعش کے لوگوں میں چستی اور پھرتی بہت ہے۔ اس سے وابستہ ہونے والے نوجوانوں میں کام کرنے کا جذبہ غیر معمولی ہے۔ وہ ہر ٹاسک مثالی جوش و خروش سے مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں کیونکہ سخت نگرانی کی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سے نوجوان اس معاملے کو انتہائی درجے کی مہم جُوئی کے طور پررکھتے ہوئے کوئی بھی ٹاسک قبول کرتے ہیں۔ ہمیں بھرپور کامیابی کے لیے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کہاں کہاں چھپے ہوئے ہیں یعنی منصوبہ بندی اور تیاری کہاں کر رہے ہیں۔ جب تک ان کے بیشتر خفیہ ٹھکانے بے نقاب نہیں ہوں گے، معاملات کو کنٹرول کرنا ممکن نہ ہوگا۔
مغرب کے کئی معاشرے اپنی ہیئت کے اعتبار سے داعش کے جنگجوؤں کے لیے آسان ہدف ہیں۔ برسلز، میڈرڈ اور دوسرے بہت سے یورپی دارالحکومت آسانی سے ہدف بنائے جاسکتے ہیں۔ پیرس اور نائس میں جو کچھ ہوا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ داعش اور دیگر انتہا پسند گروپ ڈجیٹل ماحول میں بہت آسانی سے کسی بھی جگہ پہنچ کر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف اشتراکِ عمل اب وسیع البنیاد نوعیت کا ہے۔ امریکا اور اس کے چند حلیفوں کو جب زیادہ خطرات کا سامنا تھا تب دنیا بھر کی حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف ایک لڑی میں پرونا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ اب معاملہ بہت مختلف ہے۔
پیرس، میڈرڈ، برسلز اور دیگر یورپی شہروں میں رونما ہونے والی دہشت گردی نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کو مضبوط اور مربوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اب بہت سی حکومتیں اپنی طرزِ فکر و عمل تبدیل کرکے معاملات کو بہتر انداز سے درست کرنے کی سمت بڑھ رہی ہیں۔ وہ دوسرے ممالک سے اشتراکِ عمل پر یقین رکھتی ہیں تاکہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا جاسکے۔
چین جیسی بڑی قوت بھی اب اس بات کو محسوس اور تسلیم کرتی ہے کہ دہشت گردی ایک بڑا خطرہ ہے، جس سے بہتر انداز سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا اور وہ بھی مل کر۔ یہی سبب ہے کہ چین بھی انسدادِ دہشت گردی کی عالمی کوششوں میں اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چینی قیادت یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہے کہ دہشت گردی اگر اس کی سرزمین پر بھی پھیل گئی تو عشروں کی محنت کے نتیجے میں رونما ہونے والی ترقی کے ثمرات چینی عوام تک نہیں پہنچ سکیں گے اور وہ شدید خوف اور بے یقینی کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہوں گے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“A view from the CT foxhole: An interview with John Brennan, Director CIA”. (“ctc.usma.edu”. September 7, 2016)
Leave a Reply