
آٹھ نومبر ۲۰۱۶ء کو ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام ووٹروں کے اشتعال اور گھٹیا رجحانات کوابھارتے ہوئے امریکا کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ٹرمپ کی یہ مہم نازی جرمنی کے ترجمان اور پروپیگنڈا کے ماہر، جوزف گوبلز کو بھی چکرا کر رکھ دیتی ہے۔ تاہم ٹرمپ کی فتح کا درحقیقت کیا مطلب ہے اور ہر صورت اپنی مرضی مسلط کرنے کے عادی اس رہنما کے ۲۰ جنوری ۲۰۱۷ء کو اقتدار سنبھالنے پر عام آدمی کی توقعات کیا ہوں گی؟ نیز ٹرمپ کے سیاسی تصورات کیا ہیں اور کیا ’’ٹرمپ ازم‘‘ کا عملاً وجود ہے؟ کیاٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی ماضی کے روایتی دھارے سے کنارا کشی کرتے ہوئے ایک الگ راہ اختیار کرے گی؟ کیا اس سے عالمی سطح پر استحکام دیکھنے میں آئے گا یا عالمی نظام لرزہ براندام ہوجائے گا؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوالات عام آدمی سے مبصرین تک سبھی کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں۔
چند سال پہلے عصر حاضر کے عظیم دانشور، سیاسی مبصر اور مؤرخ نوم چومسکی نے خبردار کیا تھا کہ امریکا کا سیاسی ماحول آمریت کے لیے ساز گار ہوچکا ہے۔ نوم چومسکی نے ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے مضمرات سے متعلق بھی اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ اب جبکہ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے والے ہیں، نوم چومسکی کی فکر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ امریکا میں منفی سوچ کی توسیع اور ٹرمپ کی فتح کو آج کی دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
نوم چومسکی سے کیا جانے والا ایک تازہ انٹرویو ملاحظہ فرمائیے۔
سوال: ناقابل تصور واقعہ رونما ہوچکا ہے۔ تمام پیش گوئیوں اور اندازوں کو الٹتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن کو واضح طور پر مات دے دی اور مائیکل مور کا کہا بھی درست ثابت ہوچکا ہے کہ ایک ’’گھٹیا، جاہل، خطرناک، اور جزوقتی مسخرہ لیکن قطعی طور پر روایت شکن‘‘ شخص امریکا کا اگلا صدر بن جائے گا۔ آپ کے نزدیک وہ کون سے فیصلہ کن عوامل تھے، جن کی وجہ سے امریکی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ ہمیں دکھائی دیا ہے؟
نوم چومسکی: جواب کی طرف آنے سے پہلے چند لمحوں تک سوچنے کی ضرورت ہے کہ ۸ نومبر کو آخر ہوا کیا؟ یہ انسانی تاریخ کا ناقابل فراموش دن ثابت ہوسکتا ہے، تاہم اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اسے کس انداز میں دیکھتے ہیں اور اس پر ہماری فعالیت کیا ہوتی ہے۔ ۸ نومبر ۲۰۱۶ء کو آنے والی سب سے اہم خبر کو نظر انداز کردیا گیا۔ اس دن ’’ڈبلیو ایم او‘‘ (ورلڈ میٹیرولوجیکل آرگنائزیشن) نے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر مراکش میں منعقد کی جانے والی کانفرنس (COP22) میں ایک انتہائی اہم رپورٹ پیش کی تھی۔ یہ کانفرنس پیرس معاہدے (COP21) کا تسلسل یقینی بنانے کے لیے بلائی گئی۔ ڈبلیو ایم او نے رپورٹ پیش کی کہ پانچ برس کے دوران عالمگیر سطح پر حدت میں اضافہ ہوا ہے۔ قطبین، بالخصوص قطب جنوبی کے عظیم الشان گلیشیرز کی برف کے تیز تر پگھلاؤ سے سطح سمندر بلند ہورہی ہے۔ اس سے پہلے قطب شمالی کے سمندر میں گزشتہ پانچ برس کے دوران پڑنے والی برف اس سے قبل ۲۹ برس کے دوران شامل ہونے والی برف سے ۲۸ فیصد کم رہی۔ ایک طرف تو سطح سمندر بلند ہو رہی ہے اور دوسری طرف برف باری میں کمی سے ٹھنڈک میں بھی اضافہ نہیں ہو رہا۔ اس کے نتیجے میں عالمگیر سطح پر حدت بڑھ رہی ہے۔ ڈبلیو ایم او نے رپورٹ میں مزید کہا کہ پیرس معاہدے کے طے کردہ معیار سے درجہ حرارت خطرناک حد تک قریب ہوتا جارہا ہے۔
۸ نومبر کو پیش آنے والے ایک اور واقعے کی غیر معمولی حد تک تاریخی اہمیت ہے۔ ایک بار پھر اس کے غیر معمولی مضمرات کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ ۸ نومبر ۲۰۱۶ء کو عالمی تاریخ کے طاقتور ترین ملک میں انتخابات ہوئے۔ اور ان کے نتائج نے مقننہ، منتظمہ اور عدلیہ سبھی کا کنٹرول دنیا کی خطرناک ترین تنظیم ری پبلکن پارٹی کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس جملے کے آخری حصے کے سوا تمام معروضات غیر متنازع ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ جملہ عجیب بلکہ اشتعال انگیز محسوس ہو مگر کیا یہ بات درست نہیں؟کیا حقائق اس کی غمازی نہیں کرتے؟ ری پبلکن پارٹی بہت تیزی سے منظم انسانی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاریخ اس قبیل کی کسی کاوش کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیا یہ مبالغہ آرائی ہے؟ ذرا واقعات پر غور تو فرمائیے۔
انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلے میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہر امیدوار نے ماحولیاتی تبدیلیوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے دو۔ چند ایک معتدل سوچ رکھنے والوں نے، جن میں جارج واکر بش کے بھائی جیب بش بھی شامل ہیں، کہا کہ سب کچھ غیر یقینی ہے لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ کافی مقدار میں قدرتی گیس پیدا کر رہے ہیں۔ یہ گیس فریکنگ ٹیکنالوجی (زیر زمین ہائی پریشر سے پانی انجیکٹ کرکے تیل یا گیس نکالنا) سے حاصل کی جارہی ہے۔ یا پھر جان کیسک (John Kasich) نے تسلیم تو کیا کہ عالمگیر حدت ایک حقیقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اوہایو میں کوئلہ جلائیں اور اس پر معذرت خواہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ٹرمپ نے زمین سے نکالے جانے والے معدنی ایندھن کا استعمال بڑھانے، اس حوالے سے کیے جانے والے بین الاقوامی معاہدے پھاڑ کر پھینک دینے اور توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے والے ترقی پذیر ممالک کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینے کی بات کہی۔ انہوں نے سمندری چٹانوں سے تیل اورگیس نکالنے کا کام تیز کرنے کی بھی وکالت کی۔
ٹرمپ نے پہلے ہی تحفظِ ماحول کی ایجنسی ای پی اے کو تحلیل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ وہ اس ایجنسی کی سربراہی میرون ابیل کے سپرد کرنا چاہتے ہیں، جو ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ٹرمپ کے اہم ترین مشیر برائے توانائی تیل کے ارب پتی سوداگر ہورالڈ ہیم ہیں جنہوں نے توقع کے مطابق اپنی ترجیحات کا اعلان کردیا ہے۔ ان ترجیحات میں ریگولیشنز کی تنسیخ، صنعتوں کے لیے ٹیکسوں میں غیر معمولی رعایت، معدنی ایندھن کی غیر معمولی پیداوار ڈکوٹا ایکسس پائپ لائن پر صدر اوباما کی طرف سے عائد عارضی پابندی اٹھانا شامل ہیں۔ اس پر مارکیٹ نے فوری ردعمل ظاہر کیا۔ انرجی کارپوریشنز کے حصص میں تیزی آئی۔ مارکیٹ میں آنے والی تیزی کا کوئلہ نکالنے والی سب سے بڑی عالمی فرم پی باڈی انرجی کو غیر معمولی فائدہ پہنچا۔ یہ فرم دیوالیہ ہوچکی تھی لیکن ٹرمپ کی فتح کے بعد اس نے اپنا ۵۰ فیصد نقصان پورا کرلیا ہے۔
ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ری پبلکن پارٹی کی طرف سے انکار ناقابل فہم ہے۔ اور اس کے واضح اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ پیرس معاہدے سے امید بندھی تھی کہ دنیا ایک قابلِ اعتماد معاہدے کے ذریعے ماحول کو تحفظ دینے کی طرف پیش رفت یقینی بنائے گی، ری پبلکن پارٹی تو انتہائی ضروری معاہدوں کی پابند ہونے سے بھی انکار کر رہی ہے۔
اس رویے کے عالمی اثرات توقع سے کہیں جلد دکھائی دے رہے ہیں۔ ماحول میں حدت بڑھنے سے سمندروں کی سطح بلند ہوگی اور بنگلادیش جیسے ممالک میں چند ایک برس میں لاکھوں افراد سمندر سے متصل نشیبی علاقوں سے نقل مکانی شروع کردیں گے۔ بہت سی بستیاں زیر آب آنے لگیں گی۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی سے معاشی اور معاشرتی دونوں ہی سطحوں پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ ماحول میں رونما ہونے والی منفی تبدیلیوں کے ایک بنگلادیشی ماہر کا کہنا ہے کہ ماحول میں رونما ہونے والی منفی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والوں کو ان تبدیلیوں کے ذمہ دار ممالک میں داخل ہونے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر تمام نہیں تب بھی چند لاکھ افراد کو امریکا میں داخل ہونے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ انصاف سے دیکھیں تو ان کی بات میں وزن ہے۔
طاقتور ممالک امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں مگر انہوں نے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی دھن میں ایک نئے ارضی دور کو جنم دیا ہے۔ اس دور میں انسان ماحول کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ ان تبدیلیوں کے سنگین نتائج میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس کے اثرات صرف بنگلادیش جیسے ممالک تک محدود نہ رہیں گے۔ جنوبی ایشیا میں درجہ حرارت، جو پہلے ہی غریب افراد کے لیے ناقابل برداشت ہوچکا ہے، بڑھ جانے سے ہمالیہ کے گلیشیر پگھل کر کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اس سے تمام خطے میں ایک آبی بحران پیدا ہوجائے گا۔ بھارت میں کم و بیش ۳۰ کروڑ افراد کو پہلے ہی پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
انسانوں کے لیے اب اپنی بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ انسانی نسل کی بقا کو لاحق خطرات کا تدارک کرنے کے بجائے معاملات کو مزید الجھایا جارہا ہے یعنی خطرات بڑھائے جارہے ہیں۔ جوہری آلات سے رونما ہونے والی ممکنہ تباہی کا خطرہ سات عشروں سے ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اب اس کی سنگینی کئی گنا ہوچکی ہے۔ افسوس کہ امریکا کی حالیہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران کسی ایک امیدوار نے بھی ماحول کو لاحق شدید ترین خطرات کی طرف ووٹروں کی توجہ دلانا یکسر ضروری نہ سمجھا۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ہلیری کلنٹن کو ملنے والے پاپولر ووٹ زیادہ تھے، یاد رکھا جائے کہ امریکا میں حتمی انتخابی فتح کا تعلق امریکی سیاست کے اُن عجیب خد و خال سے ہے جن میں سے ایک الیکٹورل کالج ہے، جس کے ذریعے اس ملک کا حصہ بننے والی مختلف ریاستوں کو ایک الائنس کی صورت اکٹھاکیا گیا ہے۔ ہر ریاست میں کانگریس کے لیے ہونے والے انتخابات ہر ضلع میں اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس سے دیہی علاقوں کے ووٹوں کا اثر بڑھ جاتا ہے (چاہے اس کے لیے حلقوں کی حدود کیوں نہ تبدیل کرنی پڑیں)۔ اس طریق کارکے تحت اگر صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوتا تو ڈیموکریٹس کو آرام سے فتح حاصل ہوجاتی کیونکہ ان کا پاپولر ووٹ زیادہ ہے لیکن پھر تو ماضی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں سے کم از کم نصف کے نتائج تسلیم کردہ نتائج سے مختلف ہوتے۔ اس طرح امریکی تاریخ کا دھارا بالکل مختلف ہوتا۔ اس حوالے سے کچھ مزید حقائق یہ ہیں کہ اٹھارہ سے پچیس سال کی عمر کے افراد نے ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیا بلکہ سینڈرز کے نوجوان حامیوں کا تناسب تو اس سے بھی کہیں زیادہ تھا۔ تو پھر ان معاملات کا انسانی مستقبل سے کتنا گہرا تعلق ہوا؟ حالیہ معلومات کے مطابق ٹرمپ کو سفید فام ووٹروں کی ریکارڈ حمایت حاصل رہی۔ ان میں درمیانی آمدنی والا محنت کش طبقہ بھی شامل ہے کہ جس کی سالانہ آمدن پچاس ہزار سے نوے ہزار ڈالر تک ہے۔ اس کے علاوہ دیہی اور نیم دیہی علاقوں کے افراد نے بھی ٹرمپ کی حمایت کی۔ یہ افراد مغرب کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض تھے۔ اس کا ایک اظہار بریگزٹ کے غیر متوقع نتائج اور یورپ میں مرکز مائل جماعتوں کی کمزوری سے بھی ہو رہا ہے۔ بہت سے افراد ماضی کی نسلوں کی نیو لبرل پالیسیوں سے خوش نہیں۔ ایلن گرین اسپین نے کانگرس کے سامنے ان پالیسیوں کا برملا اعتراف کیا تھا۔ اگرچہ معاشی میدان میں ان کا نام بہت احترام سے لیا جاتا تھا لیکن وہ جس معیشت کے نگران تھے وہ ۲۰۰۸۔۲۰۰۷ء میں خاک چاٹتی ہوگی۔ اس معاشی بحران نے پوری دنیا میں بھونچال سا برپا کردیا۔ گرین اسپین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاشی نظم و نسق میں ان کی کامیابی کا راز محنت کش طبقے کے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس میں مضمر ہے۔ اگر محنت کش افراد کو کسی نہ کسی شدید خوف میں مبتلا رکھا جائے تو وہ زیادہ تنخواہ، فوائد اور جاب سکیورٹی کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ اس نئے معاشی نظریے کا نشانہ بننے والے محنت کش، ظاہر ہے نتائج سے خوش نہیں۔ وہ ۲۰۰۷ء میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات سے بھی خوش نہ تھے۔ اس نیو لبرل دور میں ان کی تنخواہیں گھٹادی گئیں۔ اور پھر تنخواہوں کو ۱۹۶۰ء کی تنخواہوں کی سطح پر پہنچا دیا گیا۔ بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی تنخواہوں میں مستقل اضافہ ہوتا رہا۔ یعنی معاشرے کے ایک قلیل التعداد طبقے کو نوازنے کا عمل عروج پر تھا۔ ڈین بیکر نے ایک حالیہ کتاب میں بتایا ہے کہ یہ سب مارکیٹ کے محرکات کا نتیجہ نہ تھا بلکہ سب کچھ بری طرح manipulate کیا گیا تھا۔ کم از کم تنخواہیں پانے والوں کے حال سے پتا چلتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ پچا س اور ساٹھ کی دہائی میں معاشی شرح نمو میں اضافے کا سبب پیداوار میں اضافہ تھا اور کام کرنے والوں کو اس اضافے سے حصہ ملتا تھا۔ نیو لبرل ڈاکٹرائن نے اس کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد سے اب تک کم از کم تنخواہ بھی جمود کا شکار ہے۔ اگر یہ وقت کے ساتھ بڑھتی رہتی تو آج یہ کم از کم بیس ڈالر فی گھنٹہ ہوتی لیکن حالات یہ ہیں کہ پندر ہ ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ بھی معاشی اور سیاسی انقلاب تصور کیا جائے گا۔
کل وقتی ملازمت کی باتیں سننے کو تو مل رہی ہیں لیکن لیبر فورس کی شرکت معمول سے کہیں کم ہے۔ کام کرنے والے افراد کے لیے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں کام کرنے کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس میں یونین کا تحفظ اور دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں جبکہ عارضی طور پر کی جانے والی ملازمت میں کسی طرح کی جاب سکیورٹی نہیں ہوتی۔ تنخواہوں، فوائد اور جاب سکیورٹی کے عدم تحفظ کے علاوہ عزت و وقارکو پہنچنے والی زک اور بہتر مستقبل کے امکانات سے نا امیدی ایک مستقل خوف کا روپ دھار لیتی ہیں۔ کام کرنے والے دنیا میں اپنا کوئی مستقل کردار نہیں دیکھتے کیونکہ وہ صرف ایک دن گزارنے کے لیے جتن کر رہے ہوتے ہیں۔ اس صورت ِحال کی عکاسی Arlie Hochschild نے ٹرمپ کے مضبوط گڑھ Louisiana کی منظر کشی سے کی ہے۔ وہ خود بھی وہاں بہت دیر تک کام کرتی رہی ہیں۔ اُنھوں نے ایک سطری تصور اجاگر کیا ہے جس میں شہری کھڑے ہیں۔ وہ آگے بڑھنے کی توقع میں محنت کر رہے ہیں لیکن وہ جس لکیر پر کھڑے ہیں وہاں اُن کی پوزیشن ساکت ہے۔ ان کے سامنے اور لوگ ہیں جو آگے کو چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ اُنہیں کوئی پریشانی نہیں، امریکی طریقہ یہی ہے۔ یہاں مبینہ میرٹ رکھنے والے افراد آگے بڑھ جائیں گے لیکن پیچھے کھڑے افراد پریشان ہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ یہ مبینہ میرٹ رکھنے والے افراد وہ ہیں جو کسی اصول یا قاعدے کی پیروی نہیں کرتے لیکن اُنہیں وفاقی حکومت کے بنائے گئے قواعد کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان لوگوں میں تارکین وطن بھی ہیں اور افریقی نسل کے امریکی بھی۔
یہ سب کچھ صدر ریگن کی نسلی تقسیم پر مبنی ویلفیئر کوئینز کے نتیجے میں سامنے آرہا ہے کیونکہ سفید فاموں کی محنت سے کمائی ہوئی رقم سے سیاہ فاموں کو سہولیات فراہم کی گئیں۔ بعض اوقات ناکامی کی وضاحت بھی حکومت سے نفرت میں اضافہ کرتی ہے۔ ایک مرتبہ بوسٹن میں میری ملاقات ایک ہاؤس پینٹر سے ہوئی جو ’’شیطانی حکومت‘‘ کے خلاف تھا کیونکہ واشنگٹن کے ایک سرکاری افسر نے، جسے پینٹنگ کا کچھ پتا نہ تھا، ایک میٹنگ بلاتے ہوئے پینٹنگ کا کام کرنے والوں کو لیڈ کی آمیزش رکھنے والا پینٹ استعمال کرنے سے منع کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ لیڈ کے بغیر انیمل پینٹ بن ہی نہیں سکتا، لیکن افسر کو یہ بات کو ن سمجھائے۔ اس پینٹر کا کہنا تھا کہ اس پالیسی نے اس کے چھوٹے سے کاروبار کو تباہ کردیا ہے۔ اب وہ ناقص مٹیریل رکھنے والے پینٹ سے مکانات کو رنگنے پر مجبور ہے۔ بعض اوقات سرکاری افسران کا موقف درست ہوتا ہے۔ وہ جس چیز پر پابندی لگاتے ہیں اُس کی ٹھوس وجوہ موجود ہوتی ہیں۔ Hochschild ایک آدمی کے بارے میں بیان کرتا ہے جس کی فیملی اور دوست کیمیائی آلودگی کے مہلک اثرات کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن وہ حکومت اور ’’لبرل اشرافیہ‘‘ سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ای پی اے کے قوانین اُنہیں آلودہ پانی میں مچھلی کا شکار کرنے سے روکتے ہیں۔ دوسری طرف ماحول کے تحفظ سے متعلق سرکاری ادارہ آبی آلودگی کا باعث بننے والے کیمیکل پلانٹس چلانے والوں سے کچھ نہیں کہتا۔
اب آپ کی سمجھ میں یہ بات آ جانی چاہیے کہ ٹرمپ کو اس قدر حمایت کیوں حاصل ہوئی۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ ان کے مسائل حل کردیں گے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی پیش کردہ تجاویز پر عمل سے رونما ہونے والے نتائج اس کے برعکس ہوں گے۔ انتخابات سے قبل کیے جانے والے رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ ٹرمپ کے جذباتی حامیوں کو یقین تھا کہ وہ ملک میں تبدیلی کے نقیب ہیں جبکہ ہلیری کلنٹن روایتی تصورات رکھنے والی امیدوار ہیں، جو اُن کی پریشانی اور دکھوں کا مداوا نہ کر پائیں گی۔
ٹرمپ جس تبدیلی کی علامت ہیں وہ نقصان دہ ہے مگر عام امریکی انفرادی سطح پر یہ سب کچھ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بھرپور قنوطیت ۱۹۳۰ء کی دہائی میں بھی تھی اور اب بھی ہے مگر آج کی قنوطیت مختلف ہے۔
ٹرمپ کی کامیابی میں چند دیگر عوامل نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ تقابلی جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ سفید فام باشندوں کی حاکمیت کی گرفت امریکی کلچر پر اُس سے کہیں زیادہ ہے جس کا مظاہرہ جنوبی افریقا میں دیکھنے میں آیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سفید فام آبادی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ایک یا دو عشروں کے بعدافرادی قوت میں اُن کی تعداد کم ہوجائے گی اور اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ ایک اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ سیاست میں شناخت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے روایتی قدامت پسند کلچر خطرے کی زد میں دکھائی دے رہا ہے۔ اس میں سیاسی عہدے کے بجائے اشرافیہ کا عہدہ تشکیل پاتا ہے، جو چرچ جانے والے اور محنت کش محب وطن افراد اور ان کی خاندانی اقدار سے نفرت کرتا ہے۔
امریکا کی ۴۰ فیصد آبادی عالمگیر حدت کو مسئلہ سمجھتی ہی نہیں۔ اس کا خیال ہے کہ چند عشروں کے بعد مسیح علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ دیگر ۴۰ فیصد کا عقیدہ ہے کہ یہ دنیا محض چند ہزار سال قبل معرض وجود میں آئی ہے۔ اور اگر یہاں سائنس کا بائبل سے تصادم ہوتا ہے تو یہ سائنس کی بدقسمتی ہے۔ دیگر معاشروں میں ایسے رویے دیکھنے کو نہیں ملتے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے ۱۹۷۰ء کی دہائی سے محنت کش افراد کے بارے میں سوچنا ترک کر رکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب اسے محنت کش طبقے کا دشمن نمبر ون گردانا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے محنت کش طبقے کے مسائل کی بات کی ہے، انہیں روزگار دینے کا یقین دلایا ہے۔
نظریاتی نظام کی ایک بڑی کامیابی عوامی غصے کا رخ کارپوریٹ سسٹم کی طرف سے ہٹاکر حکومت کی طرف موڑنا ہے۔ حکومت کے پیش کردہ پروگرام دراصل کارپوریٹ سیکٹر نے وضع کیے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد میڈیا کے تبصرے بھی کارپوریٹ سیکٹر کی آواز میں آواز ملالیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے تمام تر نقائص کے باجود حکومت پر عوام دباؤ ڈال سکتے ہیں لیکن کارپوریٹ سیکٹر پر اُن کا کوئی زور نہیں چلتا۔ کاروباری طبقہ نہایت کامیابی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مشکلات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عوامی اشتعال کا رخ حکومت کی طرف موڑ دیتا ہے۔
سوال: کیا ٹرمپ امریکی سیاست میں فعال ہونے والی ایک نئی تحریک کی نمائندگی کر رہے ہیں یا پھر اُنہیں محض اس لیے ووٹ ملے کہ لوگ روایتی سیاست کی نمائندہ ہلیری سے تنگ آئے ہوئے تھے؟
نوم چومسکی: یہ کوئی نئی تحریک نہیں ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں نیو لبرل دور میں دائیں بازو کی طرف بڑھیں۔ آج نئے ڈیموکریٹس وہی ہیں جنہیں ہم کبھی ’’معتدل ری پبلکنز‘‘ کہا کرتے تھے۔ اور جن کے بارے میں برنی سینڈرز نے بجا طور پر کہا تھا کہ اُنہیں دیکھ کر آئزن ہاور کو بھی زیادہ حیرت نہ ہوتی۔ ریپبلکنز دولت مند اور متمول طبقے کی طرف اس قدر جھکاؤ رکھتے ہیں کہ اُنہیں اپنے پروگرام کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی امید ختم ہوچکی ہے۔ وہ معاشرے کے متحرک طبقوں کے قریب ہوکر اُن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان طبقوں میں نسل پرست بھی ہیں اور عالمگیریت کے شکار بھی۔ اس پالیسی کے نتائج انتخابی مہم کے ابتدائی مراحل سے نمایاں ہونے لگے تھے۔
چاہے یہ تاثر درست ہے یا غلط، ہلیری کلنٹن ایسی پالیسیوں کی نمائندگی کرتی ہیں، جن سے لوگ خوف کھاتے ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کو ’’تبدیلی‘‘ کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ مہم بذات خود اہم تھی کیونکہ اس میں اہم ایشوز کو نظر انداز کردیا گیا اور جیسا کہ میڈیا پر ہونے والے تبصروں سے اندازہ لگایا گیا، اس نے بھی روایت سے ہٹ کر کچھ رپورٹ نہ کیا۔
سوال: انتخابی نتائج کے بعد ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ تمام امریکیوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن جب قوم اتنی تقسیم ہوچکی ہے، وہ پوری قوم کی نمائندگی کس طور کرسکیں گے؟ اُنھوں نے امریکا میں موجود اقلیتوں اور خواتین سے نفرت چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ کیا آپ بریگزٹ اور ٹرمپ کی فتح کے مضمرات میں یکسانیت دیکھتے ہیں؟
نوم چومسکی: بریگزٹ اورٹرمپ کی فتح میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں فروغ پارہی ہیں۔ ان کے لیڈر ٹرمپ کو والہانہ انداز میں کامیابی کی مبارک باد دے رہے ہیں۔ وہ نومنتخب امریکی صدر کو ’’اپنے جیسا‘‘ ہی سمجھ رہے ہیں۔ نیگل فرایج، لی پن، اوربن۔۔۔ سب ٹرمپ جیسے ہی ہیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ یہ پیش رفت خطرناک ہے۔ آسٹریا اور جرمنی میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ ۱۹۳۰ء کی دہائی کی تلخ یادیں تازہ ہو جانے کا خدشہ لاحق ہوچکا ہے۔ میں اُس وقت بچہ تھا لیکن مجھے ابھی تک یاد ہے کہ میں نے ہٹلر کی تقاریر سنی تھیں۔ اگرچہ اُس وقت بہت سے الفاظ میری سمجھ سے ماورا تھے لیکن ان کا لہجہ اور حاضرین اور سامعین کے تاثرات دل دہلا دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے پہلا مضمون فروری ۱۹۳۹ء میں لکھا تھا، جو بارسلونا (اسپین) کے زوال کے بارے میں تھا۔ وہاں نفرت انگیز فاشزم نے پنجے گاڑ لیے تھے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جب حالیہ امریکی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تو میں اور میری بیوی بارسلونا میں تھے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی سے خدشات کو تقویت دیتے ہیں یا ان کی جڑ کاٹتے ہیں۔
سوال: ٹرمپ کے پاس واضح سیاسی نظریہ نہیں ہے، جس سے ان کی معاشی، سماجی اور سیاسی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکے۔ ہاں، اُن کے رویے میں آمرانہ رجحان کی جھلک نمایاں ملتی ہے۔ توکیا اسے دیکھتے ہوئے آپ اس بیانیے کی تائید کرتے ہیں کہ ٹرمپ دراصل ’’فاشزم کا دوستانہ چہرہ‘‘ ہیں؟
نوم چومسکی: کئی سال سے میں امریکا میں ایسے نظریات کے پروان چڑھنے کے خطرات کے بارے میں لکھ اور بول رہا ہوں، جو بظاہر بہت مخلصانہ اور عوام دوست دکھائی دیتے ہیں لیکن ان سے مستفید ہوتے ہوئے کوئی آمرانہ ذہنیت کا شخص عوام کے خوف و خدشات کو کنٹرول کرکے خطرناک سمت میں موڑ سکتا ہے۔ اس خطرے کا شکار معاشرے کے کمزور افراد اور اقلیتیں بن جائیں گی۔ اور اسی صورتحال کو Bertram Gross نے تین عشرے قبل ’’دوستانہ فاشزم‘‘ قرار دیا تھا۔ آج خطرہ پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ گلوبلائزیشن کا دور ختم ہوچکا ہے اور ٹرمپ کے ہاتھ بے انتہا طاقت آگئی ہے۔
سوال: وائٹ ہاؤس میں ری پبلکنز آچکے ہیں۔ اور وہ دونوں ایوانوں اور سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں بھی ہیں تو اس صورت میں آپ اگلے چار سال تک امریکا کو کس سمت بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں؟
نوم چومسکی: اس بات کا بڑی حد تک مدار اہم عہدوں اور مشیروں کے لیے کی جانے والی نامزدگیوں پر ہے۔ اگر نرم الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو بھی کہنا پڑتا ہے کہ فی الحال سامنے آنے والے نام ’’پرکشش‘‘ نہیں ہیں۔ کئی سال کے لیے سپریم کورٹ کا کنٹرول ’’ردعمل ظاہر کرنے والوں‘‘ کے ہاتھ آجائے گا اور اس کے نتائج کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ اگر ٹرمپ بھی اپنے مالیاتی پروگرام میں پال رائن (Paul Ryan) کا انداز اپناتے ہیں تو اس سے دولت مند طبقے کو بہت فائدہ ہوگا۔ اندازہ ہے کہ ٹیکس پالیسی سے وفاق ٹاپ کے صفر اعشاریہ ایک فیصد طبقے کو ٹیکس میں ۱۴ فیصد تک رعایت دے گا۔ اعلیٰ طبقے کو ٹیکس میں ملنے والی مزید رعایت اس کے علاوہ ہے۔ دوسری طرف عوام کے لیے ٹیکس میں کوئی نرمی یا رعایت نہیں۔ اور یہ سارا بوجھ عوام ہی کو برداشت کرنا ہے۔ ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کے معاشی نمائندے مارٹن وولف لکھتے ہیں کہ’’ٹیکس تجاویز پہلے سے ہی دولت مند امریکیوں کو بھاری فائدہ پہنچائیں گی۔‘‘ دوسری طرف عام شہریوں پر مالی دباؤ آجائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹرمپ کو فائدہ پہنچے گا لیکن اُن کے اپنے حلقے کے ووٹر دباؤ کا سامنا کریں گے۔ اس کا فوری رد ِعمل کاروباری دنیا پر دیکھنے میں آیا۔ وال اسٹریٹ، دفاعی صنعت، انرجی سیکٹر، بگ فارما اور دیگر طاقتور ادارے اپنا مستقبل روشن دیکھ رہے ہیں۔
ایک مثبت پیش رفت انفرا اسٹرکچر پروگرام میں دیکھنے میں آئے گی، جس کا ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے (کم ازکم رپورٹنگ، اعلانات اور تبصروں کی حد تک)، لیکن فی الحال یہ حقیقت واضح نہیں کہ اوباما کے معیشت کو تقویت دینے کے پروگرام کا کیا بنا؟ یقیناً ری پبلکنز اس پروگرام کا قلع قمع کردیں گے۔ اسے صریحاً نقصان کا راستہ قرار دے کر بند کردیا جائے گا۔ اگرچہ اُن پر یہ الزام پہلے بھی لگایا گیا تھا کہ اُنھوں نے سود کے نرخ بہت کم کردیے ہیں، لیکن اب ٹرمپ نے اپنے پروگرام میں ٹیکس کے نرخ گھٹا دیے ہیں۔ لیکن یہ نرخ صرف دولت مند طبقے کے لیے ہی کم کیے گئے ہیں۔
سوال: ٹرمپ اور پیوٹن ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ اس باہمی تعریف کے تبادلے کو دیکھتے ہوئے ہم مستقبل میں امریکا اور روس کے تعلقات کو کس نہج پر دیکھ سکتے ہیں؟ آپ روس اور امریکا کے درمیان کوئی مشترکہ مفاد دیکھتے ہیں؟
نوم چومسکی: ایک امید افزا پہلو یہ ہے کہ روس کی سرحدوں پر خطرناک تناؤ میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یاد رہے میں روسی بارڈر کی بات کر رہاہوں، میکسیکن بارڈر کی نہیں۔ ایک کہانی ہے جسے ہم فی الحال یہاں بیان نہیں کرسکتے لیکن بہت جلدیہ سامنے آجائے گی۔ ممکن ہے کہ یورپ ٹرمپ کے امریکا سے دور ہٹ جائے۔ جرمن چانسلر، اینجلا مرکل نے اس بات کا اشارہ دے دیا ہے۔ دیگر یورپی رہنماؤں نے بھی امریکی طاقت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ درحقیقت بریگزٹ کے بعد کا یورپ بھی ویسا ہی مختلف ہے جیسا ٹرمپ کے بعد کا امریکا۔ ممکن ہے کہ یورپ روس کے ساتھ اپنے تناؤ کو کم کرے اور اس کے لیے اُنہیں کسی میخائل گورباچوف جیسے لیڈر کی تلاش ہو، تاکہ فوجی اتحاد کیے بغیر یورپ کی سلامتی یقینی بنائی جاسکے۔ فی الحال ٹرمپ اور پیوٹن کی باہم خیر سگالی سے زیادہ یورپی رد عمل کا انتظار کرنا ہوگا۔
سوال: کیا ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکی خارجہ پالیسی کا محور فوجی طاقت کا پھیلاؤ ہوگا یا اس میں کمی دیکھنے میں آئے گی؟ ہم اوباما انتظامیہ کا تسلسل دیکھیں گے یا بش انتظامیہ کا؟
نوم چومسکی: ٹرمپ کے بیانات اور پالیسیاں اس قدر تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں کہ ان کا اندازہ لگانا یا ا ن کے اگلے اقدامات کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس ضمن میں بہت سے سوالات ہیں۔ لیکن ہم فی الحال یہ کہہ سکتے ہیں کہ عوامی دباؤ اور منظم تحریک کے ذریعے ٹرمپ کو من مانی کرنے سے روکا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خطرہ غیر معمولی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Trump in the White House: An interview with Noam Chomsky”. (“alternet.org”. Nov.20,2016)
Leave a Reply