
گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ آئے روز اپنے مقبوضہ علاقوں میں ماورائے عدالت قتل و غارت اور مسلسل فوجی جارحیت کے ذریعہ اسرائیل اقوام متحدہ کی متعدد قرار دادوں سے سرکشی کا مرتکب ہوا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک اسرائیلی پالیسیوں خصوصاً فلسطینیوں پر مظالم کو جارحانہ اور مجرمانہ قرار دیتے ہیں۔ اس عالمی رائے عامہ کا مظاہرہ اقوام متحدہ کی غالب اکثریت سے منظور کی گئی مذمتی قرار دادوں سے ہوتا ہے۔ امریکا وہ واحد ملک ہے جہاں کے سیاست دان اور ذرائع ابلاغ اسرائیلی پالیسیوں کی پُرزور حمایت کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکا اسرائیل کو اہم فوجی، سفارتی اور معاشی مدد فراہم کر رہا ہے جن میں تین بلین ڈالر کی سالانہ امداد بھی شامل ہے۔
آخر کیوں امریکا ہی اسرائیل کا واحد حصار ہے۔۔۔؟
جنوبی افریقہ کے پادری ڈسمنڈ ٹوٹو جنہیں امن کی خدمات کے صلے میں ۱۹۸۴ء میں نوبل انعام سے نوازا گیا اس کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’اسرائیلی حکومت کے ستون امریکا میں ہیں اور اسرائیل پر تنقید کو سامی نسل پر تنقید تصور کیا جاتا ہے۔ اس ملک (امریکا) میں لوگ غلط کو غلط کہنے سے خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ یہودی لابی انتہائی طاقتور ہے‘‘۔
یہودی امریکی آبادی کا دو فیصد حصہ ہونے کے باوجود کسی بھی نسلی یا مذہبی گروہ کی نسبت وسیع تر اختیارات اور اثرات کے حامل ہیں جیسا کہ اس امر کی نشاندہی سیاسیات کے معروف پروفیسر اور یہودی مؤلف بینجمن کنسبرگ نے کی:
’’ساٹھ کی دہائی سے ہی یہودی امریکا میں معاشی، سیاسی، ثقافتی اور علمی میدانوں میں قابلِ ذکر مقام رکھتے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں امریکی معیشت میں یہودیوں کا مرکزی کردار رہا اور اس دہائی کے اشتراکی انضمام اور کاروباری تنظیم نو کے ثمرات اٹھانے والوں میں یہودی پیش پیش تھے‘‘۔
انٹرنیشنل ہسٹری ریویو جنرل کے سربراہ مارک ویبر یہودی آبادی کا تناسب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگرچہ یہودی امریکی آبادی کا دو فیصد ہیں تاہم امریکا کے کروڑ پتی افراد کی آدھی سے زیادہ تعداد یہودی ہے جو اخبارات کی بڑی چینز کے مالک ہیں جن میں امریکا کا سب سے مؤقر اخبار نیویارک ٹائمز بھی شامل ہے۔ امریکی اشرافیہ کا گیارہ فیصد حصہ یہودی ہے، اشاعتی اداروں اور اخبارات کے مالکان میں پچیس فیصد افراد یہودی ہیں، رضاکارانہ اور عوامی فلاحی تنظیموں کے سربراہان میں سترہ فیصد یہودی ہیں جبکہ پندرہ فیصد سول سرونٹس یہودی النسل ہیں‘‘۔
معروف یہودی مصنف سیمورلپسٹ اور ایرال راب اپنی ۱۹۹۵ء میں منظر عام پر آنے والی کتاب (یہودی اور امریکی منظر نامہ) میں بیان کرتے ہیں:
’’گزشتہ تین دہائیوں میں پیدا ہونے والے دو سو اعلیٰ مفکرین میں سے پچاس فیصد مفکرین، بیس فیصد اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ، نیویارک اور واشنگٹن کی قانون دان کمپنیوں کے چالیس فیصد شراکت دار، ۱۹۵۶ء سے ۱۹۸۲ء تک بننے والی ۵۹ فیصد موشن پکچرز کے پروڈیوسر، ہدایت کار اور لکھاری، امریکی پرائم چینلز کے ۵۸ فیصد ہدایت کار لکھاری اور پروڈیوسر دنیا کے لیے امریکی یہودیوں کا تحفہ ہیں۔
معروف لکھاری اور فلمی ناقد مچل میڈوڈ کہتے ہیں:
’’یہودیوں کی قوت اور امتیازی حیثیت کا انکار کسی طور بھی عقلی نہیں اگر آپ ہالی وڈ کو ہی لے لیں تو کسی بھی فلم اسٹوڈیو پر مؤثر ترین اعلیٰ عہدوں کے حامل پروڈیوسرز کی ایک کثیر تعداد یہودی ناموں پر مشتمل ہو گی۔
جان ایتھن گولڈ برگ وہ شخص ہے جس نے یہودیت اور ان کی قوت کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ ۱۹۹۶ء میں منظر عام پر آنے والی اپنی کتاب ’’یہودی طاقت‘‘ میں لکھتا ہے:
’’ذرائع ابلاغ کے بعض اہم شعبوں میں یہودیوں کی اس قدر کثرت ہے کہ ان شعبوں کے بارے میں یہ کہنا کہ یہودی ان پر حاوی ہیں شماریاتی مشاہدہ کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ حیرت کی بات ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہالی وڈ ایک ایسی انڈسٹری ہے جہاں نسلی رنگ غالب ہے۔ درحقیقت تمام اسٹوڈیوز کے سربراہان یہودی ہیں جبکہ لکھاری، پروڈیوسر اور کسی حد تک ڈائریکٹرز کی ایک کثیر تعداد یہودی ہے۔ ایک حالیہ جائزہ کے مطابق اس شعبہ سے منسلک ۵۹فیصد افراد یہودی النسل ہیں‘‘۔
مارک ویبر لکھتے ہیں: ’’اتنے منافع بخش کاروبار میں یہود کی کثرت ہالی وڈ کے یہودیوں کو ایک سیاسی طاقت کا روپ بخشتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری امیدواروں کا ذریعہ آمدن یہی یہودی ہیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں اپنی موجودگی کے مظہر کے طور پر یہ یہودی اہل یہود کی اعلیٰ ذہنی صلاحیت، بے غرضی، رحمدلی اور قابلِ رحم قوم ہونے کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ جبکہ لاکھوں امریکی اس تصویر کشی کو بخوشی اور بغیر کسی تحقیق کے قبول کر لیتے ہیں اگرچہ سب ایسے نہیں‘‘۔
امریکی عوام ماضی کو کیسے دیکھتے ہیں کا انحصار یہودیت سے متاثرہ ثقافت اور تعلیمی نظام پر ہے۔ اسرائیلی ہولوکاسٹ کے تاریخ دان ایہود ابایور کہتے ہیں:
’’ہولوکاسٹ ہماری ثقافتی علامت بن چکا ہے چاہے اس واقعہ کو مصدقہ طور پر پیش کیا جائے یا غیر مصدقہ طور پر، چاہے اسے تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے یا اس کے برعکس، چاہے اس واقعہ کو ہمدلی سے سمجھا جائے یا فقط یادگاری ادب کے طور پر۔ مشکل سے ایک ماہ نہیں گزرتا کہ اس موضوع پر کوئی نئی فلم، نیا ڈرامہ، نئی کتاب، نئی شاعری یا نثر منظر عام پر آ جاتی ہے اور یہ سیلاب تھمنے کے بجائے بڑھ رہا ہے‘‘۔
ہولوکاسٹ کی تبلیغ کی مہم اسرائیلی مفادات کے لیے نہایت اہم ہے۔ یلے یونیورسٹی کے پروفیسر پولاہمین کہتے ہیں:
’’اسرائیلی نقطہ نگاہ سے ہولوکاسٹ کو سیاسی تنقید سے بچائو کے حربہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ یہودیت کی ازلی محرومیت اور محصوریت کے تصور کو تقویت بخشتا ہے۔ جس سے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ یہودی ایک ایسی نسل ہے جسے اپنے تحفظ کی خاطر خود ہی اقدامات کرنے ہوں گے۔ مظلومیت سے پر مناجات کو وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں عقلی دلائل کے ذریعہ اپنے موقف کا پہنچانا مشکل ہو‘‘۔
اسی طرح سٹی یونیورسٹی نیویارک کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر نارمن فنکلسٹن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’ہولوکاسٹ انڈسٹری یہودیت پر ہر قسم کی تنقید کو غیر موثراور غیر مصدقہ کرنے کا ایک حربہ ہے۔ ہولوکاسٹ کا نظریہ اسرائیلی اور امریکی یہودیوں کو حقیقی تنقید کے مقابلے میں حفاظت فراہم کرتا ہے اور یہودیت کی مظلومیت کو ثابت کرتا ہے۔ منظم یہودیت نے نازی ہولوکاسٹ کو اسرائیلی پالیسیوں اور دنیا بھر کے یہودیوں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں پر سے حرف تنقید کو برطرف کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ فنکلسٹن اس امر کی پیشن گوئی کرتا ہے کہ ممکن ہے ہولو کاسٹ انسانی تاریخ کی سب سے عظیم رہزنی کا روپ دھار لے‘‘۔
اسرائیلی صحافی ایری شیوٹ لکھتا ہے:
’’اسرائیلی یہودی انتہائی بربریت کے ساتھ فلسطینیوں کے خلاف اقدامات کرتے ہیں، انہیں کامل یقین ہے کہ اب وہائٹ ہائوس، سینیٹ اور اکثر امریکی ذرائع ابلاغ ان کی گرفت میں ہیں۔ ان کے نزدیک دیگر اقوام یا افراد کی زندگیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں‘‘۔
یہودیت کے امریکا پر غلبہ کے بارے میں سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل تھامس مورر کہتے ہیں:
’’میں کسی امریکی صدر کو نہیں جانتا۔۔۔ نہ ہی مجھے فرق پڑتا ہے کہ اس وقت کون صدر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان (یہودیوں) کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ یہ لوگ جو چاہتے ہیں حاصل کر لیتے ہیں ان کو سب معلوم ہوتا ہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ اگر امریکی عوام کو معلوم جائے کہ یہ ہماری حکومت میں کس قدر اختیارات کے حامل ہیں تو وہ ان کے خلاف مسلح بغاوت کر دیں۔ ہمارے شہریوں کوکچھ معلوم نہیں کہ کیا کچھ ہو رہا ہے‘‘۔
امریکی اسکالر مارک ویبر لکھتے ہیں:
’’کہ آج امریکا انتہائی خطرناک دور سے گزر رہا ہے جس کا سامنا شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھا اسرائیل اور یہودی تنظیمیں ملکی بنیاد پرست عیسائی تنظیموں کے ہمراہ امریکا کو جو کہ ایک عالمی فوجی اور اقتصادی طاقت ہے اکسا رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے دشمنوں کے خلاف نئی جنگ کا آغاز کرے‘‘۔
اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار لندن میں متعین فرانسیسی سفارتکار نے اسرائیل کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا: ’’یہ چھوٹا سا بے ہودہ ملک عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے تمام دنیا جنگ عظیم سوئم کے خطرات سے دوچار ہے‘‘۔
اس مضمون کے مصنف مارک ویبر انسٹی ٹیوٹ فار ہسٹاریکل ریویو کے ڈائریکٹر ہیں۔ آپ نے تاریخ کی تعلیم شکاگو یونیورسٹی، میونخ یونیورسٹی، پورٹ لینڈ اسٹیٹ یونیورسٹی اور انڈیانا یونیورسٹی امریکا میں حاصل کی۔ آپ نو سال تک ہسٹاریکل ریویو جنرل کے ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد۔ جولائی ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: اسد عباس)
Leave a Reply