
تاریخی پس منظر اور اس کی اہم بنیادیں
مغربی معاشرہ کے متضاد افکار و خیالات:
مغربی معاشرہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد ہونے والے مختلف خوشگوار و ناخوشگوار تغیرات پر مبنی ہے۔ جو ہمیشہ سے علمی و فکری بحرانوں کا شکار رہا ہے، جسے نہ تو کبھی کوئی معقول بنیاد فراہم ہوسکی اور نہ ہی وہ کسی متعین نظریۂ زندگی پر قائم رہ سکا، بلکہ اس کی تشکیل میں مغربی مفکرین ہمیشہ ہچکولیاں کھاتے رہے، متضاد افکار و نظریات اور منتشر تخیلات پر نظریہ زندگی کی بنیاد رکھتے رہے۔
سترہویں صدی سے قبل مغرب میں چرچ کی حکمرانی تھی، اس وقت پادریوں کا بول بالا تھا، اٹلی سے لے کر اسکاٹ لینڈ تک تمام ممالک زیر اثر تھے۔ عیسائی عوام سخت ترین جہالت میں مبتلا تھے، اربابِ کلیسا انہیں سیکڑوں خرافات میں الجھا کر بڑے بڑے نذرانے وصول کر رہے تھے، یہاں تک کہ جنت میں جانے کا اجازت نامہ اور سرٹیفیکیٹ بھی بڑی بڑی رشوتوں کے عوض بانٹ رہے تھے۔ دوسری طرف معاشرہ کے بااختیار لوگوں کو عوام پر ظلم و زیادتی کی کھلی آزادی تھی اور یہ سب کچھ مسخ شدہ مذہب کے سایہ میں انجام دیا جارہا تھا، چنانچہ عوامی مخالفت و بغاوت کا خطرناک سلسلہ شروع ہوگیا۔
اِس دور تاریک کے ردعمل میں عقلیت کی تحریک (Rationalist Movement) نمودار ہوئی اور پادریوں کے ذریعے پھیلائے گئے اوہام و خرافات پر سخت تنقیدیں کی جانے لگیں، جس سے پادریوں اور مذہبی حلقوں کے حقائق کھل کر عوام کے سامنے آنے لگے، کلیسا کی طرف سے ان ناقدین اور ان کے ہمنواؤں پر سخت مظالم ڈھا کر انہیں باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی، مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ تقریباً تین لاکھ لوگوں کا بہیمانہ قتل کیا گیا اور بڑی تعداد کو زندہ جلا دیا گیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: تاریخ اخلاق یورپ، لیکی (مترجم)
اس طرح کے مظالم کی وجہ سے نفرت و عناد اور عداوت و دشمنی میں شدید اضافہ ہوگیا، جس کی وجہ سے ایک اور فکر روشن خیالی کی تحریک (Enlight Movement) کی شکل میں وجود میں آگئی، اور ایک جدید معاشرہ کا قیام عمل میں آیا جسے جدیدیت (Modernism) اور لادینیت (Seculerism) جیسی مذہب مخالف بنیادوں پر کھڑا کیا گیا، اس کے بعد انسانیت کی آزادی اور مساوات کا پُرفریب نعرہ دے کر ہیومنزم اور لبرل ازم اخلاق سوز افکار کو ترقی دی گئی۔
ہیومنزم اور خدا کا انکار:
مغربی معاشرہ کی تشکیل میں ان افکار و نظریات کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے، جبکہ یہ تمام نظریات غیر اخلاقی تخیلات پر مبنی ہیں۔ یہاں لذت اور تسکینِ نفس کو زندگی کا مقصد اصلی قرار دیا جاتا ہے، ان کی ابتدا ہی یہاں سے ہوتی ہے کہ خدا، یا کسی مافوق الفطری قوتوں کا انکار کیا جائے اور ایسے معاشرہ کو وجود میں لایا جائے جہاں اخلاقی اقدار (Moral Values) کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے اور نہ ہی کسی ہدایت و رہنمائی کی حاجت محسوس کی جائے۔ ایک نظریہ ساز مغربی مفکر جیک گراسی ہیومنزم کے بارے میں لکھتا ہے: ’’ہیومنزم کے پیروکاروں کی ابتدا ہی یہیں سے ہوتی ہے کہ یہاں نہ کوئی خدا ہے نہ روح اور نہ کوئی غیر مادی قوتیں جن تک رسائی کی ضرورت ہو، یہاں ایسی کوئی غیبی طاقت نہیں ہے جو ہماری رہنمائی کرسکے اور اپنی خبروں اور احکام سے ہمیں واقف کرائے، اور نہ ہی ایسی کوئی ہستی ہے جس سے ہمیں پُرسکون زندگی، یا اس کی حمایت و نصرت حاصل ہوسکتی ہے‘‘۔
اخلاقی قدروں کی بے وقعتی:
ہیومنزم کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ایک مغربی ناول نگار ڈین کونٹز اپنی مشہور کتاب “Intensity novel” میں لکھتا ہے: ’’ہمارے وجود کا واحد مقصد خواہش نفس اور اپنی ہیجانی کیفیت کی تسکین ہونا چاہیے، یہاں اخلاقی قدر کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی نیکی و بدی اور غلط و صحیح کے تخیل کی گنجائش رکھنی چاہیے، مارکس اور انگلس کے مینوفیسٹو میں خاص طور پر کہا گیا کہ ’’قانون، اخلاق اور مذہب سب اقتصادی آسودگی کی فریب کاری ہے، جس کی آڑ میں اس کے بہت سے مفاد چھپے ہوئے ہیں‘‘۔
جدیدیت اور مابعد جدیدیت
مغربی معاشرہ میں کلیسائی استبداد کے ردعمل میں جب ہیومنزم کو ترقی ملی اور اس کے تصورات غالب آگئے تو جنگِ عظیم دوم کے بعد ۱۹۴۵ء میں جدیدیت (Modernism) کی تحریک وجود میں آئی، جس نے ایسے معاشرہ کی تشکیل کی دعوت دی جس میں انسان کی روحانی زندگی کو یکسر مسترد کرکے اپنی مادی خواہشات اور نفسانی ہیجانات کو خدا، تصورِ آخرت، اخلاقی اقدار اور اس قبیل کے تمام امور سے بالاتر سمجھا گیا، صرف سائنس اور عقلی تخیلات کو ہی جگہ دی گئی، چنانچہ انہی بنیادوں پر جدید معاشرہ کی تشکیل عمل میں لائی گئی، لیکن جدیدیت کوئی قابل عمل اخلاقی نظام نہ لاسکی، اس کے بعد مابعد جدیدیت (Post Modernism) کا دور شروع ہوتا ہے، جس کا آغاز ۱۹۸۰ء سے مانا جاتا ہے، مابعد جدیدیت دراصل ان حالات اور بحرانوں کا نام ہے جو نہایت ہی کمزور اور غیر مستحکم بنیادوں پر قائم جدید معاشرہ میں معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور ذہنی تبدیلی سے پیدا ہوئے اور یہ تبدیلی جدیدیت کے بعد ہوئی، اس لیے اس کو مابعد جدیدیت (Post Modernism)کہا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
(Lyon David: postmodernity. p:7 open university press. Buckingam. Britain.1994)
مابعد جدیدیت نے جدیدیت کی بھرپور تردید کی اور معاشرہ میں پیدا ہونے والے سنگین معاشرتی اور معاشی بحرانوں کا ذمہ دار جدیدیت کو ہی قرار دیا گیا، بلکہ ہیومنزم (Humanism) کی بھی شدید مخالفت کی گئی اور مابعد جدیدیت کے مفکرین نے تو اسے فکر و فریب قرار دے کر رَد کرنا شروع کردیا۔
یعنی لیوی اسٹرس، بارتھس، فوالٹ اور لے کین وغیرہ مغربی فلسفیوں نے ہیومنزم کو فلسفیانہ فراڈ کہہ کر رد کر دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
(Thrid wave feminism Rhonda hammar and Douglas Kellner)
پوسٹ ماڈرن ازم نے ایسے معاشرہ کی تشکیل کی جس میں ہر طرح کے تصورات و خیالات کو یکساں اہمیت حاصل ہے، کسی کو کسی کے خیالات کی تردید کی ضرورت نہیں، مابعد جدیدیت کے علمبرداروں کا متفقہ طور پر ماننا ہے کہ: ’’تمام خیالات و تصورات اور تمام اقدار کو یکساں اہمیت حاصل ہے، اس لیے وہ ہر ایک پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔
جیک گراسی لکھتے ہیں: ’’یعنی ہم کسی بھی چیز پر یقین کرسکتے ہیں، جس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہم کسی چیز پر یقین نہیں کرتے ہیں‘‘۔ خلاصہ یہ ہے کہ مغربی معاشرہ کے تشکیلی ادوار ہمیشہ متضاد مراحل سے گزرتے رہے، اس لیے اسے کبھی کوئی ایسا متعین معیار اور مستحکم اصول فراہم نہ ہوسکے، جن کی روشنی میں زندگی گزارنے کے حسین اقدار مرتب کیے جاسکیں اور فطرت کے مطابق پرسکون اور ہم آہنگ زندگی کے اصول و ضوابط اخذ کیے جاسکیں۔ ایک جرمن ماہر نفسیات ’’کارل جنگ‘‘ نے ان متضاد نظریات زندگی کے ذریعے آنے والی خوفناک تباہی کا قوی امکان ظاہر کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کی تھی:
’’میں اچھی طرح سمجھ چکا ہوں کہ دنیا کو معقول نظم و انتظام پر مبنی معاشرہ کے امکانات سے مایوسی ہی ہاتھ لگے گی، اور مجھے امن و ہم آہنگی اور خوبصورت طرزِ زندگی کا سیکڑوں سالہ خواب چکنا چور ہوتا ہی نظر آرہا ہے‘‘۔
مغربی معاشرہ کے متضاد و تغیراتی بنیادوں پر قائم ہونے کی وجہ سے اس میں وہ تمام تباہ کاریاں در آئیں جنہوں نے انسانی زندگی کو بے چینی و مایوسی اور اضطرار و انتشار میں جکڑ دیا ہے، اور آج اس بھیانک خواب کی تعبیر ہر جگہ نظر آرہی ہے جو بہت پہلے خود مغربی مفکرین نے دیکھے تھے۔ چنانچہ ایک برطانوی مصنف چارلس لے گے ایٹن اپنی کتاب “Choice and Responsibility in the modern world” میں مغربی معاشرہ کی افراتفری اور اخلاقی اقدار کی بربادی پر رونا روتے ہوئے لکھتا ہے:
’’انیسویں اور بیسویں صدی کے لوگوں کو طویل انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تہذیب و معاشرت کی تخلیق اور اس کی تعبیر کا موقع ملا۔ صنعتی دور سے بہت سے فوائد حاصل ہوئے، لیکن بھیانک خواب کے مانند خوفناک ماحول بھی برپا ہوگیا‘‘۔ (New edn. combridge islamic text society: king of the castle. page no:109)
ان غیر مستحکم افکار و نظریات کو پروان چڑھانے کے لیے بعض ایسی تحریکات وجود میں آئیں جنہوں نے معاشرہ سے بچی کھچی روحِ انسانی کو ختم کرکے اسے حیوانیت اور شہوت پرستی کی ایسی دلدل میں لاچھوڑا جن سے نکلنے کے لیے مغربی مصلحین کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینے کے باوجود کوئی کامیاب نتیجہ برآمد نہ ہوسکا، اور یہ تحریکات پوری توانائی کے ساتھ روز بروز معاشرہ پر چھاتی رہیں، جن کے سنگین اثرات سے پورا معاشرہ شر و فساد تباہی و بربادی، جنسی انارکی اور مختلف قسم کے جرائم کی آماجگاہ بن گیا۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ جولائی ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply