
امریکا میں جب بھی صدارتی انتخابات ہوتے ہیں اور نیا صدر آتا ہے تب نئی انتظامیہ کو ملک کے لیے بھرپور اور جامع حکمتِ عملی ترتیب دینا پڑتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اس چیلنج کا سامنا ہے۔ اندرونی اور بیرونی ہر دو طرح کے حالات کا دباؤ اُن کے لیے بھی ہے۔ علاقائی اور عالمی حالات کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دینے کے لیے پہلے مرحلے میں لازم ہے کہ وہ اِن حالات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ عالمی حالات بھی ایکو سسٹم کی طرح ہوتے ہیں یعنی جس طور ایک عالمی موسمیاتی اور جغرافیائی نظام ہے بالکل اُسی طور سیاسی و سفارتی حالات و واقعات کا نظام بھی ہے۔ اس نظام کے دیگر بڑے کھلاڑی امریکی ترجیحات اور اہداف پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ عالمی حالات کو کس طور دیکھتے اور پرکھتے ہیں اِس کا مدار بہت حد تک اس بات پر ہے کہ وہ بیرونی اثرات کس حد تک قبول کرتے ہیں یا دیگر بڑے کھلاڑی اُن پر کس حد تک اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ نئے امریکی صدر کے لیے منصب کا چارج سنبھالنے کے پہلے ہی دن سے بہت سے حیرت انگیز معاملات سامنے آسکتے ہیں۔
جس ماحول کی ہم بات کر رہے ہیں اُس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو پہلے ہی دن سے بھرپور تیاری کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اور اگر ایسا کرنے میں وہ ناکام رہے یعنی امریکا بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے میں ناکام رہا تو بہت سے معاملات میں اُسے پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑے گا، مشکلات درپیش ہوں گی۔ اب تک کسی کو بھی اندازہ نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کس سمت جانا پسند کریں گے اور ان کی ٹیم ان کے اب تک کے بیانات میں پائے جانے والے تضادات اور غیر مستقل مزاجی کے اثرات سے نمٹنے اور ان کی ساکھ بہتر بنانے کے حوالے سے کیا کرے گی یا کیا کر پائے گی۔ سیاسی اور سفارتی امور کے ماہرین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بہتر حکمتِ عملی کی تشکیل اور جامع فیصلوں میں معاونت کے حوالے سے تجاویز اور مشوروں کے ڈھیر کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ یہ سب کچھ باضابطہ تحریری شکل میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اِن سے کس حد تک مستفید ہونا پسند کرتے ہیں۔
لبنان کی دوسری جنگ : اغلاط سے سبق سیکھنے میں تاخیر کی واضح مثال
ڈونلڈ ٹرمپ کو ملک کے لیے جامع حکمتِ عملی ترتیب دینے کی خاطر بہت کچھ دیکھنا اور سوچنا پڑے گا۔ انہیں کئی چیلنج درپیش ہوں گے اور اُن سے کماحقہ نمٹنے کے لیے بھرپور تیاری کرنا پڑے گی۔ ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۱ء تک اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس ریسرچ ڈویژن کے سربراہ کی حیثیت سے میں نے جو اسباق سیکھے وہ یہاں بیان کر رہا ہوں۔ اس منصب کے تحت مجھے اسرائیلی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف، وزارت دفاع، کابینہ اور وزیر اعظم کے دفتر کے لیے خفیہ معلومات کا اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ بعد میں (۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۵ء تک) اسرائیلی نیشنل ڈیفنس کالج اور ملٹری اکیڈمیز کے کمانڈر کی حیثیت سے میں نے گزشتہ منصب کے تحت سیکھی ہوئی ہر بات کو اسرائیل کے نیشنل سیکیورٹی اپریٹس کے مستقبل کے لیڈروں کے لیے آپریشنل اور اسٹریٹجک تیاریوں کے حوالے سے بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کی۔
۲۰۰۶ء کے موسم گرما میں اسرائیلی قیادت لبنان میں ابھرتی ہوئی مزاحمت کے حوالے سے حیران رہ گئی۔ حزب اللہ ملیشیا نے جو کچھ کیا وہ انتہائی غیر متوقع تھا۔ حزب اللہ نے سرحدی علاقے میں ایک جھڑپ کے دوران تین اسرائیلی فوجی مار ڈالے اور دو کو پکڑ کر لبنان کے اندرونی علاقوں میں لے گئے۔ اس واقعے کے ردعمل نے ایسا طول پکڑا کہ اسرائیلی فوج اور حزب اللہ ملیشیا کے درمیان ۳۴ دن تک لڑائی ہوتی رہی جسے اب لبنان کی دوسری جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ اس جنگ کے اسباب و نتائج کے حوالے سے تحقیقات کے لیے حکومت کی طرف سے قائم کیے جانے والے وائنوگریڈ کمیشن نے چند اہم پالیسی ساز پر شدید تنقید کی اور اُنہیں بہت سے معاملات کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جس کے نتیجے میں متعدد اہم سرکاری عہدیدار مستعفی ہوئے۔
میں نے ذاتی حیثیت میں دس برس کی مدت کے دوران جو کچھ سیکھا ہے اُس کی روشنی میں یہ کہنے میں مجھے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ ملکی قیادت نے بعض اہم امور سے متعلق بنیادی معلومات حاصل کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی، جس کے نتیجے میں جنگ کے دوران بعض اہم آپریشنل اور اسٹریٹجک اغلاط سرزد ہوئیں۔ ۲۰۰۶ء میں سرحد پر حزب اللہ ملیشیا اور اسرائیلی فوج کے درمیان پہلی بڑی جھڑپ اسٹریٹجک تیاری کے حوالے سے قیادت کی خامی کو ظاہر کرتی ہے۔
اعلیٰ حلقوں میں ہر سطح پر حزب اللہ کی طرف سے جھڑپ کے خطرے کو محسوس کیا جاتا تھا اور اس حوالے سے بات بھی ہوتی تھی مگر سارا زور اس نکتے پر تھا کہ جھڑپ کو مختلف ہتھکنڈوں سے روکا جائے اور بھرپور جواب دیا جائے۔ اس حوالے سے موزوں حکمتِ عملی کا واضح فقدان تھا۔ اسٹریٹجک اور آپریشنل سطح پر ٹھوس جواب دینے کے حوالے سے چند ایک خامیاں موجود تھیں۔
مخصوص حالات کو سمجھنے کے لیے درکار منظم عمل کے نہ ہونے سے جو منفی نتائج رونما ہوئے اُنہیں مزید خراب اس حقیقت نے کیا کہ حکومتی عہدوں پر متمکن افراد میں بیشتر نئے تھے۔ بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت ان میں برائے نام تھی۔ مزید برآں، فوج میں چند شخصیات نے ایسے تصورات پیش کیے جن کی پہلے سے تیاری کی گئی تھی نہ سینئرز سے اس حوالے سے گفتگو کی زحمت گوارا کی گئی تھی۔ جنگ کے دوران کلیدی شخصیات کے درمیان ایسے اختلافات ابھر کر سامنے آئے جن پر بہت پہلے بات ہو جانی چاہیے تھی تاکہ ان کا رفع کیا جانا ممکن اور آسان ہو جاتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ نیشنل لیڈر شپ ٹیم کو اسٹریٹجی کے معاملات میں جن بنیادی باتوں کی ضرورت تھی وہ انہوں نے معلوم ہی نہیں کی تھیں۔ جب بڑے پیمانے پر لڑائی شروع ہوگئی تب اسٹریٹجک اور آپریشنل خرابیوں کو دور کرنے کا وقت نہ رہا۔ ایسی کوئی بھی کوشش جنگ ختم ہونے ہی پر کی جاسکتی تھی۔ ایک بار معاملہ میدان جنگ میں چلے جانے کے بعد بہترین تجزیہ اور تجاویز بھی کسی کام کی نہیں رہتیں اور انہیں لڑائی رکنے ہی پر بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
دوسری لبنانی جنگ کو ختم ہوئے ایک عشرہ گزر چکا ہے۔ اس دوران جنگ سے سیکھے ہوئے ہر سبق کو ملک کے تمام کلیدی اداروں میں پھیلانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ اسٹریٹجک اور آپریشنل سطح پر درست سوچ اپنانے میں خاطر خواہ مدد ملے۔ اس حوالے سے ہمیں کامیابی بھی ملی ہے اور ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا ہے۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حکمت عملی کوئی جامد چیز نہیں۔ یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے، اور بدلنی ہی چاہیے۔ ماحول کا جائزہ لیتے رہنا لازم ہے اور پھر اس کے مطابق تبدیلیاں کرنا بھی۔ ہمیں حکمت عملی ترتیب دیتے وقت دوسروں کی بات سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کس طور ممکن ہے کہ صرف اپنی رائے کو مقدم جانا جائے اور دوسروں کی ہر بات کو یکسر نظر انداز کردیا جائے۔ کسی بھی حقیقت کو سمجھنے میں دوسرے ہم سے مختلف نقطۂ نظر کے حامل ہوسکتے ہیں اور ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہے۔ انٹیلی جنس کے معاملات میں اختلافِ رائے ابھرتا ہی ہے اور ہمیں دیکھنا پڑتا ہے کہ دوسروں کی رائے اگر مختلف ہے تو کیوں اور اسے کس طور قبول کیا اور اپنایا جاسکتا ہے۔ اور اپنی توجیہ کو سمجھنا بھی لازم ہے یعنی دیکھنا پڑتا ہے کہ جو کچھ ہم سمجھ رہے ہیں وہ صحیح ہے یا نہیں۔
حکمتِ عملی کی تیاری اور تفہیم کے عمل میں ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کون سی نئی بات یعنی نئی حقیقت تیزی سے ابھر کر سامنے آئی ہے اور اس کے حوالے سے ہماری سوچ کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں نئی تفہیم اور پرانے ڈھانچے کو سمجھنا پڑتا ہے۔ اس تجزیے میں کسی بھی نئے خطرے کی مکمل تفہیم، نئے امکانات، اثر و نفوذ کے نئے مراکز کا جائزہ وغیرہ شامل ہوتا ہے تاکہ ضرورت کے مطابق سامنے کھڑی ہوئی حقیقت کو کمزور کرکے قومی مفادات کو مضبوط بنایا جاسکے۔
انٹیلی جنس اپریٹس کے ذریعے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان سے منصوبے تیار کرنے، ہتھکنڈے اپنانے اور قومی مفادات کے لیے عملی طریقے وضع کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملتی ہے۔ ماہرین کے مابین تبادلہ خیال کی صورت میں سیکھنے کا عمل مثبت نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ماہرین اور دیگر متعلقہ افراد کے درمیان معاملہ صرف بات چیت تک محدود نہ رہے بلکہ بحث و تمحیص تک بھی پہنچے۔ بات چیت کی صورت میں اتفاق رائے تک پہنچا جاسکتا ہے مگر بحث و تمحیص کی صورت میں اختلاف رائے کھل کر سامنے آتا ہے اور ایسی صورت میں اتفاق رائے یقینی بنانے سے کہیں بڑھ کر اختلاف رائے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
خفیہ معلومات کے حصول اور تجزے کے عمل میں فیصلہ سازوں کا شامل ہونا لازم ہے کیونکہ حقائق کی روشنی میں بہترین رائے وہی دے سکتے ہیں۔ کسی بھی بحران کے سر اٹھانے کی صورت میں لیڈر سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ پہلے سے کی جانے والی تیاریوں کے بغیر کچھ کرنے کے قابل ہوسکے گا۔ اب یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ حکمت عملی کی تیاری دراصل حقائق کے تجزیے کی صورت میں سیکھنے کا عمل ہے۔
نیا امریکی سیاق و سباق
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ نومنتخب امریکی صدر کو مختلف تجاویز اور سفارشات کی شکل میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے اس کا حقیقی اثر کیا ہوگا، یعنی سفارشات کہاں تک جاسکیں گی۔ اسرائیل نے جو سبق سیکھا ہے اس کی روشنی میں سوچا جاسکتا ہے کہ امریکی پالیسی ساز ایک نیا اسٹریٹجک لرننگ سسٹم وضع کرسکتے ہیں، جو چار ستونوں پر کھڑا ہوگا۔
٭ نومنتخب امریکی صدر اور ان کی ٹیم کا کور سرکل یعنی قریب ترین حلقہ۔
٭ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی چھتری تلے کام کرنے والی بڑی سرکاری (خفیہ) ایجنسیاں۔
٭ تھنک ٹینکس اور اکیڈیمیا سمیت علم و دانش کے تمام ادارے … اور
٭ امریکا کے کلیدی اتحادی اور نمایاں اسٹریٹجک پارٹنر۔
اوباما انتظامیہ پر باقی تین ڈومینز کے لوگوں نے بہت سے معاملات میں تنقید کی ہے، جن میں سرایت کرنے کی صلاحیت کی کمی اور عدم رسائی شامل ہیں۔ اوباما انتظامیہ پر گھٹن کی فضا میں کام کرنے کے حوالے سے بھی تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ماتحت کام کرنے والی ٹیم کے حوالے سے یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ زیادہ کھل کر کام کرے گی تاکہ سب کچھ واضح ہو اور کسی بھی خرابی یا غلطی کی صورت میں معاملات کو تیزی سے درست کرنا ممکن ہو۔ ایسی صورت میں اداروں کے درمیان تعاون کی فضا پروان چڑھے گی اور کلیدی ادارے حساس معاملات میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے کام کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔
امریکا کی نئی صدارتی ٹیم اور بالخصوص نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سامنے اہم چیلنج یہ ہے کہ خفیہ معلومات کے ذریعے سیکھنے کے عمل کو یقینی بناکر اس کی سمت بھی متعین کی جائے اور دیگر متعلقہ کھلاڑیوں کو بھی پنپنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ بھی زیادہ متوجہ ہوکر کام کرسکیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں رہنا چاہتی ہے تو اسے چند حقیقتوں کا خاص خیال رکھنا پڑے گا، مثلاً یہ کہ عالمی منظر نامے میں تیزی سے ابھرتی ہوئی تبدیلیوں کا ادراک اور ان پر غور و فکر۔ جب تک وہ اس حوالے سے مہارت حاصل نہیں کریں گے تب تک درست ترین فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک جن معاملات میں متضاد بیانات داغے ہیں اُن تمام ہی معاملات میں امریکی حکمتِ عملی کی ایک واضح اور قابل فہم تصویر پیش کرنے کی تیاری لازم ہے تاکہ ابہام دور ہو اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔ ان تمام معاملات کے لیے کھل کر بحث و تمحیص کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی نکتہ نظر انداز نہ ہو، تشنۂ وضاحت نہ رہ جائے۔
۱۹۵۳ء میں اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے امریکا کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دینے کی غرض سے پراجیکٹ سولیریم شروع کیا تھا، جس میں ماہرین اور دانشوروں کی تین ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔ ان ٹیموں نے ملکی، علاقائی اور عالمی حالات کا بہترین تجزیہ کرکے ایسی حکمت عملی ترتیب دی، جس کا بنیادی مقصد امریکا کے لیے زیادہ سے زیادہ ترقی کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ طریقہ بے حد کامیاب رہا۔ امریکا نے بعد کے برسوں میں تیزی سے ترقی کی۔ ہر معاملے میں پیش رفت آسان سے آسان تر ہوتی گئی اور دنیا نے دیکھا کہ امریکا نے مختلف شعبوں میں اتنی تیزی سے ترقی یقینی بنائی کہ بہت سے امریکیوں کو بھی یقین نہ آیا کہ ان کا ملک اتنا کچھ کرسکتا ہے۔ ان تینوں ٹیموں نے مل کر صدر آئزن ہاور اور ان کی کور ٹیم یعنی اندرونی حلقے کو ملک کے لیے بہترین حکمت عملی ترتیب دینے میں غیر معمولی مدد فراہم کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا سفارت کاری اور علوم و فنون میں اپنی برتری قائم رکھنے میں نمایاں حد تک کامیاب رہا۔
حکمت عملی نتیجے سے زیادہ عمل ہے۔ یعنی جب ہم کوئی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہوتے ہیں تو دراصل ہم بہت کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ قدم قدم پر ایسے نکات سامنے آتے ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان نکات سے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ سیکھے بغیر آگے بڑھنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اسرائیل میں تو ہم نے یہی سبق سیکھا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Strategy as a learning process: An Israeli case study for the new administration”. (“brookings.edu”. November 29, 2016)
Leave a Reply